فرحان کا نیا اسکول

فرحان کا نیا اسکول

آبیناز جان علی، موریشس

آج فرحان کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہونے جارہا ہے۔ اس نے امتیازی نمبروں سے پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کر لی ہے۔ اسے اپنے ہی شہر کے ایک اچھے ثانوی اسکول میں داخلہ مل گیا ہے۔ فرحان صبح ساڑھے سات بجے اسکول کے احاطے میں دا خل ہوا۔ یہ ایک دومنزلہ عمارت ہے۔ اس میں بہت سی جماعتیں ہیں۔ اس میں گیارہ سے انیس سال کے طلبا و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ فرحان خود کو ان کے درمیان ذرا چھوٹا محسوس کر رہا ہے۔ اس نے اسکول کی نئی وردی پہنی ہے۔ اس کے والد نے اسے نئے جوتے اور نیا بستہ بھی دیا ہے۔ چونکہ آج اسکول کا پہلا دن ہے اس کا بستہ ہلکا ہے۔ بستہ میں ایک نیا قلم دان ہے۔ اس قلم دان میں چند پنسلیں، ایک قلم تراش، ایک ربڑ، ایک لال رنگ کا قلم، ایک نیلے رنگ کا قلم، ایک کالے رنگ کا قلم، ایک ہرے رنگ کا قلم، ایک چھوٹی قینچی، ایک چھوٹا پیمانہ اور ایک چھوٹی ڈائری ہے۔ پرائمری اسکول میں فرحان پنسل سے لکھا کرتا تھا۔ اب ثانوی اسکول میں اسے قلم سے لکھنا پڑے گا۔ اس خیال نے فرحان کو ذرا پریشان کیا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر اس سے غلطی ہوگئی تو وہ اس غلطی کو کیسے مٹائے گا۔ جب فرحان نے ابو سے اس پریشانی کا ذکر کیا تھا تو اس وقت ابو نے کہا تھا: ”فرحان بیٹا، ہم زندگی میں اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتے ہیں۔ غلطی کرنے سے گھبرانا نہیں چاہئے۔“
اسکول کے اندر داخل ہوتے ہوئے فرحان نے کیاریوں میں خوب صورت پھول دیکھے۔ ہر جگہ صفائی کا خیال رکھا گیا ہے۔ اسکول کے سامنے پارکنگ میں کم از کم پچاس گاڑیاں تھیں۔ یہ اسکول کے اساتذہ کی گاڑیاں تھیں۔ فرحان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ اسے گاڑیاں بہت پسند ہیں۔ وہ بڑا ہوکر مشینوں کا مہندس بننا چاہتا ہے۔ اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے وہ دل لگا کر پڑھائی کرنا چاہتا ہے۔
مرکزی دروازے پر ایک خاتون فرحان کو اس کی نئی جماعت کی طرف لے جانے لگی۔ کلاس میں داخل ہوتے ہوئے فرحان کو ذرا مایوسی ہوئی کیونکہ اس کے پرانے اسکول سے کسی بھی دوست کو بھی اس نئے اسکول میں داخلہ نہیں ملا تھا۔ کلاس کے اندر استانی روبینہ پہلے سے موجود تھیں۔ انھوں نے فرحان کو اس کے بیٹھنے کی جگہ دکھائی۔ استانی روبینہ نے فرحان سے کہا: ”آج سے یہ تمھاری کلاس ہے۔ تم اس کلاس میں نئے دوست بناؤ گے۔“
جب سارے بچے آگئے تو استانی روبینہ نے پوری کلاس کو اسکول کی سیر کرانے کے لیے قطار میں کھڑا کیا۔ سب سے پہلے استانی روبینہ طلبا و طالبات کو شعبہ سائنس کے تجربہ گاہ میں لے گئیں۔ سامنے آدمی کی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔ طاق پر شیشے کے ڈبوں میں مردہ جانور اور پودے رکھے گئے تھے۔ فرحان ذرا سہم گیا۔ اس کے بعد فرحان نے کمپیوٹر کی کلاس دیکھی۔ یہاں اتنے سارے کمپیوٹر کو دیکھ کر فرحان اتاولا ہوا۔ پھر استانی روبینہ ان کو مصوری کی کلاس دکھانے لے گئیں۔ دیواروں پر رنگین تصاویر تھیں اور کلاس میں چند مجسمے بھی دکھائی دئے۔ فرحان کی کلاس کے سارے بچے خوش ہوگئے۔ بہت جلد وہ بھی اسی کلاس میں مصوری کریں گے۔ مصوری کی کلاس کے بغل میں موسیقی کی کلاس تھی۔ فرحان نے ہارمونیم، طبلہ، تانپورہ، سیتار اور پیانو دیکھا۔ اس کی کلاس کے بچے خود بہ خود جھومنے لگے۔ اس کے بعد بچوں نے کتب خانے کا رخ کیا۔ کتب خانہ دوسری منزل پر تھا۔ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے فرحان کی سانسیں پھول گئیں۔ اندر اے۔ سی تھا۔ ٹھنڈی ہوا سے اسے ذرا راحت ملی۔ فرحان کو دیدہ زیب کتابیں نظر آئیں۔ اس کا دل باغ باغ ہوگیا کیونکہ وہ کتابوں کو اپنا دوست مانتا ہے۔ آخر میں فرحان نے ورزش گاہ دیکھی۔ یہاں کھیلنے کے لیے ٹیبل ٹینس، کیرم بوڑد، فٹ بال، اور بیڈمنٹن نظر آئے۔ اب تو فرحان کو اپنا اسکول اور بھی اچھا لگنے لگا۔ ورزش گاہ کے باہر فٹ بال، والی بال اور باسکیٹ بال کے بڑے بڑے میدان تھے۔ صبح اسکول بس میں بیٹھنے سے پہلے فرحان کی والدہ نے اس سے کہا تھا: ”تم اپنی زندگی کے آنے والے سات سال اس اسکول میں گزارنے والے ہو۔ تم دل لگا کر پڑھائی کرنا اور اسکول کی سرگرمیوں میں بھی جوش و خروش سے حصّہ لینا۔“
جب استانی روبینہ بچوں کو لے کلاس میں واپس آئیں تو ریکٹر صاحب ان سے ملنے آئے:
”عزیز طلبا و طالبات، اس نئے اسکول میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ یہ اسکول اور یہ جماعت آپ کے گھر کی طرح ہیں۔ یہ کلاس بہت صاف ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ اسکول میں آپ کے لیے ایک سازگار ماحول قائم کیا جائے۔ آپ کو کسی طرح کی بھی پریشانی ہو تو استانی روبینہ سے ضرور کہیں۔ لیکن اسکول میں اصولوں کی پابندی نہایت ضروری ہے۔ اپنے دوستوں سے مل جل کر رہیں۔ اپنی کلاس، اپنی میز اور اپنی کرسی صاف رکھیں۔ آپ وقت پر اپنے اسکول کا کام ختم کریں۔ آپ دل لگا کر پڑھیں اور اپنے اسکول کا نام روشن کریں۔“
ریکٹر صاحب کے جانے کے بعد کلاس کے تمام بچوں نے ایک دوسرے سے اپنا اپنا تعارف کرایا۔ فرحان کے بغل میں ایک لڑکا بیٹھا تھا جس کا نام مزّمّل تھا۔ کچھ دیر میں اسکول کی گھنٹی بجی۔ فرحان اسکول کی کینٹین کی طرف بڑھا۔ وہاں پہلے سے کافی بچے موجود تھے۔ فرحان نے غور کیا کہ یہاں قسم قسم کا کھانا ملتا ہے۔ اس نے دال پوری خریدی۔ پھر وہ مزّمّل کے ساتھ اسکول کے آنگن میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ پاس میں پینے کے لیے نل کا پانی بھی تھا۔ فرحان نے استعمال شدہ کاغذ کو خاک دان میں پھینکا۔
وقفے کے بعد، فرحان اور مزّمّل کلاس میں واپس چلے گئے۔ استانی روبینہ نے انھیں جماعت کا نظام اوقات دیا۔ فرحان نے غور کیا کہ ثانوی اسکول میں اٹھارہ اساتذہ انھیں سبق پڑھائیں گے۔ ہر مضمون کے لیے ایک مختلف استاد کا انتظام کیا گیا ہے۔ جب کہ پرائمری اسکول میں ایک ہی استاد ان کو تمام مضامین پڑھاتے تھے۔ صرف اردو کی کلاس کے لیے ایک مختلف استاد تھا۔ ثانوی اسکول میں زیادہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ آج اسکول کی جلدی چھٹی ہوگئی۔ فرحان خوش تھا لیکن نئے ماحول میں اتنی ساری نئی چیزیں دیکھ کر ذرا تھکا ہوا بھی تھا۔ وہ گھر جاکر امی کو سارا حال سنانے والا ہے۔

آبیناز جان علی کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : جنگل کا بادشاہ اور شرارتی چڑیا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے