سر سید شناسی کا ایک نیا باب

سر سید شناسی کا ایک نیا باب

(شافع قدوائی کی انگریزی کتاب کا تنقیدی جائزہ)

صفدر امام قادری
صدر شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

سر سید کی پیدا ئش کو اب دو سو برس ہو نے کو آئے، دنیا کی متعدد زبانوں میں بلا شبہ ہزاروں کتابیں ان کی خدمات پر لکھی گئیں۔ ان کی تحریروں پر نرم گرم بحث بھی لگاتار ہوتی رہی لیکن ولی نے جو کہا تھا ’راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں‘، اس کے مصداق اب بھی روزانہ سر سید کی حیات و خدمات کے نئے نئے پہلو اجا گر ہوتے رہتے ہیں اور لکھنے والوں کی توجہ اس طرف سے ہر گز کم نہیں ہوئی۔ پچھلے برسوں میں افتخار عالم خاں کی کتاب ’سر سید درون ِخانہ‘ سامنے آئی تو محسوس ہوا کہ حیات ِسر سید کے ابھی کئی کام باقی تھے جو اُن کی وفات کے سیکڑوں برس گزر جانے کے بعد انجام دیے جانے تھے۔ اسی طرح ابھی پچھلے دنوں اردو کے معروف نقاد شافع قدوائی کی کتاب”CEMENTING ETHICS WITH MODERNISM: An Appraisal of Sir Sayyid Ahmad Khan’s Writing” (Gyan, 2010, P-320) سامنے آئی تو یقین آگیا کہ سر سید شناسی کے ابھی بہت سارے نئے ابواب کھلنے باقی ہیں۔شافع قدوائی اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ اردو میں انھیں مابعدِ جدید نقّاد اور ہم عصر فکشن کی سوجھ بوجھ رکھنے والے ادیب کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ سر سید کے تعلق سے ان کے کچھ زیادہ مضامین کبھی اردو رسائل کی زینت نہیں بنے۔ رسا لہ’آج کل‘ میں منشی سراج الدین کے تعلق سے ایک مضمون کے علاوہ سر سید شناسی میں ان کی کو ئی دوسری قابل ذکر اردو تحریر بالعموم دکھائی نہیں دیتی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ سر سید کی خدمات کے حوالے سے ان کی مستقل تحقیقی و تنقیدی کتاب بھی اردو کے بجاے انگر یزی زبان میں منظر عام پر آئی۔ پتا نہیں، اسے کب اردو کا قالب نصیب ہو گا؟ اس لیے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اردو کے علمی حلقے کو اس کتاب کی اہمیت سے واقف کرا یا جائے۔
یہ کتاب سر سید کی صحافتی تحریروں کا تقریباً مکمل احاطہ کرتی ہے۔ سر سید کی حیات و خدمات سے واقفیت کے لیے دو ذرائع عام طور پر استعمال میں لائے جاتے ہیں: (۱)سر سید کی کتابیں اور (۲) سر سید سے متعلق لکھی گئیں معروف افراد کی مستند کتابیں (حیات جاوید وغیرہ)۔ شافع قدوائی نے سر سید کے اخبارات و رسائل کو بنیادی وسیلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا ہے کہ سر سید کے خیالات کا ایک سلسلہ وار گراف بھی ابھرتا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان بنیادی ماخذات تک رسائی جتنی مشکل تھی، یہ راہِ تحقیق کے مسا فر ہی سمجھ سکتے ہیں۔ سر سید کی صحافت کے تعلق سے اردو میں بھی چند محققانہ جلدیں سامنے آئی ہیں لیکن بنیادی مواد کا اس بڑے پیمانے پر استعمال اور انھیں سر سید کی فکری نشو و نما کے پہلو بہ پہلو جانچنے پرکھنے کا کام اب تک کسی اردو سر سید شناس نے انجام نہیں دیا تھا۔
شافع قدوائی نے اخبار کے تراشوں اور اداریوں یا مضامین کے اقتباسات کی کھِتونی تیار کرکے اپنی کتاب مکمل نہیں کی ہے۔ یہ بھی نہیں کہ کچھ چُنے ہو ئے اقتباسات جمع کر کے اپنے Pre-conceived notion کو لفظوں کا جامہ پہنا کر کام چلا لیا گیا ہے۔ اس کے بر خلاف ان کا مطمح نظر بالکل واضح ہے۔ اخبارات، رسائل اور سر سید کے مضامین؛ سب سے مل کر اس دانشورانہ جہت کی ایک شکل بنتی ہے جس کی بدو لت ہندستان کی جدید کاری کے مرحلے میں سر سید نے اتنی زبر دست کامیابی پائی۔ شافع قدو ائی نے سر سید کے معتقدین و معترضین دونوں کی تحریروں سے واسطہ رکھتے ہو ئے اپنی گفتگو کے دوران جہاں جہاں ضرورت ہوئی، بھرپور بحث کی ہے اور اپنے نتائج کو پختگی عطا کی ہے۔

سوانحِ سرسیّد کی گم شدہ کڑیاں:
شافع قدوائی نے سر سید کی صحافتی خدمات کی تفصیلات بتانے سے پہلے سوانحِ سر سید کے بعض گم شدہ پہلوؤں کو اپنی تحقیق کا حصہ بنا یا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ سر سید کے سو انح نگاروں کی تعداد اچھی خاصی رہی اور ہر زمانے میں نہایت سنجیدگی سے اس مو ضو ع پر گہرائی کے ساتھ لکھنے والوں کی کمی نہیں رہی ہے۔ جی۔ایف۔آئی۔ گر اہم، الطاف حسین حالی اور افتخار عالم خاں نے سو انح سر سید سے متعلق نہایت گہرے کا م کیے ہیں۔ اس کے باوجود شافع قدوائی نے حیاتِ سر سید کی کڑیوں کو جوڑنے کے مر حلے میں ان سوا نح نگاروں کی حدود کا صاف صاف احساس کرا دیا ہے۔ مذکورہ تینوں کتابیں سوانح سر سید کے سلسلے سے اساسی اہمیت کی حامل ہیں اور سر سید شناسوں کے لیے معتبر ترین حوالے کا در جہ رکھتی ہیں لیکن ان کتابوں کے نتائج پر انگلی رکھ کر ان کی خامیوں کی اصلا ح کر دینا شافع قدوائی کا بڑا کارنامہ ہے۔ نمونتاً سوانح سر سید کے چند پہلوؤں پر شافع قدوائی کی بحث کا خلاصہ پیش ہے جس سے اس کتاب کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے:
(۱)سر سید نے اپنے آبا و اجداد کے ہندستان پہنچنے کا زمانہ عہد اکبر مانا ہے لیکن حالی اور ان کی تقلید میں خلیق احمد نظامی اور افتخار عالم خاں وغیرہ نے یہ واضح کیا ہے کہ سر سید کے آبا و اجداد شا ہ جہاں کے عہد میں ہندستان آئے۔ شافع قدوائی کا اصرار ہے کہ جب تک کوئی دوسری شہادت نہ ہو، سرسید کے بتا ئے زمانے سے کیوں انحراف کیا جائے؟
(۲)منشی سرا ج الدین جنھیں سر سید کی سو انح لکھنے پر مامور کیا گیا تھا لیکن بہ وجوہ وہ سو انح سر سید کو پسند نہیں آئی اور غیر مطبوعہ صورت میں ہی حالی کو وصول ہوئی۔ شافع قدوائی نے اپنی بحث میں یہ واضح کرنے میں کامیابی پا ئی ہے کہ منشی سراج الدین کی کتاب کو حالی نے حیاتِ جاوید لکھتے وقت تقریباً ضم کر لیا یا اسے بہ خوبی استعمال میں لایا ہے۔
(۳)سر سید نے اپنے نانا خواجہ فریدالدین احمد کے سات سو روپے ماہانہ مشاہرے پر مدرسۂ عالیہ، کلکتہ میں فائز ہونے کی جو بات ’سیرت ِفریدیہ‘ میں لکھی ہے، اُسے شافع قدوائی نے مولوی عبدالستار اور محمود برکاتی کے نتائج سے اتفاق کر تے ہوئے باطل قرار دیا ہے۔
(۴)سر سید کے والد کے نام کے سلسلے سے بعض اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ سر سید کے پہلے سوانح نگار گراہم نے ان کا نام سید محمد تقی لکھا اور حالی نے میر متقی۔ شافع قدوائی کا کہنا ہے کہ سر سید نے اپنے والد کے نام میں کہیں بھی میر کاسابقہ استعمال نہیں کیا۔ سر سید نے خود اپنے والد کا نام سید محمد متقی لکھا ہے۔ شافع قدوائی نے بجا طور پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ گر اہم کی کتاب پر ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ میں سر سید کے دو دو خطو ط شائع ہوئے لیکن کہیں بھی سر سید نے اس نام کی غلطی پر نہ کوئی تبصرہ کیا اورنہ اصلاح کی کوئی تجویز پیش کی۔
(۵) سر سید کے والد کی وفات کا سال گراہم نے 1836ء لکھا ہے اور حالی نے 1838ء۔ شافع قدوائی نے اس خلفشار کی طرف واضح اشارہ کیا لیکن کون سی تاریخ واقعتاًدرست ہے، اس پر اپنی رائے واضح نہیں کی۔
(۶)شافع قدوائی کا کہنا ہے کہ حالی نے سر سید کی والدہ کی خصوصیات تو بڑی تفصیل سے لکھی ہیں لیکن وہ ان کا نام نہیں لکھتے۔ شافع قدوائی نے سر سید کی ماں کانام عزیزالنسا (بیگم) بتایا ہے اور ان کی بعض خوبیوں کی طرف اشارہ کر تے ہوئے ان کی تاریخ وفات 19 نومبر 1857ء در ج کی ہے۔ غدر کے ہنگاموں کے دوران سر سید کی والدہ کو بہت مشکلوں سے دہلی سے سر سید کے پاس میرٹھ پہنچایا گیا۔ اس سلسلے سے سر سید کے ایک رفیق خاص مولوی سمیع اللہ نے بہت تعاون دیا تھا۔ شافع قدوائی نے مولوی ذکاء اللہ کے ایک مضمون کا حوالہ پیش کرتے ہوئے اس بات پر بجا طور پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ سر سید کے مورخین نے اس اہم پہلو سے کیسے صر فِ نظر کیا۔
(۷)سر سید کی بہن کا نام حالی نے صفیتہ النسا بیگم لکھا ہے لیکن شافع قدوائی نے سر سید کی تحریر سے یہ واضح کیا ہے کہ ان کی بہن کا نام عجبت النسا تھا۔
(۸)سر سید کی شخصیت میں موجود بذلہ سبخی کی طرف ان کے کسی سوانح نگار کا دھیان نہیں گیا۔ شافع قدوائی نے سر سید کے سوانح نگاروں کی حدود یہاں بتادی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سر سید نہایت پُر مذاق شخصیت رکھتے تھے اور ان کے دوستوں اور ہم عصروں نے سر سید کے اس رنگ کو پہچانا تھا لیکن ان کے سوانح نگاروں نے اس عنصر کی طرف سے عدم توجہی برتی۔
(۹)سر سید کی خوش دامن اور اہلیہ کے تعلق سے بھی شافع قدوائی کے تحقیقی نتائج بہت کار آمد ہیں۔ ’سیرت فریدیہ‘ میں سر سید نے اپنے نانا کی تین صاحب زادیوں کا ذکر کیا ہے لیکن شافع قدوائی نے افتخار عالم خاں کی تحقیق کو درست مانا ہے جس کی رو سے سر سید کی اہلیہ پارسا بیگم عرف مبارک بیگم اپنی ماں فخر النسا کی تنہا اولاد تھیں۔ کسی دوسری اولاد کا، خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، کوئی سراغ نہیں ملتا۔ سر سید کی نانی کی آخری عمر میں تقریباً بینائی زائل ہوچکی تھی۔ وہ سر سید کی اہلیہ کےساتھ ہی رہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سر سید کی نانی کی کوئی دوسری بہن یا بھائی نہیں۔ سر سید کی اہلیہ کے تعلق سے سر سید یا ان کے سوانح نگاروں کی جا نب سے بہت کم اطلاعات پیش کرنے کی شکا یت شافع قدوائی ضرور کرتے لیکن اس موضوع پر پڑی ہوئی گرد کو وہ بھی بہ طریقِ احسن جھاڑ نہیں پاتے۔
ان مثالوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شافع قدوائی نے کس قدر تحقیقی گہرائی کے ساتھ حیاتِ سر سید کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ حیاتِ سر سید کے تعلق سے جو تحقیقی ذخیرہ موجود ہے، اس کا انھوں نے تقابل اور تطابق کے ساتھ جائزہ لیا ہے، تب جا کر یہ ممکن ہوا کہ حالی اور گر اہم یا دوسرے معتبر محققینِ سر سید سے جو تحقیقی فروگذاشتیں ہو ئیں، ان کی شافع قدوائی نے اکثر و بیشتر اصلاح کر دی ہے۔ حیاتِ سر سید کے تحقیقی جائزے میں انھوں نے سر سید کی ملا زمت، کتابوں کی اشاعت اور ان کے مختلف ایڈیشنز کے ساتھ ساتھ سر سید کے قائم کردہ علمی اداروں اور دیگر علمی اور سماجی تنظیموں سے سر سید کے روابط کی ضروری تفصیلات اس تحقیقی کتاب کے باب اول میں تقریباً پچاس صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ حیات سر سید کے مضمرات پر شافع قدوائی کے نتائج اس وجہ سے بھی قابل یقین ہیں کہ انھوں نے سر سید کے ان تمام اخبارات و رسائل کو اپنا مو ضوعِ بحث بنایا ہے جنھیں سر سید نے قائم کیا تھا اور جن میں علی گڑھ تحریک سے متعلق چھوٹی بڑی ہر اطلاع مندرج ہو تی تھی۔ اسی لیے اکثر و بیشتر بحث و تمحیص میں حجّت کی تان کبھی ’علی گڑھ انسٹی ٹیو ٹ گزٹ‘ پر ٹو ٹتی ہے تو کبھی’تہذیب الاخلاق‘ کے اوراق پر۔ ان رسائل اور اخبارات کا براہ راست مطالعہ شافع قدوائی کے نتا ئج کو معتبر اور باوقار بناتا ہے۔
یوں تو اس کتاب کا اصل مقصد سر سید کے دو آثار ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ اور ’تہذیب الاخلاق‘ کے مشتملات کا جائزہ لینا ہے لیکن جس طرح حیات سر سید کی گم شدہ کڑیوں کو جو ڑنے کے لیے ایک بھر پور اور کار آمد باب اس تحقیقی مقالے میں شامل کیا گیا ہے، اسی طرح سر سید کی مشہورِ زمانہ صحافتی تحریروں کے معیار و مرتبے کے تعین سے پہلے ٢٥/صفحات کا ایک مختصر سا باب سر سید کی ابتدائی صحافتی دل چسپیوں کے لیے وقف ہے جہاں خاص طو ر سے ’سید الاخبار‘ اور ’زبدۃالاخبار‘ کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔ سر سید کی ابتدائی تحریریں اپنی کامیابی کے پرچم انھی اخبارات و جر ائد میں لہرا رہی تھیں۔ اس گوشے میں ’لائل محمڈنس آف انڈیا‘ کا بھی بہ غور مطالعہ کر کے سر سید کی صحافت سے ابتدائی دل چسپیوں کو روشن کرنے میں کامیابی پائی گئی ہے۔ شافع قدوائی نے ان دونوں ابواب کو اپنے اصل مطالعے کے پس منظر کے طور پر شامل کیا ہے لیکن یہاں سر سری گزرنے یا ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے کے بجاے علمی اور تحقیقی ضبط اور ٹھہراو کے ساتھ گفتگو کا حق ادا کردیا گیا ہے۔ کسی تحقیقی مقالے کی اتنی ٹھوس اور قابلِ اِتّباع پیش بندی اس سے پہلے اردو میں زیادہ دیکھنے کو نہیں ملی۔

علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ:
اس کتاب میں ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ کے تعارف اور تجزیے کے لیے تقریباً نوّے صفحات مخصوص کیے گئے ہیں۔ کثیر لسانی معاشرے کی ضرورتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے سر سید احمد خاں نے اردو، فارسی، عربی اور انگریزی چار زبانوں میں اس اخبار میں تحریریں چھاپیں۔ اسے 1866ء میں ہفتہ وار کے طور پر سر سید نے شروع کیا اور سر سید کی زندگی میں تقریباً یہ لگا تار نکلتا رہا۔ بعد میں تویہ ہفتے میں دو بار شائع ہو نے لگا۔ سر سید اور علی گڑھ تحریک کے تعلق سے اس کی حیثیت اساسی ہے۔ اس لیے یہ اچھا ہوا کہ شافع قدوائی نے اپنے مطالعے میں ’انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ کو مرکزیت عطا کی۔
اخبارات اور خاص طور سے قدیم اخبارات پر تحقیق اور تعارف اس وجہ سے نہا یت مشکل کام ہے کیوں کہ جیسے ہی آپ مواد کی جانچ پر کھ میں منہمک ہوتے ہیں، آپ کا بنیادی کام متفرقات کے تعارف اور تجزیے پر منحصر ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے اخبارات کے سلسلے سے جو تحقیقی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں، ان میں اخبارات کے تراشے اور طویل مضامین کے ضروری اقتباسات کی بھیڑ چال رہتی ہے۔ ہر چند یہ تر اشے نہایت قیمتی اور پڑھنے والوں کے لیے معلومات کے نئے اور انو کھے خزانے ہو تے ہیں لیکن اکثر و بیشتر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایسی تحقیقات پر یشاں خیالی کا مجمو عہ بن جاتی ہیں۔ شافع قدوائی علی گڑھ مسلم یونی ور سٹی کے شعبۂ صحافت کے استاد ہیں جہاں انھوں نے صحافت کی تعلیم و تدریس کا معیاری نمونہ پیش کیا۔ قدیم اخبارات کی تحقیق کے موضوعاتی بکھراو سے وہ واقف تھے ،اسی لیے اپنی تحقیق میں ابتداً انھوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ ان کی تحقیق گراں باری یا انتشار کاشکار نہ ہو جائے۔ اسی مقصد سے انھوں نے اخبار کے متعلقات کی جانچ پرکھ کے لیے بہت سارے ضمنی عنوانات قائم کیے ہیں تاکہ اخبار میں شامل تمام معاملات پر بحث کرنے میں کامیابی حاصل ہوسکے۔’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ کے متعلقات کے تعارف کے دوران شافع قدوائی کا مطمحِ نظر یہ بھی ہے کہ مختلف ضروری تاریخی حوالوں کا اندراج بھی ’گزٹ‘ کے صفحات سے تلاش کر کے نمونتاً پیش کر دیے جائیں۔شافع قدوائی نے اخبار کے تعزیتی شذرات پر جو بحث کی ہے، وہ بے حد دل چسپ ہے اور سر سید کی وسعتِ ذہنی اور گزٹ کے دائرۂ کار کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ انگریزی شاعر لارڈ ٹینی سن، منشی نول کشور اور سالار جنگ وغیرہ کے شامل کل ایک سو نو تعزیتی شذرے ہیں۔ اخبارات میں اجتماعیت کا زور سب سے زیا دہ ہوتا ہے، اس لیے بہت ساری تحریریں اپنے لکھنے والوں کے نام سے آزاد ہو تی ہیں۔ اس لیے یہ مشکل بات ہے کہ’انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ میں شائع شدہ ان تعزیتی تحریروں میں کون سر سید کے قلم سے نکلی ہے، اس کی نشان دہی کی جاسکے۔ شافع قدوائی نے متعدد داخلی شواہد کی بنیاد پر یہ ثابت کیا ہے کہ دیانند سرسو تی، مولوی چراغ علی، عبدالحی فر نگی محلی وغیرہ کے شامل بارہ افراد کے تعزیتی گوشوارے لازماً سر سید کی کاوشِ قلم کا نتیجہ ہیں۔
’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ کی خصوصیات پر گفتگو کرتے ہوئے شافع قدوائی نے اس میں شائع شدہ کتابوں کے تبصروں کو بجا طور پر اہمیت عطاکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو میں کتابوں کے تفصیلی تبصرے کی اشاعت کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ ’گزٹ‘ میں شیخ محمد ابراہیم ذوق، محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی، حالی، منشی ذکاء اللہ، سید احمد دہلوی، شوق قدوائی، ڈپٹی نذیر احمد اور عبد الحلیم شرر کی تازہ کتابوں پر تفصیلی تبصرے شائع ہو ئے۔ ’آبِ حیات‘، ’نیرنگِ خیال‘، ’حیاتِ سعدی‘، ’دیوانِ ذوق‘، ’دیوانِ حالی‘ اور ’سفر نامۂ مصر و شام‘ جیسی کتابوں پر’گزٹ‘ میں ان کی اہمیت کے مطابق تبصرے شائع ہو ئے۔’آب حیات‘ پر سر سید، حالی اور منشی ذکاء اللہ کے الگ الگ تبصروں (مطبوعہ ١٨ دسمبر ١٨٨٠ء) کے بارے میں شافع قدوائی نے وضاحت سے لکھا ہے کہ ذکاء اللہ نے آب حیات کی خصوصیات تسلیم کرنے کے باوجود بعض شعرا کی عدم شمو لیت پر سوالات قائم کیے تھے۔ خاص طور سے مو من کا ’آب حیات‘ میں شامل نہیں ہونا محمد حسین آزاد کے سامنے ایک بڑا سوال بن گیا تھا۔ اس سلسلے میں ’گزٹ‘ کی اہمیت بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یکم فر وری 1881ء کے مطبوعہ خط میں محمد حسین آزاد نے واضح کیا ہے کہ’آب حیات‘ کا نیا ایڈیشن سامنے آنے وا لا ہے جس میں بہت ساری اصلاحیں شامل ہیں۔’گزٹ‘ میں کو ن سی تحریریں سر سید کی ہیں اور کون سی دو سروں کی، اس سلسلے سے شافع قدوائی نے بحث کر تے ہوئے اردو کے دیگر محققین سے اختلاف کیا ہے اور سر سید کے ایک سو مضامین یا شذرات کے عنوانات تاریخ وار پیش کر دیے ہیں جن کے مطا لعے سے سر سید کے عبقری ذہن اور مزاج کی وسعت نظری کے ثبوت فراہم ہو تے ہیں۔
’علی گڑھ انسٹی ٹیو ٹ گزٹ‘ میں سر سید کے وہ مضامین بھی محفوظ ہوئے جو کسی نہ کسی جہت سے تعلیم یا زبان سے واضح تعلق رکھتے ہیں ’انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ میں ہی سر سید نے اردو کے خلاف غیر ضروری طور پر چل رہے پروپیگنڈہ کو سمجھتے ہوئے اپناسلسلۂ مضامین قائم کیا۔’انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘میں اس سلسلے سے سرسید اور دوسروں کے چھبیس مضامین شائع ہوئے۔ سرسید کی صحافتی دیانت داری کا یہ ادنا ثبوت ہے کہ انھوں نے ’انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘میں ہندی کی حمایت اور اردو کی مخالفت میں لکھے گئے مضامین بھی شائع کیے۔ اردو ہندی تنازعات پر گفتگو کرتے ہوئے عام طور پر سرسید برادرانِ وطن کے نفسیاتی پہلوؤں کو بہ خوبی توجہ میں رکھتے ہیں۔ شافع قدوائی نے اردو ہندی تنازعات کے سلسلے سے’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ کے نقطۂ نظر کو مثالی صحافتی اقدار کا حامل قرار دیا ہے۔
’انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ کی جانچ پرکھ کے لیے شافع قدوائی نے تعلیم کے موضوع کا بھی انتخاب کیا ہے کیوں کہ فکرِ سرسید کا یہ بنیادی عنصر ہے۔ گزٹ میں ایسے تیس مضامین شائع ہوئے جن کا موضوع براہِ راست تعلیم و تدریس ہے۔ شافع قدوائی نے اس ضمن میں سرسید کے صرف ایک مضمون کا ایک مختصر اقتباس شامل کیا لیکن ان کی محققانہ خوبی کہیے کہ یہاں سرسید شناسی کا ایک اہم پہلو اپنے آپ روشن ہوجاتا ہے۔ یہ اقتباس تعلیم نسواں سے متعلق ہے۔ شافع قدوائی نے تو یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ سرسید عورتوں کی تعلیم کے طرف دار تھے اور اس سلسلے سے سرسید کی تنقید کرنے والے لوگوں پر طنزیہ فقرے بھی پیش کیے ہیں۔ میرا کہنا ہے کہ وہ جوشِ دفاع میں سرسید کی تمام تحریروں اور دوسرے کام کاج کو نگاہ میں رکھے بغیر اس موضوع پر ایک اقتباس یا ایک تحریر کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، یہ درست نہیں۔
’انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ کے سیاسی، سماجی اور دیگر موضوعات پر شائع شدہ مضامین کی بنیاد پر شافع قدوائی نے بجا طور پر سر سید کا ایک اعلا صحافتی بُت قائم کیا ہے۔ یہ بُت عقائد نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر مکمل کیا گیا ہے۔ یہ انھوں نے اچھا کیا کہ اپنی باتوں کو کہتے ہوئے اخبار سے ضروری اقتباسات بھی ترجمہ کرکے بہ طورِ ثبوت پیش کردیے۔’انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ سے متعلق نوّے صفحات میں شافع قدوائی نے جس جاں فشانی کے ساتھ سرسید کی تحریروں اور موقف کا جائزہ لیا ہے، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید شناسی کا نہایت سنجیدہ اور گہرا کام، دوسرے لفظوں میں بھاری پتّھر شافع قدوائی نے اٹھایا ہے۔ دورانِ گفتگو تحلیل و تجزیہ کے مرحلے میں شافع قدوائی، سرسید کی تحریروں کو اس طرح سے پیش کرتے ہیں جیسے معلوم ہو کہ ان ہی کے زمانے میں یہ سب چیزیں شائع ہوتی رہیں جب کہ معاملہ سو سوا سو برس قبل کا ہے۔ یہ محقق کا اپنے موضوع پر پورے طور پر قادر ہونے کا ثبوت ہے۔

تہذیب الاخلاق:
علی گڑھ تحریک کے فیضان کو’تہذیب الاخلاق‘ اور”The Muslim Social Reformer” کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ 1869ء میں سرسید جب انگلینڈ پہنچے، اس وقت وہاں "The Tattler” اور "Spectator” کا چرچا تھا۔ ان کا نکلنا ہرچند کہ بند ہوچکا تھا لیکن ذکر جاری تھا۔ سرسید نے وہیں طے کرلیا کہ اپنے ملک میں وہ واپس آنے کے بعد اِسی طرح کا ایک رسالہ شائع کریں گے۔ ان کے اردو اور انگریزی نام بھی انگلینڈ میں ہی طے ہوگئے تھے۔ سرسید نے’تہذیب الاخلاق‘ میں جس سرگرمی سے اپنے مضامین شائع کیے، اس سے اس رسالے سے ان کے تعلق خاطر کو سمجھا جاسکتا ہے۔ سرسید کی حیات تک’تہذیب الاخلاق‘ کے جو شمارے سامنے آئے ان میں کل تین سو پچیس مضامین شائع ہوئے۔ ان میں تنہا ایک سو ستّاسی یعنی 53% سرسید کے قلم سے نکلے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سرسید کے خیالات اور علی گڑھ تحریک کی سانسوں اور دھڑکنوں کو سمجھنے کے لیے رسالہ’تہذیب الاخلاق‘ ایک بنیادی ماخذ ہے جس پر شافع قدوائی نے اپنے مقالے میں کوئی پچاس صفحات وقف کیے ہیں۔
شافع قدوائی کے اس تحقیقی مقالے کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ سرسید اور ان کے صحافتی کاموں سے متعلق جو تحقیقی غلطیاں ایک سے دوسری کتابوں میں نقل درنقل کے سبب دیکھنے کو ملتی ہیں؛ ان کا بھرپور حقائق کے ساتھ تدارک کردیا گیا ہے۔ کہنے کو یہ ایک غلطی کی اصلاحِ محض ہے لیکن غور کرنے پر پتا چلتا ہے کہ یہ تحقیقی بھول ان بزرگوں سے ہوئی ہے جن کے نقشِ قدم پر چلنا کامیابی کی ضمانت ہے۔ شافع قدوائی نے بھی ایسی اصلاحوں میں جوشِ بے جا کو روا نہیں رکھّا۔ چند مثالوں سے یہ بات واضح ہو جائے گی:

(۱) ’تہذیب الاخلاق‘ کس کس زبان میں نکلا؟:
آج ہم سب کو یہ معلوم ہے کہ رسالۂ ’تہذیب الاخلاق‘ اردو زبان کا معتبر رسالہ رہا ہے۔ ’حیات جاوید‘ میں حالی نے کہیں بھی’تہذیب الاخلاق‘ کو ذولسانی یا کثیر لسانی رسالے کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ انھوں نے اسے خالص اردو رسالہ تسلیم کیا ہے۔ شافع قدوائی نے محسن الملک کے نام لندن سے لکھے گئے سرسید کے مکتوب کا ترجمہ پیش کردیا ہے۔ اس کے بعد شافع قدوائی نے وہ تفصیلات پیش کی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ’تہذیب الاخلاق‘ میں انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں؛ کبھی کبھار انگریزی اور عربی زبان میں بھی متعدد چیزیں شائع ہوتی تھیں۔ مضامین، رپورٹیں، خطوط اور اداریے سب حسبِ ضرورت انگریزی اور عربی میں بھی شائع ہوئے۔ اس طرح یہ تحقیقی امر کہ’تہذیب الاخلاق‘ میں انگریزی اور عربی زبانوں کا بھی حصّہ ہے، سرسید شناسی میں غالباً پہلی بار شافع قدوائی کے حوالے سے سامنے آتا ہے۔

(۲)تہذیب الاخلاق کا وقفۂ اشاعت:
اردو صحافت کی تاریخ کے مشہور محققین امداد صابری، عبدالسلام خورشید اور عتیق صدیقی نے اپنی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ’تہذیب الاخلاق‘ ایک ماہ میں تین بار شائع ہوتا تھا لیکن شافع قدوائی اِسے درست نہیں مانتے۔ انھوں نے محسن الملک کے نام سرسید کے لکھے خط کا اقتباس پیش کرکے یہ بتایا ہے کہ ابتداً سرسید کے ذہن میں ماہانہ رسالے کا ہی تصور تھا۔ لیکن پہلے ہی شمارے میں یہ اعلان شائع ہوگیا کہ ایک ماہ میں ایک بار یا دو بار یا جتنی بار ضرورت ہو، یہ رسالہ شائع ہو گا۔ اسی وجہ سے کبھی مہینے میں ایک یا کبھی دو یا کبھی تین شمارے بھی شائع ہوئے۔ شافع قدوائی نے یہ لکھا ہے کہ 1896 ء کے بعد ہی یہ ہفتہ وار ہو سکا۔ شافع قدوائی نے لکھا ہے کہ اپنے پہلے سال میں ’تہذیب الاخلاق‘ کے ابتدائی چھے شمارے دس دن کے وقفے سے شائع ہوئے اور پھر ان کی اشاعت کا دورانیہ پندرہ روزہ ہو گیا۔

(۳) تہذیب الاخلاق کے پہلے شمارے کی انگریزی تاریخ:
تہذیب الاخلاق کے پہلے شمارے کی اشاعت کی انگریزی تاریخ حالی نے ٢٤ دسمبر ١٨٧٠ء درج کی ہے۔ ہجری تاریخ یکم شوّال ١٢٨٧ء ہے۔’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ میں انگریزی اور ہجری دونوں تاریخیں ایک ساتھ شائع ہوتی تھیں۔ لیکن’تہذیب الاخلاق‘ میں سرسید نے صورت بدل دی اور صرف ہجری تاریخ ہی شائع ہوتی رہی۔ اس تاریخ کی حالی نے جو عیسوی مطابقت پیش کی، اُسے دیگر ماہرینِ سرسید یا محققینِ صحافت بہ شمول مولوی عبدالحق، سید عبداللہ، امداد صابری، محمد عتیق صدیقی، عبدالسلام خورشید، خلیق احمد نظامی، شان محمد، قدسیہ خاتون اور نفیس بانو وغیرہ نے حالی کی مکھّی پر مکھّی بٹھاتے ہوئے ٢٤ دسمبر ١٨٧٠ء کی ہی تاریخ درج کی ہے۔ شافع قدوائی کا کہنا ہے کہ یہ تاریخ درست نہیں ہے۔ انھوں نے تقویم کی مدد سے یہ تاریخ ایک دن آگے یعنی ٢٥ دسمبر ١٨٧٠ء طے کی ہے۔ محققین کی ہدایت ہے کہ تقویم ہجری و عیسوی کی مطابقت قائم کرتے ہوئے جب تاریخ معلوم ہو تو ایک دن کی اور تاریخ یا ماہ نہیں معلوم ہو تو ایک سال کے لیے باز پرس نہیں کی جا سکتی۔ اس اعتبار سے شافع قدوائی کی طرف سے ایک دن کی زیادہ کی تاریخ کوئی بڑا کارنامہ نہیں مانی جاتی اگر شافع قدوائی نے سرسید کاقول نہ پیش کر دیا ہوتا کہ ان کے رسالے کی افتتاحی شان بھی کیا خوب ہے کہ عید اور کرسمس ایک ہی روز وقوع پذیر ہوئے۔
مذکورہ بالا تینوں مثالوں سے یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ شافع قدوائی نے سرسید کے رسالے کا سرسری طور پر مطالعہ نہیں کیا بلکہ اُسے لفظ بہ لفظ اور صفحہ در صفحہ پڑھنے کی کوشش کی۔ اسی لیے تحقیقی جہت سے گفتگو کرتے ہوئے انھیں بہت سارے مسلّمات پر انگلی رکھنی پڑی اور آج یہ صورتِ حال ہے کہ بعض امور میں وہی نتائج لائق اعتنا ہیں جو شافع قدوائی نے طے کردیے۔ لیکن یہ کتاب صرف تحقیقی جہت سے کارآمد نہیں ہے بلکہ علمی نقطۂ نظر سے سرسید کے اخبار و رسائل کے اندر جو خزینہ چھپا ہوا تھا، اس پر بہت سارے لوگوں نے اپنے دانشورانہ نتائج ظاہر کیے ہیں لیکن شافع کا کمال یہ ہے کہ وہ ایسی سیکڑوں بنیادیں فراہم کرتے ہیں جو افکارِ سرسید کے طالب علم کو نئے سرے سے غور و فکر کے لیے مجبور کردے۔ ان کے پاس معلومات کا اتنا وسیع دائرۂ کار ہے کہ حقائق کی پیش کش میں دوسرے متعلقات سے مناسبت پیدا کرکے تصدیقِ نو کرتے چلے جاتے ہیں۔ نتائج اخذ کرنے کے دوران شافع قدوائی کا ایک اور انداز قابل اتّباع معلوم ہوتا ہے۔وہ کسی موضوع پر بحث کرتے ہوئے اپنے مرکز یعنی ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘اور’تہذیب الاخلاق‘ کے مضامین پر حاوی تو رہتے ہیں لیکن مزید صراحت کے لیے وہ متعلقہ مطبوعات اور سرسید کے خطوط یعنی دیگر مضامین سے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تحریر کو استحکام عطا کرتے ہیں۔ اتفاق سے سرسید کی صحافت پر اردو میں مضامین اور کتابو ں کی کمی نہیں لیکن تفہیم و تجزیہ کا تازہ ترین اور ترقی یافتہ اسلوب جو شافع قدوائی کے ہاتھ آیا ہے، وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں۔
دونوں اخبارات و رسائل کے تجزیے میں شافع قدوائی کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ وہ صرف اردو زبان کے محقق اورنقاد نہیں بلکہ شعبۂ صحافت میں پروفیسر بھی ہیں اور یہ کتاب شعبۂ صحافت میں رہتے ہوئے ان کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ اس لیے سرسید کے جرائد پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے جن تکنیکی پہلوؤں سے اور زیادہ تفصیلات درج کی ہیں، وہ تو اردو کا کوئی عالِم پیش ہی نہیں کر سکتا تھا۔ اس سے ظاہری صورتِ حال بھی صاف صاف سمجھ میں آجاتی ہے۔ مضامین کتنے کالم انچ میں شائع ہوئے اور خبروں کا تناسب کیا تھا، فیچر کتنا شامل ہوا اور تبصروں کے لیے اخبار میں کتنی جگہ رکھی گئی، یہ تمام باتیں شافع قدوائی نے اپنے تکنیکی ناپ تول سے ظاہر کردی ہیں۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ شافع قدوائی نے ایک ایک شمارہ ملاحظہ کیا اور ہر تحریر کو اپنے جائزے میں اہمیت دی۔ بے صبر محققین کی ایک خوٗ یہ ہوتی ہے کہ ”تھوڑا پڑھا، اور زیادہ سمجھا، اور اس سے بھی زیادہ لکھا“ کے سنہرے اصولوں پر عمل پیرا ہونا کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں لیکن جِسے پِتّاماری کا کام کہتے ہیں، وہ تحقیق ہے جس میں کبھی یہ اصول کا ربند نہ ہو سکا کہ چاول کے ایک دانے کو دیکھ کر پوری ہانڈی کے بارے میں فیصلہ کرلیا جائے۔ شافع قدوائی نے واقعتا ’تہذیب الاخلاق‘ اور ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ کے ایک ایک دانے کو دیکھا، جہاں ناپ تول کی ضرورت تھی، وہ بھی کیا اور پھر سرسید کی تحریک اور ان کی زندگی کے تناظر میں ان شذرات کی اہمیت کو روشن کیا۔ رسائل اور اخبارات کا ظاہری طور پر کتنا مؤثر جائزہ وہ لے سکتے ہیں، اس کا ایک نمونہ’تہذیب الاخلاق‘ کے سرورق پر لکھے گئے نام کی تفصیل میں ملاحظہ کرنا چاہیے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوگا کہ وہ مختصر نویسی کا فن جانتے ہیں اور تکنیکی تفصیلات پوری صفائی کے ساتھ پیش کرنے پر قادر ہیں:
"The upper half of the masthead was devoted to the English name – The Mahomedan Social Reformer – the first part of English name – The Mahomedan – appeared in semi circle and the rest of the name- Social Reformer” published in a 3-inch long horizontal box. The upper half carrying floral decoration is followed by Urdu name which also appeared in similar horizontal box. The masthead comprised name, volume, issue number and dateline.”
شافع قدوائی کی اس کتاب کے آخری دو ابواب سرسید کے مضامین کو فکری طور پر سمجھنے کی کوشش میں وقف ہوئے ہیں۔ تحقیقی مقالے کی معروضیت کا یہ تقاضا بھی تھا کہ حیات اور مطبوعات کی تمام تفصیلات کے بعد اب اختصار میں یہ بتا دیا جائے کہ سرسید کے افکار و نظریات کے اصل نکات کیا ہیں؟ یوں تو پوری کتاب میں انھوں نے’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ اور’تہذیب الاخلاق‘ کے مشتملات کو زیر بحث لاکر سرسید کے اس عبقری دماغ میں اترنے کی کوشش ہی کی ہے۔ اور سیکڑوں مثالوں سے وہ بہت حد تک سرسید کے متعلقات واشگاف کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ پانچویں باب میں جہاد اور اسلام،  مسلم ریزرویشن، حق رائے دہی اور ہندستان میں جمہوریت، اردو ہندی تنازعات، جنسی مساوات، مجالسِ قانون ساز کا عوام کے مفاد میں استعمال جیسےموضوعات پر سرسید کے خیالات اور کار کردگی کا الگ الگ اختصار کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں شافع قدوائی نے سرسید کے زمانے کے بعد کے حالات اور مسائل و مباحث کو بھی سامنے رکھ کر اپنے تجزیے کے لیے نئی بنیادی زمین تلاش کی ہے۔ یہاں وہ صحافتی آثار اور قدیم کتب خانے کے طالب علم نہیں معلوم ہوتے جیسا کہ وہ اس کتاب میں سوا دو سو صفحات سے زیادہ تک میں دکھائی دیتے ہیں بلکہ یہاں زمانۂ موجود کے سلگتے ہوئے سوالات اور تنازعات پیدا کر دینے والی باتوں یا کتابوں کے نتائج سے گریز نہیں کرتے بلکہ سرسید کے تناظر میں ان تمام امور کا بے لاگ اور منصفانہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حصّے میں سرسید کے تعلق سے شائع شدہ بعض اہم تحریروں کا بھی اپنے جائزے میں وہ استعمال کرتے نظرآتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر اردو میں سرسید سے متعلق چھپی ہوئی کتابوں سے واقف ہیں لیکن اس کتاب میں ان کا بھرپور استعمال ہوتا ہوا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ انگریزی ماخذات کا حسبِ ضرورت وہ جائزہ لیتے رہتے ہیں اوران کا استعمال بھی حوالہ جات کے لیے کرتے چلتے ہیں۔
پانچویں باب کی فہرست میں خواتین کی تعلیم کے سلسلے سے ایک پوری شق قائم کی گئی ہے لیکن کتاب کے متن میں اس شق یا باب کا کہیں پتا نہیں چلتا۔ اِسے محض چھپائی کی بھول کہنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس طرح سرسید کے سماجی امور پر تصورات کو سمجھنے کے لیے یہاں کوئی جگہ دکھائی نہیں دیتی۔ سرسید کے محققین نے سرسید کے ذہنی تحفّظات کے سلسلے سے بھی دوچار باتیں پیش کی ہیں۔ یہ تمام باتیں سرسید کے گزٹ اور تہذیب الاخلاق کے مضامین پر گفتگو کرتے ہوئے زیر بحث آسکتی تھیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ ان اندھیرے گوشوں پر بھی روشنی پڑے۔ ہر چند اس میں سرسید کی تھوڑی شبیہ بگڑتی ہی کیوں نہ معلوم ہو لیکن کسی عہد ساز شخصیت کی عظمت پر دوچار سوالات سے کوئی گہن نہیں لگتا۔ شافع قدوائی نے اپنے محسن کا ہزار حقائق کے ساتھ جو بُت قائم کیا تھا، شاید اُسے وہ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ اسی لیے تیز دھوپ میں وہ سرسید کو جلنے سے بچانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ سچّائی ہے کہ یہ کتاب سرسید کی صحافتی تحریروں کا جائزہ ہے۔ یہاں ان کی مقصود با لذات کتابیں زیر بحث نہیں رہیں۔ ضمنی طور پر ان کا کہیں ذکر آگیا ہو تو یہی بہت بڑی بات ہے۔ لیکن کتاب کا جو انھوں نے سرنامہ بنایا، اس میں ’writing‘ لفظ سے اپنے آپ یہ توقع پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ سرسید کے مکمل ذہنی سانچے کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ اختتامی باب میں تو اور بھی اختصار آگیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کام کی باتوں پر انحصار کرتے ہیں اور سرسید کی صحافت سے زیادہ دور ہو کر گفتگو کرنا ان کے لیے موضوع سے الگ ہونے جیسا ہے۔ اس لیے آخری باب کا لہجہ پھر تمام و کمال سرسید کی صحافیانہ حیثیت پر واضح روشنی ڈالنے جیسا ہے۔ شاید محقق کی حیثیت سے ان کی یہ حد ہے۔
سرسید پر اردو میں صحافت کے حوالے سے جو کتابیں موجود ہیں، ان سے اگر شافع قدوائی کی کتاب کا موازنہ کیا جائے تو کئی دل چسپ نتائج برآمد ہوں گے۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے حوالے سے اصغر عباس کی کتاب کی بہت شہرت ہے۔ لیکن اس میں سرسید کی تحریروں کو مکمل یا اقتباس کی صورت میں پیش کرنے میں زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ تحلیل و تجزیہ یا بحث طلب امور سے جوجھنے میں مصنف کی طبیعت مائل نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس شافع قدوائی کی اس کتاب میں حقائق کے متوازی سرسید اور ان کے رفقا کی تحریریں اور سرسید کے خطوط، اخباری تراشے اور نہ جانے کتنی چیزیں ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ تحقیق کا یہ انداز بہت دل پذیر اور قلب کو ٹھنڈک پہنچانے والا ہے۔ شافع قدوائی کو کچھ فائدہ انگریزی زبان سے بھی ہوا ہے۔ کیوں کہ اردو اور انگریزی کے علمی مزاج میں جو واضح فرق ہے، اس سے انھوں نے خود کو غیر ضروری صفات اور مبالغہ آمیزی سے  دور رکھا ہے۔ اللہ کرے کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ فوری طور پر سامنے آجائے تا کہ اپنے موضوع پر اتنے سلیقے سے لکھی ہوئی یہ کتاب اپنے اصل قارئین تک بھی پہنچ جائے۔

SAFDAR IMAM QUADRI
Head, Deptt. of Urdu,College of Commerce, Arts & Science,Patna- 800020 (Bihar)
safdarimamquadri@gmail.com
Mobile: 09430466321
صفدر امام قادری کا یہ مقالہ بھی ملاحظہ فرمائیں : شبلی بہ نام سرسیّد: اختلاف و اختلاف

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے