خوف کے سائے میں

خوف کے سائے میں

ابو الفیض اعظمی

راشد قبرستان کے ایک کونے میں بیٹھا گھر والوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ دن اس کے لیے سب سے زیادہ اذیت ناک تھا جب اس کی نظروں کے سامنے بیوی کا جنازہ اٹھا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ ماں، باپ اور بھائی کے غم سے نڈھال یہ جسم اب کوئی نئی اذیت سہنے کے قابل نہ تھا لیکن مشیت خداوندی کے آگے وہ بے بس تھا۔ اس کا اچھا خاصا خاندان سمٹ کر اب دو چھوٹے نفوس تک محدود ہوگیا تھا۔ راشد کے پاس مال و دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ والد کا اپنا خود کا کاروبار تھا۔ چھوٹا بھائی امریکہ کی ایک کمپنی میں منیجر تھا اور والدہ شہر کے سب سے مشہور کالج کی پرنسپل تھیں۔ یہ سب چیزیں اب اس کے لیے قصہ پارینہ بن چکی تھیں۔ دروازے پر بیٹھنے والے دوست و احباب بھی مہینوں پہلے دور ہوچکے تھے۔ لے دے کر ایک رفو چچا تھے جو دادا کے زمانے سے اسی گھر میں ملازمت کرتے چلے آئے تھے۔ والد کا انتقال ۳ ماہ پہلے ہارٹ اٹیک سے ہواتھا۔ پندرہ دن بعد والدہ بھی کورونا کا شکار ہو کر چل بسی تھیں لیکن ابھی تک کورونا کی رپورٹ اسپتال سے نہیں ملی تھی۔ چھوٹا بھائی ماں کے انتقال کے دس دن بعد دنیا سے رخصت ہوگیا تھا اس نے امریکہ ہی میں کورونا جانچ کروائی تھی۔ رپورٹ پازیٹو آنے پر خبر راتوں رات گاؤں میں پھیل گئی تھی۔ وہ ماں کے انتقال پر گھر آیا تھا۔ کسی مخبر نے پولس کو جاکر یہ خبر دے دی۔ جنازے کے بعد ابھی وہ گھر والوں سے بھی نہیں مل پایا تھا کہ پولس دروازے پر آدھمکی اور اپنے ساتھ کورنٹائن سینٹرلے کر چلی گئی۔ وہاں پہنچتے ہی اس کی حالت مزید خراب ہونے لگی۔ بعد میں اسے اسپتال منتقل کرنا پڑا۔ اسپتال سےچھٹی اسی وقت ملی جب جسم سے جان نکل گئی تھی اور پورا بدن ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ اسپتال جانے کے بعد راشد نے کئی دفعہ ڈاکٹر کو فون کیا اور ایک مرتبہ ملنے کی بھی خواہش ظاہر کی لیکن ہر بار اسے گھر ہی پر رہنے کا مشورہ دیا جاتا۔ جب آخری مرتبہ فون کیا تو ڈاکٹر نے بتایا بھائی کا انتقال ہوگیا ہے۔ بغیر جنازے کے اسپتال انتظامیہ کی نگرانی میں میت کو دفن کردیا گیا۔ راشد نے اس کے خلاف بہت احتجاج کیا لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ چھوٹا بھائی جسے گود میں کھلایا تھا اس ظالم سماج نے اسے ہاتھ بھی نہیں لگانے دیا۔ بھائی کے انتقال کے تیسرے روز بیوی کی بھی طبیعت بگڑ گئی. اس نے فیصلہ کیا کہ اسپتال نہیں جانا ہے گھر پر ہی علاج کرنا ہے۔
گاؤں کا امیر ترین شخص ہونے کی وجہ سے اس نے بہت جلد شہر کے مشہور ڈاکٹروں سے رابطہ کرلیا اور منھ مانگی قیمت پر گھر بھی بلالیا۔ مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹر آتے اپنے حساب سے مریضہ کو دیکھتے اور دوائیاں دے کر چلے جاتے۔ یہ سلسلہ ہفتوں چلا پھر بھی مریضہ کو افاقہ نہ ہوسکا۔ ایک دن وہ بھی اپنے مالک حقیقی سے جا ملی۔ راشد نے علاج کی غرض سے کروڑوں روپیے خرچ کیے۔ ڈاکٹروں نے جو بھی مشورہ دیا اسے پورا کیا پھر بھی بیوی کو نہیں بچا سکا۔ وہی ہوا جو تقدیر کا لکھا تھا۔ بیوی کےجنازے کو کوئی نہلانے والا بھی نہیں مل رہا تھا۔ راشد نے بہتوں کو فون کیا سب نے معذرت کرلی۔ رفو چچا نے پڑوس کے گاؤں میں اطلاع دی تو وہاں سےکچھ عورتیں آئیں اور انھوں نے غسل دیا۔ جنازے میں انہی عورتوں کے گھر والے شریک ہوئے۔
گاؤں والے کورونا کی دہشت سے اس کے قریب نہیں جارہے تھے۔ اب وہ بالکل اکیلا خوف کے سایے میں زندگی بسر کررہا تھا صرف ایک رفو چچا جو ہر وقت اس کےساتھ کھڑے رہتے۔ رفو چچا نماز، روزے کے پابند تھے۔ گھر کا ماحول بھی دینی تھا۔ بڑا لڑکا امجد نوجوانوں کی ایک اسلامی تنظیم کا ممبر تھا جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کرراہ راست سے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کی صحیح اسلامی فکر پر تربیت کررہا تھا۔ اس کی رفو چچا سے بھی اسلام کے مختلف پہلوؤں پر اکثر بات ہوتی تھی۔
راشد کے والد کا شمار علاقے کے بڑے مالداروں میں ہوتا تھا۔ گھر میں مغربی تہذیب کا چلن تھا۔ رفو چچا یہ دیکھ کر بہت کڑھتے تھے۔ ان کے رہنے سے اتنا فائدہ ضرور تھا کہ راشد کے گھر والے بھی جمعہ کے علاوہ کبھی کبھی ایک دو وقت کی نماز پڑھ لیتے تھے اور رفو چچا کو نماز کے وقت کوئی کام نہیں کرنے دیتے تھے۔
گھر میں سلسلہ وار ہونے والی موت سے راشد کی زندگی کا آنے والا ہر دن خوف کے سایے میں گزر رہا تھا۔ اسے بھی اپنی موت کا یقین ہوچکا تھا۔ دل میں عجیب سی بے چینی اور کسک محسوس ہورہی تھی۔ اپنی اضطراری کیفیت دور کرنے کے لیے کئی مرتبہ شہر کے بڑے مدرسے میں قرآن خوانی بھی کرواچکا تھا۔ محلے کے امام صاحب سے کہہ کرکئی طرح کی تعویذیں بھی بنوائی تھی۔ رفو چچا کو بازار بھیج کر قرآنی آیات اور دعا کے بہت سے پوسٹر بھی منگوالیے تھے جو ہر کمرے کی دیوار پر چسپاں تھے۔ یہ سب کرنے کے بعد بھی اس کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ خوف اور بے چینی میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ دل دنیاوی چیزوں سے بےزار ہونے لگا تھا۔ آج بھی وہ اپنے کمرے میں لیٹا چھت سے لگے پنکھے کو ایک ٹک دیکھ رہا تھا، اچانک صدر دروازے کی گھنٹی بجی۔ وہ چچا کو آواز دینے لگا۔ بعد میں خیال آیا کہ چچا تو بہت پہلے گھر جاچکے ہیں۔ گھنٹی بجنےکی آواز مسلسل آرہی تھی۔ راشد نہ چاہتے ہوئے بستر سے اٹھا اور باہری دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے جب دروازہ کھولا تو رفو چچا کا بڑا لڑکا امجد سامنے کھڑا تھا۔ لڑکے نے بتایاکہ آج ابو کسی ضروری کام سے شہر جانے والے ہیں. انھوں نے دو تین دن مجھے آپ کے پاس ٹھہرنے کو کہا ہے۔ راشد نے کچھ کہے بغیر اسے اندر آنے کا راستہ دے دیا۔ امجد راشد کے یہاں اپنے والد کے آنے تک رکا رہا۔ اس نے صبح میں اپنے معمول کے مطابق تلاوت شروع کی۔ تلاوت کی آواز سے راشد کی آنکھ کھل گئی۔ راشد بستر پر لیٹے لیٹے بہت دھیان سے سن رہا تھا۔ قرآن مجید کے الفاظ جن کے معنی و مفہوم سے وہ نا واقف تھا اس کے دل پر اثر انداز ہورہے تھے۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اب اس کے درد کا مداوا ہوجائے گا۔
ناشتے کے وقت راشد نے سامنے دیوار پر چسپاں آیت الکرسی کے پوسٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ابھی تم یہی پڑھ رہے تھے؟ امجد نے کہا نہیں میں سورہ آل عمران پڑھ رہا تھا جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کہہ رہا ہے :
’’آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو، کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیاجائے، رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔‘‘ (آل عمران )
آیت کا ترجمہ سنتے ہی راشد بے چین ہوگیا اس نے امجد سے موت، آخرت، عذاب قبر اور قیامت کے تعلق سے کئی سوال پوچھے۔ امجد نے ہر ایک کا تفصیلی جواب دیا۔ امجد جب تک وہاں تھا راشد برابر اس سے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں پوچھتا رہا۔ اسلام کے تعلق سے بہت سی معلومات حاصل کرکے راشد کو تسلی ہوئی۔ اس کا خوف بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگیا تھا۔ اس نے باقی زندگی اسلام کے مطابق بسر کرنے کا فیصلہ کیا.
***
کہانی کار کا مختصر خود تعارف :
نام ابوالفیض ہے. تعلق بیناپارہ اعظم گڑھ سے ہے.
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے ایم اے اردو جاری ہے. جامعہ ہی سے بی ایڈ اور بی اے مکمل ہوچکا ہے.
اکثر کچھ نہ کچھ لکھتا رہا ہوں. ایک لمبے عرصے تک حوصلہ نیوز سے جڑا ہوں، اسلامک یوتھ فیڈریشن کی جانب سے نکلنے والا ماہانہ اردو رسالہ نقوش راہ میں تقریباً دو سال سے مسلسل لکھ رہا ہوں، ڈیڑھ سال تک بچوں کی کہانیاں لکھتا رہا اور اب کچھ منتخب کتابوں پر تبصرہ کررہا ہوں.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے