باری کا انتظار

باری کا انتظار

ایس معشوق احمد

وہ درد سے کلبلا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ وہ جیسے تیسے اسپتال پہنچا۔ٹکٹ کاونٹر کے پاس چار پانچ منٹ ٹھہر کر اس کی باری آئی۔ اس نے ٹکٹ دینے والے کو دھیمی آواز میں بولا کہ سینے میں درد ہے، مجھے کاڈیلوجسٹ کے پاس جانا ہے۔ ٹکٹ ہاتھ میں لی، ٹکٹ دینے والے نے آواز دی کہ روم نمبر 102 اور ٹکٹ پہ بھی دائرہ بنا کر لکھ دیا تھا۔ وہ اس روم کی طرف تیز تیز قدموں سے چلنے کی کوشش سے لڑکھڑا رہا تھا۔ کمرہ کے نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ لمبی لائن لگی تھی۔ وہ لائن کو چھوڑ کر ڈاکٹر کے پاس جانے کی کوشش کرنے لگا۔ دروازے کے قریب بیٹھے ملازم نے روکا اور گرج دار آواز میں پوچھا کہ "کدھر جا رہے ہو"۔ اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بائیں جانب درد ہے، ڈاکٹر صاحب کو جلدی دکھانا ہے۔ ملازم نے گھور کر دیکھا اور طنزیہ لہجے میں بولا کہ”ان سب کو درد ہے۔ یہ صبح سے یہاں اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ ٹکٹ کو یہاں چھوڑو اور جاؤ وہاں اپنی باری کا انتظار کرو"۔
اس کا درد بڑھ رہا تھا لیکن ملازم کے رویے کو دیکھ کر اس کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ ملازم کے پاس دوبارہ جاکر اس سے کہیے کہ مجھے ڈاکٹر صاحب کو جلدی دکھانا ہے۔ اب باری کو رہنے دو اور ایسے ہی چھوڑ دو، میری حالت بگڑ رہی ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ کو سینے پر رکھ کر آنکھیں دروازے کی طرف ٹکائے رکھی تھیں کہ کب اس کی باری آئے گی۔اسی انتظار میں تھا کہ موت نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

(٢) قرض
ایس معشوق احمد

اس کی چودہ سالہ بیٹی بھاگ گئی۔ جس لڑکے کے ساتھ وہ بھاگ گئی تھی اس نے اب اس کی بیٹی سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ زار و قطار رونے کے بعد اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔جس شخص نے اسے بچایا وہ اس کے بچپن کا دوست تھا۔ نصیحت کرنے اور حوصلہ دینے کے بعد اس کے عزیز دوست نے اسے یہ یاد دہانی کرائی کہ جب وہ جوان تھا وہ بھی گلشن کو بھگا کر غائب ہوا تھا تو پندرہ بیس روز بعد پولیس اسے پکڑ کر لائی تھی۔ گلشن کے والدین چاہ رہے تھے کہ اب وہ گلشن سے شادی کر لے مگر اس نے ان کی ایک نہ سنی اور شادی سے انکار کر دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ جو لڑکی اپنی ماں باپ کی عزت کو روند سکتی ہے وہ خاوند کی عزت کیا رکھے گی۔ اسے گلشن کی اور اس کے مظلوم اور بے قصور والدین کی بد دعائیں لگی تھیں۔ اس کی بیٹی نے بھاگ کر شادی کرنے کی کوشش میں اس کا قرض چکایا ہے۔


(٣) جذبات
ایس معشوق احمد

سائمہ نے پندرہ بیس بار فون ملایا لیکن شفقت نے اس کے فون کا کوئی جواب نہ دیا۔ دو تین دن پہلے سائمہ کو پتا چلا تھا کہ شفقت اور روبینہ کی ملاقاتیں عروج پر ہیں۔ جب سے شفقت روبینہ سے قریب ہوا تب سے وہ سائمہ، اس کی ضد اور باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔ اس سے پہلے جب دونوں کے درمیان کسی بات پر ان بن ہوتی تو سائمہ فون پر بہت ساری دھمکیاں دیتی تھی۔ شفقت کے منانے، صفائی دینے اور آخر پر معافی مانگنے کے انداز سے وہ جلدی سب کچھ بھول جاتی تھی۔ شفقت نے آخر کار فون اٹھایا تو سائمہ نے خود کو جلانے کی دھمکی دی۔ اب کی بار شفقت نے نہ منایا، نہ کوئی صفائی دی اور نہ ہی معافی نامہ پیش کیا۔ بڑی بے نیازی سے جواباً کہا کہ جو مرضی ہے وہ کرو۔ سائمہ کچن میں گئی، گیس آن کیا اور تیلی جلا کر اپنے حسین و جمیل جسم کو نذر آتش کیا۔
***
ایس معشوق احمد کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :شخصیت : زاہد مختار
ایس معشوق احمد کے یہ افسانچے بھی ملاحظہ فرمائیں :‘مصروف` اور دیگر افسانچے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے