ادبی مطالعے: ایک تجزیاتی مطالعہ

ادبی مطالعے: ایک تجزیاتی مطالعہ

(مصنف: ڈاکٹر ریحان حسن)

تجزیہ نگار: ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل، تالاب ملا ارم
رام پور ٢٤٤٩٠١ یو. پی،انڈیا
موبائل نمبر: 91 9520576079

”انیس نے جہاں بچوں کے جذبات کو نظم کیا ہے وہاں بچوں کی ہی بول چال کی زبان اختیار کی ہے۔ اس طرح قاری کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ بچوں کی فطری گفتگو نہیں بلکہ شاعر کی زبان ہے۔ جب حضرت عباس کے ہاتھوں میں علم آتا ہے تو زوجۂ عباس اپنے بچوں کو لے کر شوہر کی خدمت میں پہنچتی ہیں۔ حضرت عباسؑ بچوں سے کچھ اس انداز سے مخاطب ہوتے ہیں:
بولے پسر سے جھک کے یہ عباس نیک نام
تم بھی تو کچھ حضور میں بیٹا کرو کلام
ننھے سے ہاتھ جوڑ کے بولا وہ لالہ فام
لے چلیے ہم کو، ہم علی اصغر کے ہیں غلام
چھوٹی سی ایک تیغ منگا دیجیے مجھے
پہلے سبھوں سے رن کی رضا دیجیے مجھے
(مراثی انیس و دبیر میں ذکر اطفال کربلا، ص:۲۵-۳۵)
مختلف موضوعات پر مشتمل، ٢٥٦ صفحات کے اس مجموعے ’ادبی مطالعے‘ میں ڈاکٹر ریحان حسن کے بیس مضامین شامل ہیں۔ ابھی ورق گردانی کے لیے کتاب کو کھول کر فہرست پر نظر ڈالی ہی تھی کہ نظریں ایک مضمون کے عنوان سے الجھ گئیں۔ عنوان اتنا منفرد اور عجیب تھا کے بے ساختہ داد دینے کو جی چاہا: ”مراثی انیس و دبیر میں ذکر اطفال کربلا“۔ واقعہ کربلا ہماری تہذیبی و ثقافتی، علمی و ادبی، سماجی و مذہبی روایتوں اور قدروں کا خاص موضوع رہا ہے۔
اس موضوع پر شعرائے کرام نے جہاں لاکھوں اشعار متفرق اصناف کے تحت کہے ہیں، وہیں قلم کاروں نے بھی ہزاروں مضامین و مقالات لکھ کر سیدنا حضرت امام حسین  اور آپ کے اہل بیت اطہار سے اپنی بے پناہ محبت و عقیدت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ یہ ایسا تشنہ موضوع ہے کہ اس پر اتنا تخلیقی اور تحقیقی کام ہونے کے باوجود ان شاء اللہ قیامت تک لکھا جاتا رہے گا لیکن اس کے باوجود اس کا کوئی بھی پہلو پوری طرح مکمل نہ ہو سکے گا۔ اردو کی اصناف شاعری میں مرثیہ کو ایک اہم مقام حاصل ہے اور مرثیہ کا نام آئے تو سب سے پہلے خیال میر انیس اور مرزا دبیر کی طرف جاتا ہے۔ بلا شبہ اردو شاعری مرثیہ کے بغیر ادھوری ہے اور مرثیہ انیس و دبیر کے تذکرہ کے بنا، نامکمل ہے۔ یہ دونوں وہ معروف شعرا ہیں جن کے فن کی عظمت کا اعتراف ہر دور کے ادیب و نقاد اور خود شعرائے کرام بھی کرتے رہے ہیں۔ اردو ادب میں اگر مرثیہ کا خزانہ، نہ ہوتا تو شاید زبان و بیان کی وہ وسعت و ترقی بھی نہ ہوتی جو نئے نئے الفاظ اور تشبیہات و استعارات کی شکل میں مرثیہ کے ذریعہ اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کا سبب بنی۔
ایک تو فن مرثیہ نگاری، دوسرے درد و کرب اور رنج و الم میں ڈوبے واقعات کربلا، اس پر انیس کی بے مثال و با کمال فنی خوبیاں اور اس پر مستزاد یہ کہ ایسے موقع پر بچوں کی نفسیاتی اور ذہنی کیفیت اور محبت کا شدید عالم، جہاں قاری کے دل پر کچوکے لگاتا ہے وہیں وفور جذبات کے باعث اسے آنسوؤں کو روکنے سے قاصر پاتا ہے۔ اس سلسلے میں پیش نظر مضمون میں، ایک موقع پر ریحان حسن بچوں کے ذہن اور ان کی نفسیات کے تعلق سے لکھتے ہیں:
”اس مرثیے میں انیس نے کسی چیز کے عدم حصول پر بچے کی نفسیاتی کیفیت کیا ہوتی ہے اور ایسے مواقع پر ایک ماں بچے کو کن بہانوں اور حیلوں سے سمجھاتی ہے، ان تمام چیزوں کو بیان کیا ہے۔ انیس نے بچے کی وعدہ وفائی کو جس انداز سے نظم کیا ہے اس سے نہ صرف اس عہد کی تہذیب سے واقفیت کا احساس ہوتا ہے بلکہ کسی چیز کے عدم حصول پر بچہ کن کیفیات سے دوچار ہوتا ہے، اس کا بھی بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے:
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں، جو لو گے علم کا زباں سے نام
لو جاؤ، بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سرکو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کنبے میں ایک نے بھی اگر سن لیا یہ حال
کہتی ہوں صاف میں، مجھے ہوگا بہت ملال
ننھے سے ہاتھ جوڑ کے بولے وہ نونہال
ہم باوفا غلام ہیں کیا تاب کیا مجال
دیجیے ہمیں سزا جو بل ابرو پہ پھر پڑیں
کہیے تو چھوٹے ماموں کے قدموں پہ گر پڑیں
(مراثی انیس و دبیر میں ذکر اطفال کربلا، ص:۸۴-۹۴)
انیس کے مرثیوں میں یوں تو کئی بچوں کا ذکر بار بار آیا ہے لیکن چونکہ باپ کو اپنی بیٹی یا بیٹیوں سے محبت بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے میر انیس نے حضرت امام حسین کے ساتھ آپ کی بیٹیوں فاطمہ صغریٰ اور بی بی سکینہ کا تذکرہ بھی متعدد مقامات پر کیا ہے۔انھوں نے جذبات نگاری، نفسیاتی حالات اور بچے کی ذہنی کش مکش اور ان کے تردد کو اس قدر فطری انداز میں پیش کیا ہے کہ اس کا دل پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔اس ضمن میں خود ریحان حسن بڑے جذباتی انداز میں لکھتے ہیں:
”انیس نے باپ اور بیٹی کی گفتگو کو جس انداز سے نظم کیا ہے اس میں ایک کمسن بچی کی جو باپ کے لیے تڑپ اور محبت ہوتی ہے اس کو آشکار کیا ہے اور اس کے علاوہ انیس نے اپنے مراثی میں، باپ کو اپنی کمسن بچی کے تئیں کس قدر الفت و محبت ہوتی ہے، اس سے بھی قاری کو بہ خوبی واقف کرایا ہے۔ ملاحظہ ہو:
کیا ہوئے جو ہم گھر میں کسی شب کو نہ آئیں
مجبور ہوں ایسے کہ تمھیں چھوڑ کے جائیں
تم پاؤ نہ ہم کو، نہ تمھیں ہم کہیں پائیں
بی بی کہو پھر چھاتی پہ کس طرح سلائیں
جنگل میں بہت قافلے لٹ جاتے ہیں بی بی
برسوں جو رہے ساتھ وہ چھٹ جاتے ہیں بی بی“
(مراثی انیس و دبیر میں ذکر اطفال کربلا، ص:۵۵-۶۵)
مناسب معلوم دیتا ہے کہ ڈاکٹر ریحان حسن کے پیش کردہ، میر انیس اور مرزا دبیر کے تجزیاتی مطالعہ میں ایک بند مرزا دبیر کے کلام سے بھی پیش کیا جائے لیکن پہلے درج ذیل سطروں میں یہ دیکھتے ہیں کہ ریحان حسن مرزا دبیر کے تعلق سے کیا لکھتے ہیں:
”دراصل مرثیوں میں بچوں کے کردار کی اہمیت بڑوں کے کردار سے کم نہیں ہے. شاید اسی لیے یہ اطفال بھی سانحہ کربلا کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ امام حسین  ان کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ اخلاقی عناصر کو اور سماج میں بچوں کی اہمیت کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں بلکہ عام انسانوں میں حق و انصاف کے لیے قربانی کا جذبہ بیدار کرتے ہیں اور اس نقطۂ نظر سے مراثی میں بچوں کے کردار کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس بند میں دبیر نے جناب سکینہ کے جذبات کو جس انداز میں نظم کیا ہے اس میں ہندستانی تہذیب کی جھلک نمایاں ہے:
اب دمبدم گلے سے لگائے گا ہائے کون
بچپن کے میرے ناز اٹھائے گا ہائے کون
کہہ کے ’سکینہ جان‘ بلائے گا ہائے کون
روٹھوں گی کس سے اور منائے گا ہائے کون
غربت میں جان دی مرے بابا امام نے
میں غم نصیب مر نہ گئی ان کے سامنے
(مراثی انیس و دبیر میں ذکر اطفال کربلا، ص:۰۶-۱۶)
غرضیکہ ریحان حسن کا یہ مضمون انیس اور دبیر، دونوں کی فنی خوبیوں کے ایک پہلو کو بہ خوبی اجاگر کرتا ہے۔ مضمون کی زبان سادہ اور پر اثر ہے اور مثالوں میں انھوں نے مختلف مرثیوں کے جو بند پیش کیے ہیں ان سے، ان کے تجزیاتی مطالعہ کرنے کے فن کی خوبی واضح ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ریحان حسن کی کتاب’ادبی مطالعے‘ کا پہلا مضمون میر تقی میر سے متعلق ہے۔ میر کی شاعری کے بہت سے گوشے اور متعدد پہلو ہیں۔ جب تک اردو شاعری باقی ہے اور شاعری کے ساتھ تحقیق و تنقید بھی جاری ہے تب تک میر کا تذکرہ بھی جاری و ساری رہے گا. نیا دور نے چند برس قبل (مئی،جون ٢٠١٠) میر پر ایک خاص نمبر شائع کیا تھا۔ میں نے اس خاص نمبر کے لیے ہندوپاک میں، میر پر لکھے گئے مضامین اور تصنیف و تالیف کی گئیں کتابوں کا ایک اشاریہ مرتب کیا تھا اور ابھی اس کام کو شروع کیے ہوئے ایک دو روز ہی گزرے تھے کہ ایک کرم فرما نے فون پر مجھے ہدایت دی کہ میر تقی میر پر شمس الرحمٰن فاروقی تحقیق مکمل کر چکے ہیں اس لیے اب مزید تحقیق کی گنجائش کہاں؟ مجھے ان کی کم عقلی اور کج فہمی پر بڑی حیرت ہوئی کیونکہ فاروقی صاحب نے’شعر شور انگیز‘ کی شکل میں جو کام کیا ہے وہ اگر پچاس جلدوں میں ہوتا تب بھی کوئی یہ دعویٰ کرنے کا مجاز نہ ہوتا کہ میر تقی میر پر تحقیق مکمل ہو گئی ہے۔ تخلیق کے ساتھ، تحقیق اور تنقید کا سفر بھی جاری رہتا ہے۔ مختلف و متعدد عنوانات کے تحت میر پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ریحان حسن نے میر کے عشق اور ان کی محبت کے بجائے، ان کے شعروں کے ذریعہ ان کی شخصیت میں موجود قومی یک جہتی، محبت و رواداری اور دیگر خوبیوں و خصلتوں کو اجاگر کیا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے ’میر اور انسان دوستی‘۔
دراصل انسان دوستی ہی ایسی چیز ہے جو کسی انسان کو حیات کے سچے مقاصد اور زندگی کے اچھے و صالح اصولوں کی رہنمائی کرتی ہے۔ انسانیت کی فوز و فلاح تبھی ممکن ہے جب انسان کے اندر خلوص و محبت اور بقائے باہم و یگانگت کے جذبات و عناصر موجود ہوں۔ وہ شاعری جسے آفاقی کہا جا سکتا ہے یا جو سارے عالم کو متاثر کر سکتی ہے، وہ صرف ایسی ہی شاعری ہے جس میں انسانیت اور انسانی قدروں کی پاسداری ہو۔ اس مضمون میں ریحان حسن نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ میر کے زمانے میں چونکہ آپسی منافرت ایسی نہ تھی جیسی آج ہے۔ اس لیے شاعری کا رنگ و آہنگ بھی فرقہ واریت، تنگ نظری، نفرت و حقارت اور مناقشہ سے کوسوں دور تھا۔ ادب کو سماج کا آئینہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ زمانہ شناس ہوتا ہے۔ جیسا لوگوں کا رویہ اور مزاج ہوتا ہے ویسا ہی شعری رجحان ترقی پاتا اور پروان چڑھتا ہے۔ مقصدی اور اصلاحی شاعری پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور حالی کے ’مقدمہ شعروشاعری‘ کے بعد تو اس کا رجحان کافی بڑھا تھا لیکن آج بھی جس طرح کی ادبی تخلیقات کی ضرورت ہے اس کی طرف ڈاکٹر ریحان حسن بڑے کرب کے ساتھ لیکن فکری انداز میں اشارہ کرتے ہیں:
”قومی اور مذہبی منافرت نے آج ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم ایسے ادب کو بھی بالارادہ تخلیق کریں جو ہمیں یگانگت، انسان دوستی اور یک جہتی کی تعلیم دے کیونکہ فی زمانہ آج اس کی اشد ضرورت ہے۔“
(میر اور انسان دوستی، ص: ٢١)
ڈاکٹر ریحان حسن اس بابت بھی اشارہ کرتے ہیں کہ میر تقی میر نے کئی درویشوں سے روحانی فیض اٹھایا جس کی وجہ سے ان کی شخصیت اور ان کے مزاج میں تصوف کا جذبہ رچ بس گیا کیونکہ تصوف ہی ایک ایسا جذبہ ہے جو رنگ و نسل اور ملک و ملت کی حدود و قیود سے آزاد اور مبرا ہوتا ہے۔ جس شخص کو جتنی اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے محبت ہوگی اتنی ہی اس کے اندر درد انگیزی بھی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ میر تقی میر کے کلام میں رنج و غم اور دردوکرب کی آمیزش نمایاں ہے۔مذہب کی روح اور اس کا مقصد اللہ کو پہچاننا اور اس کی محبت کو اپنے قلب حزیں میں اتارنا ہے اور پروردگار عالم کے بندوں کو زیادہ سے زیادہ فیض پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ریحان حسن لکھتے ہیں:
”میر تقی میر ان شعرا میں ہیں جنھوں نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان اتحاد وا تفاق، بقائے باہم، انسان دوستی اور قومی یک جہتی کی ضرورت پر زور دیا ہے اور لوگوں کو یہ نصیحت کی ہے کہ انسان کو دیروحرم کی قید سے آزاد ہو کر لوگوں کے قلوب میں راہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہی وہ عمل ہے جو اللہ کے نزدیک بھی سب سے زیادہ مستحسن ہے:
کعبہ پہنچا تو کیا ہوا اے شیخ
سعی کر ٹک پہنچ کسی دل تک“
(میر اور انسان دوستی، ص: ١٣)
مذکورہ بالا مضمون اگرچہ کتاب کے محض ۹ صفحات پر مشتمل ہے لیکن اس میں ریحان حسن نے میر کے متعدد اشعار کے حوالوں کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ میر تقی میر ایک درد مند دل کے مالک تھے۔ ان کے اندر جذبۂ اخوت و محبت،جذبہئ خیر سگالی اور جذبہئ صلح و آشتی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔وہ آپسی رنجش اور تعصبات سے پاک تھے۔ غم اور درددل ان کی سب سے بڑی دولت تھی۔ بقول میر:

مسکن پذیر آج ہی دل میں نہیں ہے غم
روز ازل سے اس کی یہیں بود و باش ہے
حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ
دل سوزش درونی سے جلتا ہے جوں چراغ
بہرحال یہ مضمون نہایت جامع ہے اور ریحان حسن کے وسیع مطالعہ کی نشان دہی کرتا ہے۔ تخلیق کار اور خاص کر تنقید نگار کو وسیع قلب و ذہن کا مالک ہونا چاہیے۔ کئی تنقید نگاروں کے یہاں، کسی دوسرے قلم کار کی تخلیق کے ساتھ وہ مخاصمانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تنقید نگار کے سامنے ساری دنیا ہیچ ہے اور اس کا ’فرمایا ہوا‘ درجۂ استناد رکھتا ہے۔ کوئی کتاب کسی قلم کار کی برسوں کی محنت کا ثمرہ ہوتی ہے لیکن تنقید نگار اپنی کور باطنی، کوڑھ مغزی، بے ہودہ انا پرستی اور نا آسودہ ذہنی استعداد اور ’سب کچھ‘ جاننے کے زعم میں اس کتاب کا ذرا سی دیر میں پوسٹ مارٹم کرکے، ادب میں اس کا کوئی مقام متعین کرنے کے بجائے اسے معتوب کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے۔
اس کے برعکس ڈاکٹر ریحان حسن کی تنقید نہایت متوازن ہے اور وہ خواہ مخواہ کسی تخلیق یا کتاب یا ادیب و شاعر کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ان کا ہر جملہ واضح ہے اور ادب سے ان کی محبت کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ ان کی تحریر میں تنوع ہے اور ان کا ذوق و شوق مختلف اصناف ادب کا احاطہ کرتا ہے۔ یوں بھی آج کے دور میں قلم کار کو jack in all ہونا ہی چاہیے۔ریحان حسن اگر نثری فن پاروں پر لکھتے ہیں تو شاعروں کی حیات و شخصیت کے ساتھ ان کے شعری مجموعوں کا بھی بہترین اور غیر جانب دار تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ غیر جانب داری نہ ہو تو آج کے دور میں بہت سی تحریریں اس اسلوب کی نظر آتی ہیں کہ تنقید نگار اپنی ذاتی پسند یا ناپسند سے قلم کار کو یا تو اوج ثریا تک پہنچا دیتا ہے یا پھر تحت الثریٰ میں دھکیل دیتا ہے۔ریحان حسن کے پاس وافر ذخیرۂ الفاظ ہے جو ان کے وسیع اور وقیع مطالعے کی غمازی اور عکاسی کرتا ہے۔اسلوب نگارش انھوں نے ہر مضمون میں یکساں نہیں رکھا ہے اور یہ کسی قلم کار کی بڑی خوبی ہوتی ہے کہ مختلف فنون و موضوعات کے تحت تخلیق کی گئی کتابوں پر الگ الگ اسلوب نگارش بروئے کار لائے۔
ڈاکٹر ریحان حسن کی تحقیق کی خوبی جزئیات نگاری میں بھی مترشح اور نمایاں ہوتی ہے۔ واقعات کو ترتیل و تواتر اور ترتیب کے ساتھ بیان کرنا اور تاریخی شواہد کو پیش نظر رکھنا ان کے قلم اور فن کی بہترین صفت ہے۔تحقیق میں سارا کریڈٹ اپنی کوشش کو نہ دے کر انھوں نے حد درجہ ایمان داری برتی ہے اور ہر مضمون کے ساتھ فٹ نوٹ اور مآخذات کا اندراج کیا ہے اور جن ادیبوں کی کتابوں سے حوالے پیش کیے ہیں ان کے نام ضرور تحریر کیے ہیں۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ محققین، نئے اسکالرز اور طلبا کو ہوتا ہے۔
ان کا ایک بہت خوب صورت اور جامع مضمون منشی نول کشور سے متعلق  بھی ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے ’منشی نول کشور: علم و ادب کا ایک ناقابل فراموش خادم‘۔ مضمون میں انھوں نے منشی نول کشور کی سوانح سے متعلق ضروری معلومات اور کوائف بڑی محنت و لگن سے یکجا کیے ہیں۔ منشی نول کشور کا خاندان، ان کے والدین، تعلیم، صحافتی اور ادبی خدمات، نول کشور پریس کی مطبوعات، ان کے موضوعات، منشی نول کشور کی عادات اور ان کے خصائل، ان کا جذبۂ خیر سگالی، مذہبی رجحان، کتابوں کی طباعت و اشاعت کا بہترین التزام، منشی نول کشور کے احباب، ہندستان کے ادیبوں اور شاعروں سے ان کے روابط، حب الوطنی، وسیع المشربی، قومی یک جہتی، مذہبی کتابوں اور خاص کر قرآن شریف و احادیث مقدسہ اور تفاسیر و سیرت پاک سے متعلق کتابوں کی طباعت میں خاص اہتمام وغیرہ کا تذکرہ ڈاکٹر ریحان حسن نے اگرچہ عنوانات قائم کرکے نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے منشی نول کشور کی ذات و شخصیت اور ان کی خدمات سے جڑی یا وابستہ چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی رقم کر دیا ہے۔ سوانح کے کن گوشوں پر کیسی اور کتنی نظر رکھنی چاہیے، اس ہنر سے ریحان حسن بہ خوبی واقف ہیں۔ ان کی نثر کی سلاست و روانی بے مثل و بے مثال ہے۔ ہر خیال و نظریہ اور واقعہ اور اس سے جڑی جزئیات و تفصیلات وہ گہرائی سے دیکھتے اور قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ضروری معلوم دیتا ہے کہ اس مضمون سے ایک اقتباس بہ طور ثبوت پیش کیا جائے جس سے ریحان حسن کی نثرکی خوبی اور منشی نول کشور کے تئیں ان کی محبت و عقیدت اس قدر جھلکتی ہے کہ قاری کا دل بھی منشی نول کشور جیسی محسن اور عظیم شخصیت کے لیے عقیدت و احترام سے جھک جاتا ہے:
”منشی نول کشور بہت ہی فیاض اور خلیق انسان تھے۔وہ مطبع کو محض حصول زر کا ذریعہ تصور نہیں کرتے تھے بلکہ وہ لوگوں کو روزگار فراہم اور اعلا سے اعلا کتابوں کو کم سے کم قیمت پر مہیا کرانا چاہتے تھے۔چنانچہ انھوں نے اچھی طرح دستی پریس چلانے والوں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ وہ اپنا پریس اپنے گھر لے جا سکتے ہیں، صرف شرط یہ ہے کہ وہ جتنا کام کریں اس کی آدھی اجرت نقد لے لیں اور آدھی پریس کی مقررہ قیمت میں وضع کرا دیں جب قیمت مکمل ہو جائے تو پریس ان کی ملکیت ہو جائے گا اور وہ اپنا نام رکھ کر طباعت و اشاعت کا کام کر سکتے ہیں۔ ان کے اس طریق کار کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر محلہ میں ہینڈ پریس قائم ہو گئے اور اس طرح بڑی بڑی کتابیں مناسب قیمت میں شائع ہو کر اہل علم کو دستیاب ہونے لگیں اور بکثرت آدمیوں کو روزگار بھی فراہم ہو گیا۔ اس طرح مطبع نول کشور ایک ایسا روشن چراغ ثابت ہوا جس کی لو سے بہت سے چراغ روشن ہوئے اور علم و دانش کی روشنی دور دور تک پھیلی۔“
(منشی نول کشور: علم و ادب کا ایک ناقابل فراموش خادم، ص: ١١٨-١١٩)
دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کو ہر مذہب و ملت، ملک و قوم اور مسلک و نظریہ کے ماننے والے یکساں طور پر محبت کرتے ہوں اور منشی نول کشور ایک ایسی ہی پاک طینت اور خوب سیرت شخصیت کا نام تھا۔ انھوں نے ہندو مسلمان اور سکھ عیسائی سبھی مذاہب کی کتابیں شائع کیں اور ان کے مذہبی عقائد کا پورا اہتمام رکھا۔ رواداری، خلوص و محبت اور مختلف مذاہب کا احترا م کرنا ان کا مسلک تھا۔ ان کا مطبع بڑے اور عظیم مقاصد کے لیے قایم کیا گیا تھا جس کا اعتراف متعدد قلم کاروں نے اپنی بے لوث، بے غرض اور خوب صورت تحریروں کے ذریعہ کیا ہے۔ اس بابت ریحان حسن نے اپنے پر خلوص اور عقیدت کیش جذبوں کا والہانہ اظہار درج ذیل سطروں میں اس طرح کیا ہے:
”انھوں نے بڑی بڑی کتابوں کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا جس میں اولیت قرآن کریم کو دی کہ جس کا ہر مسلمان کے گھر میں ہونا ناگزیر تھا۔ انھوں نے اس سلسلے میں یہ بھی اہتمام برتا کہ بغیر وضو و غسل کے کوئی مسلمان قرآن شریف کی کتابت و طباعت میں حصہ نہ لے سکتا تھا۔ وہ قرآن کریم کے کاغذ رکھنے کی جگہ پر عرق بید، مشک اور گلاب کا چھڑکاؤ کراتے نیز قرآن مجید کی طباعت و اشاعت کے سلسلے میں انھیں طہارت کا اتنا خیال تھا کہ قرآن پاک کے چسپیدہ پتھروں کو یا تو دریا کے کنارے دھلواتے یا ان کے دھوئے پانی کو ایک پاک حوض میں جمع کرکے دریا میں ڈلوا دیتے۔ مذہبی کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں منشی نول کشور کا یہ اہتمام و احترام وہ تھا کہ اس مذہب کے بعض پیرو بھی وہ احترام و انتظام نہ کر سکتے تھے۔“
(منشی نول کشور علم و ادب کا ایک ناقابل فراموش خادم، ص: ١١٨)
ڈاکٹر ریحان حسن کا یہ مضمون معلومات کا خزانہ ہے۔محققین اور خاص کر نئے اسکالرز کو ایسے مضامین و مقالات سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ اس مضمون کا خاص حصہ وہ ہے جس میں ریحان حسن نے مطبع نول کشور سے شائع کی گئیں کئی سو کتابوں کا تعارف کرایا ہے۔ کتابوں کے موضوعات، ان کی سنہ اشاعت، ادب میں ان کا مقام، ان کی قدروقیمت اور اہمیت و افادیت کا کہیں مختصر اور کہیں تفصیلی تعارف کرایا ہے۔ یہ مضمون بلا شبہ ریحان حسن کی مہینوں کی محنت کا ثمرہ ہے۔ اس مضمون سے ان کی، تحقیق پر گہری نظر اور تنقید پر ان کی اچھی دسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔اگرچہ ان کا ہر مضمون اہمیت و افادیت کے تناظر میں ایک سے بڑھ کر ایک ہے لیکن منشی نول کشور پر لکھے ان کے مضمون کو، میں ان کے بہترین مضامین میں شمار کرتا ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ تحقیقی مضامین لکھنے کے لیے ماخذوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ریحان حسن نے بھی بہترین ماخذوں کا انتخاب کرکے ان سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی یہ خوبی ان کے ذوق و شوق، مطالعہ اور اخذ و انتخاب میں ان کی صلاحیت کو اجاگر کرتی ہے۔ ساری جدید سہولیات کے باوجود آج بھی ہندستان میں کوئی بڑے سے بڑا طباعتی ادارہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے منشی نول کشور سے زیادہ کتابیں شائع کی ہیں۔منشی نول کشور نے اپنے پریس سے کئی ہزار کتابوں کی اشاعت کی تھی جن کی فہرست انجمن ترقی اردو(ہند) نے شائع کی ہے۔ نول کشور پریس سے بعض کتاب تو ایک ہی دن میں شائع ہو جاتی تھی۔ ماہنامہ نیا دور لکھنؤ کے ’منشی نول کشور نمبر‘ (نومبر، دسمبر١٩٨٠) میں اس بابت تفصیل سے لکھا گیا ہے کہ چونکہ لکھنؤ میں اس پریس سے کاتبوں کی ایک بڑی تعداد منسلک تھی اس لیے موٹی سے موٹی کتاب کے مسودے کے صفحات ایک سو کاتبوں کو دے دیے جاتے تھے اور اسی دن کتاب، کتابت و طباعت کے سارے مراحل سے گزر کر تیار ہو جایا کرتی تھی۔ بہرحال اس ضمن میں یہ تذکرہ بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ منشی نول کشور نے جو کئی ہزار کتابیں شائع کیں ان میں متعدد کتابیں (خاص کر داستانیں) ایسی تھیں جو خود کئی کئی ہزار صفحات پر مشتمل تھیں۔ منشی نول کشور کا احسان نہ صرف اردو پر بلکہ فارسی، عربی، سنسکرت، ہندی، گرومکھی اور کئی علاقائی زبانوں پر بھی ہے اور ہم اس محسن کے احسانوں کا بدلہ کبھی اتار نہیں سکتے!
ریحان حسن کے ادبی ذوق کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی تحقیق کو کچھ مخصوص فنون یا محض شاعری تک محدود نہیں رکھا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی پیش نظر کتاب ’ادبی مطالعے‘ میں دو مضامین فکشن نگاروں سے متعلق بھی ہیں۔ پہلا مضمون ہے’منٹو: منفرد افسانہ نگار‘ اور دوسرے مضمون کا عنوان ہے ’قرۃ العین حیدر اور جزئیات نگاری‘۔ ان دونوں مضامین میں انھوں نے منٹو اور قرۃ العین حیدر کے فن، ان کے اسلوب، موضوعات، زبان و بیان اور ان کے افسانوں و مضامین کا بہترین تجزیہ پیش کیا ہے اور حسب ضرورت ناولوں اور افسانوں سے اقتباسات بھی درج کیے ہیں۔
برسوں تک منٹو کے گرد جو گرد اور دھند چھائی رہی، وہ اب چھٹ چکی ہے۔ اس کے افسانوں سے شجر ممنوعہ کے مثل گریز کیا گیا لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ پورے برصغیر میں منٹو کی ولادت کے تعلق سے صد سالہ تقریبات منائی گئیں اور متعدد رسالوں نے بڑے اہتمام اور فخر و انبساط کے ساتھ ’منٹو نمبر‘ شائع کیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو کا شمار برصغیر ہندوپاک کے مقبول ترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ریحان حسن نے اپنے مضمون میں منٹو کے تئیں مثبت پہلو کو پیش نظر رکھا ہے اور ان کے اسلوب نگارش، موضوعات، افسانوں کے پس منظر وغیرہ پر اپنی بے لاگ رائے پیش کی ہے۔ریحان حسن کا درج ذیل جملہ ہماری دلیل کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”دراصل اس اسلوب کو اختیار کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ سماج میں بے راہ روی کو بڑھاوا دیا جائے بلکہ ان کا ہدف سماجی اور اصلاحی تھا لیکن ایسی باتیں مہذب سماج میں نا پسندیدہ نگاہوں سے دیکھی جاتی ہیں۔“
(منٹو منفرد افسانہ نگار، ص: ١٥٥)
تقسیم کا المیہ ملک کی تاریخ کا سیاہ باب تھا یا ایک درخشاں دور کا آغاز! یہ نہ سر دست ہمارا موضوع ہے اور نہ زیر بحث مسئلہ لیکن اس حقیقت سے کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر برصغیر میں ہند و پاک کی تقسیم کا سانحہ نہ ہوتا تو شاید آج ہمارے فکشن کا نہ وہ معیار ہوتا اور نہ وہ مرتبہ، نہ اچھوتے اور نئے موضوعات پر معیاری افسانے لکھے جاتے اور نہ عالمی معیار کے شہرہ آفاق ناول معرض وجود میں آتے۔ منٹو کے لہجے کی کاٹ اور کئی افسانوں کی تکنیک، موضوعات اور اسلوب نے اس المیہ کا اثر قبول کیا تھا۔
بہرحال یہ تو حقیقت ہے کہ ان کا خاص موضوع جنس تھا لیکن ان کے قلم نے مختلف موضوعات کا بھی احاطہ کیا تھا۔ وہ بیک وقت افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، ناول نگار مضمون نگار، مزاح نگار، مترجم اور صحافی تھے۔ کسی تخلیق کو معرض وجود میں لانے کے لیے کئی اہم چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے تخیل، مطالعہ، مشاہدہ، تجربہ وغیرہ۔ قلم کار چونکہ معاشرہ کا ایک سب سے حساس فرد ہوتا ہے اس لیے کبھی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اس کے خیالوں کو تخلیقی وجود بخش دیتی ہے۔ اس سلسلے میں منٹو کا ایک قول بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے:
”میرے سامنے لاکھوں موضوعات پڑے ہیں اور جب تک میں زندہ ہوں، پڑے رہیں گے۔ سڑک کے ہر پتھر
پر ایک افسانہ کندہ ہوتا ہے۔“
(منٹو:منفرد افسانہ نگار، ص: ١٥٥)
مقصد یہی ہے کہ قلم کار کے اندر تخلیقی صلاحیت ہو، فکر میں گہرائی ہو، مشاہدہ سے نتائج اخذ کرنے کی قوت ہو، تجربہ کا جوہر ہو، مطالعہ میں گیرائی اور وسعت ہو، ذہن رسا ہو اور جذبوں میں صداقت نیز خلوص و محبت ہو تو اسے چلتے پھرتے دس بیس نہیں بلکہ سیکڑوں ہزاروں افسانے یعنی ان کے موضوعات مل جاتے ہیں۔ کوئی ’خاص جملہ‘ تو بہت بڑی بات ہے اس کے برعکس کبھی کبھی کسی کے کہے ہوئے ایک لفظ پر ہی افسانہ کی عمارت تعمیر ہو جاتی ہے لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ قلم کار کے اندر صلاحیت ہو تو سب کچھ لکھنا ممکن ہے۔ ریحان حسن نے اپنے مضمون میں منٹو کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو چھوا ہے اور ان کے کئی افسانوں کا عمومی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کا فنی تجزیہ بھی پیش کیا ہے اور حسب ضرورت حوالہ بہ طور چند اقتباسات بھی تحریر کیے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ریحان حسن نے ان کے افسانوں کا بہ غور اور بہ غائر مطالعہ کیا ہے اور فن افسانہ نگاری کے اصولوں کے تحت ان کے جانچنے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس مضمون میں ریحان حسن اپنے خیالات اور اپنی تحریر کا ماحصل درج ذیل الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
”منٹو کے تقریباً ہر افسانہ میں انفرادیت پائی جاتی ہے۔وہ خواہ موضوع و مواد کے اعتبار سے ہو یا کردار و واقعات کے لحاظ سے، انھوں نے افسانوں میں پلاٹ، کردار اور اسلوب کے حوالے سے جس فنکاری کا ثبوت بہم کیا ہے وہی فنکاری ان کے افسانوں کو اہم اور منفرد بناتی ہے……منٹو نے افسانوں میں جو اسلوب اپنایا وہ اسلوب ان کا اپنا ہی نہ تھا بلکہ اسلوب ایسا اچھوتا تھا کہ جس اسلوب کو نہ اس سے پہلے برتا گیا اور نہ ان کے انتقال کے بعد کوئی اس راہ پر چل سکا۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنا فن اپنے ساتھ لے کر آئے تھے اور اپنے ہی ساتھ لے کر چلے گئے۔“
(منٹو:منفرد افسانہ نگار، ص: ١٦٠)
ہندستان کی وہ عظیم الشان اور اعلا و ارفع شخصیات جنھوں نے اپنی زندگی میں ہی شہرت و ترقی کے بام عروج کو حاصل کیا اور جن کے تذکرہ کے بغیر برصغیر کی ادبی، صحافتی، تحقیقی، سماجی، ثقافتی، تہذیبی کوئی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ ایسی ذیشان و محترم ہستیوں کو پروردگار عالم انسانوں اور انسانیت کی خدمت کے لاثانی و لافانی جذبے عطا فرماتا ہے، جو اپنا سب کچھ ملک و قوم پر نثار و قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ایسے مخصوص لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کے روشن و درخشاں کارناموں کے باعث صدیاں ان کو یاد رکھتی ہیں اور کروڑوں لوگ ان کے کارناموں اور ان کی خدمات کو یاد رکھتے اور ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ بر صغیر کی ایک ایسی ہی عظیم ہستی کا نام تھا سر سید احمد خاں!
ڈاکٹر ریحان حسن کی کتاب ’ادبی مطالعے‘ میں ایک مضمون سر سید احمد خاں سے متعلق بھی ہے اور اس کا عنوان ہے’انیسویں صدی کا مجدد: سر سید احمد خاں‘۔ جہاں مذکورہ مضمون کے عنوان میں ندرت موجود ہے وہیں مضمون کے مواد میں بھی انفرادیت پائی جاتی ہے۔ ریحان حسن نے سر سید کی علمی، ادبی اور تحقیقی و صحافتی خدمات کا بھر پور طریقے سے جائزہ پیش کیا ہے۔ ایک ذمہ دار محقق کی حیثیت سے انھوں نے کئی چیزیں تاریخ وار ترتیب کے ساتھ لکھی ہیں۔ سر سید پر برصغیر ہندوپاک میں اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ان کی خدمات کے باعث مختلف موضوعات کے تحت بہت کچھ تحریر کیا جاتا رہے گا۔ریحان حسن کا مذکورہ مضمون اگرچہ مختصر ہے اور صرف گیارہ صفحات پر مشتمل ہے تاہم انھوں نے اختصار کے باوجود سر سید کے کارناموں کے کئی اہم اور مختلف پہلوؤں پر بہترین طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔
ہندستان کی سیاسی ہو یا مذہبی، ادبی ہو یا ملی، تہذیبی ہو یا ثقافتی،تخلیقی ہو یا تحقیقی کوئی بھی تاریخ جس ایک معزز اور قابل صد احترام ہستی کے تذکرے کے بغیر تشنہ و ادھوری ہے اس ہستی کا نام ہے مولانا ابوالکلام آزاد!
الگ الگ موضوعات کے تحت مولانا ابوالکلام آزاد پر ریحان حسن نے دو مضامین لکھے ہیں۔ پہلے مضمون کا عنوان ہے ’مولانا ابوالکلام آزاد کا پیغام امن و آشتی‘ اور دوسرا مضمون ہے ’مولانا آزاد کی صحافت‘۔ یہ دونوں مضامین اعلا اور معیاری تحقیق کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔یوں تو تحقیقی مقالہ لکھ کر (یا لکھوا کر) پی ایچ.ڈی کی ڈگری بہت سے لوگ حاصل کرتے ہیں جن میں سے متعدد اسکالرز کا مقصد محض اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلوانا ہوتا ہے۔ اگرچہ پی ایچ.ڈی کی ڈگری حاصل کرنا واقعی ایک بڑا اعزاز بھی ہے لیکن وہ اسکالرز جو ڈگری کے حصول کے بعد بھی اپنی تحریری سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں وہی حقیقت میں اس ڈگری سے خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی استفادہ کا ذریعہ اور سبب بنتے ہیں۔ پی ایچ.ڈی کے وہ اسکالرز جوخود قلم کار بھی ہوں تو ان کی تحقیق سونے پہ سہاگا کی حیثیت رکھتی ہے اور ڈاکٹر ریحان حسن ایسے ہی محقق، اسکالر اور قلم کار ہیں جو مستقل لکھتے ہیں، اچھا اور معیاری ادب پیش کرتے ہیں اور مختلف موضوعات کے تحت اپنی تحریروں کی خوش بو پھیلاتے ہیں۔ مولانا آزاد پر لکھے ان کے دونوں مضامین اسی خلوص اور اسی جدوجہد کی عکاسی کرتے ہیں۔راقم نے ان کے مضامین و مقالات بہت سے رسائل میں پڑھے ہیں اور یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کی تحقیق جامع ہوتی ہے اور جزئیات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے اور تنقید صالح و متوازن ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ تحقیق و تنقید میں باریکی سے ان باتوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں جو عام قاری تو کیا بہت سے قلم کاروں کی سوچ و فکر سے بھی دور ہوتی ہیں۔
زیر مطالعہ کتاب’ادبی مطالعے‘ کے بیش تر مضامین اور مقالے یا تو کل ہند سمیناروں میں شرکت کے مد نظر لکھے گئے ہیں یا پھر ادبی رسائل کے خصوصی نمبروں میں اشاعت کے لیے، یہی وجہ ہے کہ ان مضامین میں گہرائی بہت زیادہ ہے اور ان کو نہایت تحقیق، محنت، کوشش اور جدوجہد و ذمہ داری کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ریحان حسن ایک نوجوان محقق ہیں اور اسکالرز کے لیے ایک بہترین نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے نوجوانی میں ہی ایسے اہم ادبی کام انجام دیے ہیں جن پر رشک بھی کیا جا سکتا ہے اور خوشی بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ یوں بھی علم کا تعلق صلاحیتوں سے ہوتا ہے نہ کہ عمر سے۔ عمر کا طویل ہونا قطعی اس بات کی دلیل نہیں کہ اس ادیب کے اندر ساری خوبیاں یکجا ہو گئیں۔ اسی طرح کم عمری میں بڑے ادبی کارنامے انجام دینا بھی پوری طرح ممکن ہے۔ان کی دیگر کتابیں بھی کافی اہم ہیں جن میں سے ایک کا نام ’تحقیق و تفتیش‘ ہے۔ اس کتاب کی ترتیب و تدوین حسن مثنیٰ اور ریحان حسن نے مشترکہ طور پر کی ہے۔ ریحان حسن کی ایک اور کتاب کا نام ہے ’عظیم محقق، صحافی: چودھری سبط محمد نقوی‘۔ پی ایچ.ڈی کے لیے ان کا تحقیقی مقالہ برصغیر کے معروف فکشن نگار ممتاز مفتی کی حیات اور ادبی خدمات سے متعلق ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔اگرچہ راقم کی نظر سے یہ کتاب نہیں گزری تا ہم ان کی صلاحیتوں سے یہی امید اور توقع ہے کہ انھوں نے اس کتاب کا حق بھی اچھی طرح ادا کر دیا ہوگا۔
***
Dr. Mohammad Athar Masood Khan
Ghaus Manzil,Talab Mulla Iram
Rampur 244901 U.P. India
Mobile:91 9520576079
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : خوابوں کی راکھ از ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے