کتنی خاموشی سے برپا کر رہا ہوں انقلاب

کتنی خاموشی سے برپا کر رہا ہوں انقلاب


طرحی غزل بہ یاد اقبال
غزل بر کل ہند طرحی مشاعرہ بہ یاد اقبال
طرحی مصرع : گوشۂ دل میں چھپائے اک جہانِ اضطراب (اقبال)
منعقدہ : ١١فروری ١٩٧٨ کھنڈوہ، انڈیا

‘گوشۂ دل میں چھپائے اک جہانِ اضطراب`
کتنی خاموشی سے برپا کر رہا ہوں انقلاب
تہ کی باتیں تک جو پی سکتا نہ ہو ایسا حباب
لاکھ ابھرے پا نہیں سکتا مگر گوہر کی آب
جز سکوتِ مرگ باقی پھر نہ کچھ رہ جائے گا
زندگی نےکھود یا گر زندگی کا اضطراب
کیا نہیں انسان کی مٹھی ہی میں دنیاۓ بسیط؟
کیا نہیں انسان کی ٹھوکر میں لاکھوں آفتاب؟
زندگی کو ہم نے جب تک غور سے دیکھا نہ تھا
ہر حقیقت ہم کو آتی تھی نظر مثلِ سراب
کیوں نہ دیں ہم خاک کے ذرّوں کو تاروں کی چمک؟
کیوں نہ دھرتی سے اگائیں ایک روشن ماہتاب؟
آتشِ غم سے دمک اٹھتا ہے چہرہ کس قدر
زندگانی کے لیے اکسیر ہے غم کی شراب
جھونپڑوں میں رہنے والے آج کل بیدار ہیں
صرف محلوں میں نظر آتے ہیں اب محلوں کے خواب
عمر بھر” تشنہ" نہ دیکھا پیار سے جس نے کبھی
ہم نے ایسی زندگی کے رخ پہ لہرائے گلاب

کلام : مسعود بیگ تشنہ ،اندور انڈیا
تخلیق کی تاریخ :٦فروری ١٩٧٨
نوٹ : مصرع اولیٰ طرحی مصرع ہے جو علامہ اقبال کی نظم ‘خضر راہ` کے پہلے شعر کا ثانی مصرع ہے
تشنہ کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو:جھوٹ کا پلندہ اور اُباؤ خطاب

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے