شیخِ سرہندی حضرت مجدد الف ثانی

شیخِ سرہندی حضرت مجدد الف ثانی

سَیّد عارف معین بلّے

سلام اے شیخِ سرہَندی، امامِ قطبِ ربّانی 
مجدد الف ثانی، آپ کا کوئی نہیں ثانی

جنوبی ایشیا میں مل گئی دیں کوحیاتِ نو
اندھیروں میں کی روشن آپ نے قندیلِ نورانی

قلم نے رکھ دیا ہے موڑ کر تاریخ کا دھارا
اُسے روکا جو آیا ہند میں الحاد طوفانی

تفکّر اور تدبّر کے اچھوتے زاویے بخشے
عظیم المرتبت عالِم ہیں بے شک، دیدہ ور گیانی

مرید ایسے کہ جن پر خواجہ باقی باللہ نازاں ہیں
ہیں پیر ایسے، دِلوں پر جن کی صدیوں سے ہے سُلطانی

رہی ہے خوجگانِ چشت سے بھی آپ کی نسبت
ملا ہے آپ کو فیض شہِ بغدادِ جیلانی

پَلٹ کر تم ذرا تاریخ کے اوراق تو دیکھو
گِرا وہ آکے قدموں میں، جسے تھا زعمِ سُلطانی

ہِلاکے رکھ دی قصرِ دین کی بنیاد اکبر نے
خدا شاہد ہوا تبدیل جب ہر حُکمِ قرآنی

مساجد میں بندھے گھوڑے، لگی پابندی روزوں پر
بچانے کے لیے دیں، رب نے بھیجا شیخِ حقّانی

جو احمد نام دَرباری کا ہوتا تو بدل جاتا
پَر آیا کام احمد نام کا فرزندِ روحانی

یقیناً شیخِ سَرہندی ہیں، احمد نام ہے ان کا
یہ محبوبِ الہیٰ ہیں، یہ ہیں محبوبِ سُبحانی

وہ سورج ہیں پَر ان کو لوگ "بدرالدین" کہتے ہیں
ہے چاہے دُھند صدیوں کی مگر قائم ہے تابانی

ابوالبرکات اُن کی کُنیت ہے، نام احمد ہے
مجدد الفِ ثانی عرفیت ہے ان کی لاثانی

شعور "عبدالاحد" سے پایا ہے یکتا پرستی کا
جہاں کو ہوش آیا پی کے ان سے جامِ عرفانی

بجا علمی بصیرت آپ نے یعقوب سے پائی
ہیں استادِ مکّرم آپ کے قاضی بدخشانی

محمد مصطفیٰ صّلِ علیٰ سے آپ کی نسبت
اسی نسبت نے جذبہ کردیا ہے تازہ ایمانی

نسب ملتا ہے جاکر آپ کا فاروقِ اعظم سے
چلا ہے سلسلہ صدیقِ اکبر سے یہ روحانی

خدا شاہد کہ ہے فاروقیت بھی خون میں شامل
خدا شاہد کہ ہے "صدیقیت" بھی جزوِ ایمانی

یوں ان کو حق و باطل میں ہمیشہ "فرق" کرنا تھا
ہے روشن آپ کی صدیقیت سے لوحِ پیشانی

جھکانا جس نے چاہا آپ کو ،وہ جھک گیا آخر
جہانگیری یقیناً آپ کی ہے قطبِ ربانی

وہ سجدہ کیسے کرسکتے تھے، سوچو، غیراللہ کو
جب حرف لا الہ کی حرمتوں کی ہو نگہبانی

نظر دَربار میں وہ اس لیے دُربار آتے ہیں
سمندر علم و حکمت کا ہے، اندر اس میں طغیانی

ہے سہرا آپ کے سر پر ہی تجدیدِ شریعت کا
سُبحان اللہ کی، دینِ محمد کی نگہبانی

مجددیہ بھی ہے اب سلسلہ یہ، نقشبندیہ
مجدد آپ ہیں بے شک، بہاء الدین ہیں بانی

تخیل میں ترفّع ہے، نظر میں پَر تعمق ہے
تحیّر زا یقیناً آپ کی ہے گوہر افشانی

تیقّن ہے تفکّر ہے، تدبّر ہے، تعشق ہے
ملی ہے ہر عمل کو آپ کے تائیدِ یزدانی

مجدد الفِ ثانی آپ کی عظمت کے کیا کہنے
جھکی جاتی ہے میری احتراماً لوحِ پیشانی

پتا اتنا چلا ہے پڑھ کے تاریخی کتابوں کو
خدا بھی یاد آجائے، تھی ایسی شکلِ نورانی

نگینے ہی نگینے ہیں، یہ حکمت کے خزینے ہیں
ہر اِک مکتوب میں بے شک معانی کی فراوانی

معانی کے سمندر ایک اِک نکتے میں ملتے ہیں
لکھے ہیں جو بھی مکتوبات، سب کے سب ہیں لاثانی

یہ دارالمعرفت، نورالخلائق، دفترِ ثالث
ہے بات ہر ایک ایمانی، ہے ہر اِک لفظ عرفانی

وہ کہتے ہیں شریعت ہی کے تابع ہر طریقت ہے
ہوا گمراہ، جس نے بھی یہ سچائی نہیں مانی

شریعت اور طریقت ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں
اگر ظاہر شریعت ہے، طریقت طرزِ روحانی

شریعت کے لیے علم و عمل، اخلاص ہیں لازم
وہ کہتے ہیں طریقت کیا؟ شریعت ہی نہ گر مانی

غبار آلودہ چہرہ ہوگیا تھا جب تصوّف کا
اسے دھویا، نکھارا اور بنایا اس کو نورانی

تصوّر آپ نے بے شک ہمہ از اوست کا بخشا
شہودی فلسفہ بھی آپ کا تحفہ ہے روحانی

قلم ہے توپ تو بارود اس کی روشنائی ہے
مِٹا کر رکھ دیے الحاد کے فتنے بہ آسانی

جو ہو گفتار کا، اطوار کا، کردار کا غازی
تو آتا ہے نظر سلطان بھی بھرتا ہوا پانی

ہر اِک تدبیر ان کی ناخنِ تدبیر ہی تو ہے
حقائق کی اگر کچھ گُتھیاں ہم نے ہوں سُلجھانی

وہ جب زندان میں پہنچے کُھلے در علم و حکمت کے
مصیبت میں پڑے لیکن، ہوئی مِلّت کی آسانی

ہے سچ کا بول بالا وقت نے یہ کردیا ثابت
رہے گی تا ابد سب کے دلوں پر اُن کی سُلطانی

جھکانا جس نے چاہا تھا، وہ آکے جھک گیا آخر
ہے نازاں پاکے بے شک آپ کےدر کی وہ دَربانی

رہیں گے تا ابد زندہ جو اُن کے کارنامے ہیں
ہے اُن کا کام لافانی، ہے اُن کا نام لافانی

تصور آپ نے ادیانِ واحد کا مِٹا ڈالا
کہاں ماناہےدینِ اکبری کو دینِ رَبّانی

یہ ہندو اور مسلم ایک بے شک ہو نہیں سکتے
کیا ثابت کہ دو قومی تصور بھی ہے قرآنی

اِسی نکتے پہ بالآخر ملی ہے ہم کو آزادی
یہ سچ ہے تو کسے مانو گے پاکستان کا بانی؟

ہوئے اِس دیپ ہی سے دیپ ہندوستان میں روشن
ہے آزادی کاسہرا آپ کے سر قطبِ صمدانی

یہی بنیاد ہے بے شک، جو سر سَیّد کے کام آئی
یہی ہے ہاتھ میں اقبال کے قندیلِ نورانی

اِسی نے کردیا تبدیل نقشہ پورے خطے کا
یہ وہ سچائی ہے جو قائدِ اعظم نے بھی مانی

قبول اسلام جس دن کرلیاتھا پہلے ہندو نے
بنا تھا اپنا پاکستان بھی بفضلِ رَبّانی

سلام اے شیخِ سرہندی و فاروقی و صدیقی
سلام اے شیر دل، اے وارثِ فقرِ سلیمانی

نہیں معلوم اُن کے نام کی برکت ہے یا کیا ہے؟
ہے اُن کا ذکر پر یاد آگئے ہیں ہم کو خرقانی

مجھے یہ آپ ہی کے نام کا فیضان لگتا ہے
یہ میرے سامنے جو آگئے ہیں یوسف ہمدانی

ملا بائیس وسیلوں سے نبیِ پاک سے جاکر
یقیناً سلسلہ یہ آپ کا اے شیخِ حقّانی

بنا پہلا خلیفہ کون؟ بعد از سرورِ عالم
ہیں بے شک ثانی اثنین، یارِ غار لاثانی
***
عارف معین بلے کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ فرمائیں :تمام شہروں سے بڑھ کر حسیں مدینہ ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے