آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

 مظفر نازنین، کولکاتا

آج کے دور میں جہاں چاند اور سیاروں کی تسخیر ہو چکی ہے۔ میڈیکل سائنس روز افزوں ترقی پر ہے۔ لا علاج امراض کی تشخیص اور اس کا کامیاب علاج advanced medical science کے باعث ممکن ہے۔ بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے میں سائنس کا اہم رول ہے۔ یہ تمام مثالیں زبان حال سے پکار رہی ہیں کہ سر زمین ہند میں معیارِ تعلیم پست نہیں بلکہ بلندی کی منزل پر چڑھ کر عظیم تعلیم کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ لیکن حالیہ رپورٹ سے یہ صاف شیشے کی مانند عیاں ہے کہ مسلم طلبا و طالبات کی حقیقت علم کے اس اتھاہ سمندر میں قطرے کے برابر بھی نہیں۔ تہذیب کے اس دور میں ہر خاص و عام بہ خوبی پتہ لگا سکتا ہے کہ مسلم طلبا و طالبات کا معیار تعلیم کس پستی کی طرف گامزن ہے۔ درد مند، حساس ذہنیت، دور اندیش نظر اور روشن ضمیر ان کے اس تعلیمی معیار کی پستی کو دیکھ کر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے لیکن ہمارے اس آہ و فغاں، نالہ و شیون کا ذمہ دار کون ہے؟ آج ہمارے درمیان سرسید اور حالی کی کمی ہے۔ جنھوں نے قول کے لیے اپنی جاں نثار کی۔ جنھوں نے وقت کے تقاضے اور حالات کی نزاکت کا جائزہ لیا۔ آج مولانا ابوالکلام آزاد ہمارے درمیان نہیں جنھوں نے اپنے اخبار ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کے ذریعہ قوم کی رہنمائی کی اور جو ملت اسلامیہ کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔ کمی ہے شاعر مشرق علامہ اقبال کی جن کی نظموں اور غزلوں سے قومیت کا جذبہ ابھرا اور جنھوں نے اپنی قیمتی زندگی کا ایک حصہ مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے اور ان میں شعور پیدا کرنے کے لیے صرف کیا۔ اقبال نے ہی کہا تھا:
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اگر صوبہ بنگال پر نظر ڈالیں تو ہماری یاد داشت تحت الشعور سے نکل کر شعوری سطح پر منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی وہ سر زمین بنگالہ ہے جس نے ماضی میں ایسے عظیم سپوتوں کو جنم دیا جن کے دلوں میں قومی اور ملی جذبہ بدرجۂ اتم موجود تھا۔ جن عظیم مایہ ناز ہستیوں کے کارناموں کے لیے تاریخ کے اوراق شاہد ہیں اور جن کے نام بنگال کی تاریخ میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ حاجی محمد محسن جنھوں نے اپنی ساری زندگی قوم و ملت کے لیے وقف کر دی تھی۔ جسٹس امیر علی جو عاشق رسول اور درد مند انسان تھے۔ سہروردی برادران کی ملی خدمات کو فراموش کرنا حقیقت سے چشم پوشی کرنا ہے۔ اس ضمن میں ہمیں ان ہستیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے جنھوں نے مسلم خواتین میں تعلیمی انقلاب لانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں رقیہ بیگم اور سید سخاوت حسین قابل ذکر ہیں۔ جن کے دلوں میں جذبۂ قومیت کا ثمرہ سخاوت میموریل گورنمنٹ گرلس ہائی اسکول کی شکل میں سر زمین کلکتہ کے لارڈ سنہا روڈ پر موجود ہے۔ آج ملت کے نونہالوں کو بہترین رہنمائی کی ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک ننھا سا تخم تناور درخت بن سکتا ہے اگر اس کی مکمل آبیاری کی جائے برعکس اس کے غلط مشورہ انسانی زندگی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔ اس طرح قوم کے بچوں کو ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو ان کے تابناک اور درخشاں مستقبل کے لیے کار گر ثابت ہو۔
نہیں ہے اقبال نا امید اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
کیا آج کوئی سر سید پیدا نہیں ہو سکتا جو تعلیم اور خواندگی سے محروم قوم میں بیداری لا سکے؟ آخر وہ کون سے جذبات تھے جس کے تحت سر سید مرحوم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیادڈالی تھی، وہ کیسی شخصیات تھیں جو سخاوت حسین اور رقیہ بیگم کی شکل میں اجاگر ہوئیں جنھوں نے دامے درمے قدمے سخنے ہر ممکن طور پر مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے کوشش کی تھی۔ اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں، رزلٹ مایوس کن رہا۔ پڑھ لیتا، افسوس کرنا اور ماتم کرنا ہی ہمارا مقصد بن گیا ہے۔ کیا ثنا خوانِ ملت اور درد مندان قوم اب باقی نہیں رہے؟ بہتر رزلٹ کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب ممکن ہے جب ان میں درد مند اور حساس ذہنیت ہو:
تجھے اپنے غم سے مطلب مجھے غم ہے دوسروں کا
تیرے سامنے نشیمن، میرے سامنے چمن ہے
پرائیوٹ اسکولوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے۔ اسے منظوری دلوائی جائے۔ ایسے ماحول میں جن طلبا و طالبات نے تمام سہولیات سے محروم بغیر ٹیوشن کے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ذاتی کوشش، سچی لگن اور انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ یقینا جن طلبا و طالبات نے، جو انتہائی غربت کا مقابلہ کرتے ہوئے والدین کی عدم توجہی اور ناموافق حالات میں، تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور کامیابی حاصل کی قابل تعریف ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھی طلبا و طالبات نیز جونیئر طلبا و طالبات کے لیے قابل تقلید ہیں۔ جن طالبات نے 76فی صد سے لے کر 80 فی صد مارکس حاصل کیے ہیں صرف اپنی محنت اور لگن سے نیز قدرت کی نوازش ہی سے ایسا ممکن ہو سکا۔ جو لوگ متعصب ہیں ان کا ماننا ہے کہ ہر اسکول میں ایسا نہیں ہو سکتا لیکن سچ یہی ہے کہ اگر محنت کریں تو کامیابی ہمارے بچوں کے قدم چومے گی۔
جستجو کی منزل کو لوگ جب نکلتے ہیں
حوصلے کی گرمیوں سے فاصلے پگھلتے ہیں
میری ارباب اقتدار اور محکمۂ تعلیم سے مودبانہ گذارش ہے کہ جو طلبا و طالبات امتیازی کامیابی حاصل کر سکے ہیں، غریبی ان کے تعلیمی سفر میں حائل نہ ہو۔ اور غربت کے سبب ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ ہو بلکہ ان کی اعلا تعلیم اور کیرئیر کا بھر پور انتظام کیا جائے تب ہی مستقبل میں ہم Intellectuals پیدا کر سکتے ہیں اور یہی طالب علم Super Brilliant Student کل ڈاکٹر، انجینئر WBCS اور IAS بن کر بنگال کو معاشی اور تعلیمی طور پر مستحکم کر سکتے ہیں اور ہندستان کو بھی خوش حالی عطا کر سکتے ہیں۔ ضرورت ہے تو صرف مالی تعاون کی۔
ہمیں قوم کی بے لوث خدمت کرنی چاہیے۔ جارحانہ قوم پرستی کو چھوڑ کر ”ہم اور ہماری قوم“ کا نعرہ نہ لگا کر ”ہم اور برادران وطن“ کا نعرہ لگائیں تو اسی میں ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے۔ اگر ہم سیکولر بنگال میں برادران وطن کے شانہ بہ شانہ چلیں تو یہ ہمارے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ اردو میڈیم اسکولوں کے لیے ناچیز کی کچھ تجاویز ہیں۔ شاید یہ ملت کے تئیں کسی کام آسکیں۔
٭ ہر ماہ Parent-Teacher میٹنگ کروائی جائے۔
٭ کیرئیر کاؤنسلنگ کا اہتمام کیا جائے۔
٭ پرائیوٹ ٹیچر کے معقول معاوضے کا انتظام کیا جائے۔
٭ جلد از جلد تعلیمی خالی آسامیوں کو پُر کیا جائے۔
٭ اساتذہ کرام کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔
٭ گارجین حضرات میں تعلیمی بیداری لانے کے لیے مہم چلائی جائے۔
٭ اردو میڈیم پرائیوٹ اسکولوں کو حکومت سے منظوری دلوائی جائے۔
٭ ایک کلاس میں بچوں کی تعداد کتنی ہے اور بچے پر کتنی انفرادی توجہ دی جا رہی ہے اس کا جائزہ لیں۔
٭ کون بچہ کس مضمون میں کمزور ہے اور اس کی کمی کیسے دور کی جائے اس پر غور و خوض کریں۔
٭ ذہین اور انتہائی محنتی لیکن غریب اور معاشی طور پر بدحال بچوں کے لیے اسکالرشپ مختص کیے جائیں۔
٭ اسکول کے اوقات کے بعد اسپیشل کلاس اور کمزور طلبا و طالبات کے Periodical classes کا انتظام کیا جائے۔
شاید میری یہ فکری تجاویز ملت کے کسی کام آسکیں۔
سبق پھر پڑھ شجاعت کا، صداقت کا، عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

Mobile + Whatsapp: 9088470916
E-mail: muzaffarnaznin93@gmail.com
p p p p

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے