کتاب: دل پسند باتیں

کتاب: دل پسند باتیں

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا علی احمد قاسمی بن حضرت محمد یونس امین صاحب بانی و مہتمم جامعہ رشید العلوم امین نگر مہیش پور ڈاک خانہ تیلوا وایا مہشی ضلع سہرسا مدرسہ کے اہتمام اور دوسرے دینی و تعلیمی کاموں کے ساتھ تصنیف و تالیف کا ساف ستھرا ذوق رکھتے ہیں، ان کی کئی کتابیں مثلا آئینہ صالحین، نادر کلام، عربی محاورات، قیمتی اعمال کی نیکیاں، ملفوظات اولیا، مواعظ تبلیغ، خطبات عالیہ، سفر عاقبت، وقت کی اہمیت حدیث کی روشنی میں مطبوع، مقبول اور معروف ہیں۔
’’دل پسند باتیں‘‘ مولانا کی دسویں کتاب ہے، ا س کا پہلا ایڈیشن ۲۰۱۸ء میں آیا تھا، دوسرا ایڈیشن بس آنا ہی چاہتا ہے، اس کتاب میں مولانا نے حکمت و دانائی کی باتوں کو ایک خاص انداز میں جمع کر دیا ہے، یہ خیال ان کے دل میں ترمذی و ابن ماجہ میں موجود اس حدیث کی وجہ سے پیدا ہوا، جس میں کہا گیا ہے کہ حکمت و دانائی کی بات صاحب حکمت اور دانا شخص کی گم شدہ چیز ہے، پس جہاں وہ پائے، وہاں سے لینے کا وہ زیادہ حق دار ہے، بعض روایتوں میں الحکمۃ ضالۃ المؤمن کے الفاظ بھی آتے ہیں، جس سے ایمان والوں کی خصوصیت کا پتہ چلتا ہے، مولانا نے اسے اپنی کتاب کا سرنامہ بنایا ہے، کتاب کا انتساب والد مرحوم کے نام کیا ہے جو ان کی سعادت مندی پر دال ہے، پیش لفظ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ، تقریظ مولانا مفتی محمد جمال الدین قاسمی صدر مفتی و صدر المدرسین جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدر آباد اور حرف چند ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہ اردو گورمنٹ کالج سری پیٹ تلنگانہ کا ہے، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ نے لکھا ہے:
’’زیر نظر کتاب میں مصنف نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر مختلف ادوار کے علما، صلحا، صحابہ کرام اور تابعین عظام کے اقوال و نصائح کو نمبر وار ذکر کرنے کی کوشش کی ہے، جو ہر طبقہ کے لوگوں کے لیے مفید چیز ہے، مصنف کی یہ کوشش قابل قدر ہے، کیوں کہ مختلف کتابوں اور رسائل سے مضامین کو منتخب کرکے جمع کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے‘‘ (ص ۳۰)
مولانا مفتی محمد جمال الدین نے لکھا ہے کہ ’’دل پسند باتیں خضر راہ کا کام دے گی، مؤلف نے مطالعہ کے سمندر میں غواصی کرکے قیمتی موتیاں ڈھونڈھ نکالی ہیں، اور کتابوں کا جگر چاک کرکے جواہرات کو اکٹھا کیا ہے، اور چمنستان علم و عرفان سے رنگا رنگ پھولوں کو جمع کرکے ایک حسین گلدستہ تیار کیا ہے۔‘‘ (ص ۳۲)
ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی نے لکھا ہے کہ ’’ان اقوال زریں سے شریعت کے بہت سے اسرار و رموز اور گتھیاں سلجھانے میں مدد ملے گی- مؤلف نے ان بکھرے اقوال کو یک جا کر کے اپنی علمی ذوق اور وسعت مطالعہ کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (ص ۳۵) خود مؤلف کا خیال ہے کہ ’’یہ جمع شدہ زریں کلمات و گراں قدر موتی و جواہرات ہیں جو بزرگان دین کی کتابوں کے صفحات کی سینوں میں مخفی تھے۔ یہ بیش بہا جواہرات دریا بہ کوزہ کے ساتھ خیر الکلام ماقل و دل کے مصداق ہیں۔ (ص ۳۶)
دوسو چودہ صفحات پر مشتمل یہ کتاب نو ابواب اور ایک متفرقات پر مشتمل ہے، پہلے باب کے تحت ذیلی عناوین درج نہیں ہیں، ہر باب کے تحت اس کے نمبر کے اعتبار سے احادیث و اقوال درج کیے گیے ہیں، یہ سلسلہ دس تک پہنچتا ہے، یعنی دوسرے باب میں دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے، تیسرے میں تین اور نویں میں دس باتوں کو نقل کیا گیا ہے، ہر بات کے تحت بہت سارے اقوال نقل کیے گیے ہیں، کہنا چاہیے کہ یہ بکھرے موتی ہیں، جنھیں انتہائی سلیقہ سے اکابر کی کتابوں سے نکال کر اس کتاب میں جمع کر دیا گیا ہے، یہ ورق ورق روشن ہے، جس پر عمل کرکے انسانی اور ایمانی زندگی روشنی کے تمام مراحل طے کر سکتی ہے۔ اور آدمی ایسی زندگی گذارنے پر قادر ہو سکتا ہے جو اللہ و رسول کو محبوب اور پسندیدہ ہیں، مؤمن کی سوچ و فکر کا مرکز و محور یہی ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرلے اور اسوۂ نبی کو اپنا کر جنت کا مستحق ہوجائے۔
کتاب کی کمپوزنگ سلیقے سے قبا گرافکس حیدر آباد نے کیا ہے، طباعت، کاغذ، جلد اور بائینڈنگ بھی دل پسند ہے، ناشر امین لائبریری امین نگر، مہیش پور سہرسا ہے، قیمت دو سو روپے کتاب کے تاجروں کے کمیشن کو سامنے رکھیں تو زائد نہیں ہے، مطبع کا پتہ درج نہیں ہے، بعض جگھوں پر تعبیرات بدلنے کی ضرورت ہے، مثلا پہلے باب کا آغاز اس جملہ سے ہوتا ہے کہ ’’اس باب میں وہ باتیں درج ہیں جو ایک ایک لفظ پر مشتمل ہیں‘‘ جو باتیں درج کی گئی ہیں، ان میں کئی کئی جملے ہیں، صحیح تعبیر یہ ہے کہ وہ باتیں درج ہیں، جن میں صرف ایک بات، کام یا چیز کا ذکر کیا گیا ہے ۔
کتاب میں جہاں سے جو بات لی گئی ہے اس کے حوالہ کا اہتمام کیا گیا ہے، اگر ان کتابوں، مصنفین اور جہاں سے وہ شائع ہوتی ہیں، اس کا ایک اشاریہ کتاب کے آخر میں دے دیا جاتا تو قارئین کو سہولت ہوتی اور حوالہ سے مکمل واقفیت ہوجاتی، ابھی جو طرز اس کتاب میں موجود ہے، اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ حوالہ والی کتابیں کن کی ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ اگلے اڈیشن میں اس کا اہتمام کیا جائے گا۔
میں اس اہم کتاب کی تالیف پر مولانا علی احمد قاسمی کو مبارکباد دیتا ہوں، اللہ نے ان سے ایک اچھا کام لے لیا، دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے امت مسلمہ کی اصلاح کا ذریعہ بنا دے اور اسے قبول عام و تام حاصل ہو، کتاب مؤلف کے پتہ سے مل سکتی ہے، جو آغاز میں ہی درج کردیا گیا ہے.
صاحب تبصرہ کی یہ نگارش بھی پڑھیں:کتاب: خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے