"مولود شریف" پر ایک طائرانہ نظر

"مولود شریف" پر ایک طائرانہ نظر

ڈاکٹر سید شاہد اقبال (گیا)

خواجہ الطاف حسین حالیؔ پر اب تک بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ صالحہ عابد حسین کی کتاب ”یادگار حالیؔ" (مطبوعہ ١٩٥٠ اس سلسلہ  کی اولین ترین کامیاب کوشش ہے۔ اس کے مطالعہ سے خواجہ حالیؔ کی نشوونما، آب و رنگ، برگ و بار کی ایک واضح تصویر سامنے آتی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اِسے حالی کی سوانح عمری کا ایک قیمتی مواد تسلیم کرتے ہیں۔
خواجہ حالی  کی نثری تصانیف میں حیات سعدی (مطبوعہ ۱۸۸۱ء) یادگار غالب (مطبوعہ ١٨٩٦ء) حیات جاوید (مطبوعہ ١٩٠١ء) شامل ہیں۔ مذکورہ تصانیف ان کی حیات میں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکی تھیں۔
خواجہ حالیؔ کی اولین تصانیف میں ”تریاق مسموم“ (١٨٦٤ء) اور مولود شریف (١٨٦٧ء) کا ذکر آتاہے- لیکن ”تریاق مسموم“ کا کوئی نسخہ تاحال دستیاب نہیں. جب کہ مرتب کو ”مولود شریف“ کا ایک نسخہ مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے حاصل ہوا ہے۔ ”مولود شریف“ خواجہ حالی  کی حیات میں شائع نہیں ہوسکی۔ اسے حالیؔ کے انتقال (١٩١٤ء) کے بعد خواجہ سجاد حسین نے حالی پریس پانی پت سے ١٩٣٢ء میں شائع کرایا۔ ان کے بقول انھیں خواجہ حالیؔ کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا اس کتاب کا مسودہ ہاتھ آگیا اور اس بنیاد پر ”مولود شریف“ کی اشاعت عمل میں آئی۔
”مولود شریف“ میں خواجہ سجاد حسین کا وہ مقدمہ بھی شامل ہے جو طبع اول کی یاد گار ہے۔ نیز طبع ثانی میں پروفیسر عبدالحق کی تقریظ قابل قدر ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نے ”پیش متن“ کے عنوان سے ایک پیش قیمت مواد فراہم کرنے کی سعی کی ہے۔
”مولود شریف“ کا اصل متن ٥٢ / صفحات (٣٩ تا ٩٠) پرمشتمل ہے جب کہ اس کی تعلیقات (٩٣ تا ١٢٠) فرہنگ اشعار فارسی اور فرہنگ آیات فقرہ قرآن (١٢٢ تا ١٣٢) اور فرہنگ (١٣٣ تا ١٤٤) پر محیط ہے۔
”مولود شریف“ خواجہ حالیؔ کی نثر نگاری کا اولین نقش ہے۔ اس کے مطالعے سے ان کے عشق رسول ؐ سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہوتاہے۔ یہ حقیقت ان کی بعد کی تحریروں میں عیاں ہوتی چلی گئی۔ گرچہ ”مولود شریف“ کی عبارت میں وہ سادگی سلاست اور روانی نہیں جوحالی کی طرز تحریر کی نمایاں خصوصیت ہے لیکن اس میں تشبیہات، تلمیحات اور تمثیلات کے استعمال نے ایک واضح ادبی شان پیدا کردی ہے۔ اس کتاب میں تلمیحات کا جس فروانی کے ساتھ استعمال ہوا ہے اس کا الگ سے مطالعہ کیا جاناچاہیے۔ اس کتاب کے آخر میں جونثری مناجات ہے وہ نادر ادب پارے کی حیثیت رکھتی ہے۔
”مولود شریف" کے آخری حصے مناجات کا یہ حصہ دیکھیے۔ جہاں ان کی نظم نعتیہ اور مضامین دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں وہاں نثر بھی پراثر اور دل میں اتر جانے والی ہے. ملاحظہ فرمائیں:
”الٰہی ترا کرم وسیع بڑی عنایت شامل، تیرا فیض عام، تیرے ہاتھ کشادہ، تیرا ملک بے زوال، تیرے خزانے بے حساب، تیری نعمتیں سرمدی، تجھ سے کیا کیا مانگے اور کہاں تک مانگے، تجھ سے دولت کونین پر راضی ہونا، ایسا جیسے بحر قلزم سے پیاسا بھرنا۔ تجھ سے دنیا اور آخرت مانگنی ایسی [جیسے] خوان نعیما سے بھوکا اٹھنا، تیرا گدا نہیں جو ہفت اقلیم کی سلطنت پرلات نہ مارے۔تیرا بھوکا نہیں جونعیم جنت کے لیے ہاتھ پسارے، جس نے تجھ سے تیرے سوا آرزو کی اس نے آرزو کرنی نہ جانی، جس نے تیرے ہوتے عرش اور مادرن العرش پرخاک نہ ڈالی اس نے تیری قدر نہ پہچانی۔
آنچہ خواہند وبیا بند نخواہند آن را
دین سخن شمہ از ہمت درویشاں است
(بحوالہ: ”مولود شریف“ص:۹۸)
ڈاکٹر آفتاب احمد نے اپنی سعی بلیغ سے ”مولود شریف“ کی ترتیب و تزئین کرکے اس کی خوبیوں میں چار چاند لگادی ہے. انھوں نے تعلیقات اور فرہنگ کا علیٰحدہ علیحدہ ابواب میں ذکر کیا ہے۔ جس سے اس کتاب کی حسن معنویت میں اضافہ ہو گیا۔ انھوں نے مآخذ میں ٣٢ کتب کے نام درج کیے ہیں جن سے استفادہ کیا گیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ خواجہ حالیؔ کی یہ تصنیف ”مولود شریف“ علمی ادبی حلقے میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور تعلیم گاہوں میں اسے داخل نصاب کیا جانا چاہیے۔
اس کتاب کی کمپوزنگ اور طباعت قابل تعریف ہے۔ مرتب اس خوب صورت پیش کش پرمبارکباد کے مستحق ہیں۔
DR. S. SHAHID IQBAL Ph.D
At: ASTANA-E-HAQUE, ROAD NO: 10
WEST BLOCK, NEW KARIMGANJ
GAYA-823001 (BIHAR)
Mob: 09430092930/ 09155308710
E-mai:drsshahidiqbal@gmail.com
٭٭٭
صاحب تبصرہ کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : دوسری ہجرت : ایک جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے