کتاب : عصر حاضر اور نظریۂ جہاد (تنقید واستدراک)

کتاب : عصر حاضر اور نظریۂ جہاد (تنقید واستدراک)

ابو الفیض اعظمیؔ

پروفیسر محسن عثمانی ندوی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے ۔ آپ نے ملک کی مختلف جامعات (دہلی یونی ورسٹی، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، حیدرآباد وغیرہ) میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے ساتھ صدر شعبہ بھی رہے ہیں۔ آپ ایک وسیع النظر شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ہی جید عالم دین بھی ہیں۔ پروفیسر صاحب متعدد کتابوں کے مرتب، مؤلف اور مصنف ہیں۔
یہ کتاب ایک ایسے موضوع (جہاد) پر مرتب کی گئی ہے جس پر ۱۹ ویں اور ۲۰ ویں صدی میں بہت کچھ لکھا گیا اور ابھی تک لکھا جا رہا ہے۔ لفظ ’’جہاد‘‘ کو بدنام کرنے اور تصور جہاد کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ دہشت گردی کے نام پر اسلام، مسلمان اور سینکڑوں عظیم المرتب صحابہ کرام کی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا، بہت سے بے قصور مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا، جس میں آج بھی وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں.
۱۸ویں صدی میں انقلاب فرانس کے بعد اسلام کے خلاف منظم سازش کے تحت بہت سے باطل نظریات سامنے آئے۔ اسی وقت سے جہاد اور غلبۂ دین کی فکر کو ختم کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ ہندستان میں انیسویں صدی کے اواخر میں سب سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی نے عیسائی مشنریوں کے اشارے پر جہاد کے تصور کو لوگوں کے دلوں سے نکالنے کے لیے سینکڑوں کتابیں لکھی۔ جہاد کو بدنام کرنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے لیکن حدیث نبوی کے مطابق:
’’ یہ دین قیامت تک ہمیشہ قائم رہے گا اس لیے کہ مسلمانوں میں سے ایک نہ ایک جماعت اس دین کی حفاظت کے لیے برابر قتال کرتی رہے گی ۔‘‘ (مسلم)
زیر نظر کتاب ’’عصر حاضر اور نظریہ جہاد‘‘ مختلف تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں مولانا وحید الدین خان، مولانا یحییٰ نعمانی، مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی کے نظریہ جہاد اور تصور جہاد کا تنقیدی اور تحقیقی جائزہ قرآن و سنت کی روشنی میں لیا گیا ہے۔ کتاب میں کل ۱۰(دس) مضامین شامل ہیں جن میں ۵ مضامین مولانا عبد العلیم اصلاحی کے ہیں اور مولانا عتیق احمد بستوی، مولانا نصیر الدین حیدرآباد، سید نور العارفین، ڈاکٹر ظل ہما اور مرتب کتاب پروفیسر محسن عثمانی ندوی کے ایک ایک مضامین ہیں ۔
مولانا عتیق احمد بستوی اپنے تنقیدی مضمون ’’مولانا وحید الدین خان کا تصور جہاد‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’دفاعی جہاد کے لیے خاں صاحب نے جو شرطیں اپنی مختلف تحریروں میں بیان کی ہے ان میں سے بیش تر موصوف کے ’’زرخیز‘‘ ذہن کی پیداوار ہیں۔ ان شرطوں کو قرآن و سنت میں اور مفسرین، محدثین، فقہا کی تحریروں میں تلاش کرنا فعل عبث ہے۔ ان شرطوں کا باطل اور بے اصل ہونا اتنا واضح ہے کہ ان کی نقاب کشائی کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاد کے لیے ہجرت کی شرط سب سے زیادہ دل چسپ ہے۔ خان صاحب کا نظریہ یہ ہے کہ مدعو کے ساتھ مخلوط آبادی میں جہاد نہیں۔ موصوف ہی بتا سکتے ہیں کہ بنو قریظہ (مدینہ میں رہنے والا یہود کا ایک قبیلہ) سے جہاد کرنے کے لیے نبی اکرمؐ نے مدینہ سے ہجرت کیوں نہیں فرمائی اور مدعو کے ساتھ مخلوط آبادی میں جہاد کیوں کیا؟‘‘ (ص۱۲،۱۳)
مولانا نصیر الدین حیدرآباد ’’عصر حاضر اور جہاد ۔ ایک جائزہ‘‘ کے تحت مولانا یحییٰ نعمانی صاحب کے تصور جہاد کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’مولانا نے مسلح جہاد کے بارے میں فرمایا ! جہاد کے جواز کے لیے حالات کی سازگاری اور اچھے نتائج کی توقع شرط ہے۔ یہ شرط قرآن وحدیث کے ذخیرے میں کہیں نہیں پائی جاتی بلکہ قرآن تو نتیجہ سے بے پرواہ ہو کر مقابل کی طاقت کو خاطر میں لائے بغیر مقابلہ کرنے اور جنگ لڑنے کاحکم دیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد :
’’نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ۔‘‘ (التوبہ) (ص۲۳)
ڈاکٹر ظل ہما ’’جہاد کے شرائط پر ایک نظر‘‘ میں مولانا یحییٰ نعمانی کے ایک مضمون کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
’’جب کفر اور غلبۂ کفر جہاد اور قتال کی علت نہیں ہے تو پھر غزوہ بدر اولیٰ سے لے کر جیش اسامہ کی روانگی تک پیارے رسولؐ کے نزدیک جہاد و قتال کی علت کیا تھی۔ خلافت صدیقیؓ سے لے کرخلافت علیؓ تک ساری جنگیں کیوں لڑی گئیں ۔‘‘ (ص۵۶)
مولانا عبدالعلیم اصلاحی ’’مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا تصور جہاد‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ظاہر ہے جب کوئی ملک دار الحرب نہیں ہے تو جہاد کا بھی سوال ختم ہے اور جہاد و قتال سے متعلق قرآنی آیات و احادیث بے محل ہو کر رہ جائیں گی۔‘‘
آگے مولانا لکھتے ہیں :
’’ایک تو یہ ہے کہ ہمارے علما اس دور میں زیر کفر و شرک رہنے کے لیے وجہ جواز کے دلائل کتاب و سنت سے ڈھونڈتے ہیں اور سب سے بڑا عالم وہ مانا جاتا ہے جو کتاب و سنت سے بھی ایسے مسائل ڈھونڈ نکالنے میں کمیونزم، سوشلزم اور سیکولرزم کے زیر اقتدار سکون سے رہنے کے لیے جواز نکال سکے ۔‘‘ (ص۷۹ ،۸۰)
’’مولانا عنایت اللہ سبحانی کے نظریہ جہاد‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا عبدالعلیم اصلاحی لکھتے ہیں:
’’ اس لحاظ سے سوچا جائے تو سبحانی صاحب کی بات نہایت ہی سنگین بات بن جاتی ہے اس لیے کہ تمام انبیا علیہم السلام نے کفر اور شرک کو قابل نفرت چیز قرار دیا ہے اور کفر و شرک سے بغض و عداوت کو جز و ایمان قرار دیا ہے اور قرآن نے کفر کے بطن سے نکلی ہوئی چیزوں کو گندگی اور اہل کفر کو ایسا نجس کہا کہ مسجد حرام کے قریب بھی انھیں آنے کی اجازت نہیں دی ۔‘‘ (ص۱۱۲ ،۱۱۳)
’’حاکم کے خلاف خروج کا مسئلہ ۔استدراک اور توضیح‘‘ اس مضمون میں پروفیسر محسن عثمانی ندوی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے نظریہ جہاد کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی مراد عرب ملکوں میں حکمرانوں کے خلاف اٹھنے والی تحریک ہے جیسے مصر میں، شام میں، تیونس میں، لیبیا میں حکمرانوں کے خلاف تحریکیں اٹھیں ہیں. ظاہر ہے کہ تحریکیں تو ان ہی عرب ملکوں میں اٹھی ہیں. داعش تو ایک متوازی نظام حکومت کا نام ہے ۔‘‘ (ص ۱۲۸)
کتاب میں شامل تمام تحریر سادہ اور سلیس ہے جس سے قاری کو پڑھنے میں کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ کتاب میں شامل تمام مضامین پڑھنے کے قابل ہیں۔ خاص طور پر تحریک اسلامی کے ہر فرد کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ جہاد کی جو غلط توضیح کی جاتی ہے اس سے لوگ واقف ہوسکیں اور اپنے اندر جذبۂ جہاد اور شوق شہادت مزید پروان چڑھا سکیں ۔
یہ کتاب ۱۶۶ صفحات پر مشتمل ہے، گائیڈنس پبلیشرز اینڈ ڈسٹریبیوٹر دہلی نے شائع کیا ہے۔
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:خوف کے سائے میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے