کھڑکی سے باہر کی دنیا

کھڑکی سے باہر کی دنیا

ڈاکٹر مظفر نازنین، کولکاتا 

شہر نشاط کولکاتا کے ادبی منظر نامے کے حوالے سے معروف کہنہ مشق شاعر اشرفؔ یعقوبی کا نام جانا پہچانا سا ہے۔ اُن کے دو شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ”سرخ آبی پرندہ“ جو بہار اردو اکاڈمی سے شائع ہوا اور دوسرا ”پاگل ہوا پردے میں ہے“ جسے مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے شائع کیا۔ موصوف ایک کہنہ مشق شاعر ہیں اور اُن کی ادبی خدمات تقریباً 40 سالوں پر محیط ہے۔ زیرِ نظر کتاب ”کھڑکی کے باہر کی دنیا“ اُن کا شعری مجموعہ ہے جس میں حمدِ باری تعالیٰ میں یہ خوب صورت شعر ہے:
کعبہ، مکّہ، طور اسی کے
ہر ذرّے میں نور اسی کے
صفحہ 4 پر نعتِ سرورِ کونین، احمد مختار، سید الابرار، شافع محشر، ساقیِ کوثر کے حوالے سے چند خوب صورت اشعار سخن فہم قارئین کی بصارتوں کے حوالے:
تاجدارِ جہاں اُس کے در پہ جھکے
جو غلامِ رسولِ خدا ہوگیا
آمنہ تیرا معصوم لختِ جگر
فضلِ رب سے شہِ انبیا ہوگیا
حسنِ یوسف کی تعریف اپنی جگہ
دو جہاں مصطفےٰ پہ فدا ہوگیا
سبز گنبد کا بوسہ نظر نے لیا
پورا اشرف مرا مدعا ہوگیا
مندرجہ بالا اشعار سچے عاشقِ رسول اور حبِّ نبیؐ کی گواہی دیتے ہیں۔ ان اشعار سے یہ صاف شیشے کی مانند عیاں ہے کہ کہنہ مشق شاعر اشرفؔ یعقوبی صاحب ایک سچے محب نبیؐ اور عاشقِ رسول ہیں۔ خدا ہم سبھوں کو درِ پاک کی زیارت نصیب کرے۔ گنبدِ خضریٰ کا دید ہو۔ بقول شاعر:
الٰہی یہ تمنا ہے کہ موت آئے مدینے میں
نظر کے سامنے خیر الوریٰ کا آستانہ ہو
اس کتاب میں ایسے اشعار ہیں جن کو پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ یہ زندگی عارضی اور چند روزہ ہے۔ اس زندگی کی حقیقت کو ماضی میں کسی شاعر نے اس تمثیل سے بیان کیا ہے:
جنھیں تاجِ زرّیں اور تختِ طاؤسی میسر تھا
اب اُن کی قبر پہ رونق کو کیا وحشت برستی ہے
اس حقیقت کو معروف شاعر نے اپنے اس شعر سے سمجھانے کی کوشش کی ہے:
تجھ کو دیکھا جو منوں مٹی تلے دبتے ہوئے
یاد آیا تری دولت کا ہمالہ مجھ کو
فرشِ مخمل پہ مجھے نیند نہیں آتی ہے
ہضم ہوگا نہیں سونے کا نوالہ مجھ کو
صفحہ 24 پر یہ شعر بھی زندگی کی حقیقت کی نشان دہی کرتا نظر آتا ہے:
ایک دن مٹی میں مل جائیں گے سب
کیوں جہاں اس بات سے انجان ہے
اور پھر صفحہ 72 پر یہ شعر ملاحظہ کریں:
کوئی برباد ہوا خواہشِ دنیا کرکے
کوئی آباد ہے عقبیٰ کی تمنا کرکے
زندگی ایک شمع کی مانند ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ پانی کے بلبلے کی مانند ہے۔ اس فانوس کو ہوا کا ایک جھونکا ایک پل میں بجھا سکتا ہے۔ اصل زندگی تو آخرت کی ہے۔ ہمیں اس کی فکر ہونی چاہئے۔ شاعر نے اس عارضی دنیا کی خوب منظر کشی کی ہے اور بتایا ہے کہ ہمیں آخرت کی فکر کرنی چاہئے، جہاں ابدی زندگی ہے۔
موصوف کی غزلیں بھی بہت خوب ہیں اور چند اشعار حالاتِ حاضرہ کی نمائندگی بڑی خوبصورتی سے کرتے ہیں۔ اُن کی غزلوں کے چند اشعار سخن فہم قارئین کی بصارتوں کے حوالے:
اے فلک یہ دیکھ منظر وادیِ کشمیر کا
حال ابتر کردیا تخریب نے تعمیر کا
حضرتِ واعظ کبھی تو غور اس پہ کیجئے
کیوں اثر ہوتا نہیں ہے آپ کی تقریر کا
آپ جب سے آگئے ہیں جھوٹ میں اوّل میاں
پوسٹر لگنے لگا ہے آپ کی تصویر کا
بچوں کی پرورش، پرداخت، تعلیم و تربیت میں پدرانہ شفقت ہوتی ہے جو اپنی پرواہ کیے  بغیر اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کرتے ہوئے زندگی ختم کردیتا ہے۔ شاعر اشرفؔ یعقوبی کے اس شعر سے ملاحظہ کریں:
مرے بچو تمھیں معلوم کیا میں کیسے ٹوٹا ہوں
کناروں کو بچانے میں سمندر ٹوٹ جاتا ہے
حفاظت جوہری یا شاہ کر سکتا ہے موتی کی
اناڑی ہاتھ میں آنے سے گوہر ٹوٹ جاتا ہے
اس کتاب میں غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی ہیں۔ صفحہ 119 سے نظم کا حصہ شروع ہوتا ہے۔ ”بت بولنے لگے“، ”مہلک بیماری کے نام“، ”سرکار گراکر دم لیں گے“، ”خون ستا ہے“، ”نسلِ نو“ شان دار نظمیں ہیں۔ نظم ”نسلِ نو“ کا ایک خوب صورت بند قارئین کی فن شناس نظروں کے حوالے:
کتنے بچے ہوئے شہر میں بے اماں
کتنے بچوں سے چھینی گئی لوریاں
کتنے بہنوں کی توڑی گئیں چوڑیاں
کیوں جلائی گئیں سیکڑوں بستیاں
نسلِ نو لے گی اک دن حساب آپ سے
بن پڑے گا نہ کوئی جواب آپ سے
وطنِ عزیز ہندستان میں دہشت گردی، فرقہ پرستی اور جمہوریت کی پامالی کے پیشِ نظر نظم بہ عنوان ”آؤ کہ مل کے گیت محبت کا گائیں ہم“ کا ایک بند سخن فہم قارئین کی بصارتوں کی نذر کرتی ہوں:
چھلنی کیا ہے جس نے بھی جمہوریت کا تن
جس نے فسادیوں کی بنائی ہے انجمن
جس نے لہولہان کیا ہے مرا وطن
ہر ذرّے کو لہو کا دیا جس نے پیرہن
اس دورِ جبر و ظلم کو جڑ سے مٹائیں ہم
آؤ کہ مل کے گیت محبت کا گائیں ہم
آخر میں شہر نشاط کے اس معروف، کہنہ مشق شاعر اشرفؔ یعقوبی صاحب کو اُن کی اس شاہ کار تخلیق شعری مجموعہ ”کھڑکی سے باہر کی دنیا“ پر تہِ دل سے مبارکباد دیتی ہوں اور بارگاہِ خداوندی میں دعا گو ہوں کہ خدا اُنھیں صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے اور اُن کے زور قلم، زورِ فہم اور زورِ سخن میں مزید اضافہ ہو۔
ان شاء اللہ امید کرتی ہوں کہ اُن کی دو کتابوں ”پاگل ہوا پردے میں ہے“ اور ”سرخ آبی پرندہ“ کی طرح زیر نظر شعری مجموعہ ”کھڑکی سے باہرکی دنیا“ بھی کافی مقبول ہوگا اور ادبی حلقے میں اس کی خوب پزیرائی ہوگی۔ پوری کتاب غزل اور نظم کے حصے کا بہ غور مطالعہ کرنے کے بعد نتیجہ نکلا کہ شاعر نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ اسے ترتیب دیا ہے۔ اور معاشرے کے ہر موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ میں ایک بار پھر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
ڈاکٹر مظفر نازنین کی گذشتہ نگارش: کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے