جھوٹ کا پلندہ اور اُباؤ خطاب

جھوٹ کا پلندہ اور اُباؤ خطاب

مسعود بیگ تشنہ

آج 15 اگست 2021 کو یومِ آزادی کی 75 ویں سال گرہ کے موقع پر لال قلعے سے پرچم کشائی کے بعد پردھان منتری جی کا بھاشن جھوٹ کا پلندہ، شیخی بھرا، ان کے من کی بات کی طرح ایک طرفہ اور اُباؤ ہے. ان کے اس خطاب سے اُپجی چند معروضات پیش ہیں :
پردھان منتری کے بھاشن میں آزادی کے مجاہدین میں گاندھی جی، نیتا جی اور سردار پٹیل کے ساتھ ساتھ پنڈت نہرو کا نام عزت سے لیا جانا چونکانے والا ہے. مگر چونکیے نہیں کہ گزشتہ آٹھ دس سال میں کئی گاندھیائی، نہرو بھگت سوشلسٹ بھاجپا کی گود میں جا چکے ہیں اور یہ اخلاقی اور نظریاتی گراوٹ کا سلسلہ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے. سردار پٹیل کو ہتھیانے کے بعد اب یہ نیا نفسیاتی حربہ استعمال کیا جا رہا ہے کہ گاندھی و نہرو کی وراثت والے کانگریسی بھی بِنا کسی سنکوچ کے کانگریس چھوڑ کے بھاجپا کا دامن تھام لیں.
اب ہر سال 14 اگست کو بٹوارہ مخالف اور ہِنسا مخالف دن کے طور پر منانے کا نیا فیصلہ بھی سیاسی شعبدہ بازی کے سِوا اور کچھ نہیں ہے. سوچنے کی بات ہے جب مجاہدین آزادی کا ذکر ہو رہا تھا تو قومی سیاست کے سب سے روشن ستارے مولانا ابو الکلام کا نام لینا بھی گوارا نہیں ہوا. جب کہ بٹوارے کی سب سے زیادہ مخالفت بھی انہی نے کی تھی اور دکھی بھی سب سے زیادہ وہی تھے اور تو اور دلّی کی شاہی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر چڑھ کر پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو روکنے اور سمجھائش دینے کا وہ تاریخی خطبہ بھی انہی نے دیا تھا جس کے چلتے ہزاروں مسلمانوں کے قدم پاکستان کی طرف جاتے جاتے رک گئے تھے. کیا ہر سال 14 اگست مناتے ہوئے تمام تاریخی سچائیاں یاد کی جاسکیں گی یا زیرِ بحث آئیں گی. ایسا سوچنا مشکل ہے. کیوں کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ بٹوارے کے مسودے کو آپس میں مشورہ کر کے سردار پٹیل اور پنڈت نہرو نے پہلے ہی ذہنی طور پر منظور کر لیا تھا بلکہ عملی طور پر ماؤنٹ بیٹن کے سامنے پہلے ہی دستخط بھی کر دیے تھے. محمد علی جناح کو جب ماؤنٹ بیٹن نے فارملٹی کے طور پر پہلے سے تیار بٹوارے کے مسودے پر محض دستخط کے لئے بلایا تو جناح حیران رہ گئے کیوں کہ وہ دو قومی نظریے پر رہتے ہوئے بھی وفاقی ہند میں مسلمانوں کی مناسب سیاسی نمائندگی بیچ کی راہ کی امید کر رہے تھے. اب جب کہ سردار پٹیل اور پنڈت نہرو نے بٹوارے کا مسودہ تسلیم کر ہی لیا تھا تو جناح کے سامنے بٹوارے کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا. کیا گاندھی کو جو سردار پٹیل اور پنڈت نہرو نے اس بٹوارے کے لیے، مزید خون ریزی روکنے کے نام پر نہیں راضی کر لیا تھا. بٹوارے کے بعد خون ریزی بھی ہوئی اور خوب ہوئی. خون ریزی اتنی ہوئی کہ اس سے پہلے انسانی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر کبھی نہیں ہوئی تھی.
سیلف ہیلپ گروپ (خود امدادی گروپ) کے ذریعے اشتراکیت کی تحریک کو بڑھاوا دینے کا دعویٰ : پردھان منتری نے بڑے فخر سے کہا کہ پونجی واد اور سماج واد کی باتیں تو ہوتی ہیں. سہکارِتا جو ہماری پرانی تہذیب کا حصہ ہے اس کو بڑھانے کے لئے ان کی سرکار نے پہلی بار ایک الگ وزارت کا قیام عمل میں لایا ہے، جب کہ گزشتہ سرکاروں نے اس طرف دھیان نہیں دیا. کمال ہے جھوٹ کی بھی انتہا ہوتی ہے. دیہی اشتراکیت کے میدان میں گجرات کی امُول ڈیری پنڈت نہرو کی ہی دین ہے جہاں سہکارِتا کی مہم میں جدید تکنالوجی کی بھی مدد لی گئی. نہرو نے ہی ڈیری کا جدید ماڈل دیکھنے سویزر لینڈ زراعتی سائنسداں ورگِس کو بھیجا تھا جو سفید انقلاب کے بانی مانے جاتے ہیں. یہ مودی سرکار کے ہی راج میں ہوا کہ اپنی عمر کے آخری پڑاؤ میں مسٹر ورگِس کو امُول ڈیری بورڈ کی تاعمر صدر کی اعزازی کرسی سے بے دخل کیا گیا. اس وقت کی سہکارِتا تحریک سے ملک بھر میں ہر صوبے میں سہکاری دودھ ڈیریاں قائم ہوئیں اور ابھی بھی چل رہی ہیں. سہکارِتا کی راہ پر ہی مہاراشٹر اور یوپی میں گنّا اُتپادک سنگھ بنے. یہ الگ بات ہے کہ سیاسی نیتاؤں کی گھس پیٹھ اور دخل اندازیوں نے اس کا فائدہ شیئر دھارکوں تک برابر پہنچنے نہیں دیا. مہاراشٹر میں گنّا اُتپادک شیتکاری سنگٹھن سب سے خوش حال اور ترقی یافتہ ہے اور اس سے نکلے شرد پوار جیسے کئی سیاستداں ملک کی سیاست میں اہم نام ہیں اور اہم کردار ادا کر رہے ہیں. یہ تو یوپی جیسی بھاجپا کی حکومت والی سرکار ہے جس نے ان سنگٹھنوں کے شوگر مِلوں کے بقایا کئی سال سے نہیں چکائے ہیں.
کووِڈ 19 کی وبا کے کنٹرول کا متنازعہ بیان : سبھی جانتے ہیں کہ سوائے کووِن آن لائن رجسٹریشن پلیٹ فارم کے سرکار کی کوئی خاص انتظامی صلاحیت سامنے نہیں آئی. غیر یقینی ڈُھل مُل تجارتی بیمار ذہنیت کا ہی مظاہرہ سامنے آیا. جب یہ مرکزی طور پر کنٹرول قومی ہنگامی پروگرام تھا اور جس کے لیے الگ سے متنازعہ قومی فنڈ مودی جی کے نام سے بنایا گیا تھا تو ریاستی سرکاروں پر اپنے خود کے فنڈ سے ٹیکے خریدنے کا وہ بھی زیادہ تر سے، فیصلہ کیا مضحکہ خیز اور غلط نہیں تھا. اس فیصلے کو پلٹنے تک ریاستی حکومتیں کس پریشانی سے گزریں اور جنتا بھی، کیا اس کی کوئی تلافی ممکن ہے؟ مودی کیئر فنڈ پرائیویٹ ٹرسٹ بنا کر قوم کے سامنے فنڈ جواب دہی ختم کر دی گئی. اتنے بڑے اخلاقی تنزل نے بھرشٹاچار کا بڑا گیٹ کھول دیا. دوائیوں کی سپلائی، آکسیجن سپلائی سب پر بد انتظامی کے گمبھیر الزامات. وبا سے موت کے صحیح اعداد و شمار سے چشم پوشی کیا یہ معمولی باتیں ہیں. جب صحیح اعداد و شمار ہی سامنے نہیں تو سائنسی مشاہدات کس بنیاد پر کھرے اتریں. پردھان منتری اشتہاری طور پر بیان کرتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکے بھارت میں لگے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک سال میں بھی ایک سو پینتیس کروڑ کی آبادی میں آبادی کے تناسب کے حساب سے پچاس فی صد سے بھی کم ٹیکے لگے. وبا کے متعلق جان کاری اور اعداد و شمار جاری کرنے والی مرکزی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے روزانہ جاری بُلیٹن میں بھی مسلموں سے منافرت پھیلانے کا باقاعدہ سرکاری کھیل کھیلا گیا، جس کے نتیجے میں فروری میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرائی گئی اور دنگے کروائے گئے اور ایک طرفہ گرفتاریاں اور کاروائیاں ہوئیں. اس نفرتی پروپیگنڈے کے گنہ گار ایک منتری پر آنچ تک نہیں آئی اور وہ اسی بُلیٹن ٹیم میں بھی شامل بھی رہے جب کے بے گناہ ابھی بھی ضمانت کے لیے ترس رہے ہیں.
ووکل فار لوکل کے نعرے میں کیا نیا ہے. غیر کانگریسی راج میں تو اس پر عمل زیادہ نظر آتا تھا. تب یہ سیاسی نعرہ نہیں تھا معاشی پلاننگ کا حصہ تھا. معاشی پلاننگ یا کسی بھی طرح کی منظم باقاعدگی سے ہونے والی ایکسرسائز تو اب ختم ہی ہو گئی. نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری کے مصداق مودی سرکار نے پلاننگ کمیشن کو ہی نظریاتی اور عملی طور پر ختم کر دیا. یہ بے ہنگم وکاس غالباً اسی کی دین ہے. سرکاری پونجی گھٹا کر سرکاری اداروں میں حصہ داری بیچ بیچ کر اور چینی کمپنیوں کو بڑھاوا دے کر ہندستانی روایتی صنعتوں کو برباد ہونے کی حد تک نقصان پہنچایا گیا. تب کہاں گیا تھا لوکل فار ووکل. انٹرنیٹ اور آن لائن پلیٹ فارم کی بات ہو تو مودی گورمنٹ نے ہی چینی کمپنی پے ٹی ایم کو بڑھاوا دیا بل کہ اس کمپنی نے مودی جی کا فوٹو ایک عرصے تک برانڈ ایمبیسڈر کے طور پر استعمال کیا.
وہ تو چین کی غاصبانہ قبضوں سے توجہ ہٹانے کے لیے ‘ووکل فار لوکل’ ایک سیاسی نعرہ بنا. چین سے غاصبانہ قبضے ہٹانے کے معاملات میں ہندستان ابھی پوری طرح کام یاب نہیں ہوا ہے.
بڑبولے پردھان منتری دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دہائی دیتے ہیں اور جمہوریت کی پاس داری اور حفاظت کرنے والوں کو جیلوں میں سڑاتے ہیں. زرعی ترمیمی قوانین کی مخالفت میں اٹھے آندولن کو مہینوں گزر گئے، کووِڈ کی مہاماری میں بھی کسانوں کے حوصلے نہیں ٹوٹے، سنسد کے سامنے اپنی سنسد چلانے میں بھی کام یاب رہے. کیا من موہن سنگھ سرکار کی طرح، لوک پال آندولن کے پس منظر کے طرز پر زراعی ترمیمی قوانین مخالفین کے ساتھ بات چیت کے لیے کسان سنسد کی جگہ اپنے دو چار مرکزی وزیر نہیں بھیج سکتے تھے. آزاد بھارت میں جے پرکاش آندولن کے بعد پہلی بار تین بڑے آندولن ہوئے. لوک پال آندولن، شہریت ترمیمی قوانین مخالف تحریک اور زرعی ترمیمی قوانین مخالف کسان آندولن. بعد کے دو آندولن کو کچلنے اور بدنام کرنے میں مودی جی کی سرکار نے کوئی کثر نہیں چھوڑی. جمہوریت کی دہائی دینے والے ایسے بڑے جن آندولنوں کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ بھارت پیپلز ریپبلک آف چائنا تو نہیں ہے. لیکن آثار و قرائن یہی بتاتے ہیں کہ 2024 کے عام چناؤ میں اس سرکار کی کمر نہیں ٹوٹی تو چین کی طرز پر جمہوریت کی لاش پر ایک پارٹی حکومت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم ہو جائے گی. پردھان منتری کو جوانوں سے خطاب کرنے کا تو بہت شوق ہے کبھی سائنس دانوں سے تو کبھی کھلاڑیوں سے مگر نوجوان ملک کے بدتر ہوتے سیاسی حالات پر احتجاج کریں تو وہی دانش گاہوں کے طلبا اور طالبات کو یونی ورسٹیوں سے آدھی رات کو کھدیڑا جاتا ہے. یہ ملک کا مستقبل طلبا اور طالبات اور ان کے پروفیسر ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے نام سے نکسل وادی اور دیش دروہی قرار دیے جاتے ہیں. ہندستان کی آزادی کے متوالے جیالوں کو کچلنے کے لیے انگریزوں کے بنائے دیش دروہی دفعات والے کالے قانون کا استعمال کیا جاتا ہے. آج سلگتا ہوا سوال یہی ہے کہ کیا یونی ورسٹی میں پڑھنے والی نئی کھلے ذہن کی نسل دیس کو توڑنے میں لگی ہے یا مذہب اور ذات پات کے نام پر نفرت کی سیاست کرنے والی یہ خکمراں پارٹی.
اولمپک سے لوٹے کھلاڑیوں کو یومِ آزادی کے اس پروگرام کا حصہ بنایا. یہ سب کو اچھا لگا. زیادہ بہتر ہوگا کہ اسکول اور کالجوں کو بڑھایا جائے، تعلیمی بجٹ جو مودی سرکار میں سب سے کم اہمیت کا حامل تھا اور کٹوتی پر کٹوتی کا شکار اب بہتر ہو تاکہ اسکول اور کالجوں سے اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھے کھلاڑی بھی تیار ہو سکیں.
پردھان منتری جی کا 14 اگست کو نئے انداز سے منانے کے آغاز کا اعلان پاکستان دشمن ایجنڈا طے کرنا اور مسلم منافرت کی بنیاد پر رکھے گئے نئے شہری ترمیمی قوانین کے لیے پھر سے راہ ہم وار کرنا ہے. وہیں دوسری طرف سرسری طور پر کسانوں خاص طور پر دو ہیکٹئر سے کم زمین رکھنے والوں کے لے ضروری بینک کی مدد کا اعلان اور نئی تکنیک کا کھیتی کسانی میں استعمال کا شوشہ، زرعی قوانین مخالف کسان آندولن سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا ہے. یہ سب جانتے ہیں کہ کسانوں کو آج سے نہیں بیسوں سال پہلے سے کسان کریڈٹ کارڈ اور فصل بیمہ کی سہولتیں میسر ہیں. اصل معاملہ ہر کسانی فصل کے لیے بہتر سے بہتر قمیت پانے یعنی ایم ایس پی لاگو کرنے کا ہے. کسان چاہے چھوٹا ہو یا بڑا اپنے پاس کی کسان منڈیوں میں ہی جانا پسند کرے گا نہ کہ کنٹریکٹ فارمنگ کے تحت بڑے پونجی پتیوں سے طے شدہ شرطوں پر فصل اگانے اور طے شدہ قیمت پر بیچنے کے سودے کرنے میں. بھارت جیسے زرعی ملک میں زراعت ابھی تک بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں نہیں جا پائی ہے. نئے زرعی قوانین سرمایہ داروں کی زراعت میں بھی اجارہ داری قائم کرنے کی سمت میں پہلی پہل ہے جو نہ صرف کسان بل کہ عوام کے حق میں بھی بہتر نہیں ہے کیوں کہ تب زرعی پیداوار کی فطری طور پر سرمایہ دارانہ کمپنیاں برانڈنگ کریں گی اور عام ضرورت کی اشیاے خوردنی کو بھی منھ مانگے داموں پر فروخت کریں گی اور ایسا کرنے پر انہیں سرکاریں قانونی طور پر نہیں روک سکیں گی.
جہاں بھارت کے عزت مآب راشٹرپتی کووند جی کا یومِ آزادی سے ایک دن پہلے قوم کو خطاب مہذبانہ، شائستہ اور درد مندانہ تھا وہیں پردھان منتری کا یومِ آزادی پر لال قلعے سے قوم کو خطاب سطحی، جھوٹ کا پلندہ، اشتہاری اور غیر ذمہ دارانہ تھا. ساری دنیا کی نظریں پردھان منتری مودی جی کے خطاب پر ٹکی تھیں اور ساری دنیا کے سفارت کار اسے کان لگائے سن رہے تھے. اس خطاب نے طے کر دیا ہے کہ مودی جی ذرہ برابر بھی نہیں بدلے ہیں اور انھوں نے اپنی دانست میں سنہ 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کا ایجنڈا طے کر دیا ہے. تو یہ دو ایجنڈے پکے سیاسی ایجنڈے ہیں جو بھارت کی جمہوریت کے سیکولر، سماجی اور اشتراکی نظام پر بھاری پڑنے والے ہیں تا آں کہ عوام ہوشیار اور خبر دار نہ ہو جائیں.
ہاں پردھان منتری جی کی حق تلفی ہوگی اگر میں اس خطاب کی ایک اچھی بات کا ذکر نہ کروں. جی ہاں. پردھان منتری جی نے سیلاب زدگان اور درکتی چٹانوں کی زد میں آئے متاثرین کے تئیں اپنی ہم دردی اور ہر ممکن سرکاری مدد کا اظہار بھی کیا.
(15 اگست 2021، اِندور، انڈیا)
صاحب تحریر کی یہ تخلیق بھی پڑھیں : نیا جشنِ آزادی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے