کام کام ہوتا ہے؛ نام میں کیا رکھا ہے

کام کام ہوتا ہے؛ نام میں کیا رکھا ہے

سید مصطفیٰ احمد
(مضمون نگار الھدیٰ کوچنگ سنٹر مصطفیٰ آباد، زینہ کوٹ، سرینگر، جموں و کشمیر میں مدرس ہیں)

اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے کام کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر جینا ناممکن ہے۔ دوسری حاجات اس کے بعد آتی ہیں۔ کھانا، کپڑا، گھر، دوا، وغیرہ زندگی کی بنیادی ضروریات ہیں جو صرف کام کرنے سے ممکن ہیں۔ جب یہ حقیقت ہے تو کام کو کام کی نگاہ سے دیکھنا ازحد ضروری ہوجاتا ہے۔ کاموں کو مختلف زمروں میں ڈالنا، کوئی دانائی کا کام نہیں۔ مگر کچھ کام قوم کو بنانے میں زیادہ رول ادا کرتے ہیں۔ استاد، غیر جانب دار سیاست داں، اچھے ڈاکٹر، صحافی، وغیرہ۔ ان کو ہم prestigious کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ البتہ مسئلہ تب در پیش آتا ہے جب دوسرے کاموں کو کوئی بھی حیشیت نہیں دی جاتی ہے اور ہر کوئی مندرجہ بالا کاموں کو کرنا چاہتا ہے، تاکہ ایک قسم کی شان برقرار رہے۔
اس چیز کو ہم اگر کشمیر میں دیکھنا چاہیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہم اس معاملے میں بہت ہی زیادہ تنگ نظری رکھتے ہیں۔ استاد، ڈاکٹر، ڈسٹرکٹ کمشنر، وغیرہ کے بغیر دوسرا کوئی کام ہمارے گلے سے اترتا نہیں ہے۔ یہ بات جانے انجانے میں ہمارے دماغوں اور سماج میں بس گئی ہے کہ اگر کام کرنا ہے تو کوئی اونچے درجے کا کام کرنا ہے، ورنہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ہی ٹھیک ہے۔ ایسی سوچ پروان چڑھنے میں وقت لگتا ہے اور یہ بہت سارے وجوہات کا مجموعہ ہے۔ یہ ایسے نہیں ہے کہ اچانک کوئی چیز آسمان سے گرے اور زمین پر بسنے والے لوگوں کے درمیان رائج ہوئی۔ آنے والی سطروں میں ان وجوہات کی بات ہوگی جن کی وجہ سے یہ ممکن ہوسکا کہ ہم کسی کام کو زیادہ اہمیت اور دوسرے کام کو نیچی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
پہلا ہے زندگی کا ایک محدود نظریہ۔ ہمارے یہاں زندگی کو ایک مخصوص نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ زندگی کا مطلب ہمارے یہاں ہے دولت کمانا، اونچا مکان بنانا، بینک میں پیسوں کی بھرمار ہونا وغیرہ۔ اب یہ چیزیں تو کسی خاص کام جیسے کہ ڈاکٹر نہ ہونے کے باوجود ہم کما سکتے ہیں مگر یہ کام کرنے کے لیے بھی ہمیں ڈاکٹر، سائنس داں، استاد، سول سروس آفیسر، وغیرہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر اگر کمایا جائے تو قابل قبول نہیں۔ سماج کے وہ لوگ جن کو ہم عزت والے مانتے ہیں، وہ ایک مزدور کے مکان کو، گھر کو، زمین وغیرہ کو مانتے ہی نہیں۔ ان کے مطابق یہ پیسہ پیسہ ہی نہیں جو اس طریقے سے کمایا جائے۔ یہ باتیں میری آنکھوں کے سامنے ہر روز وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ میرے کچھ جان پہچان کے لوگ ہیں۔ پہلے وہ بہت غریب تھے۔ مگر اللہ کے کرم سے اب ان کی حالت بہت اچھی ہے۔ مگر ان کی محنت کو کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ لوگوں نے بڑی بڑی ڈگریاں کیوں حاصل نہیں کی۔ اس کے جواب میں، میں نے ان کو ایک معقول جواب دیتے سنا ہے کہ جب پیسہ کمانا ہی مقصد ہے بہ شرطے کہ حلال ہو، تو اس میں کیا گناہ ہے۔ ہم بھی آپ کی طرح گاڑیوں میں گھومتے ہیں، آرام سے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اپنی اور اپنی بہنوں کی شادیاں کرتے ہیں۔ آپ کے یہاں جو زندگی کا تصور ہے، وہ ہمارے یہاں بھی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ آپ چمکیلے کپڑوں میں کرتے ہو اور ہم میلے کپڑوں میں۔ آپ کو زبانیں اچھی طریقے سے بولنی آتی ہے مگر ہم بھی کسی حد تک بول لیتے ہیں۔
دوسرا ہے ان پڑھ سماج۔ انجانے میں ہم کبھی ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کا اثر صدیوں تک رہتا ہے۔ نہ جانے کس نے کسی کام کو خاص اور دوسرے کو عام کردیا۔ جن لوگوں نے یہ کام کیا یا کر رہے ہیں، وہ ان کی اپنی ذہنی اختراع ہے اور آج کے زمانے میں اس کو عمل میں لانا حماقت ہے۔ اس کو ہم ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ آج کے بیش تر ڈاکٹر، استاد، سائنس داں وغیرہ نہ ڈاکٹر، استاد اور نہ سائنس دان کہلانےکے لائق ہے۔ مگر اس کے برعکس ایک ریڑی چلانے والا ان سے اعلا ہے۔ وہ خیانت نہیں کرتا ہے۔ وہ کرپشن سے پاک زندگی گزارتا ہے۔ سود اس کی لغت میں نہیں پایا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی ہمارے سماج میں پہلے والوں کو فروغ دینا ایک اعزاز سمجھتے ہیں بلکہ دھوپ میں موزے بیچنے والا ہمارے لیے شرم کا باعث ہے۔ اس کا زہریلا نتیجہ بے روزگاری اور ڈپریشن کی شکل میں نکل کے آرہا ہے۔
تیسرا ہے دوسروں کی نقالی کرنا۔ اگر ہم یورپ کی بات کریں کیونکہ وہ آج ترقی کے اونچے مقام پر ہے۔ ان کے یہاں اگر ایسا کوئی نظام پایا یا نہیں بھی پایا جاتا ہو، وہ میری نظر میں ہمارے لیے کسی بھی طریقے سے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ اس لیے کہ وہاں کے سیاسی، سماجی، معاشی، اخلاقی اقدار، وغیرہ ہم سے الگ ہیں۔ ہم اس معاملے میں ان کے برابر، اوپر یا نیچے نہیں رہ سکتے۔ ہاں، اگر ان جیسی ترقی کرنی ہے، تو ہمیں پورے سماجی ڈھانچے کو تبدیل کرنا پڑے گا، جو آج کے زمانے میں ناممکن تو نہیں، مگر مشکل ضرور ہے۔ ہم ان کی نقالی کرکے اپنے پیروں پر کھلاڑی نہیں مار سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ میں ہر کوئی چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام کرتا ہے، مگر ہم اس دوڑ میں لگے ہوۓ کہ سماج نے جس کو بڑا کام مانا ہے، ہم اسی کو کریں۔ اگر ڈاکٹر قصائی کی طرح جسم کو کاٹے، تو کوئی حرج نہیں مگر یہی کام اگر قصائی کریں، تو شرم آتی ہے۔ یہ ہے ہمارا حال۔
چوتھا اور آخری ہے ہماری انفرادی کم زوری۔ ایک انسان اس طرز پر سوچتا ہے کہ جیسے سب لوگ کررہے ہیں میں بھی ویسا کروں۔ اب تبدیلی کا سارا بوجھ میرے ہی کندھوں پر آن پڑا ہے! اس سوچ نے ہمیں ہمیشہ باندھ کر رکھا ہے۔ ہم اوپر اٹھ کر دیکھ نہیں پاتے ہیں۔ اگر ایک پڑھا لکھا لڑکا سرکاری نوکری حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے، تو اس کو اپنا روزگار کمانے میں شرم نہیں آنی چاہیے۔ وہ کوئی بھی حلال کام کرسکتا ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ دنوں پہلے لال چوک میں، میں کچھ لڑکوں سے بات کر رہا تھا۔ تو باتوں باتوں میں ہم سول سروسز کی طرف آگئے۔ میرے مخاطب جو لڑکے تھے، وہ صرف اس محکمے تک محدود تھے، اس سے باہر وہ کچھ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس واقعہ نے مجھے بہت کچھ سمجھایا۔
اب جس طرح سے لوگ prestigious کے انتطار میں valueless بنتے جارہے ہیں، بہتر کہ کوئی بھی حلال کام اپنے لیے منتخب کریں، جس سے زندگی آرام سے گزرے۔ دوسروں کو دیکھ کر جینا اب ہمیں چھوڑنا چاہیے۔ جس کام میں خوشی اور زندگی آرام سے گزرے، وہی کام کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اور سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ ہم بچوں کو یہ سمجھائیں کہ کوئی بھی کام اعلا اور ادنا نہیں ہوتا ہے۔ اس سے آنے والی نسلیں کام کے متعلق ایک اچھی ذہنیت تعمیر کرسکتے ہیں۔ اس سے حال اور آنے والا کل بھی محفوظ ہوسکتا ہے۔ یہ بات ایک ذی حس انسان کو مجبور کرتی ہے کہ کوئی راستہ نکالا جائے، جس سے اعلا قسم کے دماغ ایک لاحاصل مہم میں ضائع نہ ہو جائیں۔ آئیے ہر کوئی کوشش کرے تبدیلی لانے کی۔
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:تاریک مستقبل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے