شخصیت : زاہد مختار

شخصیت : زاہد مختار

کالم نگار : ایس معشوق احمد

اللہ رب العزت نے انسان کو بہترین صورت میں تخلیق کیا ہے اور ساتھ ہی متنوع خوبیوں سے اسے مزید پرکشش بنایا ہے۔ کسی کو یہ ہنر دیا کہ مقرر اچھا ہے تو کوئی محرر بہترین۔ اگر کسی پر اپنا خاص کرم کیا تو اس کو دونوں میں سلیقہ بخشا۔ جموں و کشمیر میں بھی ایسے اشخاص موجود ہیں جن کو رب نے سلیقہ بخشا ہے کہ وہ افسانہ لکھتے ہیں تو خوبیوں سے آراستہ پیراستہ، غزل لکھتے ہیں تو وہ غزل ہوتی ہے اپنے احساسات و جذبات کی ترجمان، انشائیہ لکھتے ہیں تو خوبیوں کا پیکر، اداریہ لکھتے ہیں تو بے باکی کا نمائندہ، بات کرتے ہیں تو ہر لفظ سے خوش بو آئے۔ ادبی دنیا کا ایسا ہی ایک معروف نام زاہد مختار کا ہے۔ جو بیک وقت ایک بہترین مدیر، عمدہ شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، انشائیہ نگار، ڈراما نگار، اداکار، اور سب سے بڑھ کر ایک بہترین انسان ہیں۔
زاہد مختار 15 جنوری 1956ء میں چینی چوک اننت ناگ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حاجی ثناء اللہ ایک عالم دین تھے۔ بچپن سے ہی شعر و شاعری سے شغف تھا۔ چھٹی جماعت میں پہلی نظم لکھی جو گاندھی جی پر تھی۔ 1973ء میں ” بے نام" کے عنوان سے پہلی تخلیق روزنامہ آفتاب میں چھپی۔ افسانہ "تخلیق کے گھاؤ" شیرازہ میں 1976ء میں چھپا۔زاہد مختار کشمیری اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں اور دونوں زبانوں میں ایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ زاہد مختار نے اگرچہ متنوع اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن خود کو شاعر کہلانا پسند کرتے ہیں۔ زاہد مختار کے اب تک اردو میں چار شعری مجموعے ” ابتداء" (1984)ء، سلگتے چنار ( 2009)ء، اجنبی شہر کے اجنبی راستے (2011)ء اور تشنگی (2016)ء میں منظر عام پر آئے ہیں۔ کشمیری زبان میں ان کے دو شعری مجموعے تنبرہ ہلم ( 2014)ء اور ضرب قلم ( 2013)ء شائع ہوچکے ہیں۔
زاہد مختار کے شعری مجموعوں کے مطالعے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ زاہد مختار غزل نہیں لکھتے اپنے قوم کی حالت کا نوحہ لکھتے ہیں۔ وہ ایسا اشک ریزی کے لیے نہیں کرتے بلکہ اس کا نوحہ نغمہ بن کر جوش و جذبہ کو جگاتا ہے۔ وہ ماضی پرست نہیں بلکہ اچھے مستقبل کے خواہاں ہیں۔ دل جب خون کے آنسو روتا ہے، درد جب چیختا ہے، آنکھیں جب رونے کے بجائے مبہوت ہوجائیں تو اس کسک کو وہ غزل کا لبادہ اوڑھاتے ہیں۔ ان کی غزل میں امید بھی ہے، بےقراری بھی، بے آرامی اور وہ خلش بھی جب گھٹن ہو، قدغن ہو، بات کرنے پر زبان کٹتی ہو اور نس نس میں خوف دوڈ رہا ہو اور ستم یہ ہے کہ اس ساری صورت حال کا چرچا بھی نہ کر پاتے ہوں، تو زاہد مختار خامہ اٹھا کر اپنے جذبات کو قرطاس کے حوالے کرتے ہیں اور غزل ہوجاتی ہے۔حساس شاعر ابتر حالات کو دیکھ کر خاموش نہیں رہتا بلکہ سکوت کو آواز بخشتا ہے۔ لب پر پابندی کے باوجود حساس شاعر اپنی بات کہہ دیتا ہے، وہ نہ اپنی غیرت کو بیچتا ہے اور نہ ہی رسوائی قبول کرتا ہے بلکہ اندھیرے میں اجالے کی کرن بن کر جھوٹ کی نگری میں سچائی کا علم بلند کرتا ہے۔ اس سے اگر قلم چھین لیا جائے، زبان پر مہر لگائی جائے تو وہ اپنے خون جگر سے جذبات کا اظہار اور اپنی آواز کو بلند کرتا ہے۔ ان کی آواز کو اگر نہ سنا جائے پھر بھی داستان کو دہراتا ہے اور آئندہ نسلوں کی رہ نمائی کرتا ہے۔ یہی زاہد مختار نے کیا۔ ان کی غزلوں کے چند اشعار دیکھیں:
وہ اپنے حکم نامے میں فقط تلوار لکھتے ہیں
ہمیں سچ کہنا آتا ہے تبھی اشعار لکھتے ہیں

آج سے کل خوب تر ہوگا اسی امید پر
ناامیدی کے شہر میں زندگانی کٹ گئی

ہر مکان کی چھت پہ یہ تحریر ہے
ساری بستی درد کی جاگیر ہے

تپتے گل کے دامن سے کیوں تم نے چرائی خوش بو ہے
اب جو سرخی اخباروں کی آگ لگائے تم آنا

جہلم کے سینے میں اکثر دھڑکن ڈوب سی جاتی ہے
شاید پانی کے قطروں میں خون کے دریا بہتے ہیں

زاہد مختار ناول نگار بھی ہیں۔ ان کا ناول "خوشبو کا سفر" 1982ء میں شائع ہوا ہے۔ بہ حیثیت افسانہ نگار بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے "جہلم کا تیسرا کنارا" ( 2004)ء، تحریریں (2013)ء، سورج کا پہلا اندھیرا ( 2018)ء چھپ چکے ہیں۔ زاہد مختار نے اس واقعہ کو اپنے افسانوں کا موضوع نہیں بنایا جس کے وہ خود شاہد نہیں۔ جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اس کو افسانے میں بیان کیا۔”گرم ہوا" زاہد مختار کا معروف افسانہ ہے جس میں ہندو مسلم بھائی چارے کو دکھایا گیا ہے اور ان ابتر حالات کو بھی جو بہت سی معصوم جانوں کے زیاں کا سبب بنے۔ سریندر کے ہاتھ میں لاڈلی راکھی باندھتی تھی۔ جب حالات دگرگوں ہوئے اور سریندر حسین وادی کو چھوڑ کر کہیں اور جا بسا۔ کرفیو میں ڈھیل دی گئی تو لاڈلی سریندر کے نام ایک درد بھرے خط میں راکھی پوسٹ کرنے آئی تھی۔ ڈل گیٹ پوائنٹ سے بھاگتی بھیڑ کو دیکھ کر لاڈلی کچھ سمجھ نہ پائی کہ کس جانب بھاگنا ہے۔ گولی چلی اور اس کے ماتھے پر وہاں جا لگی جہاں والدین کے بوسے ثبت تھے۔ اس کلی کو ابتر حالات نے موت کے حوالے کیا۔ ایسی بہت سی لاڈلیاں ابتر حالات کی نذر ہوچکی ہیں۔

جہاں ہر طرف”ہاں ہاں" کا غلغلہ بلند ہو رہا ہو وہاں "نہیں" کہنے کی ہمت اور حوصلہ جس قلم کار میں ہو وہ خوددار ہوتا ہے۔ ایسا ادیب اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت کی تشہیر کے لیے لکھتا ہے، چاپلوسی نہیں کرتا، کاسہ لیسی سے کام نہیں لیتا بلکہ حق کو دہراتا ہے اور صداقت کا علم ہاتھوں میں لیے سچائی کی نغمہ سرائی کرتا ہے۔ سچے ادیب کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ جھوٹ سے نفرت اور سچائی سے محبت کرتا ہے۔ زاہد مختار سچے قلم کار ہیں ۔دوسروں کو خوش کرنے کے لیے نہیں لکھتے بلکہ جو کچھ محسوس کرتے ہیں اس کو قرطاس کے حوالے کرتے ہیں۔ بشیر منظر ان کے بارے میں رقم طراز ہے کہ:
"ہر تخلیق کار کی اپنی ایک انفرادیت ہوتی ہے۔ اپنا ایک منفرد انداز اور منفرد شناخت _ برسوں سے اہل قلم کئی نازک موضوعات کے ساتھ چھیڑ خوانی کرتے آئے ہیں لیکن اہم نقطہ یہ ہے کہ کتنے صاحب قلم ان موضوعات کے ساتھ انصاف کر پائے ہیں۔ اس ضمن میں زاہد کا اپنا ایک پروقار انداز ہے۔۔۔۔۔زاہد کی اپنی انفرادیت کا ضامن"۔
زاہد مختار نے 1980ء میں دوردرشن سرینگر کے لیے ڈرامے لکھے اور ریڈیو کشمیر سرینگر میں بھی اپنی آواز کے جلوے بکھیرے۔ انھوں نے 114 سریلز دور درشن اور ریڈیو کشمیر سرینگر کے لیے لکھے۔ زاہد مختار مشہور ٹیلی سریل ٹیوٹھ مُدھر(8اقساط)، ضرب تہ جمع ( 10اقساط) اور اسن تہ گندن( 13 اقساط ) کے پرڈویوسر اور ڈائرکٹر ہیں۔ اپنی صلاحتیوں کے جلوے صحافت میں بھی دکھا رہے ہیں۔ ہفت روزہ "المختار" کے پرنٹر، پبلشر اور ایڈیٹر ہیں۔”المختار فلمز" کے پبلشر اور ڈائرکٹر، اردو ادبی میگزین "لفظ لفظ" کے ایڈیٹر، پرنٹر اور پبلشر ہیں۔
زاہد مختار کو ادبی خدمات کے صلے میں بیسٹ ایکو ایوارڈ 2000ء، مہجور فاؤنڈیشن کی طرف سے بہترین شاعر کا ایوارڈ 2001ء، دیار ادب علی گڑھ کی طرف "سفیر اردو" ایوارڈ 2010، جموں و کشمیر اردو اکیڈمی کی طرف سے "عمر مجید یادگاری ایوارڈ" 2011 ء، شمس المراز کا ایوارڈ مراز ادبی سنگم کشمیر کی طرف سے 2016ء اور لیجنڈری ایوارڈ 2020 ء ملے ہیں۔
زاہد مختار کی تخلیقات کشمیر کے معتبر اخبارات و رسائل کے علاوہ بیسوی صدی ( دہلی )، شاعر (ممبئی)، نگار ( دہلی )، ایوان اردو ( دہلی)، آج کل (دہلی)، فلمی ستارے ( دہلی )، خاتون مشرق ( دہلی)، باجی ( دہلی)، سریر ( کراچی)، روشنی ( امریکہ)، ساکن ( اندور ) اور ادبی دنیا کے معتبر رسائل و جرائد میں اہتمام سے چھپتی ہیں۔
زاہد مختار "رایل تھیٹرز اننت ناگ" کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ینگ فلمز رائٹرس ایسوسیشن ممبئی کے ممبر، بزم فکر وفن کے بنیاد گزار اور بزم فکر سخن کے ممبر ہیں۔ زاہد مختار نے آٹھ کے قریب آل انڈیا مشاعروں کی نظامت کے فرائض نبھائے ہیں۔ ان مشاعروں میں ہندستان کی مختلف ریاستوں کے ممتاز شعراے کرام نے شرکت کی ہے۔ زاہد مختار مشہور زمانہ پروگرام "صدائے صبح" یا صبحائے صبحائے یا Good Morning j& k کے اینکر بھی ہیں۔
زاہد مختار اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود ادب کی خدمت میں منہمک ہیں۔ ادب کو واقعی اگر کسی نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے تو وہ زاہد مختار ہیں۔ ابھی لکھ رہے ہیں اور امید ہے ان کے قلم سے مزید فن پارے وجود میں آئیں گے.
گذشتہ کالم یہاں ملاحظہ فرمائیں :شخصیت : شیخ بشیر احمد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے