علی گڑھ تحریک اور سرسید کا علمی کارنامہ

علی گڑھ تحریک اور سرسید کا علمی کارنامہ

صفدر امام قادری
صدر شعبۂ اردو،کالج آف کامرس آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

سرسید کی رہ نمائی میں علی گڑھ کا تعلیمی تجربہ ہندستانی مسلمانوں کے ذہن و فکر اور عمل میں ایک انقلاب کا بھی اشاریہ ہے۔ اپنی حکومت کے چھن جانے اور انگریزوں کی غلامی کی چَکّی میں پستے ہوئے سماج کو سرسید نے تعلیم کے مغربی طوفان سے مقابلے کا ایک نسخۂ کیمیا عطا کیا تھا۔ روایت کی جکڑبندیوں اور مذہب کے حصار کو پار کیے بغیر تعلیم کے نئے منظر نامے کی طرف نہیں آنا تھا، سرسید اس سے واقف تھے۔ اس لیے انھوں نے صرف مغربی تعلیم کے پیمانے چھلکانے پر اکتفا نہیں کیا۔ تہذیب، ثقافت، مذہب، ادب، سیاست، عورتوں کے مسائل، پیشے ور قوموں کی بہتری کے بارے میں غور و فکر، انگریزوں سے تعلق، معاشرۂ قدیم کے بارے میں ایک نیا تصور اور ہم وطن برادران سے شیر و شکر ہونے جیسے مختلف فیہ اور گوناگوں مسئلوں کی بنیاد پر  اپنے تعلیمی نظریات پیش کیے۔ یہ ہماری کوتاہ نظری ہے کہ علی گڑھ تحریک یا سرسید کو صرف مغربی تعلیم کو مقبول بنانے میں محدود کر کے اس کے بے پایاں اور وسیع پیمانے پر فیضان کے سلسلے سے ان دیکھی کرتے ہیں۔
علی گڑھ تحریک ایک دن میں قائم نہیں ہوئی اور نہ سرسید ایک دن میں اس تحریک کے لیے اپنے ذہن کو تیار کرسکے۔ سرسید کے پاس کوئی جادو کی چھڑی بھی نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ معاشرے کو بدل دینا اتنا آسان بھی نہیں۔ اس لیے انھوں نے مستحکم تیاری کی۔ علی گڑھ کالج قائم ہونے سے پہلے سرسید کی علمی اور سماجی حیثیت کا اعتراف ایک عالَم کرنے لگا تھا۔ ان کے پاس کار پردازوں اور اپنے ہی جیسے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے والے بڑی تعداد میں جمع ہوچکے تھے۔ اہالیانِ وقت سے ربط کا سلسلہ بھی چل چکا تھا۔ غدر کے بعد سرسید کے نقطۂ نظر میں یہ مثبت تبدیلی آئی تھی کہ اپنی قوم کو خواب غفلت سے جگائے بغیر نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ انگلستان کے سفر نے سرسید کے خوابوں کو واضح شکل عطا کرنے کے لیے آخری پتھر کا کام کیا۔ کیمبرج اور آکسفورڈ یونی ورسٹی یا اسپکٹیٹر اور ٹیٹلر نے ان خوابوں کو اس طرح تعبیر کی ردا عطا کی کہ انگلینڈ سے لوٹتے ہی رسالے سے لے کر کالج اور یونی ورسٹی کے بارے میں فیصلے شروع ہوجاتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے پانچ برس میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (Mohammedan Anglo Oriental College) قائم ہوجاتا ہے۔
یونی ورسٹی یا کالج سے پہلے سرسید نے رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ جاری کیا۔ اس سے پہلے ”آثارالصنادید“ اور ”اسباب بغاوت ہند“ جیسی بیش قیمت کتابیں سرسید پیش کرکے لوگوں کی داد حاصل کر چکے تھے۔ اپنے خیالات اور تصورات کی بنیاد پر یونی ورسٹی قائم ہونے سے پہلے ہی سرسید ایک نئے مکتب فکر کی حیثیت سے اپنی جگہ بنا چکے تھے۔ اس زمانے کی بڑی شخصیات میں غالب‘ امام بخش صہبائی، رجب علی بیگ سرور، ڈپٹی نذیر احمد، مولوی ذکاء اللہ، الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، چراغ علی، محسن الملک اور وقار الملک جیسے لوگوں سے سرسید کا ربط ان کی شخصیت کی وسیع المشربی کا اشاریہ ہے۔ سرسید کے حلقے میں علم الحساب سے لے کر تاریخ و جغرافیہ تک اور سائنس سے لے کر شعر و ادب تک ہر طبقے کے لوگ اپنی جان نچھاور کر نے کے لیے تیار تھے۔ علی گڑھ تحریک ہندستانی مسلمانوں کے ذہن پر اس لیے اثرانداز ہوئی کیوں کہ ان کے ذہن و فکر میں پیدا ہو رہے سارے سوالوں کا جواب اس تحریک کے پاس تھا۔ سرسید کی کامیابی کے پیچھے ان کے رفقا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
١٨٥٧ء کے بعد اس انقلاب کے تجزیے کا مشکل کام تھا۔ سرسید نے برطانوی مہارانی اور پارلیامنٹ کو اپنی کتاب اور خطوط سے یہ باور کرانے میں کامیابی حاصل کی کہ غدر کم زور طبقے کے مسلمانوں نے کیا اور ہندستان کے اشراف مسلمان نہ صرف یہ کہ کسی بغاوت سے علاحدہ رہے بلکہ وہ تو انگریزوں کے بہی خواہ اور طرف دار بھی ہیں۔ اس سے اشراف مسلمانوں کی گردن پر لٹکتی ہوئی تلواریں ضائع ہوئیں۔ سرسید کا یہ تجزیہ وقتی طور پر سودمند ثابت ہوا اور ہندستانی اشراف مسلمانوں کے گھر آنگن انگریزی پھل پھول اور برکتوں سے منوّر ہوگئے۔ ہندستانی مسلمانوں کے اعلا طبقے میں جدید تعلیم کے لیے جو جذبہ پیدا ہوا، اس نے برادران وطن سے آگے یا مساوی مقام تک انھیں بڑھایا۔ تقسیم ملک تک نوکریوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد، سرسید اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا۔ اگر سرسید نے مذہبی روایات اور محدود معاشرت کے بھنور میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو مغربی تعلیم کے چاند ستارے نہیں دکھائے ہوتے اور علی گڑھ کالج کا انھیں آسمان نہیں فراہم کیا ہوتا تو ہندستانی مسلمانوں میں جدید تعلیم کا تناسب شاید صفر کے آس پاس رہتا۔
سرسید اس زمانے کے سماجی اور مذہبی مسئلوں پر بھی اپنی راے رکھتے تھے۔ ١٨٥٧ء سے ہی ہندستان میں یہ سلسلہ چل پڑا تھا کہ انگریزوں کو کیسے ملک سے باہر کیا جائے۔ سرسید انگریزوں کو ہمیشہ کے لیے اس ملک میں رکھنے کے طرف دار نہیں تھے۔ اپنے ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ کبھی ایسا بھی وقت آئے کہ گا ہم ہندستانی اپنے ملک کا خود قانون بھی بنائیں گے۔ لیکن فوری طور پہ ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ انگریز جیسی ترقی یافتہ قوم سے مقابلہ کرنے سے بہتر اشتراک کا پیمانہ بڑھانا اور دنیاوی فیوض و برکات سمیٹنا زیادہ ضروری ہے۔ اسی لیے جب ١٨٨٥ء میں انڈین نیشنل کانگریس (Indian National Congress) کا قیام عمل میں آیا تو سرسید نے کانگریس کے بنیاد گزاروں کی پیہم گزارشات کے باوجود دستِ تعاون بڑھانے سے انکار کیا۔ گوکھلے اور بدرالدین طیّب جی کے نام سرسید کے جو خطوط ہیں، ان سے ان کے سیاسی شعور کا پتہ چلتا ہے۔ سرسید کی موت تک کا نگریس کوئی عوامی یا کل ہند تنظیم نہیں بن سکی تھی اور نہ ہی ہندستانی سیاست کا وہ موڑ آچکا تھا جب کانگریس پورے ملک کی ترجمان ہوجائے۔ سرسید کے اعتراضات اس وقت تک صحیح تھے اور وہ تنظیم ہندستانی مسلمانوں کے مستقبل کا ضامن نہیں بن سکتی تھی۔ Discovery of India میں جواہر لال نہرو نے سرسید کے اس فیصلے کو اس وقت کے اعتبار سے صد فی صددرست تسلیم کیا ہے۔ یہ اندازہ کرنے کی بات ہے کہ اگر سرسید ١٩٢٠ء کے بعد کا نگریس کے عوامی مورچے کو دیکھتے تو شاید سرگرم اشتراک کے لیے خود سے دوڑ پڑتے۔
سرسید کے مذہبی تصورات پر بھی اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ اپنے زمانے میں انھیں گمراہ تسلیم کیا گیا۔ ان کی تفسیر پر علما نے اچھے خاصے اعتراضات کیے۔ہندستانی معاشرے کو مذہب کا ایک عصری تصور قبول کرنے میں دشواری تھی۔ سرسید عقل کے حوالے سے عقیدت کی بزم آرائیوں کو تولنا چاہتے تھے مگر یہ کام آسان نہیں تھا۔ سرسید کی دلیلیں مذہب کے معاملے میں ان لوگوں کے لیے بھی زود ہضم تھیں جنھیں سرسید کا رفیق یا ہم نوا مانا جاتا تھا۔ ڈپٹی نذیر احمد، شبلی نعمانی اور اکبرالہ آبادی روایت پر ست نہیں تھے لیکن سرسید کے تصور کے نکتہ چیں ضرور تھے۔ علماے کرام کی ایک بہت بڑی جماعت تھی جو انھیں ’فسادی مُلّا‘ کہتی تھی لیکن یہ سرسید کا جگر تھا جس نے تمام حملوں کو جھیلتے ہوئے اپنی عقل اور نقطۂ نظر پر اعتبار جاری رکھا۔ اگر ایسا نہیں ہوا ہوتا تو ہندستانی مسلمانوں کی بیداریِ نَو میں سرسید کی شخصیت رہ نما نہیں بنتی۔
سرسید کے زمانے میں حکومت کی زبان فارسی تھی اور عوامی زبان کے طور پر اردو مرکزیت رکھتی تھی۔ سرسید کی ابتدائی کتاب فارسی میں ہے، بعد میں انھوں نے اردو کو ذریعۂ اظہار بنایا۔ انھیں معلوم تھا کہ اس زبان کی جدید کاری کیے بغیر وہ ہندستانی مسلمانوں کے ذہن کے بند دروازے اور کھڑکیوں کو نہیں کھول سکتے۔ گل و بلبل اور کاکلِ محبوب کی پرچھائیں میں اردو زبان جدید عہد تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ سرسید نے نہ صرف اپنی تحریروں سے اس زبان کے مشتملات بدلنے کی کوشش کی بلکہ مختلف اصناف اور شعبوں کے ماہرین کی ایسی تربیت کی جن سے اردو زبان ایک انقلاب آفریں دور میں پہنچ گئی۔ سرسید، حالی، محمد حسین آزاد، نذیر احمد، شبلی، سرشار، ذکاء اللہ جیسے اصحاب کی ادبی خدمات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ سرسید کے اُس طرف ایک دوسری اردو تھی اور سرسید کے اِس طرف ایک دوسری اردو ہے۔ پہلے کی اردو روایت کے جال میں شکست خوردہ صورت میں نظر آتی تھی۔ سرسید کے بعد کی اردو نئے معاشرے اور نئے تقاضوں کی بنیاد پر ایک زندۂ جاوید ادبی سرمایہ ہے۔ شاعری سے نثر کی طرف مراجعت کا بھی پہلا سبق سرسید نے دیا تھا۔ یہ سوچ کر آج خوف آتا ہے کہ سرسید نے اپنے رفقا کے ساتھ مل کر اردو زبان و ادب کے مقدر کو نئی شکل عطا کرنے کی کوشش نہ کی ہوتی تو شاعری کے علاوہ آج ہمارے ہاتھ خالی ہوتے۔
ایسا نہیں ہے کہ سرسید علمی اعتبار سے اپنے رفقا کی خدمات کی وجہ سے یاد کیے جاتے ہیں۔ تاریخ، تہذیب، مقالہ نویسی، صحافت اور خطبہ نگاری کے شعبے میں سرسید نے خود بھی بڑی تعداد میں تحریر و تصنیف کا کام انجام دیا۔ اسماعیل پانی پتی نے سرسید کے لکچروں کا مجموعہ تیار کیا تو اس کے دفاتر تیار ہوگئے۔ سرسید کی تحریروں میں انگریزی لفظوں کی بہتات اور کرکر کی تکرار آج ہمارے ذہنوں پر بوجھ ہیں لیکن ہر ابتدائی کام کرنے والے کے یہاں یہ بے احتیاطی لازم ہے۔ اس کی وجہ سے سرسید کی تصنیفی اہمیت کم نہیں ہوتی۔
زندگی کے مختلف شعبوں کے تعلّق سے سرسید کی خدمات کا جائزہ لیتے وقت ہماری آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں کہ ایک شخصیت کے اثر سے قوم کے سیاہ و سفید کیسے بدل گئے۔ یہ تبدیلی صرف تعلیم اور تہذیب کے شعبے میں نہیں ہوئی بلکہ شعر و ادب کے حلقے میں بھی انقلاب آفریں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جدید ہندستان کے طول و عرض پر جب نظر ڈالتے ہیں تو سرسید جیسی کوئی دوسری شخصیت ہمیں نہیں ملتی جس نے ملک و قوم کو ہزار طریقوں سے متاثر کرنے کا فریضہ ادا کیا ہو۔ علی گڑھ تحریک ایک شہر کی تحریک نہیں تھی اور نہ سرسید ایک شخصیت تھے۔ نئے ہندستان کی تعمیر کا جو خاکہ سرسید کی رہ نمائی میں علی گڑھ میں تیار ہوا، حقیقت یہ ہے کہ اسی میں ہم آج تک رنگ بھر کر روشنی اور چمک پیدا کررہے ہیں۔
صفدر امام قادری کا یہ مقالہ بھی پڑھیں :سر سید شناسی کا ایک نیا باب

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے