شخصیت : علی شیدا

شخصیت : علی شیدا

کالم نگار : ایس معشوق احمد

وادی کشمیر ارض پر جنت کا نمونہ ہی نہیں ہے بلکہ علوم و فنون کی ترویج میں بھی اس خوب صورت وادی کو سبقت حاصل ہے۔. مذہبیات ہو یا ادبیات، تاریخ ہو یا فلسفہ یہاں ہر علمی میدان میں اہل قلم نے گراں قدر کارنامے انجام دیے ہیں۔ یہاں کے علما، مورخین، اولیا اور ادبا و شعرا نے علم و فن، تحقیق و تصنیف میں ان مٹ نقوش یادگار چھوڑے ہیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں تو بے شمار لوگوں نے اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ ان ادبا و شعرا نے نہ صرف فنی باریکیوں کا خیال رکھا بلکہ صحت زبان، سلاست و روانی اور اپنے پیرایۂ اظہار سے یہ ثابت کیا کہ وہ اپنی فکر کو اردو زبان میں بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی ایسے شعرا کی کمی نہیں جن کو بے جھجک صف اول کے قلم کاروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ایسے ہی قادر الکلام شعرا کی صف میں شامل ایک معروف نام علی شیدا کا ہے جنھوں نے شاعری اور نثر میں لکھ کر ادبی حلقوں میں اپنا منفرد مقام بنایا ہے۔

اردو شاعری کے شیدا علی شیدا کا پورا نام علی محمد ریشی، تخلص شیدا، یکم اکتوبر 1953ء نجدون نیپورہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی شعر و شاعری کا شوق طبیعت میں رچ بس گیا تھا جسے عروج کالج دور میں ملا، جب ڈگری کالج اننت ناگ کے” ویری ناگ" میگزین میں 1971ء سے غزلیں کشمیری اور اردو زبان میں چھپنے لگیں۔ کالج میں تعلیم بھی حاصل کررہے تھے اور میگزین”ویری ناگ" کے گوشۂ کشمیری کے ایڈیٹر بھی تھے. علی شیدا نے شعبہ اقتصادیات کشمیر یونی ورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کی اور بینک میں ملازم ہوئے۔ بینک میں بہ حیثیت اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ سبک دوش ہوئے۔ انگریزی، اردو اور کشمیری تینوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ کشمیری زبان میں اب تک پانچ شعری مجموعے سونزل (1991)ء، رنبیہ آر (1992)ء، صل علی(نعتوں کا مجموعہ 1993)ء، کرہن شین (1994)ء اور شینہ شہر (2011)ء ادبی حلقوں میں مقبول ہو چکے ہیں۔ ان کتب کے سوا کشمیری زبان کے شعرا پر تنقیدی و تحقیقی مضامین اور پچیس کے قریب افسانے اخبارات اور ریڈیو پر نشر ہوچکے ہیں۔ اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ علی شیدا نے پانچ دہائیوں سے اردو زبان کو اپنے احساسات و جذبات کا ترجمان بنایا ہے۔ اردو میں اب تک ان کے تین شعری مجموعے "یہ خلش کہاں سے ہوتی" (2002)ء، درد کی دہلیز تک ( 2018)ء اور لا بہ لا (2020 )ء شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری کے علاوہ تنقیدی مضامین اور قریبا چالیس افسانے مختلف اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔
شاعری میں انفرادی تجربات، سماجی زندگی اور اردگرد بکھری ہوئی حقیقتوں کا بیان ہوتا ہے۔ یہ جذباتی اظہار کا بھی وسیلہ ہے اور آفاقی قدروں کی ترجمان بھی۔ اس میں زندگی سے جڑے مسائل، نا آسودگی، قدروں کے زوال کو بھی موضوع بنایا جاتا ہے۔ دنیا سے بیزاری ہو یا والہانہ کیفیات کا بیان، تخیل کی ندرت ہو یا فطرت سے لگاؤ ایک شاعر شعری روایت کا پاس رکھ کر بہترین اور خود ساختہ اسلوب اپنا کر خاص طرز ادا اور لب و لہجہ اپنا کر قاری کو ارضیت سے آشنا کرتا ہے۔ انسان کے اندر جو جذبات کی گونج اٹھتی ہے ایک شاعر اس صدا کو سن کر ان جذبات کی ترجمانی شاعری میں کرتا ہے۔ اب کوئی حقیقت سے خود کو جوڑ کر رکھتا ہے تو کوئی رومانوی پیرایۂ ادا کو اپناتا ہے۔ کچھ شعرا فطرت اور زندگی کے زیادہ ہی قریب ہوتے ہیں۔ان کے شاعرانہ اظہار میں فطرت سے وابستگی کا شدید جذبہ بھی ہوتا ہے اور رومان پرور دل چسپیوں کا ذکر بھی۔ علی شیدا کا شمار ایسے شعرا میں ہوتا ہے جو حقیقت سے آنکھیں نہیں چراتے بلکہ حقیقت میں جذبات اور محسوسات کی آمیزش سے ایسی شاعری کو وجود بخشتے ہیں جس میں جمالیات کا عنصر بھی ہو اور حقیقت کی جھلکیاں بھی۔ شیدائے غزل علی شیدا شاعری کو اپنا دفتر مانتے ہیں اور گیسوئے محبوب کے سائے میں نماز پڑھتے ہیں۔ زمانے نے انھیں نام تو بہت دیے لیکن وہ قاری کی سماعت کو شریک کرتے ہیں تاکہ وہ انھیں کوئی خطاب دے۔
گیسوئے محبوب کے سائے میں پڑھتے ہیں نماز
ہے خم ابروئے دل بر کعبہ و منبر مرا
کیوں بھلا شیدا سے رکھتے ہو تکلف کی امید
میں تو شیدائے غزل ہوں شاعری دفتر مرا
نام کتنے دیے زمانے نے
تم بھی کوئی خطاب دے دینا
علی شیدا کی شاعری میں اپنے دور کے حالات، رحجانات، میلانات، زندگی کی ہمہ گیری اور وادی کے دگرگوں واقعات کا عکس بھی ملتا ہے اور حقیقت پسندی کا وہ طرز اظہار بھی جو دل پر دستک دے کر اندر کے نازک ترین جذبات کو چھیڑ دیتا ہے۔ علی شیدا اپنے دور کے ذہنی، معاشی، سیاسی انتشار اور نامساعد حالات سے پوری طرح واقف ہیں۔ ان کے یہاں مایوسی، زندگی سے بیزاری، قنوطیت اور حسرت انگیزی نہیں ملتی بلکہ زندگی اور مسائل زندگی سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اپنے عہد کی عکاسی کرتے ہوئے وہ جذبات کے بہاؤ میں بہہ نہیں جاتے بلکہ جذبات کے سمندر میں جذبہ فکر کی ناؤ چلا کر پار اتر آتے ہیں۔ وہ کسی مخصوص نظریے کے شاعر نہیں بلکہ پوری انسانیت کے شاعر ہیں، اعلا قدروں کے ترجمان۔ ان کو مصنوعی زندگی اور بے چہرگی سے زیادہ فطری زندگی عزیز ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں طرح طرح کی علامتوں کا استعمال بھی کیا ہے۔ ان کی علامتیں پیچیدہ اور غیر مانوس نہیں ہوتیں بلکہ ماحول اور حالات سے مشابہت رکھتی ہیں۔ یہ مشابہت معنی تک جلد رسائی دیتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کبھی فرصت سے دیکھیں گے اجالے
اندھیروں کے ابھی گھر دیکھتے ہیں
سماعت چھین لی ہے آندھیوں کے شور نے ہم سے
چلو خاموش لمحوں سے صدائیں چھین لیتے ہیں
کئی دن سے تماشا دیکھتا ہوں
سڑک پر اپنا لاشا دیکھتا ہوں
صرف دستار ہی سلامت ہیں
جن پر رکھے تھے سر گئے سارے
ہے گاؤں یہاں سبز قبیلے بھی ہیں رہتے
ہم زرد چناروں کو دکھائے ہیں کئی خواب
علی شیدا کی شاعری میں رومانویت کے واضح نقوش نظر آتے ہیں۔ وہ حسن کو دیکھتے ہیں اور اس کا اظہار حسین پیرایے میں کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں شفتگی بھی ہے اور عمدہ زبان کی چاشنی بھی۔ پروفیسر غلام محمد شاد بھی انھیں بنیادی طور پر رومانٹک شاعر مانتے ہیں۔ جس کی بنیاد محبت اور خلوص پر قائم ہے اور جو سراپا درد و سوز اور محبت ہے۔ کبھی وہ قیس کی مٹی سے پوچھنے جاتے ہیں کہ کیا اپنا رشتہ بنجاروں تک جاتا ہے تو کبھی خود کو سفیر عشق مانتے ہیں تو کبھی دعوی کرتے ہیں کہ ہم عشق سے دامن چھڑانے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔ چند اشعار دیکھیں:

قیس کے صحرا کی مٹی سے پوچھا تھا
اپنا رشتہ جاتا ہے بنجاروں تک
عشق سے دامن چھڑانے کا ہنر بھی تھا مگر
حسن والوں کی طبیعت تھی غضب اچھا ہوا
سفیر عشق تھا کیوں مورد الزام ٹھہرا
دیار حسن میں کیا عدل بھی گم ہوگیا ہے

عشق ظالم ہے عادتا مجبور
باز آئے نہ سر اٹھانے سے

یہ تو ہوتا ہے محبت کی طرح
کون کرتا ہے تعلق منقطع

شاعری انبساط کا ذریعہ ہے، اس حقیقت سے علی شیدا واقف نظر آتے ہیں۔ اپنی شاعری سے وہ قاری کو حظ ہی نہیں پہنچاتے بلکہ اصول شعر سے بھی آشنا کراتے ہیں۔ تخلیق میں فن کاری اور معیار پر زور دیتے ہیں۔ انھیں عاشقی کے آداب بھی آتے ہیں اور لب و لہجہ بھی شاعرانہ رکھتے ہیں۔ ان کے چند اشعار دیکھیں:
اشعار کہہ رہے ہیں قلم کار بھی تو ہو
تخلیق درد سے جڑا فنکار بھی تو ہو

غالب جگر کی میر کی مومن کی بات دور
شیدا کے حسن شعر سا معیار بھی تو ہو

ہے یہ شیدا غزل کا شیدائی
اور لہجہ بھی شاعرانہ ہے

عاشقی نے قیس کے آداب سکھلائے علی
شاعری نے بھی دیا شیدا لقب اچھا ہوا

اکثر شعرا کے لیے علم عروض ناقابل فہم ہے اور یہ ہے بھی دشوار فن۔ جب تک اس فن کو سیکھنے کے لیے اصولی کوشش نہ کی جائے اس پر مکمل گرفت حاصل نہیں ہوتی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس فن کو عروض اس لیے کہتے ہیں کہ شعر کو اس پر عرض کرتے ہیں.. یعنی شعر کو اس سے جانچتے ہیں تاکہ موزوں اور غیر موزوں میں فرق معلوم ہو۔ اس علم سے اشعار کے اوزان کا پتا چلتا ہے۔ کشمیر کے بعض بلند قامت شعرا کے کلام کو جب جانچتے ہیں تو ان کے کلام میں عروض کی مکمل پابندی نہیں ملتی۔ علی شیدا ان سے مبرا ہیں۔ ان کو علم عروض پر دست رس ہے۔ انھوں نے علم عروض پر مضامین بھی لکھے ہیں۔ اپنی شاعری میں بھی علم عروض کا خیال رکھتے ہیں اور نئے شعرا کو بھی عروض سکھا رہے ہیں۔

علی شیدا صرف غزل کے ہی اچھے شاعر نہیں بلکہ انھوں نے خوب صورت نظمیں بھی تخلیق کی ہیں۔انھوں نے "کوہکن" کو پکارا ہے اور”درد کی دہلیز تک" پہنچ کر دکھ کا جشن منایا ہے۔ شہر خموشاں پر لگے گہرے زخموں کو "شہر آشوب" میں بیان کرنے کے بعد دوپہر کو "اسی راہ میں" "دو بوند آنسو" گرا کر قربت اور فرقتوں کو یاد کیا اور دھڑکنوں میں اپنے بسے محبوب کو آواز دی کہ "سن میری جان" عید آنے والی ہے "میں کون سا نغمہ گاؤں گا..؟". چاند کی چاندی پر خط لکھ کر چاند سے گفتگو کی اور "چاند تجھ کو قسم" ہے آسمانوں کی میں بستی سے دور نکل آیا ہوں کسی سے نہ کہنا کہ میرا ” اگلا پڑاؤ" اسی زمین پر ہوگا "جہاں ہم دو کبھی ملے تھے"۔ ان کی نظموں میں آہنگ بھی ہے اور روانی بھی، معنی کی گہرائی بھی ہے اور اصولوں کی پابندی بھی، ایک مربوط نظام کے تحت نظم لکھتے ہیں اور قاری کو اپنے تجربات میں شریک کرتے ہیں۔ فاروق نازکی ان کی نظموں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:
"نظم کا خارجی ڈھانچہ نظم کے اندرون سے مربوط ہوتا ہے اور صوری یا معنوی صورت حال ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کرتے ہیں۔شیدا کی نظموں کے مطالعے سے معلوم ہوگا کہ اس نے اس اصول کو پوری طرح سے نبھایا ہے، یہی وجہ ہے کہ لفظوں میں ابہام چیستاں نہیں بنتا بلکہ معنی کے نئے دروازے کھولتا ہے"۔

علی شیدا اس وقت جنوبی کشمیر کی سب سے بڑی ادبی تنظیم مراز ادبی سنگم کے صدر اور ادبی مرکز کمراز کے ایڈوائزری ممبر ہیں۔ وہ واسک ناگ بزم ادب کے جنرل سیکریٹری، جموں کشمیر کلچرل کنفیڈریشن کے وائس چیرمین برائےجنوبی کشمیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ مراز ادبی سنگم کے سالانہ رسالے "ویتھ آگر" کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ آپ کی تخلیقات وادی کے معروف اخبارات کے علاوہ ملک کے معتبر رسائل و جرائد میں اہتمام سے شائع ہوتی ہیں۔ علی شیدا کو شاعر مراز کا ایوارڈ اور ماحولیاتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔
علی شیدا کا قلم ابھی جوان ہے۔ ان کی تقریبا پانچ کتابیں منظر عام پر آنا باقی ہیں جن میں شاعری، تحقیق و تنقید اور افسانے شامل ہوں گے۔ امید ہے کہ ان کے قلم سے مزید موتی نکلیں گے جن کی چمک صدیوں بعد بھی ماند نہیں پڑے گی.
گذشتہ کالم یہاں ملاحظہ فرمائیں :شخصیت : ڈاکٹر محمد شفیع ایاز

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے