مرنے کی جلدی

مرنے کی جلدی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

بہت سارے لوگ جلد مرنا چاہتے، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا توزندگی کے معاملات و مسائل سے نبرد آزما ہونے سے گھبرا کر بہ عجلت تمام مرنے کے لیے خود کشی کر لیتے ہیں، وہ جو مہلک بیماری کے شکار ہوتے ہیں، اور اپنی زندگی سے مایوس ہو کر موت کی تمنا ہی نہیں کرتے، عدالت میں جلد از جلد اپنی مرضی اور پسند کی موت کے لیے عرضیاں داخل کرتے ہیں، دونوں کا سبب ایک ہی ہوتا ہے، مایوسی اور ڈپریشن۔
پوری دنیا میں گیارہ ایسے ممالک ہیں، جہاں زندگی سے مایوس لا علاج مریضوں کو جلد اپنی پسند کے مطابق موت کے منہ میں چلے جانے کی اجازت ہے، یہ ممالک ہیں نیوزی لیند، سوئزرلینڈ، نیدر لینڈ، اسپین، بلجیم، لکزم برگ، کناڈا، کولمبیا، آسٹریلیا، فرانس اور امریکہ، ان میں سے بیش تر ممالک میں لا علاج مرض سے پریشان مریضوں کو اپنی پسند سے موت کا وقت مقرر کرنے اور پسندیدہ طریقے سے موت کو لگے لگانے کی اجازت ہے، البتہ مختلف ملکوں میں اس کے لیے الگ الگ شرائط اور ضابطے مقرر ہیں، نیوزی لینڈ میں اس کے لیے کم از کم دو ڈاکٹروں کی تصدیق ضروری ہے کہ جو موت چاہتا ہے وہ واقعی اس حالت کو پہنچ گیا ہے کہ اسے مرجانا چاہیے، نیوزی لینڈ میں اس قانون کو پاس کرنے سے پہلے ملکی پیمانے پر عوام سے رائے مانگی گئی تھی جس میں پینسٹھ (۶۵) فی صد سے زائد لوگوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا، اس کے بعد ہر سال نو سو پچاس لوگوں کو اس قانون کے تحت مرنے میں جلدی کرنے کی خواہش کی عرضی وصول کرنے کا نظام بنا دیا گیا، اور یہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ ہر سال تین سو پچاس (۳۵۰) لوگوں کو ہی اس قانون سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے گا۔
اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ جان انسان کی ملکیت نہیں ہے، یہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس امانت ہے، ہمارے اعضا و جوارح بھی ہمارے نہیں ہیں، اس لیے اس کو خود کشی، مہلک دواؤں کے استعمال یا قتل بہ جذبۂ رحم کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا. اسے زندگی کے اس مرحلہ تک باقی رکھنا ہے جب تک اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت نہ آجائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرض کوئی لا علاج نہیں ہوتا، ’’لکل داء دوائ‘‘ ہر مرض کی دوا ہے، ہماری عقل وہاں تک نہیں پہنچ پا رہی ہے، یہ ایک الگ سی بات ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض کو اجر و ثواب کے حصول کے ساتھ مغفرت کا سبب اور ترقی درجات کا ذریعہ بتایا، تاکہ اس شوق میں مریض زندگی سے مایوس نہ ہو اور وہ مرض کو بھی نعمت سمجھے اور اللہ کے دربار میں کہتا رہے کہ اے اللہ! ہم اس نعمت کے متحمل نہیں ہیں۔ اس لیے آزمائش اور ابتلا سے اللہ کی پناہ چاہتے رہنا چاہیے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ہدایت دی کہ تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے، اس لیے کہ طویل عمر میں عبادتوں کے ثواب کے اضافے اور بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں، اس کے علاوہ اگر وہ گناہ گار ہے تو کسی مرحلہ میں توبہ کی توفیق سے بھی اس کی آخرت سنور سکتی ہے۔
مختلف ممالک جس طرح جلد اپنی پسند سے مرنے کے قانون کو منظور کرتے جا رہے ہیں، اس سے سماج میں انسانی زندگی کی بے وقعتی کا پیغام لوگوں میں جا رہا ہے، اس کے علاوہ ضعفا اور معذور لوگوں کی دیکھ ریکھ کا مزاج بھی کمے گا، ابھی تک تو لوگ یہی کہتے ہیں کہ بوڑھا مر بھی نہیں رہا ہے، اس قانون کے نفاذ سے جلد مار دینے کی کوشش بھی شروع ہو گی اور جو سماج اپنے والدین اور بوڑھے رشتہ داروں کو ’’اولڈ ایج ہوم‘‘ پہنچا دیتے ہیں، انھیں جلد مورث کی موت ہوجانے کی عرضی لگاتے ہوئے کتنی دیر لگے گی، اللہ کرے کہ ہندستان میں یہ قانون کبھی پاس نہ ہو، حالاں کہ کئی مریضوں کی طرف سے اس قسم کی درخواست عدالت میں یہاں بھی زیر غور ہے.
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:تعلیم ہے امراض ملت کی دوا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے