تعلیم ہے امراض ملت کی دوا

تعلیم ہے امراض ملت کی دوا

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ (9431003131)
تعلیم کے حوالے سے انسان کی ضرورتیں دو قسم کی ہیں، ایک تو مذہبی ضرورت ہے، جس کا ایک سرا اس دنیا سے اور دوسرا آخرت سے جڑا ہوا ہے، یہ تعلیم دنیوی سعادت اور اخروی نجات کے لیے ضروری ہے، اسی لیے اس تعلیم کو فرض قرار دیا گیا، جسے اصطلاح میں بنیادی دینی تعلیم کہتے ہیں، یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سر کار کے رائٹ ٹو ایجوکیشن (تعلیم کے حق) سے الگ ایک چیز ہے، جب ہم حق کی بات کرتے ہیں تو اس سے لزوم کا پتہ نہیں چلتا، کیونکہ اپنے حق سے دست برداری کو سماج میں بُرا نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اگر اس کا تعلق مالی حقوق سے ہو اور کوئی اس سے دست بردار ہوجائے تو اسے ایثار قرار دیا جاتا ہے، یہی حال ان تمام حقوق کا ہے جس کے نتیجے میں آدمی اپنا فائدہ چھوڑ کر دوسرے کو مستفیض ہونے کا موقع عنایت کرتا ہے، لیکن فرض وہ چیز ہے جس کی ادائیگی ہر حال میں لازم ہے، اور اگر کوئی فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو وہ باز پرس، دار و گیر اور سزا کا مستحق ہوتا ہے، اس لیے تعلیم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض قرار دیا، یعنی اس میں کوتاہی پر سزا بھی دی جا سکتی ہے، جب کہ حقوق کے حصول میں کوتاہی سزا کا موجب نہیں ہوا کرتی. یہ الگ بات ہے کہ بچے کے بجائے تنبیہ اور دار و گیر گارجین کی، کی جائے گی، کیونکہ بچوں کی طرف احکام متوجہ نہیں ہوتے۔ تعلیم کے اس مرحلے کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے ہر طبقہ کے بچہ کو کم عمری میں ہی تعلیمی اداروں سے جوڑ دیا جائے، انھیں زری کے کارخانوں اور ہوٹلوں سے اٹھا کر مکتب، مدرسہ اور اسکول کی میز و چٹائی پر بیٹھالا جائے تا کہ ان کی بنیادی دینی تعلیم سلیقے سے ہوسکے اور ان کا بچپنا ضائع ہونے سے بچ جائے۔ پورے ہندستان میں پھیلے مکاتب و مدارس الحمد للہ اس کام کو بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں اور عمدگی اور خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں، لیکن خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہنی چاہیے۔
دوسرے علوم وہ ہیں جن کی ضرورت ہمیں اپنی زندگی بسر کرنے میں پڑتی ہے، اور چونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اس لیے ان علوم کو اس درجہ میں تو نہیں رکھا جا سکتا کہ سب کے اوپر اس کا حصول فرض قرار دیا جائے، لیکن سماجی اور تمدنی ضرورت کے اعتبار سے مہذب سماج کی تشکیل، عمرانی ضروریات اور زندگی برتنے کے فن کی واقفیت کے لیے الگ الگ علوم و فنون میں مہارت بھی ضروری ہے، مثلا ہمیں رہنے کے لیے گھر چاہیے؛ اس گھر کا نقشہ بنانے کے لیے اچھے انجینئر کی ضرورت ہے، بغیر انجینئرنگ میں مہارت کے ہم اس کام کو سلیقے سے نہیں کرسکتے، یہ سلیقگی مکتبی تعلیم سے اوپر اٹھ کر جدید عصری اعلا تعلیم کے ذریعہ ہی ممکن ہے، اس کے لیے مسلمانوں کو انجینئرنگ کالج کھولنے بھی چاہئیں اور اپنے بچوں کو اس شعبے میں تیار بھی کرنا چاہیے، کیونکہ آج یہ معاشی استحکام کا بڑا ذریعہ ہے اور پوری دنیا میں سول اور میکینکل انجینئرنگ کی مانگ بہت زیادہ ہے، اس میدان میں آگے بڑھنے کا سیدھا مطلب اعلا تعلیم میں مہارت کے ساتھ مسلمانوں کے افلاس اور پس ماندگی کو دور کرنا۔
اسی طرح ہماری صحت کا مسئلہ ہے، یہ ایک جسمانی ضرورت ہے، اس کے لیے ہمارے پاس اچھے ڈاکٹر ہونے چاہئیں، جو ہماری بیماریوں کا علاج کر سکیں، میڈیکل کی تعلیم کے لیے ہمارے پاس میڈیکل کالج بھی ہونے چاہئیں اور اچھے اسپتال بھ ، دو چار مسلمانوں کے میڈیکل کالج اور دس بیس اسپتال، آبادی کی ضرورت کو پوری نہیں کر پاتے، یقینا اسپتال کا کام انسانی بنیادوں پر ہوتا ہے اور مریض اور اسپتال کے منتظمین کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کون کس علاقے اور کس مذہب کا ہے، لیکن اسپتال بڑی تعداد میں ہوں گے تو مریضوں کو سہولت ہوگی اور کم خرچ میں علاج کے حصول کے لیے بھی سوچنا ممکن ہوگا، یہی حال دیگر سائنسی علوم میں مہارت کا ہے، ہمارے بچے ابتدائی تعلیم سے ثانوی تک جاتے جاتے گھر بیٹھنے اور معاشی وسائل کے حصول کے لیے فکر مند ہوجاتے ہیں، اعلا تعلیم کی طرف توجہ کم ہے، اس لیے ہماری حصہ داری اوپر میں کم ہوتی جا رہی ہے، آئی، اے ایس، آئی پی ایس، میں نمائندگی گھٹتی جا رہی ہے، سیاسی گلیاروں اور حکومت کے ایوانوں میں بھی آزادی کے بعد ہم مسلسل کم ہو رہے ہیں، ہمارے یہاں لیاقتوں کی کمی نہیں ہے، کمی فکر مندی، منصوبہ بندی اور اس حوصلے کی ہے جو انسان کو آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کیا کرتا ہے، یہ مہمیز کرنے والی قوت الگ ہونی چاہیے، اس کے لیے ادارے، تنظیمیں، جماعتیں جمیعتیں اور سماج کے مختلف طبقات کو آگے آنے کی ضرورت ہے، آج سوشل سائٹس پر ملی قائدین کے خلاف سب و شتم، گالی گلوج اور بُرا بھلا کہنے کی مہم زوروں پر ہے، اس بُرا بھلا کہنے والوں سے پوچھیے کہ تم کیا کر رہے ہو؟ تو جواب ہو گا صرف تنقید، جو لوگ دوسروں کو بُرا بھلا کہنے میں اپنی توانائی صرف کر رہے ہیں، اگر وہ اپنی انرجی اور توانائی ملی مسائل کے حل، تعلیمی بیداری اور معاشی اعتبار سے مسلمانوں کو اٹھانے پر صرف کریں تو اس سے ملت کو بے پناہ فائدہ پہنچے گا، کام آگے بڑھے گا، اس کے بر عکس ملی قائدین کو بُرا بھلا کہنے سے رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو تا ہے، اور جو صاحب تنقید کی بساط بچھائے ہوتے ہیں ان کے اندر خود کچھ کرنے کی صلاحیت ہوتی نہیں اس لیے ایک خلا سا محسوس ہونے لگتا ہے، ہمیں اپنی صلاحیتوں کو جدید اعلا تعلیم کے مواقع پیدا کرنے، یونی ورسٹی، کالج، انٹر کالج اور عصری علوم کے اداروں کے کھولنے میں لگانی چاہیے، شرعی حدود و قیود کے ساتھ لڑکیوں کے لیے بھی تعلیمی ادارے کھولنے چاہئیں اور ان کو آگے بڑھا نا چاہیے. اس لیے کہ ایک مرد پڑھتا ہے تو فرد پڑھتا ہے، لیکن ایک لڑکی پڑھتی ہے تو گھر پڑھتا ہے، خاندان میں تعلیم کی بنیاد پڑتی ہے، اور آنے والی نسل کے تعلیم یافتہ ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، ہمیں ذریعہ تعلیم کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے، انگلش میں بچے کی مہارت اور چیز ہے اور ذریعہ تعلیم اسے بنانا بالکل دوسری چیز، ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان ابتدائی تعلیم کے حصول میں زیادہ معاون اور مؤثر ہے؛ لیکن ہمارا رجحان انگلش میڈیم اسکولوں اور کنونٹوں کی طرف بڑھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے بچے بھی اردو زبان سے نا بلد ہیں اور اردو کا بڑا سرمایہ ان کی پہنچ سے باہر ہے، ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اردو صرف ایک زبان نہیں ہے، یہ ایک تہذیب ہے، یہ ایک ثقافت اور کلچر ہے، اردو زبان سے نابلد رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک تہذیب اور ثقافت و کلچر سے نا بلد ہوتے جا رہے ہیں، ضرورت ہے کہ اعلا تعلیم کے ساتھ ہم اپنی مادری زبان کو فراموش نہ کریں، تاکہ ہماری تہذیب، مذہب اور ثقافت سے ہمارا رشتہ منقطع نہ ہو، ان تمام باتوں کے ساتھ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ محض تعلیم کا حاصل کرلینا کافی نہیں ہے، بلکہ ہمیں ہر سطح پر اعلا اخلاقی اقدار بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس کے بغیر انسانی ہم دردی، خیر خواہی اور بھلائی کا تصور نا پید ہوتا ہے، یہ اعلا اخلاقی اقدار پیدا ہوں گے تو ڈاکٹر مریض کو آپریشن ٹیبل پر لے جانے کے بعد دوسرے مرض کے انکشاف پر فیس بڑھانے کی بات نہیں کرے گا، انجینئر نقشہ بناتے وقت پڑوسی کے گھر کی ہوا، روشنی وغیرہ کے لیے فکر مند ہو کر نقشہ بنائے گا، سائنس داں مہلک ہتھیاروں کو بناتے وقت اس سے بچاؤ کی تدبیروں پر بھی ریسرچ کرے گا، سیاست داں، ابن الوقتی، خود غرضی، مفاد پرستی سے اونچا آٹھ کر بد عنوانی سے پاک سماج بنانے اور لوگوں کے فائدے کے لیے کام کریں گے، غرض تعلیم کے ساتھ تربیت بھی اتنہائی ضروری ہے. اعلا تعلیمی اداروں میں طلبا کی فراہمی کے لیے ہمیں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے اداروں کے قیام پر بھی توجہ دینی چاہیے. کیونکہ اعلا تعلیم کے لیے معیاری طلبا یہیں سے فراہم ہو سکتے ہیں، اور مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی کے بعد ملک و ملت کے لیے کار آمد ہو سکتے ہیں، ان اداروں میں تربیتی نظام کو اعلا پیمانے پر رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صرف ڈاکٹر انجیئر سیاست داں، دانشور نہ ہوں؛ بلکہ وہ اپنی خدمات کے ذریعہ فرد سے لے کر سماج کے مختلف طبقات کو فائدہ پہونچا سکیں۔
ایک بڑا مسئلہ حصول تعلیم میں گراں قدر اخراجات کا ہے، مسلمانوں کی معاشی حالت عمومی طور پر ایسی نہیں ہے کہ وہ تعلیم کی انڈسٹری سے مطلوبہ علوم حاصل کر سکیں، اس کے لیے ان تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکیموں سے ہمیں طلبا کو واقف کرانا چاہیے، جس سے فائدہ اٹھا کر ہمارے بچے تعلیم کو جاری رکھ سکیں، اور تعلیم چھوڑنے کے تناسب میں کمی آسکے، میرا خیال ہے کہ تھوڑی سی چوکسی اور مختلف تنظیموں کی طرف سے تھوڑی معلومات کی فراہمی سے ہم اس پریشانی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں، ضرورت ہے عزم و ارادہ کی، عزم کمزور ہو اور ارادہ متزلزل تو مالی مشکلات راستے میں حائل ہوجائیں گی اور ان کو عبور کرنا آسان نہیں ہو گا، اس لیے ہمیں اپنے جوانوں میں، طالب علموں میں اعتماد پیدا کرنا چاہیے کہ تم ساری رکاوٹوں دشواریوں اور مشکلات کے باوجود بہت کچھ کر سکتے ہو. بہ قول شاعر
ع۔ چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم سفر پیدا
ایک بڑا کام یہ بھی کرنے کا ہے کہ جو طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کے لیے معیاری تعلیم کا نظم کیا جائے، ادارہ جس سطح کا ہو اور جس طرح کا بھی ہو، وہاں سے ہمارے فارغین اپنی اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مکمل ہوں، ہم جانتے ہیں کہ یہ دور مقابلوں کا ہے، معیار کا ہے، کوالیٹی نہیں رہے گی تو ہم کمیپٹیشن کے اس دور میں پچھڑتے چلے جائیں گے، ہم جس معیار کی بات کرتے ہیں، وہ ہمارے مقابل سے کئی گنا آگے ہونی چاہیے، اس لیے کہ بحالی والا قلم جن کے ہاتھ میں ہے، وہ عام حالات میں ہم تک پہنچتے پہنچتے شل ہو جاتا ہے اور ہمارے طلبا کو مختلف قسم کے تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہمیں (ہیوی اکسٹرا) غیر معمولی صلاحیت کے ساتھ میدان میں اتر نا ہوگا، میں بات صلاحیت کی کر رہا ہوں، صرف نمبرات کی نہیں، نمبرات کے باوجود کاغذات کے اس ٹکڑے کے پیچھے علمی صلاحیت کا فقدان ہو توہمیں کوئی آگے نہیں بڑھا سکتا، ہمیں آگے بڑھنا ہے، علم کے میدان میں، تحقیق کے میدان میں، تجربات کے میدان میں یہ ایک تحریک ہے، یہ مہم ہے اس تحریک اور مہم کو کامیاب کرنے کے لیے حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ کے حکم پر ہر ضلع میں کم از کم دو مکاتب، چار ریاستوں میں ایک سو سے زائد اسکول کے قیام کے ساتھ پھلواری شریف میں آٹھویں، نویں اور دسویں کلاس کے طلبا کے لیے معیاری کوچنگ کے منصوبہ پر عمل شروع ہو گیا ہے، تحریک کو کامیاب کرنے لیے ہر طبقہ کے لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔ اور امارت شرعیہ کی اس تحریک کو کامیاب بنانے میں اپنی مضبوط حصہ داری پیش کرنی چاہیے_
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :تحفظ ماحولیات: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے