پولیس تحویل  میں موت، پولیس کی جواب دہی طے ہونی چاہئے!

پولیس تحویل میں موت، پولیس کی جواب دہی طے ہونی چاہئے!

✒️سرفراز احمدقاسمی، حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186

پولیس کاقیام اسی لیے عمل میں لایا گیا ہے کہ وہ عام لوگوں تک انصاف رسانی کو یقینی بنائے، سماج سے جرائم و حادثات کے خاتمہ کےلئے سنجیدہ اقدام کرے اور امن وامان قائم کرے، اپنے فرائض بغیر کسی جانب داری کے انجام دے،لیکن حالات و واقعات یہ بتاتے ہیں کہ اپنے ملک بھارت کی پولیس اب اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ایک خاص طبقے کے خلاف کام کررہی ہے، شاید اسی وجہ سے کبھی کبھی عدالت میں ان کے خلاف ریمارکس اورتبصرے بھی کئے جاتے ہیں، گذشتہ چند ہفتے قبل سپریم کورٹ نے یہ کہا تھا کہ”ملک میں تشویشناک رجحان بن گیاہے کہ پولیس عہدے دار، حکمراں پارٹی کے طرف دار بنتے جارہے ہیں، یہ ایک ایسا ریمارک ہے جوملکی صورت حال کی سنگینی اور حقیقت کو ظاہر کرتاہے، عدالت عظمیٰ کے اس تبصرے سے ملک کے عوام کی اکثریت کا اتفاق ہے، پورے ملک میں اکثر و بیشتر ایسے احوال پیش آرہے ہیں جن سے لگتاہے کہ ہر ریاست میں مرکزی سطح پر حکومتوں کی جانب سے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے اور انھیں ہراساں کرنے کےلیے پولیس اور تحقیاتی ایجنسیوں کو استعمال کیا جارہا ہے، ان ایجنسیوں کے ساتھ پولیس فورس کے عہدے دار بھی برسراقتدار پارٹی کی کٹھ پتلی بن گئے ہیں، ان کے اشاروں پر کام کرتے ہوئے حکومت کے پسندیدہ افراد میں شامل ہورہے ہیں، اس کے لے وہ اپنے عہدوں، وقار اور غیر جانب داری کو بھی داؤ پر لگارہے ہیں، اس طرح کے رجحان کا ہی نتیجہ ہے کہ عوام میں پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں پر سے اعتماد ختم ہوتا جارہاہے، لوگ قانونی کارروائیوں پر شبہات کا اظہار کرنے لگے ہیں، پولیس کا انداز اوران کے طور طریقے سے یہ واضح ہے کہ بھارت کی پولیس بھی مسلم دشمنی کی راہ پر گامزن ہے، حکومت تو مسلم مخالف ہے ہی لیکن اس کے ساتھ میڈیا اور محکمہ پولیس نے بھی اب اسی راہ کو اختیار کرلیاہے، عوام کو انصاف رسانی کی ذمہ داری اور فریضہ سے تغافل برتاجارہاہے، حقیقی ملزمین اور خاطی کئی واقعات میں کھلے عام گھوم رہے ہیں، مہینوں گذرجانے کے بعد ان پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے، اس کے برخلاف جوبے گناہ اور معصوم ہیں انھیں مقدمات میں ماخوذ کرتے ہوئے سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہاہے، اس طرح ملک میں انصاف، انصاف رسانی کے تقاضوں کاقتل ہورہاہے، اس کے نتیجے میں ملک میں قانون کی بالادستی بھی مشکوک ہورہی ہے اورعوام کا بھروسہ بھی ختم ہو رہاہے، آپ جانتے ہیں کہ اگر ملک میں یہ چیزیں عام ہوجائیں گی اور ملک کے اہم اداروں سے عوام کا اعتماد ختم یا مشکوک ہوجائے تو پھر ملک میں کیا ہوگا؟ اگسٹ کے پہلے ہفتے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنانے کہاتھاکہ”پولس کو اپنا رویہ ٹھیک کرناہوگا، اس کی شبیہ لوگوں میں اچھی نہیں ہے تھانہ (پولیس اسٹیشن) انسانی حقوق اور انسانی احترام کےلئے سب سے بڑا خطرہ ہے،لیگل سروسز اتھارٹی کے موبائل ایپ کے اجراء کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ”انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جسمانی تشدد کا سب سے زیادہ خطرہ تھانوں میں ہوتاہے، وہاں گرفتار یا حراست میں لیے گئے افراد کو مؤثر قانونی امداد نہیں مل پارہی ہے، جب کہ اس کی اشد ضرورت ہے، ملک بھر کے پولیس اسٹیشن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس رمنا نے کہا تھا کہ حراستی تشدد سمیت پولیس کے دیگر مظالم وہ مسائل ہیں جو اب بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، آئینی التزامات اور ضمانتوں کے باوجود گرفتار یا حراست میں لیے گئے افراد کومؤثرقانونی مدد نہیں مل پاتی ہے، جو ان کےلیے بہت نقصاندہ ثابت ہوتاہے، ان کا کہناتھاکہ ملک کا پس ماندہ طبقہ نظام عدل کے دائرے سے باہر ہے، اگر عدلیہ کو غریب اور پس ماندہ طبقے کا اعتماد جیتنا ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ان کےلیے آسانی سے دستیاب ہے، لوگوں کو قانونی مدد کے آئینی حق اور پولیس کے مظالم کو روکنے کےلئے مفت قانونی امداد کی فراہمی کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کےلیے وسیع تشہیر ضروری ہے، آئینی ضمانت کے بعد بھی پولیس اسٹیشن میں گرفتار لوگوں کے تئیں قانون کے صحیح استعمال کی کمی دکھائی دیتی ہے، جولوگ گرفتار کئے جاتےہیں یاحراست میں لیے جاتےہیں ان کے تئیں قانون کی نمائندگی کی کمی نظرآتی ہے، جو انھیں نقصان پہنچاتی ہے، پولیس کے ظلم وزیادتی کو روکنے اوراس پر نظر رکھنے کےلیے لوگوں کو ان کے آئینی حقوق اور مفت قانونی مددکے بارے میں معلومات فراہم کرنا بے حدضروری ہے، ملک گیر سطح پر پولیس کو حساس بنانے کےلیے کام کرنا ہوگا، انصاف کی فراہمی کےلیے کمزور طبقہ اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کے درمیان کا فرق ختم کرنا ہوگا، انھوں نے مزید کہاکہ بہت سی رپورٹوں سے پتہ چلتاہے کہ خصوصی اختیار کے حامل لوگوں کوبھی نہیں بخشاجاتا، انھیں بھی ٹھرڈ ڈگری ٹریٹمنٹ کا سامنا کرنا پڑتاہے. "
یہ تو چیف جسٹس آف انڈیا کا بیان ہے،ایک دودن قبل ملک بھرکی جیلوں اورقیدیوں سے متعلق اعداد وشمار جاری کئے گئے ہیں، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ:
مرکزی حکومت کے ماتحت چلنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی جانب سے بھارت کی جیلوں میں بند قیدیوں سے منسلک اعداد و شمار جاری ہوچکے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کی جیلوں میں کس مذہب کے کتنے قیدی بند ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندستان کی جیلوں میں آبادی کے تناسب سے ہندو قیدی سب سے کم ہیں تو سکھ، عیسائی اور مسلمان قیدی سب سے زیادہ ہیں۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ ہندستان میں 10 لاکھ کی آبادی پر اوسطا 346 قیدی ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے اس بارے میں اعداد و شمار گذشتہ دنوں جاری کیے۔مگر دس لاکھ کی آبادی پر ہندو قیدیوں کی تعداد 305، سکھ قیدیوں کی تعداد840، عیسائی قیدیوں کی تعداد601 اور مسلمان قیدیوں کا تناسب477 ہے۔زیرالتوا قیدی فی 10 لاکھ آبادی پرہندو 204 یعنی 70 فی صد، مسلمان فی 10 لاکھ پر 346 یعنی 21فی صد، عیسائی فی 10 لاکھ آبادی پر 397 یعنی 4 فی صد ہیں جب کہ سزا یافتہ قیدیوں میں ہندو 92 فی صد، مسلمان 16فی صد،عیسائی 4فیصد اور سکھ 6 فی صد ہیں۔"
یہ ایک اخباری رپورٹ ہے، اس رپورٹ سے کم ازکم آپ نے یہ اندازہ تو کرلیا ہوگاکہ ملک بھر کی جیلیں سکھ، عیسائی اورمسلمانوں سے بھری پڑی ہیں، اور بے شمار مسلم نوجوانوں کی زندگیاں جیل میں برباد کی جارہی ہیں. اب سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگیاں بربادکرنے کا ذمہ دارکون ہے؟اور یہ سب کس کے حکم پر ہورہاہے؟ ملک بھر میں کہیں بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے، فوری اس کا تعلق کسی مسلمان سے جوڑ دیا جاتاہے، اور پھر مسلم نوجوانوں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کےلیے اپنی جوانی کے قیمتی لمحات صرف کرنے پڑتے ہیں، برسوں انھیں جیل میں زندگی گذارتے ہوئے انتظار کرنا پڑتاہے. اس درمیان اگرپولیس کوثبوت نہ مل سکا تو پھر اس کا انکاؤنٹر بھی کر دیاجاتاہے اورپھر پولیس خودکشی کی فرضی اورمن گھڑت کہانی گڑھ کر پیش کردیتی ہے، ملک کاقانون اس خاطی اور مجرم پولیس کو کوئی سزا سنانے سے عاجز رہتاہے، کیونکہ دستور کے دفعہ 197 کے تحت اسے تحفظ حاصل ہے، بعض ریاستوں میں توحکومت کی جانب سے پولیس انکاؤنٹر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، 2015 میں تلنگانہ کے آلیر انکاؤنٹر میں پانچ مسلم تعلیم یافتہ نوجوان کو کورٹ لاتے ہوئے راستے میں پولیس نے انکاؤنٹر کرکے بندوق ان کے گلے میں ڈال دیاتھا، اس کے بعد تلنگانہ کے وزیراعلی کے سی آرنے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھاکہ اس معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ کومنظر عام پر لائیں گے لیکن رپورٹ تو اب تک منظرِ عام پر نہیں آئی اور نہ ہی مظلوموں کو اب تک انصاف مل سکا. البتہ اس کیس میں شامل کئی پولیس عہدے دار کو ترقی ضرور دے دی گئی، ملک کا مین اسٹریم میڈیا جس طرح سے گودی میڈیا،پالتو میڈیا اورزرخریدمیڈیا کا کردار اداکرتے ہوئے حکمراں پارٹی کے ساتھ پیس کا رول اداکررہاہے اور مودی حکومت کی جس طرح قصیدہ خوانی کررہا ہے اوراپنی صحافتی ذمہ داری سے جس طرح روگردانی کررہاہے یہ تو افسوسناک ہے ہی، ایسے میں گنے چنے چند حق گو اورذمہ دار اخبارات، انصاف پسند صحافیوں کو ابھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہے،یوپی کے ضلع کاس گنج میں گذشتہ دنوں ایک 22 سالہ مسلم نوجوان الطاف کی پولیس حراست میں موت کو گودی میڈیا نے خودکشی قرار دے کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن چند حق گو صحافیوں نے اس کی جوحقیقت سامنے لائی اس نے پولس کے دعووں پر درجنوں سوالات کھڑے کردیے، مرحوم الطاف کو ایک لڑکی کے غائب ہونے، اس کی جانب سے اغوا کرنے یا بھگا لے جانے کے الزام میں پوچھ تاچھ کےلئے پولیس اسٹیشن طلب کیاگیاتھا، الطاف کے والد جو ایک غریب اورمزدور آدمی ہیں انھوں نے خود سے اپنے بیٹے کو پولیس کے حوالے کیاتھا، اس امیدکے ساتھ کہ پوچھ تاچھ کے بعد پولیس اسے واپس بھیج دے گی،لیکن وہ گھر واپس نہیں لوٹا،دوسرے دن پولیس نے اس کی خود کشی کی اطلاع دی اور خودکشی کے بارے میں جو بناوٹی کہانی پیش کی اس پر یقین کرنا ممکن نہیں، پولیس کی کہانی میں باتھ روم کی جس پلاسٹک کی پائپ لائن اورٹونٹی سے لٹک کرخودکشی کرنے کاجواز پیش کیا گیاہے، وہ زمین سے صرف دو ڈھائی فٹ کی اونچائی پر ہے، جب کہ الطاف کا قد تقریباً ساڑھے پانچ فٹ تھا،اب آپ اندازہ لگائیے کہ پولیس کی اس بناوٹی کہانی میں کتناسچ ہے؟ سوشل میڈیا اوراخبارات میں پولیس کی اس فرضی کہانی پرہنگامہ آرائی کے بعد تھانہ انچارج اور ڈیوٹی پر موجود پانچ دیگر پولیس والوں کو معطل کردیاگیا، جو یوپی پولیس عام طور پر ہمیشہ کرتی رہی ہے، کچھ عرصہ بعد معطل شدہ پولیس والوں کی بحالی ہوجاتی ہے اور انھیں کسی اور تھانے میں ٹرانسفر کردیاجاتاہے، فروری،مارچ 2022 میں یوپی میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں، چیف منسٹر یوگی جی سینہ تان کر اپنی ریاست کی پولیس کارکردگی کی ستائش کرتے ہیں،وزیراعظم مودی نے بھی یوپی میں لا اینڈ آرڈر کی بہترین صورت حال کی گذشتہ دنوں تعریف کی ہے،اب وہی بہتر جانتے ہیں کہ الطاف کے خودکشی کی جوکہانی ان کی پولیس نے بنائی ہے،کیا یہی یا اس طرح کی دیگر کارروائیاں ہیں جس کےلیے وہ اپنی پولیس کی ستائش کرتےہیں،اور یوں بھی الطاف کا کیس کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے جس میں تھانہ میں پولیس کی تھرڈ ڈگری سے ہونے والی موت کو خودکشی قرار دیا گیاہو، کچھ عرصہ قبل اسی اترپردیش کے اناؤ ضلع کے بانگر مئو میں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران ترکاری کی بنڈی لگانے کے الزام میں 18سالہ مسلم نوجوان فیصل کوتھانے لےگئی تھی اوربعد میں اس کے گھر والوں کو فیصل کی لاش ملی تھی،جس کے بعد دو پولیس اہلکار سسپینڈ کردیئے گئے تھے،سوال یہ ہے کہ صرف اتنا کردینے سے مظلوموں کوانصاف مل جائے گا؟ آخر پولیس کی ذمہ داری کیوں طے نہیں کی جاتی؟ کیوں ایسے خاطی پولیس کے خلاف عدالت میں مقدمہ قائم نہیں کیاجاتا ؟ اورانھیں جیل نہیں بھیجا جاتا؟کیا صرف معطل کردینے سے لوگوں کو انصاف مل جائے گا؟ اور پولیس کی شبیہ بہتر ہوجائے گی؟ پولیس زیر حراست اموات کے اعداد و شمار تشویشناک ہیں،نیشنل کمیشن برائے حقوقِ انسانی کے مطابق سال 19-2018 کے دوران پولیس تحویل میں 12اموات جب کہ اسی دوران عدالتی حراست میں 452افراد کی موت واقع ہوئی تھی، اسی طرح 20-2019 میں پولیس حراست کےدوران 3 اور عدالتی تحویل میں 400 سے زائد افراد، فوت ہوئے، اسی طرح 21-2020 میں پولیس حراست میں8 اورعدالتی تحویل میں 443 افراد کی موت ہوئی، اور اس معاملے میں یعنی پولیس کسٹڈی میں ہوئی اموات کے معاملے میں یوپی پولیس سرفہرست ہے، تین سال کے دوران یوپی پولیس کی زیر حراست 1318 لوگوں کی موت واقع ہوئی،یوپی کے یہ اعداد و شمار پورے ملک میں ہونے والی اموات کا 23فی صد ہیں،جب کہ پورے ملک میں کل5569 افرادکی موت دوران حراست ہوئی،پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں مرکزی وزیرداخلہ نے بتایاکہ گذشتہ تین سالوں(2018 سے 2021) کے دوران پولیس حراست میں 348 افراد کی موت ہوئی ہے،جب کہ 1189معاملات پولیس ٹارچر کے ہیں، ملک میں ٹارچر کے خلاف کام کرنے والی ایک اہم نیشنل کیمپین اگینسٹ ٹارچر (این سی اے ٹی) کی ٹارچر پر سالانہ رپورٹ کے مطابق 2020 میں یعنی ایک سال میں 111 افراد دوران حراست اموات ہوئی.
اوپر یوپی پولیس کی کارکردگی کوآپ نے ملاحظہ کیا، اس کارکردگی پر چیف منسٹر،مسٹر یوگی اپنی ریاست کی پولیس کو شاباشی دیتے ہیں اورپیٹھ تھپتھپاتے ہیں، اس سے آپ سمجھ سکتےہیں کہ دستور میں دیے گئے بنیادی حقوقِ انسانی کا کس طرح مذاق اڑایاجارہاہے؟ دستور ہند کا آرٹیکل 21 تمام شہریوں کوزندگی کا حق دیتاہے،جس کا مطلب ہے کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دستور و قانون کا نظام قائم کرے، جہاں کسی بھی شہری کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو،نیز ہرشہری انسانی اقدار و احترام کے ساتھ زندگی گذارنے کا حق رکھتاہو، یہ حق بنیادی حق یاانسانی حقوق کا سب سے اہم حق تسلیم کیاجاتاہے، کچھ دنوں قبل سپریم کورٹ آف انڈیا نے سنیل بترا بنام دہلی انتظامیہ کے کیس میں ایک تاریخی فیصلہ تحریر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "قیدی بھی انسان ہیں اورحراست کے دوران ان کے بنیادی حقوق ختم نہیں کیے جاسکتے" بی بی سی نے کئی سال قبل پولیس کے ظلم وزیادتی پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی تھی ذرا آپ بھی یہ رپورٹ پڑھیے اور دیکھئے یہ رپورٹ کیا کہتی ہے؟
"انڈیا، پولیس تحویل میں ٹارچر عام ہے،بھارت اس وقت ایک عالمی طاقت کے روپ میں سر ابھارنے کی کوشش میں ہے اور معاشی ترقی میں بھی اس کے گن گائے جا رہے ہیں لیکن انسانی حقوق کے سلسلے میں اس کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور ٹارچر یعنی پولیس حراست میں ایذا رسانی کے حوالے سے اس کا نام سب سے اوپر مانا جاتا ہے، ٹارچر کے خلاف کام کرنے والے ایک ادارے ساؤتھ ایشین ہیومن رائٹس ڈاکومینٹشن کے ڈائریکٹر روی نائر کہتے ہیں کہ بھارتی سماج میں پولیس کی ایذا رسانی کو برا نہیں مانا جاتا ہے۔’چاہے کوئی پاکٹ مار ہو یا بڑا مجرم تشدد عام بات ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘ایک بار تشدد کا ایک معاملہ ہم ایک سابق وزیر اعظم کے پاس لےگئے تاکہ ان کی مدد لی جا سکے لیکن جب میں نے ان سے مدد کی بات کہی تو ان کا جواب تھا کہ پولیس کسٹڈی میں آؤ بھگت تو ہوتی نہیں اور نا ہی پوجا کی جاتی ہے وہاں تو مجرموں کو ایذائیں ہی دی جاتی ہیں۔ ذرا سوچیے اگر ٹارچر کے متعلق کسی ملک کے وزیراعظم کا یہ تصور ہو تو پھر اس میں کمی آئیگی یا بڑھاوا ملےگا؟انسانی حقوق کے کارکن گوتم نو لکھا پولیس حراست میں ٹارچر کی وجہ بتاتے ہیں کہ ‘بھارت میں ٹارچر کوئی نئی بات نہیں لیکن پچھلے کچھ برسوں میں دہشت گردی کے نام پر اس میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پہلے یہ سکھوں کے خلاف زیادہ ہوتا تھا اور پھر کشمیر میں جہاں کم سے کم ساٹھ ہزار افراد کو ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آج کل دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو خاص طور پر اور ماؤنوازوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، بھارت میں دہشت گردی کے نام پر حالیہ برسوں میں پولیس اور سکیورٹی ایجنسیز نے سینکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو حراست میں لیا اور پھر تفتیش کے نام پر ان کے ساتھ جو سلوک ہوا اس پر کئی حلقوں کی طرف سے سخت نکتہ چینی ہوئی۔
ریاست آندھرا پردیش کی حکومت نے خود یہ بات تسلیم کی ہے کہ پولیس نے ایسے بہت سے افراد پر تشدد کیا ہے۔ انہی میں سے ایک شخص عبدالواجد اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ‘گوکل چاٹ اور لمبنی پارک میں دھماکہ کے دوسرے روز مجھے پولیس نے اس وقت پکڑا جب میں کام پر جا رہا تھا۔ مجھ پر برقعہ ڈال دیا اور پتہ نہیں کہاں لے گئے۔ میرے سارے کپڑے اتار دیے، شروع میں مجھے اتنا مارا کہ میری چیخ بھی نکلنی بند ہوگئی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ قبول دے کہ تونے ہی دھماکے کیے ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ یہ ایسے نہیں مانےگا۔ اس کے بعد انھوں نے میرے نازک مقامات بجلی کے جھٹکے دیے اور یہ حال کر دیا کہ جھٹکوں کے گہرے نشان اب تک موجود ہیں۔ وہ مجھے الٹا لٹکا دیتے تھے اور آنکھوں اور کان کے پاس چنگاری مارتے تھے۔ مجھے پیشاب کی جگہ خون آ رہا تھا اور جب بہت تکلیف ہوئی تو میں نے انھیں بتایا کہ خون کر رہا ہوں تو پولیس نے مجھ سے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں آخر میں تمہارا انکاؤنٹر کردیا جائے گا۔ میں نے بڑی منت سماجت کی کہ میرے والد نہیں اور میں تنہا گھر میں کمانے والا ہوں لیکن کسی نے نہیں سنا اور آٹھ روز تک میرے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا۔
چند ماہ بعد پولیس نے عبد الواجد کو بے قصور بتاکر چھوڑ دیاتھا اور اب وہ پھر سے اپنی روزی روٹی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل کولن گونزلوز کے مطابق کوئی بھی شخص اگر سکیورٹی فورسز کے ہاتھ لگ گیا تو پھر وہ کوئی بھی ہو ان کی کسٹڈی میں وہ اذیتوں سے بچ نہیں سکتا۔ ‘میں آپ کو بتاتا ہوں کہ منی پور میں ایک سیشن جج نے ایک ناگا لڑکے کو ضمانت دیے دی تھی۔ اس علاقے کے بریگیڈئر نے اس جج کو اٹھایا اور اسے آسام رائفل کے کمپاؤنڈ لے جاکر اس کی شرم گاہ میں الیکٹرک شاکز دیے۔ تو اگر فوج سٹنگ جج کے ساتھ یہ سلوک کر سکتی ہے تو عام آدمی کے ساتھ تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں.
سپریم کورٹ کی معروف وکیل ورندا گرور کہتی ہیں کہ حکومتی ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں جرائم بڑھ رہے ہیں اور پولیس کو اس پر قابو پانے کے لیے پوری چھوٹ ملنی چاہیے اس لیے ان کے اس رویے پر انگلی تک نہیں اٹھائی جاتی۔ ‘ہمارے یہاں تفتیش اور پولیس کارروائی کا مطلب مار پٹائی اور بےجا تشدد ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوتا۔ امریکہ نے ابو غریب میں جو کچھ کیا اسے پوری دنیا جان گئی لیکن بھارت میں تو یہ ہر روز ہورہا ہے۔
روی نائر کے مطابق پولیس کا کام تفتیش ہوتا ہے لیکن اسے اس کے لیے تربیت نہیں دی جاتی اس لیے بھی پولیس ایسی حرکتیں کرتی ہیں۔’ فورنسک تفتیش کے لیے پولیس کی تربیت کا انتظام نہیں ہے۔ انھیں صرف یہ آتا ہے کہ کیسے وہ زیادہ سے زیادہ ایذائیں دیں تا کہ پتہ نہ چلنے پائے۔
بھارت میں انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سال دوہزار چار پانچ میں 1493 افراد ٹارچر کے سبب ہلاک ہوئے جن میں سے ایک سو چھتیس پولیس کسٹڈی میں اور تیرہ سو ستاون عدالتی تحویل میں مرے۔ یعنی ہر روز کم سے کم تین لوگ پولیس کی ذیادتی کے سبب ہلاک ہوئے جب کہ نشانہ کتنے بنے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ لیکن اس بارے میں پولیس کے خلاف کارروائی براے نام ہی ہوئی ہے.
غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں پولیس تحویل میں ایذارسانی کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ سماجی کار کن گوتم نو لکھا کہتے ہیں۔’ایسا لگتا ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر سکیورٹی ایجنسیز کو کچھ بھی کرنے کی چھوٹ حاصل ہے۔ اگر لوگ مر بھی جائیں تو کسی کو کوئی پرواہ نہیں، آپ عدالت، حکومت، پولیس اور انتظامیہ کو عرضیاں دیتے رہیے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے.
ایذا رسانی کا عمل پولیس کے لاک اپ میں تو عام بات ہے لیکن بعض حساس علاقے جیسے کشمیر، آسام اور منی پور میں اس کا رواج کچھ زیادہ ہی ہے اور ماہرین کے مطابق پولیس اس میں بھی جانب داری سے کام لیتی ہے اور خاص برداریوں کو ہی نشانہ بنایاجاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل کولن گونزالوز کہتے ہیں۔ ‘پولیس میں عام طور پر مسلمانوں کو دہش تگرد مانا جاتا ہے اور جب بھی کچھ ہو وہی پکڑے جاتے ہیں۔ اس کے خلاف کوئی آواز بھی نہیں اٹھاتا کیونکہ پھر پولیس اس کی فیلمی کو نشانہ بناتی ہے۔
چنانچہ دھماکہ چاہے مسجد میں ہو یا پھر مندر میں سب سے پہلے شبہ میں آتے ہیں مسلم نوجوان۔ مکہ مسجد میں دھماکے کے بعد بی ٹیک کے ایک طالب علم عمران کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ خود بتاتے ہیں، مسجد میں دھماکے کے چند روز بعد پولیس نے مجھے اٹھا لیا تب سے آج تک میں پولیس کا ستایا ہوا ہوں۔ ان کی حراست میں ہاں بولوں یا نہ بس وہ مارتے تھے۔ مجھے ایسی ایسی جگہ شاٹس دیے تھے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا، میرے عضو تناسل میں پانی کی بوتل لٹکا دیتے تھے جس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ رات رات بھر سونے نہیں دیتے تھے بس یوں سمجھو کہ مجھے بالکل پاگل کردیا تھا۔ وہ بولتے کہ مسجد میں بلاسٹ کیا تھا اور جب میں کہتا کہ نہیں تو بس تشدد اورمار پٹائی شروع، آخر میں انھوں نے میرا نارکو انالیسیس ٹیسٹ کیا۔
عمران کا کہنا تھا کہ پولیس کے بہ قول انہوں نے دس برس پاکستان میں ٹریننگ لی تھی، میری عمر بائیس سال ہے اور ساری اسکولنگ بھی حیدرآباد میں ہوئی تو پھر کیا میں پیدا ہوتے ہی پاکستان چلا گیا تھا،
گوتم نو لکھا کے مطابق اس طرح کا امتیازی سلوک کئی بار عدالتوں کے رویے میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ‘مالیگاؤں دھماکے کے ملزمین جنھیں ہندو تنظیموں کی حمایت حاصل ہے وہ جب عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو جج ان سے ٹارچر کے بارے صرف پوچھتا ہی نہیں بلکہ خود معائنہ بھی کرتا ہے لیکن اس کے برعکس ممبئی کے ایک کیس میں ایک ملزم نے جج سے استدعا کی کہ اسے ٹارچر کیا گیا ہے لیکن جج نے نظرانداز کر دیا، عالمی قوانین کے تحت پولیس حراست میں اذیتیں دینا جرم ہے اور دنیا بھر میں اس کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کیے گئے ہیں۔ بھارت نے بھی سنہ انیس سو ستانوے میں ٹارچر اور غیر انسانی سلوک سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک کنوینشن پر دستحط کیے تھے لیکن گیارہ برس گزر جانے کے بعد بھی حکومت نے اس کی توثیق نہیں کی ہے اور اب اطلاعات کے مطابق وہ ایک ایسا قانون لانا چاہتی ہے جس کے تحت ٹارچر کرنے والے کو سزا دی جا سکے۔
قانونی ماہرین کے مطابق ہندوستان میں پولیس اور سرکاری ملازمین کو دفعہ 197 کے تحت خصوصی رعایات حاصل ہیں اس لیے صرف قانون بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ورندہ گرور کے مطابق قانون کے ساتھ ساتھ دفعہ 197 کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے معروف وکیل کولن گونزالوز کے مطابق ٹارچر کو ختم کرنے کے لیے پولیس کو جواب دہ بنانا ضروری ہے تبھی تبدیلی ممکن ہے۔
دفعہ 197 ختم کی جائے۔ اور جو پولیس ٹارچر میں ملوث پایا جائے اسے فورا برخاست کیا جائے اور مقدمہ چلاکر جیل بھیجا جائے۔ اگر ایسا قانون بنے تو تبدیلی ممکن ہے. "
بی بی سی کی یہ رپورٹ سات آٹھ سال قبل کی ہے یعنی مودی حکومت سے پہلے کی ہے لیکن مودی حکومت آنے کے بعد سے پولیس کی جانب سے ظلم وزیادتی، تشدد اور پولیس تحویل میں اموات کی تعداد کئی گناہ بڑھ چکی ہے، دہلی، یوپی، کشمیر، آسام، اور تری پورہ سمیت کئی ریاستوں میں پولیس کی من مانی اورغنڈہ گردی جاری ہے، بھارت کے مسلمانوں کو پولیس اپنا دشمن سمجھنے لگی ہے، صحیح بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے مسلسل محکمہ پولیس،مسلمانوں کوٹارگیٹ کررہاہے، ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر پولیس نظام کی اصلاح اور اس کی جواب دہی طے کرنے کےلئے ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک کوئی اقدامات کیوں نہیں کئے گئے؟ بھارت آزاد تو ہوگیا لیکن انگریز حکومت کا دیا گیا تحفظ دفعہ 197 آج تک پولیس افسران کو حاصل ہے یہ ختم ہونا چاہیے اور پولیس کی جواب دہی طے ہونی چاہئے، آج سے پندرہ اٹھارہ سال قبل جب ہم لوگ ملک کے ایک اہم ادارے میں زیر تعلیم تھے اور ہماری تعلیم کا آخری سال تھا،حدیث کی ایک اہم کتاب کا درس ہورہا تھا، دوران درس علامات قیامت والی ایک طویل حدیث آگئی، جس میں ہے کہ قیامت کے قریب پولیس والوں کی کثرت ہوگی، اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ہمارے محترم استاذ نے جو تقریباً ہرسال معلم الحجاج کی حیثیت سےحج کوجاتے ہیں، حج کے دوران کا ایک واقعہ سنایاکہ حج کے موقع پر دنیا بھر کے مختلف ممالک کے حجاج سے ملاقات ہوتی ہے اور حال احوال سے واقفیت بھی ہوتی ہے،تفصیلی تبادلہ خیال بھی ہوتاہے،ایک بار ایک مسلم ملک کے ایک حاجی سے ملاقات ہوگئی، خیر خیریت کے بعد ہم نے ان کے مشغلے کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے”نحن کلاب ھذہ الامة” یعنی ہم اس امت کے کتے ہیں، پھر انھوں نے بتایا کہ ہم لوگ محکمہ پولیس سے وابستہ ہیں..
یہ توایک واقعہ ہے،لیکن صحیح بات یہ ہے کہ پولیس کی حیثیت اس سے زیادہ عوام کے درمیان اور کچھ نہیں ہوتی، اب پولیس کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی اس طرح کی شبیہ کیون کر بنی اس کی وجوہات کیاہیں؟ اور کیا وہ اس پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے اور اپنے روپے میں تبدیلی لانےکےلے تیارہیں؟پولیس کی جواب دہی طے کرنے کےلیے ے پارلیمنٹ کو قانون بنانا چاہئے تاکہ پولیس انصاف کی تکمیل کےلیے کام کرے جو وقت کی اہم ضرورت ہے.
(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :آندھرا پردیش میں اقلیتوں کے لیے سب پلان کی منظوری، ایک اچھی مثال!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے