سید فخرالدین بَلے: آسمان ادب کا ایک بڑا آدمی

سید فخرالدین بَلے: آسمان ادب کا ایک بڑا آدمی

ڈاکٹراجمل نیازی

سَیّد فخرالدین بَلّے یاد آتے ہیں تودل میں ایک دنیا آباد ہوجاتی ہے۔ یہ دنیا میں نے سَیّد فخرالدین بَلّے کے گھر میں دیکھی تھی۔ ان کے گھر میں بڑی باقاعدگی کے ساتھ علمی اور ادبی محفلیں منعقد ہواکرتی تھیں۔ جن کا اہتمام وہ بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ مجھے بھی بہت بار ان کے ہاں حاضر ہونے کاموقع ملا۔ وہ زندہ دل آدمی تھے۔ ایسے لوگ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ وہ اب نہیں ہیں لیکن ہم انھیں یاد کرتے ہیں تو ایسا لگتاہے وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔
سَیّد فخرالدین بَلّے سر تا پا شاعر تھے۔ زندگی اور شاعری میں فرق نہ کرتے تھے۔ جب ان کے سراپے پر بڑھاپے کے اثرات ظاہر ہونے لگے تھے تو بھی زندگی ان کے وجود میں وجد کرتی رہی۔ ان کے دل میں دھڑکتی رہی۔ ان کے لہو میں تڑپتی رہی۔ وہ سرکاری افسر تھے مگر کبھی افسری ان پر طاری نہیں ہوئی۔ وہ ایک درویش انسان تھے۔
وہ عمر میں بھی مجھ سے بہت بڑے تھے، ویسے بھی وہ بہت بڑے تھے. ادبی اور علمی دنیا کے بڑے آدمی تھے۔ زندگی کے جس شعبے میں قدم رکھا، رحمت خداوندی ان پر سایہ فگن رہی اور خداداد صلاحیتوں کی بنا پر کامیابیوں نے بڑھ کر ان کے قدم چومے۔. اسٹیج کی ترقی کے لیے آگے بڑھے تو ان کے 25 روزہ جشن تمثیل کی گونج دور دور تک سنائی دی۔ اسٹیج فن کاروں نے خدمات کے اعتراف میں سید فخرالدین بلے ہی کو مین آف دا اسٹیج قراردیا۔سمعی اور بصری فنون کی ترویج پر انھیں محسن فن کے خطاب سے نوازا گیا۔ صحافت کے میدان میں اترے تو فکر و قلم کے خوب جوہر دکھائے۔ حالات حاضرہ پر کئی اخبارات و جرائد میں قطعات بھی لکھتے رہے۔ بڑے بڑے بیوروکریٹس کو بھی میں نے ان کا قدر دان پایا۔ بڑا وہ ہوتاہے، جسے کسی دنیا کے بڑے بڑامان لیں. سید فخرالدین بلے کوعلم، ادب، اسٹیج، ثقافت اور تصوف کے بڑے لوگ بھی بڑا مانتے تھے۔ اشفاق احمد، این میری شمل، مخدوم طالب المولیٰ اور ڈاکٹر وزیر آغا انھیں تصوف پر اہم اتھارٹی سمجھتے تھے. قافلے کے ایک پڑاﺅ میں تصوف پر اشفاق احمد اور سید فخرالدین بلے کے مابین فکر انگیز مکالمہ ہوا۔ تمام شرکائے قافلہ نے خوب لطف اٹھایا اور بہت کچھ پایا۔ قافلے کے پڑاﺅ کی بازگشت آواز جرس میں بھی سنائی دیتی تھی۔ اس مجلے کے چیف ایڈیٹر بھی سید فخرالدین بلے ہی تھے۔ وہ قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے بہانے بڑی آسانی کے ساتھ ڈھونڈ لیاکرتے تھے۔
احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، مرتضیٰ برلاس اور میرزا ادیب سمیت بہت سے ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ بھرپور شامیں منائی گئیں. جو لوگ ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے کے روادار نہیں تھے، وہ بھی ان کی محفلوں میں اکٹھے نظر آئے۔ ان کی شفقت میں شائستگی کا ایسا انداز تھا. جس میں عزت مندی نمایاں تھی۔ مجھے ہمیشہ محسوس ہوا، جیسے میں ان کے گھر کا آدمی ہوں۔ ہم ان کے لیے چھوٹے بھائیوں کی طرح تھے۔ وہ ہمیں بھائیوں جیسا اعزاز دیتے تھے۔ انھوں نے رشتے اور رابطے کو ایک جذبہ بنا دیا تھا، ایک اچھا شاعر ہونے کے مقام نے ان کے لیے احترام کاجذبہ پیدا کردیا تھا۔ وہ بڑی حیثیتوں کے مالک تھے، وہ جامع آدمی تھے۔شاعر اور ادیب ہی نہیں، درجنوں مطبوعات کے مولف بھی تھے اور درجن بھر رسائل کے مدیر بھی۔تعلقات عامہ کے صرف ماہر نہیں حقیقی معنوں میں اس کے استاد تھے۔ دانشور اور اسکالر تھے۔ بڑے بڑے ادیب اوردانشور ان کی ادبی حیثیت کے معترف تھے۔ بیش بہاشخصیت تھے۔ دوستوں کو اکٹھا کرنے اور انھیں اکٹھا رکھنے کا عجب ہنر ان کے پاس تھا، وہ ہنر مند بھی تھے اور درد مند بھی۔ اس روایت کو ان کے بیٹے ظفرمعین بَلّے نے بھولی ہوئی حکایت نہیں بننے دیا۔ وہ اپنے عظیم والد کے ملنے والوں سے ملاقات رکھتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بَلّے صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد میں ملتان میں ان کے گھر گیا تھا، وہ مجھ سے مل کے پہلی بار پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے۔ میں نے ان کے محبت بھرے آنسوﺅں کی روشنی ظفرمعین بَلّے کی آنکھوں میں دیکھی ہے۔ یہ روشنیاں ان کے گھر میں جگمگاتی رہتی ہیں۔ظفر معین بَلّے کی بیٹی کی نظمیں میں نے سنی ہیں۔ ان میں بَلّے صاحب کی خوش بو کی ان دیکھی نسبت نظرآتی ہے۔
قافلے کاسفر نہیں تھما۔ فخرالدین بَلّے کاسفر بھی جاری ہے۔ ان کی ہم سفری زندگی کے بعد بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان کے گھر والے جب تک انھیں یاد رکھیں گے تو ہمارے اندر بھی کو ئی یاد دلاتا رہے گا۔ آدمی سب کچھ بھول جاتاہے مگر محبت کونہیں بھول سکتا۔ بَلّے بھائی تو محبت کے بنے ہوئے تھے۔ ان کی خوب صورت شاعری بھی ان کی محبت کا عکس ہے اور جو اس کے برعکس ہے، وہ بھی محبت ہے۔ شاعری محبت کو زندہ رکھتی ہے اور محبت کو تقسیم کرتی ہے۔ عظیم دانشور اشفاق احمد کہتے تھے کہ اے خدا ہمیں آسانیاں عطا کر اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطاکر۔ یہ دعا فخرالدین بَلّے جیسے لوگوں کے لیے قبول ہوئی ہے۔ وہ عمر بھر آسانیاں تقسیم کرتے رہے۔ محبتیں بانٹتے رہے۔ وہ بہت ہم درد تھے۔ کئی لوگوں کی اس طرح مدد کی کہ وہ دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہوگئے۔
میں ان دوستوں کاشکرگزار ہوں، جنھوں نے بَلّے بھائی کی یادوں پرمشتمل تحریروں کو ترتیب دینے کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ ایسے لوگوں کی یادوں کو محفوظ کرنا ایک بڑاکام ہے۔ جو ہوگیاتو آنے والی نسلوں تک یہ بات بھی پہنچا دے گا کہ ہم اپنے بڑے لوگوں کو بھولتے نہیں۔

ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی نہیں رہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے