آہ!محمد نظام الدین انصاری: یقین نہیں آتا کہ آپ کہیں اور چلے گئے!!!

آہ!محمد نظام الدین انصاری: یقین نہیں آتا کہ آپ کہیں اور چلے گئے!!!

[دوسری اورآخری قسط] 

پہلی قسط یہاں پڑھیں: آہ! محمدنظام الدین انصاری: یقین نہیں آتا کہ آپ کہیں اور چلے گئے!!!

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

ہر استاد کی طرح آپ کی زندگی کا بڑا دائرہ اپنے اسکول کی چہار دیواری ہی تک محدود اور مقرر تھا۔ اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکول میں ہندی اور سنسکرت پڑھانے کے لیے جو استاد قافلے میں شامل ہو، اس کی کم و بیش ضمنی حیثیت ہی رہے گی۔ اس زمانے میں سرکاری جبر بھی ویسا نہیں تھا جس کے سبب اردو ہائی اسکول میں ہندی اور سنسکرت کے استاد کی کوئی مرکزیت قائم ہو سکے۔ ابتدائی دور میں نظام الدین انصاری اس اردو زدہ ماحول میں ذرا اَن فِٹ ہی تھے۔ وہ اردو کے مقابلے فطری طور پر ہندی کے الفاظ بات چیت میں زیادہ آزماتے تھے مگر ایک ذہین آدمی کے طور پر ا نھوں نے اس ماحول میں خود کو بڑی آسانی سے نہ صرف یہ کہ شامل کرلیا بلکہ دیکھتے دیکھتے ان کی مرکزیت بھی قائم ہونے لگی۔ اردو کے استاد نثار احمد صاحب سے ان کی دوستی اور اسکول کے باہر کے اوقات میں ساتھ ساتھ رہنے کی عادت نے ان کی زبان پہ اردو کے الفاظ چڑھائے اور وہ اسکول کے دوسرے اساتذہ کے درمیان ملی جلی زبان کے وسیلے سے قبولِ عام کے راستے پر گامزن ہو گئے۔
1967 سے ایک دہائی کے دورانیے کو نظر میں رکھیے تو یہ یاد آئے گا کہ اب اسکول سے باہر بالخصوص سرکاری دفاتر سے خط و کتابت میں ہندی زبان کے استعمال کا دور شروع ہو چکا تھا۔ اسکول میں جو پرانے اساتذہ تھے، ان میں دفتری ہندی کی معقول سوجھ بوجھ نہیں تھی، ایسے مواقع سے اسکول کے اس طرح کے سارے کام اپنے آپ نظام الدین انصاری کے کاندھے پر آ گئے اور وہ فرصت کے اوقات میں باضابطہ طور پر ایسے کام انجام دینے لگے۔ خدا نے خوش خطی کا ایسا عطیہ انھیں میسّر کرایا تھا جس کے سبب سرکاری مکتوب ان کی لکھاوٹ میں اسکول کی طرف سے جانے لگے اور جب اقلیتی کردار سے سرکاری تحویل میں اسکول پہنچ گیا، اس کے بعد سے اسکول میں ان کی اس صلاحیت کا مزید استعمال ہونے لگا۔
اپنے اسکول میں اُن کا اثر اُن کی بے پناہ تقریری صلاحیتوں سے بھی قائم ہوا۔ ہر استاد اپنی جماعت میں اپنے مخصوص طلبا کے درمیان اپنے تدریسی موضوعات پر بولنے کا مشاق ہوتا ہے۔ مگر اکثر اس دائرے سے باہر اپنی صلاحیت کو آزماتے ہی نہیں۔ وہ اپنے مضمون، اپنی زبان اور اپنے مخصوص دائرے سے نکل کر نئے اجتماع میں آنے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ محفوظ حلقہ نہیں ہوتا۔ نظام الدین انصاری نے اپنی صلاحیت اور شناخت کے لیے ہندی اور سنسکرت کلاس روم سے باہر اسکول کے اندر کی جو گنجائش تھی، انھیں رفتہ رفتہ اپنی تقریری اور علمی صلاحیت سے سر کرنے میں کامیابی پائی۔ اسکول کا کوئی چھوٹا یا بڑا جلسہ ہو، نظام الدین انصاری اس میں اساتذہ کی بہ حیثیت مقرر نمائندگی کرتے تھے۔ ١٥/ اگست، ٢٦/ جنوری یا ۵/ ستمبر کی رسمی تقاریب ہوں یا دیگر مواقع، ہر طالب علم نظام الدین انصاری کی تقریر سننا چاہتا تھا۔ یوں بھی اس زمانے میں متعدد ایسے اساتذہ تھے جو تقریر سے گریز کی راہ اپناتے۔ خود ہماے مقبول ہیڈ ماسٹر سیّد ہاشم رضا مختصر ترین تقریر کے عادی تھے۔
مگر ضرورت پڑے تو نظام الدین انصاری کسی بھی موضوع پر آدھ گھنٹا یا ایک گھنٹا بول سکتے تھے۔ وہ گفتگو کی رسمی اور غیر رسمی دونوں صورتوں پر قدرت رکھتے تھے۔ اس کا مظاہرہ عموماً کلاس روم میں بھی ہوتا ہی رہتا تھا۔ وہاں بھی کبھی کبھی کسی نظم، کسی کہانی یا کسی ادب اور سماج کے خاص موضوع پر ان کی گرم گفتاری سے ہم فیض پاتے ہی رہتے۔ مگر جب وہ اسکول کی کسی تقریب میں تقریر کر رہے ہوتے تو ان کا انداز ہی الگ ہوتا۔ الفاظ کی نشست و برخاست، جملوں کے مختلف حصّوں کی ادائیگی میں آواز کے زیر و بم سے معنی اور جذبوں کے دفتر پیوست کرنے کا انداز، معقول لفظوں کے بعد آواز کے مزاج میں واضح تبدیلی، گردن اور چہرے کے حسبِ ضرورت موڑنے کا انداز اور موضوع کی تبدیلی میں اپنے سر کے بال کے جھٹکنے کا ایک انداز۔ کھُلے آسمان کے نیچے جب ایسی تقریبات ہوتیں تو لگتا کہ زمین سے آسمان تک ان کی آوازوں سے ایک نورانی ہالا تیّار ہو گیاہے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ایسی سجی دھجی اور دھلی دھلائی زبان ہوتی تھی کہ سیدھے آپ کے دل میں وہ تقریر اتر جاتی۔ نفسِ مضمون پر توجہ ایسی کہ کبھی یہ یقین ہی نہیں ہوتا کہ یہ استاد ہندی اور سنسکرت کی تدریس کے لیے مامور ہے۔ تاریخ، معاشیات، سیاست اور سماج کے باضابطہ اسباق کے مطالعے کا نچوڑ وہ پیش کرتے جاتے۔گفتگو میں رسمی سطح تو ہندی زبان کی ہوتی مگر حسبِ ضرورت اردو شاعری اور انگریزی اقتباسات سے اسے آراستہ کرتے چلتے۔ اردو کے نفیس اور متاثر کن الفاظ اور استعارے جہاں تہاں جھلملاتے ہوئے نظر آتے۔ سانس لمبی پائی تھی، اس سے گفتگو میں روانی اور زور کا اپنے آپ اضافہ ہو جاتا تھا۔
استاد کی حیثیت سے ایک خاص بات ان میں یہ تھی کہ سڑکوں پر چلیں، گھر پر ملیں، کلاس روم میں نظر آئیں یا کسی تقریب میں محوِ گفتگو ہوں، زبان دانی کا ایک عجیب و غریب شعور ہر دم رواں رہتا تھا۔ ہنسی مذاق یا عام بول چال میں بھی ایک لمحے کے لیے زبان کی رسومیات سے علاحدہ نہیں ہوتے۔ درست زبان بولنے اور سننے دونوں پر ان کی خاص نظر رہتی۔ طلبا کی جانب سے اگر کوئی بے خیالی پیدا ہوجاتی، اسی وقت اس کی اصلاح کرتے۔ کمال یہ تھا کہ یہ بات صرف ہندی زبان کے لیے نہیں تھی۔ انگریزی پر بھی خاص قدرت تھی اور بولنے لکھنے کے مرحلے میں وہاں بھی احتیاط اور درستگی کا وہی شعور ہوتا تھا۔ اردو زبان تو انھوں نے عمومی ماحول سے سیکھی تھی مگر وہاں بھی صفائی اور درستگی میں وہ اپنی مہارت سے کبھی نیچے نہیں آئے۔ بلکہ ان کی زبان سے اردو کے الفاظ اور جملے جس سلیقے سے ادا ہوتے، اکثر ہمارے اردو کے اساتذہ کی گفتگو میں وہ اثر آفرینی نہیں ہوتی۔
تحریر میں مکمّل طور پر پختہ قلم تھے۔ جیسے بلیک بورڈ پر لکھتے، ویسا ہی کاغذ پر تحریر کرتے۔ انگریزی کی کرسیو تحریر اس روانی سے اور مکمّل پختگی کے ساتھ ہم نے کسی دوسرے استاد کو بلیک بورڈ پر لکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اردو تحریر کتابت کے مکمّل اُصولوں سے ذرا الگ ہوتی تھی اور اُن کی ہندی اور انگریزی ہینڈ رائٹنگ کو آنکھوں میں بسا لیجئے تو صاف صاف یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ہندی اور انگریزی تحریر کے سایے میں اردو اندازِ خط کو انھوں نے آراستہ کیا تھا۔ صفائی اور حسن سے آراستہ وہ تحریر سادگی میں پُر کاری کے جلوؤں کے ساتھ ہمارے پیشِ نظر ہوتی۔ صفائی کا یہ عالَم تھا کہ اگر کہیں تصحیح اور اضافے کی نوبت آئے تو اُن کے لیے کوئی اضافی دشواری نہ ہو اور یہ بھی کہ کسی دوسرے کو پڑھنے کے دوران مشکل نہ پیش آئے۔اسکول میں طلبا کی کاپیوں میں اصلاح کے دوران اُن کے حسنِ تحریر اور اس سلیقہ مندی کا روزانہ مظاہرہ ہوتا تھا۔ سُرخ اور سبز رنگ کے فاؤنٹین پین ان کے پاس ہوتے اور عبارت کی درستگی اتنے سلیقے سے وہ فرماتے کہ ہر اصلاح بھی واضح ہو جاتی اور کسی طالب علم کو پڑھنے میں کبھی کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ ہر دقّت طلب کام اتنے انہماک اور مستعدی سے وہ کرتے کہ جیسے اس کے بغیر وہ جی ہی نہیں سکتے تھے۔
نظام الدین انصاری کی شخصیت کی سب سے بڑی طاقت اُن کی طبیعت کی روانی تھی۔ بولتے تو لگاتار بولتے جاتے، لکھتے تو لگاتار لکھتے جاتے۔ سائکل اور پیدل چلتے بھی تو ان کی رفتار اور انداز سے ایسا لگتا کہ کسی لمبے سفر کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔ استاد کی حیثیت سے یہ ایک ایسا تدریسی حربہ تھا جسے انھوں نے دل لگا کر پالا اور بڑھایا۔ یہ روانی اُن میں جلد باز یا عجلت پسند آدمی کی بے ہنگمی تک اُنھیں نہیں پہنچاتی تھی بلکہ ہمیشہ یہ محسوس ہوتا کہ ساری زندگی یہ کام کرنا ہے اور ایسے بہت سارے کام انھیں انجام دینے ہیں؛ اسی کا فلسفہ یہاں واضح ہوتا تھا۔ طبیعت کی روانی ہی تھی کہ اسکول کے ایک کلاس سے نکل کر دوسرے میں آتے، دوسرے سے تیسرے میں مگر کوئی تھکن اور اضمحلال کی کیفیت نہیں ہوتی۔ گھبراہٹ اور اوبنے کا انداز بھی نہیں تھا۔ شاید جو لوگ اپنی ذمّہ داریوں کو یا اپنے خواب اور تمنّاؤں کو درجۂ عبادت تک پہنچا دینے میں کامیاب ہوتے ہیں، ان کا یہی انداز ہوتا ہے۔
طبیعت کا یہ قرار اور ٹھراو یا استقلال ملاحظہ کرنا ہو تو اُن کی تحریر کو دیکھنا چاہیے۔ میں نے زندگی میں کبھی ایک پرچی بھی اُن کی ایسی لکھی نہ دیکھی جس میں کوئی غیر ضروری عجلت پسندی یا شکستگی نظر آتی ہو۔ بلیک بورڈ پر لکھیں گے، بچوں کی کاپیوں میں یا کوئی درخواست یا مضمون، دکان سے سامان منگانے کی فہرست ہو یا پرچی پر کسی کو معمولی سی ہدایت رقم کرنی ہو، جب وہ لکھیں گے تو صاف ستھرے انداز میں اور نپے تلے اندازِ خط کے ساتھ۔ زندگی کا یہ ایک ایسا شعور تھا جس میں ساری عمر کوئی تبدیلی نہیں آئی جب کہ عام لوگوں کی رفتار سے زیادہ تیز وہ لکھتے بھی تھے اور بولتے بھی تھے مگر کیا مجال کہ کسی حرف پہ غیر اُصولی طور پر دوسرے حروف چڑھ جائیں یا بولنے کے دوران دو آوازوں میں بے ترتیب یکجہتی پیدا ہو جائے۔ شاید یہ ممکن ہی نہیں تھا۔
لکھنے اور بولنے دونوں میں املا اور قواعد کی پاکی کا اُن کے یہاں ایک مذہبی تصوّر تھا۔ چھپرہ اور سارن کے علاقے سے ان کا تعلق تھا جہاں ’ر‘ اور ’ڑ‘ کی آوازوں میں ادلا بدلی کا رجحان ایک عام بات ہے۔ روانی میں بولتے ہوئے کبھی ایسی غلطی ہو جاتی تو فوراً پلٹ کر اصلاح شدہ بیان سامنے آ جاتا۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ علاقائی غلطی وہ اپنے کاندھے پر ڈھوتے چلے جائیں۔تحریر میں تو ایسی کسی بے راہ روی کی ہمیں کچی عمروں میں بھی اجازت نہیں تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتیں اس طرح نقش کرا دیتے کہ اسے زندگی بھی بھلانا ممکن نہیں۔ اردو اسکول میں پڑھتے ہوئے ہم لوگوں میں ہندی کی ایسی استعداد پیداہو گئی کہ مضامین اور کتابیں لکھنے لگے یا کبھی کسی ہندی کے ادیب اور مصنّف کے سامنے کم از کم قواعد اور املا کی کسی خامی کی وجہ سے خفّت نہیں اُٹھانی پڑی۔ اس کے پیچھے صرف اور صرف اُسی استاد کا ہاتھ ہے جسے اب مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ انھوں نے ہی سکھا دیا کہ زبان و بیان کی درستگی اور ایک خاص معیار کا حصول لازمۂ زندگی ہے ورنہ ہم تو اِسے کتاب، کاپی اور اسکول، کالج تک ہی محدود کیے رہ جاتے۔
ان کے دستخط کرنے کے انداز کی ہم نقلیں بناتے۔ اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں انھوں نے اپنی مخصوص خوش خطی میں شوخیِ تحریر کے اضافے سے اپنا دستخط تیار کیا تھا۔ نقطے، آڑی ترچھی لکیروں کے حسنِ امتزاج سے انھوں نے اس میں ظاہری پیچیدگی اور داخلی مشکل پسندی کے اوصاف شامل کیے تھے جو تمام تعلیمی زندگی میں ہمارے لیے ناقابلِ تسخیر رہا۔اسی سے اپنا مخصوص اور انوکھا دستخط تیار کرنے کا اسی زمانے میں شوق پیدا ہوا تھا۔ انھیں اپنا دستخط مکمل کرنے میں وقت لگتا تھا مگر وہ اسی مستعدی سے اس کی تکمیل کرتے۔ اس کام کو بھی اتنی دل پسندیدگی سے کرتے کہ اُس زمانے میں گھبراہٹ ہوتی تھی اور اب سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہرکام کو اسی سنجیدگی اور انہماک یا تکمیلیت کے ساتھ کرنے کا جنون ان میں کس درجے تک پہنچا ہوا تھا۔ اسی طاقت اور صلاحیت کو وہ ہم طلبا میں کماحقہ اتارنا چاہتے تھے۔
اساتذہ مرتے نہیں، وہ ہماری آنکھوں سے بس اوجھل ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی پردہ کر لیتے ہیں۔ نظام الدین انصاری بھی ہم سے ذرا دور ہو گئے ہیں۔ وہ تو ہماری سانسوں اور دھڑکنوں میں، ہمارے سونے اور جاگنے میں نظر آتے ہیں۔ کاغذ پر کوئی لفظ لکھیے، ان کی ہدایتیں یاد آجائیں گی۔ آنکھیں بند کیجیے، وہ نظر آنے لگتے ہیں۔وہ خوابوں میں آتے ہیں، اندھیرے راستوں میں حضرتِ خضر کی طرح رہنما ئی کرتے ہیں۔ گم شدہ منزلوں کے سفر میں سائے کی طرح ساتھ ساتھ حوصلہ بڑھاتے ہوئے چلتے ہیں۔ زبان کا اتنا گہرا شعور رکھنے والا اور مبادیات کا عالم اب کوئی دوسرا نہ ملے گا۔ خدا میرے اردو کے استاد مولانا علی الیاس عاجز کو ہم سب کی صحت اور عمر کا حصّہ دے دے۔ ان دونوں اساتذہ نے جو کچھ پڑھایا؛ اور اس سے بڑھ کر سکھایا، اس پر اضافہ کسی دوسرے استاد سے نہیں ہو سکا۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے