خوابوں کی راکھ

خوابوں کی راکھ

(پنچ تنتر کی کہانی) 

ہندی کہانی: شیو کمار
اردو ترجمہ: ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم،
رام پور ٢٤٤٩٠١ یو پی
موبائل نمبر:  9520576079

کسی زمانے میں ہمارے ملک میں ایک برہمن رہتا تھا۔ وہ انتہائی غریب تھا اور بھیک مانگ کر اپنی گزر بسر کرتا تھا۔ اسے بڑی بھاگ دوڑ کے بعد صرف ایک وقت کا ہی کھانا مل پاتا تھا بلکہ کبھی کبھی تو اس کو فاقے بھی کرنے پڑتے تھے. لیکن ایک دن اچانک اس کی قسمت جاگ اٹھی اور کسی نے ایک ہانڈی بھر کر اس کو آٹا دے دیا۔اتنا بہت سا آٹا پاکر وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ وہ ہانڈی لے کر اپنی جھونپڑی پر پہنچا اور اسے اپنی ٹوٹی پھوٹی کھاٹ کے پاس لٹکا کر آرام سے لیٹ گیا۔ ہانڈی اس کے سامنے لٹکی ہوئی تھی اور وہ اسے مسلسل تک رہا تھا۔
اس نے لیٹے لیٹے سوچا: ”اگر میرے پاس بھی روپیہ پیسہ ہوتا تو مجھے دربدر پھر کر بھیک نہ مانگنی پڑتی۔“ اس کی سوچ اوپر، اور اوپر چڑھنے لگی اور اس نے عجیب و غریب طریقے سے اپنی زندگی گزارنے کے پلان بنانے شروع کر دیے۔ اس نے سوچا: ”اتنی بڑی ہانڈی اور اس میں اتنا بہت سا آٹا! اگر میں کئی دن بیٹھے بیٹھے روٹیاں کھاؤں تب بھی آٹا ختم نہ ہوگا۔“
اچانک ایک بڑی اچھی ترکیب اس کے دماغ میں آئی: ”میں اتنا بہت سا آٹا اپنے پاس رکھنے کے بجائے اسے بیچ ہی کیوں نہ دوں؟ ملک میں قحط پڑا ہوا ہے اس لیے یہ آٹا اچھی قیمت پر فروخت ہو سکتا ہے۔ میں بازار جاؤں گا اور آواز لگا کر سب آٹا بیچ دوں گا۔ اس کے لیے میں جگہ جگہ لگاتار پھروں گا اور کہوں گا- بڑھیا آٹا لے لو، تازہ آٹا لے لو!“
”اے بات سنو!“میری آواز سن کر ایک آدمی کہے گا: ”ہم دس روپے میں تمھارا سب آٹا لے لیں گے۔“
یہ سن کر پاس ہی کھڑا دوسرا آدمی مجھ سے کہے گا: ”اتنے ڈھیر آٹے کے تم دس روپے لے رہے ہو، میں تمھیں پندرہ روپے دوں گا، تم یہ سب آٹا مجھے دے دو۔“
واہ! یہ کیا بات ہوئی؟“ تیسرا آدمی بولے گا: ”میں اس آٹے کے پندرہ نہیں بلکہ بیس روپے دوں گا۔“
میں اس پر راضی ہوجاؤں گا اور بیس روپے میں سب آٹا اس کے ہاتھ بیچ دوں گا۔
تب میرے پاس زندگی میں پہلی بار اتنے بہت سے روپے ہوں گے کہ میں خوشی سے پھولے نہ سماؤں گا اور سوچوں گا کہ بیس روپے مجھے کسی کام میں لینے چاہئیں۔ پھر میں ان روپیوں سے دھوتی کرتا اور جوتے خریدوں گا۔ مگر نہیں، خالی جوتے کپڑے سے کیا ہوتا ہے!میں ان بیس روپیوں سے کوئی کاروبار کروں گا اور اس کے لیے میں سب سے پہلے دو بکریاں خریدوں گا۔ انھیں پودوں کی پتیاں اور ہری ہری گھاس کھلاؤں گا۔ پھر میری بکریوں کے بچے ہوں گے۔ بہت اچھے، پیارے اور خوب صورت! رفتہ رفتہ یہ بچے بڑے ہو جائیں گے۔ پھر میرے پاس کم سے کم دس بکریاں ہو جائیں گی۔ میں ان دس بکریوں کو بازار لے کر جاؤں گا- ”بکریاں لے لو، بکریاں لے لو!“ میں اس طرح زور زور سے آوازیں لگاؤں گا: ”موٹی تازی بکریاں!“ بکریاں دیکھ کر ایک دیہاتی بھاگتا ہوا میرے پاس آئے گا۔ اس کے جسم پر لال کرتا ہوگا اور سر پر لال پگڑی ہوگی۔ وہ کہے گا: ”ارے واہ! یہی تو میں ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ فوراً سو روپے دے کر ساری بکریاں خرید لے گا۔ اس طرح میرے پاس دس روپے سے سو روپے ہو جائیں گے۔ میں اب چین سے نہ بیٹھوں گا اور ان روپیوں سے ایک لال ریشمی کوٹ خریدوں گا یا پھر ایک خوب صورت اور مضبوط پلنگ خریدوں گا۔ مگر نہیں میں اپنا روپیہ ایسے برباد نہ کروں گا۔ میں اس رقم سے دو گائیں خریدوں گا۔ پھر ان کے بچھیاں پیدا ہوں گی۔ رفتہ رفتہ یہی بچھیاں بڑی ہوکر گائیں بن جائیں گی۔
اس طرح میرے پاس بہت سی گائیں اور بچھیاں ہو جائیں گی۔ گائیں بہت سا دودھ دیں گی، میں اس دودھ سے پریشان ہو جاؤں گا کہ اتنے ڈھیر دودھ کا کیا کروں؟لیکن اچانک میرے ذہن میں ایک ترکیب آ جائے گی اور میں دودھ، دہی اور گھی کا بیوپار کروں گا۔ اس کے بعد میں ایک دکان کھولوں گا اور دکان میں گلاب جامن، برفی اور رس گلے بنا کر مٹھائیوں کے ڈھیر لگا دوں گا۔مجھے اب آواز لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور ہر روز میری دکان پر گاہکوں کی بھیڑ لگی رہے گی۔ بچے جو میری دکان پر دوڑتے ہوئے مٹھائی لینے آئیں گے ان کے ہاتھوں میں چاندی کے چمکتے ہوئے سکے ہوں گے۔میری مٹھائیاں دیکھ کر ان سب کی رال ٹپکنے لگے گی۔رفتہ رفتہ میری دکان پر اتنے لوگ آئیں گے کہ خریداروں کی بھیڑ لگ جائے گی۔
میرا کاروبار خوب ترقی پائے گا اور میں روز بروز دولت مند ہوتا چلا جاؤں گا۔ میرے پاس روپیوں کا ڈھیر لگ جائے گا۔ روپیہ ہی روپیہ! لیکن میں اتنے روپیوں کا کیا کروں گا؟ ہاں یہ ٹھیک ہے، میں ان روپیوں سے ایک ہاتھی خریدوں گا یا ایک مندر بنوا دوں گا۔ نہیں نہیں، ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں۔ یہ کام تو دوسرے لوگ بھی کر سکتے ہیں اور ان چیزوں سے فائدہ بھی کیا ہے۔میں اس رقم سے ہیرے جواہرات خریدوں گا۔ پھر ہیرے جواہرات کا کاروبار کروں گا۔ اس کے بعد ایک روز خوب صورت نیلا کوٹ اور ایک اچھی قسم کی پگڑی پہن کر راجا کے پاس جاؤں گا۔
”مہاراج!“ میں با ادب کھڑے ہو کر ان سے کہوں گا: ”میں آپ کے لیے ہیرے، پنے اور موتی لایا ہوں۔ یہ جواہرات قیمتی اور اعلا درجے کے ہیں۔“
راجا خوش ہو کر کہے گا: ”مجھے تو اپنی رانی کے لیے یہی ہیرے جواہرات چاہیے تھے۔ اس کے بعد تو ہیرے، موتی اور پنے کا، کاروبار بڑھتا جائے گا اور میں دنیا کا سب سے دولت مند شخص بن جاؤں گا۔ اتنی دولت میرے علاوہ اور کسی کے پاس نہ ہوگی۔ پھر میں ایک عالی شان اور بہت بڑا سا محل بنواؤں گا۔ اس کے چاروں طرف ہریالی ہوگی اور میدان ہوں گے۔ میں آم کے بڑے بڑے باغ لگواؤں گا۔ ان باغوں میں گلاب کے پھولوں کی کیاریاں بھی ہوں گی۔ خوب صورت تالاب ہوں گے اور ان تالابوں میں لال، نیلے اور پیلے کنول کھلے ہوں گے اور ان کے آس پاس خوب صورت ہنس تیرتے ہوں گے۔ پھر بہت سے دولت مند اور پیسے والے لوگ میرے محل میں آئیں گے اور اصرار کرکے کہیں گے کہ ہماری بیٹی سے شادی کر لو لیکن میں انکار کر دوں گا۔ پھر ایک روز راجا اپنی راج کماری کا رشتہ لے کر میرے پاس آئے گا۔ میں اس رشتہ پر ”ہاں“ کہہ دوں گا۔ اس طرح لمبے لمبے سنہری بالوں اور خوب صورت آنکھوں والی راج کماری سے میری شادی ہو جائے گی۔
کچھ دنوں بعد میرے یہاں ایک لڑکے کی پیدائش ہوگی، پھر دوسرا لڑکا، اس کے بعد ایک لڑکی۔ میں باغ میں بیٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھیلا کروں گا۔ جب میں آرام کرنے جاؤں گا تو اپنی بیوی سے کہوں گا: ”اب تم بچوں کو کھلاؤ!“ مگر میری بیوی گھریلو کاموں میں لگی ہوگی یا ایک رانی کی طرح آرام کر رہی ہوگی۔ اس لیے بچے میرے پیچھے پیچھے چلے آئیں گے، مجھے یہ بات اچھی نہیں لگے گی۔ میں انھیں چلا کر اور ڈانٹ کر بھگاؤں گا لیکن کیا کروں بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں وہ مجھے اور زیادہ پریشان کریں گے۔ اس بات پر مجھے بہت غصہ آئے گا۔ میں ایک چھڑی اٹھاؤں گا اور انھیں پیٹتے ہوئے کہوں گا: ”بدمعاشوں! ٹھہرو تو سہی، میں ابھی تم کو ٹھیک کرتا ہوں۔“
یہ سوچتے ہوئے برہمن نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا کہ بچوں کو ڈنڈے سے مارے لیکن وہاں بچے کہاں؟ موٹا ڈنڈا کھٹ سے چھینکے پر لٹکتی ہوئی ہانڈی پر لگا اور ہانڈی دھم سے زمین پر آگئی اور گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ ہانڈی گرنے کی آواز سن کر برہمن چونک کر بولا: ”یہ کیسی عجیب آواز ہے؟“
اس نے گھبرا کے اٹھ کر دیکھا تو نہ کہیں بچے تھے، نہ راج کماری اور نہ ہانڈی!
اس کے سامنے صرف اس کی ٹوٹی ہوئی ہانڈی کے ٹکڑے پڑے تھے اور چاروں طرف آٹا بکھرا ہوا تھا۔
***

صاحب ترجمہ کی ترجمہ شدہ یہ کہانی بھی ملاحظہ فرمائیں :ہینگ والا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے