غضنفرکی خودنوشت ’دیکھ لی دنیا ہم نے‘ : اجتماعی زندگی کاعجائب گھر

غضنفرکی خودنوشت ’دیکھ لی دنیا ہم نے‘ : اجتماعی زندگی کاعجائب گھر

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

غضنفر کی بنیادی حیثیت بے شک ناول نگار کی ہے اور دوسری اصناف میں ان کی گوناگوں خدمات کے باوجود انھیں دنیا ناول نگار کے طور پر ہی پہچانتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ انھوں نے جب اپنی خود نوشت شایع کرنے کا ارادہ کیا تو اسے ”سوانحی ناول“ کے ناشرانہ الفاظ کے ساتھ پیش کرنے کی ایک سہولت ڈھونڈ لی۔شاعری کی جدید و قدیم صنفوں کے ساتھ خاکہ نگاری اور تعلیم و تدریس کے موضوع سے تنقید و تحقیق ان کے دوسرے ایسے میدان ہیں جہاں وہ ہزارہا صفحات پیش کر چکے ہیں۔ پچاس برس سے زیادہ مدّت سے غضنفر شعر و ادب کے میدان میں مستقل مزاجی کے ساتھ مصروفِ کار رہے ہیں اور ان کی طویل و مختصر کتابوں کی تعداد پچیس سے تجاوز کر چکی ہے۔ ادب کی ہر صنف اگر چہ ذات و کائنات کے تجربات کے بغیر بے اعتبار ہوتی ہے مگر ناول کے بارے میں تو سب مانتے ہیں کہ مطالعۂ کائنات اس کا حقیقی مرکزہ ہے۔ غضنفر نے ایک دو نہیں کُل نو ناول تحریر کیے جن میں سے چند خاصی شہرت کے حامل ہوئے۔ قصّہ گوئی میں حقیقت اور تخیل کی ایک حسین آمیزش ہوتی ہے جسے راجندر سنگھ بیدی نے ”جھوٹ سچ“ کی اصطلاح سے واضح کیا تھا۔ اب یہ سوال ہمارے ذہن میں کوندتا ہے کہ اتنے ناولوں کے بعد بھی غضنفر کے پاس زندگی کے کون سے ایسے انوکھے قصّے بچ گئے تھے جنھیں وہ علاحدہ طور پر خود نوشت یا سوانحی ناول کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں؟
”دیکھ لی دنیا ہم نے“ کا نام غضنفر نے اپنے استاد شہریار کے اِس مشہور شعر سے اخذ کیا ہے:
جستجو جس کی تھی، اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
غضنفر نے اپنے ناول فسوں کا عنوان بھی شہریار کے شعر سے ہی منتخب کیا تھا۔ شہریار کے پیش کردہ شعر کی تہہ داری کو چھوڑیے اور دوسرے مصرعے کی منطق پر غور کیجیے تو سمجھ میں آ جائے گا کہ غضنفر نے یہ خود نوشت آخر کار کیوں لکھی اور نرے ناول کے بجاے آپ بیتی کے طور پر اسے کیوں کر پیش کیا؟ زندگی کی جو سات دہائیاں گزریں، انھیں دنیا دیکھنے کا بہانہ اگر غضنفر نہ سمجھتے تو ایسے نام کو اپنی خود نوشت کے لیے شاید ہی وہ منتخب کر پاتے! ناول لکھتے وقت اس بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے بھانت بھانت کے کردار سجتے چلے گئے مگر خود نوشت کے مرحلے میں اپنے مرکزی کردار کو قایم کرنا اور پھر اس کے آس پاس ایک جمِّ غفیر کا کھڑا کرنا قصّہ نگار کے لیے ایک ایسا مرحلۂ امتحان رہا ہوگا جب تخیّل کی کار سازی سے خود کو الگ کر کے کسی بہانے سے دیکھی ہوئی دنیا کی ایک حقیقی اور تفتیشی رپورٹ پیش کرنے کا فریضہ متعین ہوجائے۔
٣٣٦ صفحات کی اس خود نوشت میں مصنف نے ڈیڑھ صفحے کا رسمی’آغازِ قصّہ‘ شامل کیا ہے۔ چار صفحات پر مشتمل سید محمد اشرف کے تاثّرات کے علاوہ یہ کتاب جو ایک بار زندگی کی کہانی کی گرہیں کھولنا شروع کرتی ہے تو انجامِ کلام تک یہی تسلسل برقرار رہتا ہے۔درمیان میں چند واقعات کے بیچ ایسا کوئی نشان موجود ہے جس سے یہ سمجھا جا سکے کہ زماں و مکاں کی کچھ تبدیلی ہو رہی ہے ورنہ یہ کتاب ایک بار شروع ہوتی ہے تو آخری صفحے تک رواں دواں رہتی ہے۔ ابواب بندی سے ارادتاً گریز کا شاید یہی مقصد ہو کہ علمی دستاویزات کی پُر تکلّف فضا نہ قایم ہو جائے۔ حالاں کہ خود غضنفر کے کئی ناولوں میں ابواب کا تکلّف موجود ہے۔ قارئین کو ایسی ابواب بندی اور فہرست سازی سے ایک ذرا سہولت پیدا ہو جاتی ہے مگر ہمارے عہد کے اس معتبر فکشن نویس کو اپنی حقیقی قصّہ گوئی پر اتنا اعتماد حاصل ہے کہ وہ قاری کو ایک ایسے دریا میں اتار دیتا ہے جہاں بہاؤ اور روانی اپنے آپ منزل تک پہنچا دینے کے لیے مستعد ہیں۔ اسلوبیاتی مشق اور زبان و بیان پر قدرت نے غضنفر کو یہ طویل قصّہ پیش کرنے کے لیے بھی اُکسایا ہوگا اور انھوں نے من ہی من یہ ٹھان لیا ہوگا کہ کون ہے جو ہمارے قصّے کو اسی ترتیب اور اہتمام سے پڑھے بغیر رہ جائے! ہر فن پارے میں اگر مصنف کا امتحان ہوتا ہے تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر مصنف اپنی کتاب میں بار بار اپنے قارئین کا امتحان بھی لیتا رہتا ہے۔ غضنفر نے بھی اس تحریرِ مسلسل کو پیش کرکے پڑھنے والوں کا امتحان لیا ہے اور اپنی فن کاری کے سلسلے سے داد طلب نگاہوں سے دیکھا ہے۔
عام طور سے کچھ خود نوشتیں اپنے چٹخارے کی وجہ سے زیرِ بحث ہو جاتی ہیں۔ تخلیقی فنکار لکھے تو زیبِ داستاں کے نہ جانے کتنے وسائل اسے اپنے آپ میسر آ جاتے ہیں۔ زبان دانی اور تخیّل کے پَروں سے اُڑنا ایک آسان راستہ ہے۔ یہیں حقائق سے گریز اور بیان میں ملمع کاری کا عمل شروع ہو کر ’یادوں کی برات‘ کا طور پیدا ہو جاتا ہے۔ غضنفر نے ناکام خود نوشتوں کے احوال دیکھے تھے، اس لیے اس پوری خود نوشت میں صاف، سادہ اور غیر آرایشی بنیادوں پر زبان اور قصّے کو قایم کیا گیا ہے۔ واقعات کی پیش کش میں نوّے ٖفی صدی سے زیادہ توصیفی اور تعریفی رُخ پیشِ نظر رکھا۔ محض دس فی صد ایسے واقعات ملیں گے جہاں کوئی تنقیدی یا منفی رُخ اپنایا گیا ہے۔ اس میں بھی اجمال زیادہ ہے اور صراحت سے گریز کے آداب بالارادہ سامنے آئے ہیں۔ اس طرح سے یہ خود نوشت اپنی اور دوسروں کی نیکی کا گوشوارہ بھی ہے۔ غضنفر کے خاکوں میں بھی شخصیت کے سلسلے سے تنقیدی پہلو صرف اشارے اور کنایے سے ہی سامنے آتے ہیں۔ کم و پیش یہی رویّہ اس خود نوشت میں بھی موجود ہے۔
غضنفر نے اپنی جو زندگی اس خود نوشت میں پیش کی ہے، وہ بالعموم سادہ ہے۔ ان کے مزاج میں پیچیدگی یوں بھی کم سے کم ہے، اس لیے اس خود نوشت میں پوشیدہ عناصر کے اُدھیڑنے میں ان کی زیادہ توجہ نہیں ہے۔. جب کہ اس کے بر خلاف اشخاص میں ممکن حد تک خوبیوں کا کوئی پہلو تلاش کرلینے کا ایک خاص جذبہ ہے جس سے یہ خودنوشت ایک علاحدہ تہذیبی بنیاد پر خود کو کامیابی کے ساتھ قایم کرتی ہے۔ اس لیے جو اشخاص چٹخارہ تلاش کرکے خود نوشتوں کے ما بہ النزاع بننے دینے کے خوگر ہوتے ہیں، انھیں یہاں مایوسی ہاتھ لگے گی۔ غضنفر نے اپنی شخصیت کی طرح ہی سادہ زبان و بیان میں اپنی خود نوشت کو اس طرح پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامیابی پائی جیسے کسی ناول کے کردار کا ایک سادہ سا مگر طویل بیان انھیں صفحۂ فرطاس پر اُتارنا ہے۔
سید محمد اشرف نے اچھی خودنوشت کی تعریف اس کتاب کے پیشِ لفظ میں اس طرح کی ہے:
”ایک اچھی خود نوشت کا غالباً یہ بھی کمال ہوتا ہے کہ وہ سر تا پا صرف مصنف کے ذکر سے گراں بار نہیں ہوتی بلکہ زندگی کی راہ میں آنے والے تمام انسان اس میں حصّہ پاتے ہیں۔“
واقعتاً یہ خود نوشت اجتماعی زندگی کی تصویروں کے ساتھ اپنا وجود مستحکم کرتی ہے۔ یہ بحث تو بہت پرانی ہے کہ فرد سے سماج ہے یا سماج سے فرد مگر غضنفر نے اپنی خود نوشت میں جس طرح خود کو اور آس پاس کی زندگیوں کو پیش کیا ہے، یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ سماج سے فرد کی شناخت کے مدّعی ہیں۔ ہر چند خود نوشت انفرادی زندگی کا شناخت نامہ ہوتی ہے مگر غضنفر نے خود کو سماجی زندگی اور اجتماعی سر گرمیوں کا ایک حصّہ تصّور کیا اور اسی طور پر اپنی شناخت کے لیے واقعات اور کرداروں کی تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی خودنوشتوں کا دائرۂ کار وسیع تر ہو جاتا ہے کیوں کہ یہاں لکھنے والے میں ایسی کوئی لازمی ضد نہیں ہوتی کہ وہ ہر حال میں خود کو مثالی زندگی قرار دے یا بہ ذاتِ خود ہیرو کی شکل میں ابھر کر سامنے آئے۔ اس کے برخلاف غضنفر کا عمومی طور تو یہ رہا ہے کہ وہ کار زارِ حیات کے سینکڑوں چہروں کو اُن کے افکار و اعمال کے حوالے سے صفحۂ قرطاس پر اتارتے چلیں۔ اس مرحلے میں وہ دانش ورانہ چالاکی بھی ان کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتی جس کے مرتکب بہت سارے آپ بیتی نگار ہوتے رہے ہیں کہ خود سے معتبر افراد کو بالارادہ اپنے سامنے نہیں لایا جائے یا اپنے ہم سر اور ہم عصر سامنے ہوں تو ان کے کرداروں کو کچھ اس طرح سے مسخ کر دیا جائے کہ اپنے آپ صاحبِ تصنیف کی شخصیت قد آور، اور نکلتی ہوئی معلوم ہو۔ غضنفر نے اپنے اساتذہ، ہم جماعت، رفقاے کار اور زندگی کے الگ الگ موڑ پر ملنے والے افراد کو بار بار اور کبھی تفصیل کے ساتھ بھی تذکرے کا حصّہ بنایا ہے مگر مقدور بھر اُن کی یہ کوشش رہی ہے کہ سب کی اسی انداز کی اور حقیقی تصویریں سامنے آئیں جس طرح اصل میں وہ اس خاص موقعے سے ان کے پیشِ نظر رہیں۔
غضنفر نے خودنوشت کا آغاز اپنی مہارتِ قصّہ گوئی کے ساتھ کیا ہے۔ تجسس اور تحیّر کا ایسا مرکب تیّار کیا ہے کہ پڑھنے والا اس کے داخل میں اُترے بغیر رہ نہیں سکتا۔ کمال یہ ہے کہ زندگی کا وہ سچا واقعہ تھا مگر اس میں ایسی افسانویت اپنے آپ موجود رہی ہے کہ کسی رنگ آمیزی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ناول نگار کی حیثیت سے ان کی مہارت بس اسی قدر یہاں کام آ سکتی تھی کہ اپنی داستانِ حیات وہ اسی مقام سے شروع کریں؟ ہر چند کہ وہ فکشن نہیں لکھ رہے تھے مگر انھیں معلوم تھا کہ ان کے خاص پڑھنے والوں کو خودنوشت کے داخل میں اتارنے کے لیے کسی جادو گھر کی سیڑھی چاہیے اور انھوں نے زندگی کے اسی سچے واقعے سے اپنی داستانِ حیات شروع کرکے یہ بتا دیا کہ کوئی مشّاق لکھنے والا اپنے پڑھنے والوں کو کس طرح خاموشی کے ساتھ اپنے نگار خانے کا حصّہ بنا لیتا ہے۔سچی بات تو یہ بھی ہے کہ اس کے بعد انھوں نے کوئی ایسا افسانہ نما واقعہ بھی اس کتاب میں شامل نہیں کیا اور نہ ہی غیر ضروری طور پر پڑھنے والوں کو حقیقت اور افسانوی حقیقت کی پیچیدہ مگر متضاد راہوں میں الجھنے کے لیے مجبورکیا۔ زندگی کی ڈور جہاں سے اُن کی پکڑ میں آ گئی، وہاں سے لے کر اپنی سبک دوشی اور اس کے آس پاس کے واقعات اور حجِ بیت اللہ سے مشرف ہونے تک یہ زندگی اپنے آپ پھیلتی چلی گئی۔
اس خودنوشت میں پڑھے لکھے اشخاص کی ایک بھیڑ جمع ہے۔ علی گڑھ مسلم یونی ور سٹی کے اساتذہ، پرانے طلبا جو بعد میں صفِ اساتذہ میں شامل ہوئے اور علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے بھانت بھانت کے کردار اپنی سچائی اور حقیقی تصویروں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان کے علاوہ ابتدائی اور تشکیلی زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں غضنفر نے اپنے والد اور چچا کے علاوہ چند مقامی چہروں پر توجہ دی ہے۔ والد اور چچا کی زندگی اور ان کے سائے میں غضنفر کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے واقعات قدرے تفصیل سے قلم بند ہوئے ہیں۔ حقیقت میں یہی دونوں اس خودنوشت میں سب سے مفصل جگہ پانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ملازمت کے دوران غضنفر علی گڑھ، سولن (ہماچل پردیش)، لکھنؤ، پٹیالہ، میسور اور دہلی جیسے شہروں میں مختصر اور طویل مدّت تک قیام پذیر رہے۔ ان اداروں اور شہروں سے متعلق افراد کے احوال بھی حسبِ ضرورت اختصار اور تفصیل کے ساتھ درج کیے گئے ہیں۔ ہر جگہ ادیبوں، شاعروں اورادبی جلسوں کے معاملات سامنے آ جاتے ہیں۔ غضنفر کا زیادہ اٹھنا بیٹھنا بھی اسی جمیعتِ انسانی کے بیچ رہا ہے۔ اس لیے یہ طبقہ اس خودنوشت میں چھایا ہوا ہے۔ تھوڑے بہت ایسے کردار یہاں موجود ہیں جو دوسرے شعبۂ حیات سے تعلق رکھتے ہیں ورنہ نوّے فی صدی سے زیادہ افراد تعلیمی اور بالخصوص ادبی رشتے سے اس کتاب کا حصّہ بنے ہیں۔
غضنفر افسانہ نگار اور ناول نگار تو ہیں ہی مگر وہ باضابطہ طور پر خاکہ نگار بھی ہیں۔ ’سرخ رو‘، ’روئے خوش رنگ‘ اور’خوش رنگ چہرے‘ نام سے ان کے خاکوں کے تین مجموعے اب تک شایع ہو چکے ہیں۔ اس فن میں مہارت کا استعمال وہ اشخاص کو پیش کرتے ہوئے جگہ جگہ بڑے سلیقے سے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نسیم عالم، نسیم قریشی، نادر علی خاں، شہریار، سعیدالدین مینائی، سید محمد امین، محمد زاہد، رشید قریشی، جاوید حبیب، کرنل یونس، خورشید احمد، طارق چھتاری، شافع قدوائی، محمد جمال، شکیب نیازی، محسن خاں وغیرہ کا مختلف شہروں اور ملازمتوں کے سلسلے سے غضنفر نے جس طرح تفصیلی تذکرہ کیا ہے اور ان کے پُر اثر مرقعے جس اہتمام سے روشن ہوئے ہیں، یہ اس وقت تک ممکن نہیں تھا اگر لکھنے والے کے پاس خاکہ نگاری اور ناول نویسی دونوں کے حربے ایک ساتھ نہ میسر آئے ہوتے۔ یہ مرقعے نہ صرف یہ کہ دل چسپ ہیں بلکہ ان کی رنگا رنگ کیفیتوں سے غضنفر کی ایک بھر پور شخصیت ہمارے سامنے آتی ہے۔ ان کی وجہ سے یہ خود نوشت حقیقتاً ایسے کارخانۂ قدرت میں تبدیل ہو گئی ہے جہاں زندہ عجائب گھر کا بھی گمان ہوتا ہے۔ ان اشخاص میں سے بہت سارے آج ہمارے بیچ موجود ہیں، کچھ ماضی قریب میں ہم سے بچھڑ گئے، کچھ خوش و خرم ملتے ہیں اور کچھ صبر آزمائی کی چکی میں پِس کر نہ جانے کہاں بکھر گئے۔ کچھ تو ایسے ہیں جو اقبال کے لفظوں میں ’درد و داغ و جستجوو آرزو‘ کا پیکر معلوم ہوتے ہیں۔ ان مرقعوں کو جس انداز سے پیش کیا گیا ہے، اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ غضنفر اشخاص کو اُن کی پیچ در پیچ کیفیتوں کے ساتھ اور ان کی تمام تر رنگا رنگیوں کے باوصف اپنی خود نوشت اور اپنی زندگی کے دائرۂ کار کو توسیع دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
غضنفر نے اس خودنوشت میں خود کو سماجی یا سیاسی مفکّر یا دانشور کے طور پر ابھرنے کے لیے کوئی موقع نہیں تلاش کیا۔ ان کے ناول’دوبہ بانی‘، ’فسوں‘، ’شوراب‘، ’مانجھی‘ اور’وش منتھن‘ وغیرہ میں ملک اور دنیا کے بارے میں سلجھے ہوئے اَفکار پیش کیے گئے ہیں۔ان کے بعض افسانوں میں بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کو بہ غور ملاحظہ کرتے ہیں۔ خود نوشت لکھتے ہوئے شاید انھیں اس کا احساس بھی نہ ہوا ہو کہ اس موقعے سے انھیں اپنے فلسفۂ زندگی اور حیات و کائنات کے نظریات پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے۔ اکثرخود نوشتوں میں اشخاص اور مقامات خصوصی توجہ کے حق دار ہوتے ہیں۔ مگر اتنے بڑے تخلیقی فن کار سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ سوا تین سو صفحات کی کتاب لکھتے ہوئے وہ اپنے کھُلے افکار اور زمانے کے سلسلے سے واضح نتایج کا اظہار نہ کرے۔ علی گڑھ مسلم یونی ور سٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز، میسور کے تعلیمی اور انتظامی ڈھانچے کے بارے میں جگہ بہ جگہ غضنفر نے جو مشاہدات درج کیے ہیں، ان کے احتسابی رویے اور نظامِ تعلیم کے بارے میں سمجھی ہوئی فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تقرری کے طور طریقے اور پیچ و خم کو بھی انھوں نے مختلف جگہوں پر واضح کرنے میں کامیابی پائی ہے۔ حق داروں کی حق تلفی اور نقلی امیدواروں کی پشت پناہی پر انھوں نے ماتم بھی کیا ہے۔ تعلیم، تحقیق اور تدریس کے ساتھ ساتھ عمومی ماحول اور اخلاقی صورتِ حال کی پامالی پر غضنفر غم زدہ دکھائی دیتے ہیں۔ علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دونوں اداروں کے افراد کے معیارِ اخلاق پر جہاں جہاں انھوں نے سوالیہ نشانات لگائے ہیں، وہ مقامِ فکر ہیں اور ان کے تدارک کے بغیر ہمارے ادارے منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ غضنفر نے اپنی خودنوشت میں ایسے اشارے تلخی سے کم اور سوزِانسانی اور درد مندی کے ساتھ زیادہ پیش کیے ہیں۔ علی گڑھ، لکھنؤ، ہماچل پردیش، پٹیالہ اور دہلی کے ساتھ ساتھ بہار کے افراد کی جو تحلیلِ نفسی ان کی اس خود نوشت میں موجود ہے، اسے اس بات کے ثبوت کے لیے پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ غضنفر کس طرح مدبرانہ اور دانش ورانہ انداز سے اپنے عہد اور اس کی بدلتی ہوئی زندگی کا محاسبہ کرتے ہیں۔
غضنفر ایک کثیر التصانیف فن کار ہیں اور ہمہ دم مصروفِ تصنیف نظر آتے ہیں۔ گذشتہ تیس برسوں کا حساب بٹھایئے تو ہر برس ایک کتاب کا تناسب قایم ہوتا ہے۔ غیر مطبوعہ اور زیرِ ترتیب کتابیں اس سے الگ ہیں۔نثر و نظم کی اکثر معتبر صنفوں میں انھوں نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ شاعری کی اصطلاح کا پورے ادب پر اطلاق کریں تو انھیں مکمل طور پر قادر الکلام کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ ان کی شہرت اور قبولِ عام کے تعلق سے پورے اردو معاشرے میں ایک ہموار رائے ہے اور معاصر ناول نگاروں میں انھیں صفِ اوّل میں شامل کیا جاتا ہے مگر ان کی زبان اور اسلوب کے حوالے سے وہ سنجیدہ اور موزوں گفتگو شروع نہیں ہوئی ہے جس کا انھیں حق پہنچتا تھا۔ معاصر ناول نگاروں میں حسین الحق اور سیّد محمد اشرف کے یہاں اسلوبیاتی قمقمے آزادہ روی سے روشن نظر آتے ہیں مگر اسلوبیاتی رنگا رنگیوں اور بیان کے بو قلموں ذایقوں کے لیے ہمارے عہد میں غضنفر سے بڑھ کر شاید ہی کوئی ہم عصر نثر نگار سامنے آ سکتا ہے۔
سادہ اور بے لوث نثر تو بنیاد کی اینٹ ہے ہی مگر استعاراتی زبان، شاعرانہ لطف و انبساط سے لیس زبان، مفکّرانہ اور مدبّرانہ اسلوب، طنزیہ وہ ظریفانہ بیانیہ اور علمی و تنقیدی کون سی ایسی نثر ہے جس کے نمونے مختلف واقعات کے بیان میں حسبِ ضرورت غضنفر نے اس خود نوشت میں پیوست نہیں کر رکھا ہو۔ یہ درست ہے کہ آج محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی یا ابوالکلام آزاد جیسی زبان لکھنے والے کہاں سے لائے جائیں مگر ہمارے عہد میں غضنفر واحد ایسے نثر نگار ہیں جو اردو نثر کے اصحابِ گذشتہ کو اپنے مزاج میں انگیز کرتے ہوئے ساحرانہ اسلوبِ بیان وضع کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ اس خود نوشت میں ان کی اسلوبیاتی رنگا رنگی کے نقش کہیں واضح اور کہیں مدھم دیکھے جا سکتے ہیں۔ سیّد محمد اشرف نے ان کے ہم قافیہ اور ہم معنی فقروں کی داد دے کر پڑھنے والوں کو غضنفر کی نثر کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں توجہ کرنے کا ایک شعور فراہم کیا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ ”دیکھ لی دنیاہم نے“ کے مطالعے کے بعد ناقدین غضنفر کے اس اسلوبیاتی نگار خانے میں نہ صرف یہ کہ لطف حاصل کرنے کے لیے اُتریں گے بلکہ یہاں سے روشنی لے کر ان کے ناولوں، خاکوں اور دوسری تنقیدی کتابوں کے امتیازی پہلوؤں تک پہنچیں گے اور تب انھیں یہ پتا چل سکے گا کہ ہمارے عہد میں ایک صاحبِ اسلوب اور ایک کامل انشا پرداز تھا مگر ہم نے اسے صرف ناول نگار یا نقّاد یا شاعر سمجھا اور اس کے نگار خانے سے سرسری گزر گئے حالاں کہ وہیں ایک جہانِ دیگر موجود تھا۔ غضنفر کی یہ خود نوشت موجودہ عہد کی ایک قابلِ ذکر، قابلِ مطالعہ اور زندگی بہ داماں کتاب ہے جس کے مطالعے سے بہت کچھ پایا جا سکتا ہے۔ یہ خود نوشت کے ساتھ ساتھ خاکہ نگاری اور قصّہ نویسی کے اوصاف سے مستحکم ہوئی آپ بیتی ہے، اس لیے دوسری خود نوشتوں سے یہ مختلف اور زیادہ قابلِ توجہ کتاب ثابت ہوگی۔

کتاب کا نام: دیکھ لی دنیا ہم نے [خودنوشت] 
مصنّف: غضنفر
صفحات: ٣٣٦
قیمت: ٣٥٠ روپے
سالِ اشاعت: ٢٠٢١
ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی
مبصّر: صفدر امام قادری، پٹنہ
Safdar Imam Quadri,
Department of Urdu, College of Commerce, Arts and Science, Patna: 800020, Bihar
Mob: 9430466321, Email: safdarimamquadri@gmail.com

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : علی گڑھ تحریک اور سرسید کا علمی کارنامہ از صفدر امام قادری 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے