اظہر ہے جس کا نام…

اظہر ہے جس کا نام…

تسلیم عارف
شعبۂ اردو، جی. ایل. اے کالج، میدنی نگر، پلامو، جھارکھنڈ 

ایم جے اظہر کا شمار پلاموٗ کی متحرّک ادبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ ایک ملن سار شخصیت کے مالک، دوستوں کے دوست اور یاروں کے یار ہیں۔ خوش اخلاقی اور خاک ساری کے ساتھ ان کی رعب دار آواز بھی ان کی شخصیت کا ایک اہم حصّہ ہے۔ آواز میں غضب کا بیس (Base) ہے۔ اگر بغیر مائک پورے مجمعے کو مخاطب کرنا ہو تو ان کی آواز ایک بڑے ہال میں بیٹھے تقریباً پچاس افراد کے لیے بھی کافی ہو سکتی ہے۔ مشاعروں میں کلام سنانے کے دوران اُن پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور راحت اندوری کی طرح مائک کی پروا کیے بغیر آگے پیچھے اور سامنے لہرا لہرا کر اشعار پیش کرنے لگتے ہیں۔ ہر شعر کے ساتھ پیش کش میں بلند آہنگی بڑھتی چلی جاتی ہے اور یہ ان کا مخصوص انداز ہے۔ کلام پیش کرتے وقت ان کے اسی ہاو بھاو کی وجہ سے اشعار قارئین کے ذہن میں معنی و مفہوم کے ساتھ آسانی سے اُترتے چلے جاتے ہیں۔
اپنے قریبی دوستوں میں راحت اندوری پارٹ ٹو کے نام سے مشہور جناب ایم جے اظہرؔ سے باضابطہ طور پر میری پہلی ملاقات جی. ایل. اے کالج کے شعبۂ اردو میں ہوئی، جب وہ مقبول منظرؔ کے ہم راہ اپنی بچّیوں کا داخلہ کرانے جی. ایل. اے کالج تشریف لائے تھے۔ اس وقت علیک سلیک اور تھوڑی بہت گفتگو سے زیادہ کا موقع نہیں مل سکا۔ اس کے بعد AIITA کے ایک پروگرام میں ڈالٹن گنج کے مقامی اسکول میں ملاقات ہوئی اور ان کے ساتھ تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ اس وقت وہ مجھے خاص جچے نہیں، کیوں کہ ان کی بلند آہنگی اور بات رکھنے میں تھوڑی گرم جوشی دکھائی دی جو موقع و محل کے اعتبار سے مجھے نامناسب لگی۔ اس وقت تک مجھے پتا نہیں تھا کہ جب اظہرؔ تقریر کرتے ہیں یا مشاعرے میں کلام سناتے ہیں تو ان کی کیفیت بالکل بدل جاتی ہے۔ بعد میں جب ڈالٹن گنج میں ہماری رہائش پر مقبول منظرؔ کے ہم راہ ان سے کچھ اور ملاقاتیں ہوئیں تو ان سے دھیرے دھیرے نزدیکیاں بڑھیں اور ان کی شخصیت کے اسرار مجھ پر کھلنے شروع ہوئے۔
میرا تعلّق رانچی شہر سے ہے اور ڈالٹن گنج کے لیے تو میں بالکل پردیسی ہوں۔ اظہرؔ سے ملاقات سے قبل یہاں مَیں تقریباً دو برس گزار چکا تھا لیکن اپنے کام اور کالج سے زیادہ یہاں مجھے کسی سے سروکار نہ تھا۔ اظہرؔ سے ملاقات کے بعد ان کے توسّط سے یہاں کی کئی علمی و ادبی شخصیات سے ملنا نصیب ہوا اور یہاں میرے تعلّقات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ یہاں کی مختلف ادبی محفلوں میں بھی اُنھی کی وجہ سے تواتر کے ساتھ شامل ہونے کا موقع ملا۔ اظہرؔ کے ساتھ رہ کر یہ اندازہ ہوا کہ وہ اردو زبان و ادب کی خدمت کے سلسلے میں بہت فعال ہیں اور اس سلسلے سے بڑی تگ و دَو اور محنت کرتے ہیں۔ سماجی حیثیت سے بھی وہ ایک معتبر انسان ہیں۔ اپنے گاؤں ناوا جے پور کے وہ صدر ہیں اور وہاں بھی ان کا خاندان کافی عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ پنچایت کے مختلف فیصلے بھی وہ کرتے ہیں اور ان میں انصاف پسندی کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ نیوٗرا کے اَپ گریڈیڈ اردو مڈل اسکول کے وہ ہیڈ ماسٹر ہیں۔ جب ان کی دعوت پر میں ان کے اسکول گیا تو صحیح معنوں میں اس اسکول کی بہترین حالت کو دیکھ کر مجھے کافی مسرّت ہوئی۔ وہاں ان کے دیگر اساتذہ اور اسٹاف نے بھی بڑے دل پذیر انداز میں میرا استقبال کیا۔ سبھی کو جوڑ کر رکھنا اور ہر فرد کی صلاحیت کے اعتبار سے اس سے کام لینا سب کے بس کی بات نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ اسکول کے اساتذہ اور اسٹاف اظہرؔ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اظہرؔ کی شخصیت میں مہمان نوازی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور ان کے گھر والوں خصوصاً اولاد میں بھی اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ ادا اُن کو اپنے والد سے ملی ہے۔ اظہرؔ اپنے والد کی مہمان نوازی کے قصّے اکثر سناتے ہیں۔ اگر صبح کے وقت کوئی ان کے گھر پہنچ جائے تو ان کے والد اسے بغیر ناشتہ کیے ہرگز جانے نہ دیتے۔ کسی رکشہ والے کے ساتھ سفر کیا تو کرایہ ادا کرنے کے علاوہ اسے اضافی رقم دے دی کہ چائے ناشتہ کرلینا۔ اپنے اسکول سے گھر تشریف لاتے تو جو پھل یا کھانے کی چیزیں ساتھ ہوتیں، محلے کے جو بچّے اس وقت موجود ہوتے، اپنے بچوں کے ساتھ سب کو اس میں شریک کرتے۔ والد کی ایسی تربیت سے اظہرؔ کی شخصیت میں مہمان نوازی کا جذبہ کچھ اس طرح رَچ بس گیا ہے کہ اب یہ ان کی شخصیت کا جزوِلاینفک بن چکا ہے۔ اگر آپ ان کے گھر تشریف لے جائیں تو آپ کی خاطر داری میں ان سے جو ممکن ہوگا، اس میں کوتاہی نہیں فرمائیں گے۔ چائے کے ساتھ وائے کا انتظام تو لازمی ہے ہی۔ اگر کھانے کا وقت ہوا تو وہ آپ کو اس سلیقے سے اپنے دام میں لیں گے کہ کھانا کھائے بغیر ان کے گھر سے ٹلنا آپ کے لیے محال ہوجائے گا۔ دوستوں کی محفل میں بھی یہی انداز انھیں محبوب بناتا ہے۔ سڑک پر یا بازار میں اگر کبھی آپ کی ان سے ملاقات ہو گئی تو آپ چاہیں نہ چاہیں، وہ آپ کو چائے نوشی کے لیے راضی کر کے ہی دَم لیں گے۔ فرمایش میں ایسی محبت اور سلیقہ کہ آپ کے انکار کو بھی وہ اقرار میں تبدیل کرا لیں اور ہر مرتبہ رقم اپنی جیب سے ہی خرچ کریں گے۔ میں ایک مرتبہ کالج سے واپس آ رہا تھا، چھوٹی مسجد کے قریب ملاقات ہوگئی۔ مجھے بھوک لگی تھی تو میں ان کو ساتھ لے کرہوٹل گیا۔ اس مرتبہ میں نے پکّا ارادہ کر لیا تھا کہ کھانے کے پیسے مَیں ادا کروں گا۔ فراغت کے بعد کھانے کی ٹیبل سے لگ بھگ اچھلتے ہوئے میں کاؤنٹر پر پہنچا اور پیسے دیے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہو ٹل والے نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ پیچھے اظہرؔ مسکرا رہے تھے۔ چوں کہ مَیں اظہرؔ صاحب کے ساتھ تھا، اس لیے ہوٹل والے کو معلوم تھا کہ پیسے وہ ہی ادا کریں گے۔ مَیں نے کہا:
”عجیب دادا گری ہے آپ کی۔“
اگر آپ اظہرؔ کے گھر پر ان کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے ہیں تو ان کی مہمان نوازی اپنے نصف النّہار پر پہنچ جاتی ہے۔ اگر آپ سے انھوں نے کسی خاص پکوان کو نوش فرمانے کو کہا اور آپ نے ان سُنی کر دی تو ان کی پیش کش کا انداز تھوڑا بدل جائے گا۔ وہ اس چیز کو کھا کر آپ سے کہیں گے: ”ماشاء اللہ بہت بہترین ہے سر، بہت لذیذ اور مزے دار لگ رہا ہے کھانے میں۔ نہیں کھائیں گے تو بچ نہیں پائے گا۔“ چائے پینے کے معاملے میں میری رفتار تھوڑی سست ہے۔ چائے کو ٹھنڈی کرنے کے لیے رکھ کر اگر میں دوسری طرف متوجہ ہوں، اسے دیکھ کر فرمائیں گے: ”آج بہت اچھی چائے بنی ہے سر۔ واقعی بہت مزے دار ہے، پی کر مزا آ گیا۔ بہت ٹیسٹی ہے۔“ آپ چاہیں نہ چاہیں، وہ آپ کو اپنی پسند کی چیز کھلا کر ہی دم لیں گے۔
ارشادِ نبوی ﷺ ہے: ”تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترہوں۔“ اظہرؔ ایک محسن و مربّی باپ ہیں جو کسی دوست سے کم نہیں۔ وہ ایک پیارے اور ہم درد شوہر تو ہیں ہی لیکن اکثر ایک من چلے عاشق جیسی حرکتیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ گھر والوں کے ساتھ ان کے سلوک کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ ایسے ہی گھروں کو کتابوں میں ’جنت کا باغ‘ کہا گیا ہے۔ ان کی اولاد اور اہلیہ بھی ان کو کافی محبوب رکھتے ہیں۔ گھر میں بھلے ہی اسباب و وسائل کی کمی نظر آئے لیکن اظہرؔ یا اُن کے گھر والوں کے دل میں آپ کسی قسم کی تنگی یا کمی محسوس نہیں کریں گے۔ پڑوسیوں سے بھی ان کی گفتگوٗ کا انداز منفرد ہوتا ہے۔ وہ انھیں چچا، چچی، بھیّا، بھابھی وغیرہ القاب سے مخاطب کرتے ہیں، بھابھیوں سے ہنسی مذاق بھی کرلیتے ہیں لیکن خوش اخلاقی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
اظہرؔ کی شخصیت کی ایک خاص صفت ان کی سست طبیعت بھی ہے۔ دوستوں کے ساتھ تفریح کا انھیں کافی شوق ہے۔ چائے نوشی کے بہانے سے وہ پورے شہر کا چکر لگاتے ہیں لیکن اگر کچھ لکھنے پڑھنے کا کام دیجیے تو اس کو انجام تک پہنچانے میں تن دہی سے کام نہیں لیتے۔ میرا غالب گمان ہے کہ یہ بات ان کے شعری مجموعے کی اشاعت میں تاخیر کا ایک اہم سبب ہے۔ کتاب کی ترتیب کے دوران اشعار کو صاف کرنے میں انھوں نے کافی وقت لیا۔ کاموں کو ٹالنے میں انھیں تقریباً مہارت ہے۔ لیکن یہ بھی قابلِ غور بات ہے کہ اسکول کی ذمّہ داری، ادبی پروگرام منعقد کرنے کی مصروفیت، دنیا جہان کی بے گاری؛ ان سب کی وجہ سے ان کے پاس وقت کی بھی قلّت رہتی ہے۔
اظہرؔ عام طور پر کسی کی فرمایش یا گزارش کا انکار نہیں کرپاتے۔ میری نظر میں یہ اچھی بات نہیں۔ انسان کو صاف بات کرنی چاہیے، اگر کسی کام کو کرنے کا ارادہ نہیں ہے تو احسن طریقے سے منع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن یہ اظہرؔ کے مزاج کا حصہ نہیں، وہ کہتے ہیں کہ انھیں کسی کو "نا" کہنا اچھّا نہیں لگتا جس کی وجہ سے ان کے اپنے وقت کا کافی زیاں ہوتا ہے۔ اسی لیے ان سے میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ آپ وٹامن "این" کو اپنی زندگی میں شامل کیجیے، ورنہ لوگ اپنے غیر ضروری مصرف میں بھی  آپ کو لگائے رکھیں گے۔
والد علی احمد حسین سے انھیں شدید لگاو تھا۔ وہ ان کے آئیڈیل بھی تھے۔ انھوں نے اظہرؔ کی شخصیت کی تعمیر میں بہت اہم رول ادا کیا۔ وہ بچپن سے ہی انھیں پڑھنے لکھنے اور اخلاقی طور پر اعلا مقام پر فائز ہونے کی ترغیب دیتے۔ اظہرؔ کے ادبی کاموں کی وہ حوصلہ افزائی فرماتے۔ والد کی مہمان نوازی، صاف صفائی کی عادت اور قرینے سے زندگی گزارنے کے سلیقے نے اظہرؔ کی زندگی پر کافی مُثبت اثر ڈالا۔ پیڑ پودوں سے لگاو بھی والد کی عادت کا حصہ تھا جسے اظہرؔ نے اپنایا۔
والد کے بعد اگر کوئی شخصیت اظہرؔ کے لیے لائقِ اتّباع ہے تو وہ نادمؔ بلخی کی ذاتِ گرامی ہے۔ نادمؔ بلخی کا اثر اظہرؔ کی شخصیت پر والد سے کچھ کم نہیں۔ وہ صرف شاعری میں ہی اپنے استاد کے معتقد نہیں بلکہ ان کے اخلاق و کردار کے بھی سراپا قائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے استاد کی طرح شعر کی ادائیگی کی کوشش کرتے ہیں۔ استاد کے اخلاق کے تعلّق سے مختلف قصّے بھی سناتے ہیں۔ استاد کی خاطر تواضع کا جو انداز تھا، اس کا ایک حصّہ شاید قدرت نے اظہرؔ کو بھی نصیب کیا ہے۔ وہ مہمانوں کے ساتھ جو مشفقانہ سلوک رَوا رکھتے ہیں، اس میں استاد کے نقشِ قدم پر چلنے کی ایک خوٗ نظر آتی ہے۔ اردو تحریک کے سلسلے سے جتنی تگ و دَو اظہرؔ کرتے ہیں، وہ استاد کی صحبت و تربیت کا ہی نتیجہ ہے۔
ڈالٹن گنج آنے سے قبل اور یہاں کے قیام کے ابتدائی ڈھائی برسوں تک مجھے یہاں کے استاد شاعر نادمؔ بلخی کے تعلّق سے کچھ خاص واقفیت نہیں تھی، لیکن اظہرؔ صاحب کے ساتھ وقت گزارنے کی وجہ سے نادم بلخی کی شخصیت کی مختلف جہات میرے سامنے آئیں۔ اگر آپ کو اظہرؔ کے ساتھ کچھ دن گزارنے کا موقع ملے تو آپ تجرِبہ کریں گے کہ وہ استاد اور والد کے ذکرِ خیر میں ہی مصروف رہتے ہیں۔
اظہرؔ سر زمینِ پلامو میں اردو کے فروغ کے سلسلے سے متحرک افراد کی صفِ اوّل میں جگہ پاتے ہیں۔ وہ مختلف تنظیموں اور اداروں کے اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور ڈالٹن گنج میں ادبی پروگرام کرانے کے لیے پورے شہر کے لوگ عمومی طور پر ان سے رابطہ کرتے ہیں۔ اپنے دوہوں اور ہندی میں شایع ہونے کی وجہ سے وہ پلامو کے ہندی شعرا کے درمیان بھی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ غیر مسلم ادبا اور شعرا سے بھی اُن کے اچھے مراسم ہیں۔ یہ بات یہاں کے خال خال شعرا کو ہی نصیب ہوگی۔ حال کے چند برسوں میں نعتیہ طرحی مشاعروں کو وہ ماہانہ طور پر مختلف افراد کے گھروں پر کامیابی کے ساتھ منعقد کر رہے ہیں۔ ماضی کے بیس پچیس برسوں میں جو اہم پروگرام ڈالٹن گنج میں ہوئے، اس میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور پروگرام کی کامیابی کے لیے بھی جی توڑ محنت اور کوشش کی۔ جب وہ مجھے پہلی مرتبہ ڈالٹن گنج کی ’تنظیم الانصار کمیٹی‘ کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے ساتھ لے گئے تو اس محفل میں ان کو باضابطہ طورپر اشعار پیش کرتے دیکھنے کا اتّفاق ہوا۔ جیسے جیسے وہ اشعار پیش کرتے جاتے، ان کا سُر اونچا ہوتا چلا جاتا۔ آواز تو ماشاء اللہ خدا نے کافی بلند عطا کی ہی ہے، ساتھ ہی ہر شعر کے ساتھ ان کے ہاو بھاو، بلند آہنگی، جسم اور ہاتھوں کو لہرا کر اشعار پیش کرنے کی وجہ سے لگا کہ راحت اندوری کی روح ان کے اندر سما گئی ہے۔ یہیں مجھے احساس ہوا کہ اُن کے اشعار پڑھنے کا یہ وہ خاص انداز ہے جس سے مجمعے میں وہ ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ یہی اظہرؔ کی شخصیت کی وہ باتیں ہیں جو ڈالٹن گنج کے دیگر ادیبوں کی بھیڑ سے الگ کرتی ہے اور انھیں محبوبانہ اور مقناطیسی خوبیوں سے لیس کرتی ہے۔ خدا کرے ان کی یہ خصلتیں پروان چڑھیں اور بہ طور شخص و شاعر انھیں مقامِ بلند تک لے جائیں۔
***
صاحب نگارش کی گذشتہ تحریر : ایسے تھے ہمارے حق صاحب!

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : نئے شعری وجدان کا شاعر: ایم جے اظہرؔ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے