اکیسویں صدی کا ’نیا حمام‘

اکیسویں صدی کا ’نیا حمام‘

امتیاز احمد علیمی
کورس ایڈمن، ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن اینڈ لینگویجج، NCERT، نئی دہلی
Mob:8750961043
شہر مرادآباد کا نام سنتے ہی کئی علمی اور ادبی ہستیاں ایسی ہیں جو ہمارے ذہن کے پردوں پر نمودار ہوتی ہیں اور اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں  جنھیں ہم برسوں یاد رکھتے ہیں. یہ اس شہر کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے ادب کی دنیا میں ایسے ایسے لعل و گہر دیے ہیں جن کے ذکر کے بغیر ادبی تاریخ مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔ اردو ادب میں شہر مراد آباد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس میں ذکی مراد آبادی، نظام مراد آبادی، نیر مراد آبادی، اثر مراد آبادی، جوہر مراد آبادی، جگر مراد آبادی، قمر مراد آبادی، ڈاکٹر منیر زہرہ عرف مینا نقوی وغیرہ عظیم تخلیق کار اور فن کاروں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اردو ادب میں اپنی گراں قدر خدمات پیش کیں. ڈاکٹر ذاکر فیضی کا تعلق اسی مراد آباد سے ہے جس کا ایک روشن ماضی رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ذاکر فیضی ہماری اس نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو اردو ادب میں اپنا قدم جمانے کی کوشش میں ہمہ تن مصروف ہے۔ علمی اور ادبی محفلوں میں جو لوگ جاتے ہوں گے یا ادبی رسائل و جرائد سے جن کا خاص شغف ہوگا ان کے لیے یہ کوئی نیا نام نہیں ہوگا بلکہ اس سے مانوس ہوں گے۔ حالیہ دنوں میں اپنے داخلی کائنات کے مد و جزر کو باہر لانے، اپنے تجربات و مشاہدات کو عام کرنے کے لیے کہانی کا راستہ اختیار کیا اور گزشتہ تین دہائیوں سے اپنی تخلیقیت کو مانجھنے اور نکھارنے کے بعد اسے ’نیا حمام‘ کی شکل میں پیش کیا. ان کی شخصیت کا خاص وصف یہ ہے کہ وہ کسی خاص ازم کا پابند ہونے کے بجائے سب کو اپنی شخصیت میں سمو کر ایک نئی فضا کی تشکیل میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ انتہائی مہذب اور ملنسار ہونے کے ساتھ دوست نواز بھی ہیں۔ میں ان کی تحر یروں کو اس وقت سے پڑھ رہا ہوں جب میں جے. این. یو میں تھا. کبھی سر راہ چلتے ملاقات ہوجاتی تو کہتے آئیے چلتے ہیں گنگا ڈھابے پر کچھ چائے بھی پیتے ہیں اور کچھ باتیں بھی کر لیں گے، حالانکہ چائے تو ایک بہانہ ہوا کرتی تھی. ویسے کچھ تو تقریب بہر ملاقات چاہیے ہی ہوتا، چنانچہ ہوتا یہی کہ کافی دیر تک ادبی، سماجی اور حالات حاضرہ پر گفتگو ہوتی اور اپنے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں کچھ سنتے اور کچھ سناتے اور کچھ بے تکی باتیں بھی کرتے، حالانکہ وہ تخلیق کار تھے، بے تکی باتیں سنتے زیادہ تھے لیکن کرتے کم تھے. آج جب میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’نیا حمام‘ (2020،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی) پڑھ رہا ہوں تو میں یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان کا کوئی بھی افسانہ بے تکا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اندر ایک جہان معانی لیے ہوئے ہے۔
اس افسانوی مجموعے کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کے اندر ایک اہم اور بڑا تخلیقی فن کار کہیں چھپا بیٹھا ہے جو باہر آنا چاہتا ہے لیکن اس کو راہ نہیں مل پا رہی ہے۔ اس کتاب میں کچھ تخلیقی جملے ایسے ہیں جو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں. اس کا اندازہ اس وقت ہوگا جب آپ ان کے افسانے پڑھیں گے۔ ایک اہم اور بنیادی بات جو اس کتاب میں ہے کہ مصنف کا مطمح نظر کہیں کہیں کھل کر سامنے آتا ہے اور کہیں دھندلکے میں غائب بھی ہو جاتا ہے۔ دوسری خاص بات یہ کہ مصنف کو زبان و بیان پر گرفت ہے ورنہ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ نئی نسل کی تحریروں میں تذکیر و تانیث اور شتر غربہ وغیرہ کی بہت سی خامیاں در آتی ہیں لیکن مصنف کی تحریر میں یہ باتیں بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ جہاں تک ان کے افسانوں کی خصوصیت کی بات ہے تو ان کی بیشتر کہانیاں المیاتی نوعیت کی ہیں اور ایسا ہونا عین فطری ہے کیونکہ اکیسویں صدی کی ابتدا ہی المیہ پر مبنی ہے جس کی مثال ولڈ ٹریڈ ٹاور پر حملہ اور گجرات فساد ہے۔ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا پورا منظر نامہ ہمارے سامنے ہے. افسانہ ’نیا حمام‘ جو مجموعے کا عنوان بھی ہے؛ اس میں تین سال کی اندھی، گونگی اور بہری بچی کو مارنے کا قضیہ کسی پُر سوز المیہ سے کم نہیں ہے۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں نیوز چینلوں نے ٹی آر پی کی اُگاہی کے چکر میں کتنے انسانوں کو بلی کا بکرا بنادیا یہ ہم سب صرف جانتے ہی نہیں بلکہ ہمارے مشاہدے کا المیاتی حصہ بھی ہے۔ ایڈیٹر، رپورٹر، خبری دلال اور انڈسٹری کو بہ قول افسانہ نگار ’کچا مال‘ کی ضرورت ہے تاکہ اسے اپنی انڈسٹری میں پالش کرکے اس سے دس گنا دام کما سکے۔ دس گنا دام کمانے کے لیے اس اندھی، گونگی اور بہری بچی کو جان سے مارنے کے لیے جو جو مشورے، تدابیر اور حکمت عملی اپنائی جاتی ہے تخلیق کار کے لفظوں میں ملاحظہ کیجیے:
”اگر تم اس بچّی کو مارنا ہی چاہتے ہو تو کیوں نہ اس کی موت سے فائدہ اٹھاؤ۔ دیکھو، جب تم بچی کو ختم کر رہے ہوگے تو کوئی مشہور نیوز چینل اپنے چھپے کیمرے میں قید کرکے ٹی وی پر دکھائے گا ۔۔۔۔ کوئی کمپنی اس پروگرام کو اسپانسر کرے گی تب کمپنی کا بزنس بڑھے گا، چینل کی ٹی آر پی بڑھے گی اور تمہارا بینک بیلنس بڑھے گا۔“ (ص:24)
”پہلے رپورٹر نے بنا وقت گنوائے کہا: ”سر! میری رائے میں بچی کی موت جتنی دردناک ہوگی ہمیں اتنی ہی اچھی ٹی آر پی ملے گی“ (ص:26)
دو اسکرپٹ رائٹرس کی اسکرپٹ فیل ہونے کے بعد جب تیسرے اسکرپٹ رائٹر کا نمبر آتا ہے تو وہ اپنی منصوبہ بند اسکرپٹ اس محاورے کے مانند پیش کرتا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے، چنانچہ ہوا بھی یہی، سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی بچ گئی اور افسانے کا انجام اسی تیسرے اسکرپٹ کے المیاتی بیان پر  ہوتا ہے۔ تیسرا اسکرپٹ ملاحظہ کیجیے:
”رائٹر نے کہا۔۔۔”سر! میں نے اس طرح لکھا ہے کہ ہمارے چینل کی ٹیم ریلوے پر ڈاکومینٹری فلم بنا رہی ہے۔ جس کے لیے چینل کا رپورٹر اور کیمرہ مین اپنے چھپے کیمرے کے ساتھ ایک ٹرین کے فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کمپارٹمنٹ میں ایک جوڑا اپنی اندھی بچی کے ساتھ موجود ہے۔ ہم چھپے کیمرے سے ان کی حرکتیں قید کریں گے۔ سر! واضح رہے کہ ہم کیمرے کو ایسے اینگل سے رکھیں گے کہ بچی کے ماں باپ کی صرف ٹانگیں ہی دکھیں، چہرے نہیں ۔۔۔۔ اچانک ہم دیکھتے ہیں، وہ شخص جو بچی کا باپ معلوم ہوتا ہے، وہ بچی کو اٹھا کر دروازے سے باہر پھینک دیتا ہے۔ ٹرین اس وقت ایک پل سے گزر رہی ہے۔ ان لوگوں کا ارادہ شاید بچی کو دریا میں پھینکنے کا ہوتا ہے۔ لیکن بچی پل کے ایک کھمبے سے ٹکرا کر پُل کے اندر ہی گر جاتی ہے۔
پُل پار کرتے ہی ایک چھوٹے اسٹیشن پر ٹرین رکتی ہے۔۔۔اس سے پہلے کہ ہم ان کو پکڑیں، وہ پستول کی نوک پر ہماری پہنچ سے دور ہو جاتے ہیں۔ کیمرہ مین دوڑ کر اُس مقام پر پہنچتا ہے۔ جہاں بچی کو پھینکا گیا، بچی مر چکی ہے ۔۔۔۔ سر! ہم یہاں سے لائیو(Live) ٹیلی کاسٹ کریں گے اور سر بریکنگ نیوز میں بچی کا کلوز اپ لیا جائے گا۔ تب ہم فخر سے کہیں گے یہ نیوز صرف ہمارے پاس ہے کسی دوسرے چینل کے پاس نہیں۔“ اس اسکرپٹ پر سب خاموش تھے۔ اگر ہم یہ نیوز چلڈرن ڈے یعنی 14 نومبر کو دکھائیں تو زیادہ سنسنی پھیلے گی۔آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟“ کوئی شک؟۔۔۔۔کوئی سوال؟(ص:27-28)
نہیں اس میں ہمیں تو کوئی شک نہیں ہے بلکہ سوال ہی سوال ہے جوایک قاری کے باطن میں سر اٹھاتا ہے جسے کچلنے کے لیے اسی میڈیا کا استعمال کیا جارہا ہے۔ یہی ہے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے گودی میڈیا یا پیڈ میڈیا کی اصلیت جس کا مشاہدہ ہم لگاتار کر رہے ہیں. مصنف نے نئے حمام میں سب کو ننگا کر دیا ہے جس میں ہم نیوز چینل، اخباری رپورٹر، نیوز اینکر، اسکرپٹ رائٹر، اسٹوری رائٹر، پروگرام اسپانسر کے ہمراہ بے سہارا اور یتیم بچوں کے لیے فلاح و بہبود کا کام کرنے والی مختلف تنظیموں کے صدور کی اصلیت اور So called Intellectual افراد کی ضمیر فروشی سبھی کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس افسانہ کو عصری برقی میڈیا کے مکھوٹے کو بے نقاب کرنے کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا جا سکتا ہے اور اسے عصری حسیت کا ترجمان بھی کہا جا سکتا ہے۔
اس مجموعے میں شامل دوسرا افسانہ ”ٹوٹے گملے کا پودا“ ہے۔ یہ ٹوٹا ہوا گملا اور اس میں لگا ہوا پودا در اصل وہ علامتیں ہیں جو آزادی کے بعد ہمارا مقدر ٹھہریں۔ یعنی یہ اس جاگیردارانہ اور زمین دارانہ نظام کے زوال اور شکست کی کہانی ہے جو آزادی سے قبل اور بعد تک خود ساختہ نظام کے اصولوں میں جکڑی ہوئی تھی، جو ہمیشہ اپنے آبا و اجداد کے ورثے پر فخر کرکے زندگی میں کچھ نہ کرنے کے عادی بنتے جا رہے تھے۔ آخر آزادی کے بعد وہ خود ساختہ نظام اپنے تمام مکینوں کے ساتھ دفن ہو گیا، لیکن اس کی نسلیں جو آئندہ کی زندگی جینے پر مجبور تھے، انھوں نے کچھ دن تک تو اپنے آبا و اجداد کی موروثی زمین بیچ کر اپنی زیست کے سامان فراہم کیے۔ لیکن جب سارا موروثی اثاثہ بھی ختم ہوگیا تو ایسے میں حنا جیسی لڑکیاں اس ٹوٹے ہوئے گملے کا پودا ثابت ہوئیں جن کا کوئی حامی و مددگار نہیں، جو اسی کشمکش میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں کہ آخر وہ کس بھائی کے ساتھ رہیں گی؟اس خود ساختہ نظام میں حنا کی زندگی اس پودے کی طرح ہے جس کی زندگی اس گملے سے شروع ہو کر اسی گملے میں ختم ہوجانے والی ہے۔ اور حنا کا اس ٹوٹے ہوئے گملے کے پودے کو دیکھ کر یہ سوال کرنا کہ ’آج یہ پودا اس گملے سے اکھاڑ کر نہ جانے کہاں لگایا جائے گا؟ اور خدا معلوم وہ وہاں پنپ بھی پائے گا یا نہیں؟ اس طرح کے مسائل صرف حنا کے نہیں ہیں بلکہ مشرقی معاشرے کی ہر ان خواتین کے ہیں جن کی زندگی حنا جیسی ہے۔
تیسرا افسانہ ”فنکار“ ہے جو ہمارے سماجی اور معاشرتی مسائل کے کئی اہم پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کہانی کار، فلم ساز اور آرٹسٹ ایک تیزاب زدہ لڑکی، جو وزیر کے بیٹے سے اپنی ناپسندیدگی کے باعث اس کے عتاب کا شکار ہوئی تھی، جس پر کہانی کار نے کہانی لکھ کر، فلم ساز نے فلم بناکر اور آرٹسٹ نے فوٹو گرافی کے ذریعے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور نمایاں کامیابی بھی حاصل کی اور تینوں نے صرف اپنے فن کار ہونے کا ثبوت دیا لیکن چوتھا دوست جو ایک عام آدمی تھا جس کے لیے ان فن کاروں نے اپنی اپنی کامیابی پر پارٹی دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس کی عدم موجودگی نے پارٹی کا رنگ پھیکا کردیا۔ جب انھیں اس بات کا علم ہوا کہ جس کی بدولت ہمیں کامیابی ملی اور ایوارڈ ملے، دنیا جہان میں نام ہوا وہ تو میرے چوتھے دوست کی بیوی نکلی جو وزیر کے بیٹے کے عتاب کا شکار ہوئی تھی۔ یہاں پر کہانی ہم سب کے لیے ایک سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہے کہ اصل فن کا ر کون ہے؟ وہ جنھوں نے اس کے ظاہری قبح کو پیش کرکے اپنے اپنے میدان میں کامیابی حاصل کی اور اس تیزاب زدہ لڑکی کے ظاہری اور باطنی کرب، اس کی پسند و نا پسند کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ مرد اساس معاشرہ ایسا کیوں کرتا ہے کہ کسی بھی صنف نازک کے جذبات و احساسات کو زور اور جبر کے ذریعے کچل دیتا ہے؟ کیا فن کاروں کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ لڑکی کے بجائے وزیر کے بیٹے، جس نے تیزاب ڈال کر لڑکی کی زندگی تباہ و برباد کردی اس پر اپنی کہانی کا تانا بانا بُنتے اور اس میں اپنی فن کاری کا ثبوت دیتے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو افسانے میں اٹھائے گئے ہیں۔
اس افسانے میں مصنف نے بڑی ہی سادگی اور فن کارانہ مہارت کے ساتھ چاروں فن کاروں کی کار کردگی اور ان کے حرکات و سکنات کو افسانے کے قالب میں ڈھال کر اس طرح پیش کیا ہے کہ پس پردہ چھپی ہوئی درندگی، وحشت ناکی، معاشرے کی کریہہ حقیقت اور اس کی بے حسی، طاقتور افراد کی سفاکی، عورتوں اور لڑکیوں کی عصمت دری کو طشت از بام کرنے کے لیے مصنف نے جہاں وزیر کے بیٹے کے کردار کو پیش کرکے منفی رجحان رکھنے والے افراد کی قلعی کھولی ہے، وہیں چوتھے فن کار کو پیش کرکے ایک المیاتی مگر مثبت پیغام دیا ہے۔ اس کا عمل ہمیں چونکاتا ہے اور غور و فکر پر مجبور کرتا ہے کہ انسانیت کیا ہے؟ وہ جو وزیر کے بیٹے یا تینوں فن کاروں نے کیا یا وہ جو چوتھے فن کا ر نے کیا؟ افسانے کا اختتامیہ یہی سوال قائم کرتا ہے اور افسانہ ختم ہونے کے بعد کہانی قاری کے ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے اور مصنف کا کمال یہ ہے کہ وہ فیصلہ صادر نہیں کرتا بلکہ قاری پر چھوڑ دیتا ہے کہ آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ سچا اور اصلی فن کار کون ہے، وہ یا ہم؟ یہی مصنف کے افسانوں کی خوبی ہے کہ وہ کسی بھی افسانے میں فیصلہ نہیں سناتا جیسا کہ اور معاصر افسانہ نگار کرتے ہیں۔ ان کے بیشتر افسانوں کا انجام المیاتی ہے اس لیے متن کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ذاکر فیضی ایک اہم المیاتی تخلیق کار ہیں. انھوں نے انھی المیوں کو اپنے افسانوں میں بہ حسن و خوبی پیش کیا ہے جن سے ہم سب روزانہ دوچار ہوتے رہتے ہیں یا جو ہماری سائیکی کا حصہ بن چکے ہیں۔
اس مجموعے میں شامل ایک بہت ہی اہم افسانہ ”ٹی۔او۔ڈی“ ہے جو عصری سیاسی منظر نامے کو پیش کرتا ہے۔ یہ ایک استعاراتی اور علامتی افسانہ ہے جس میں اسٹوری ٹیلر، گلستاں، جادونگری اور جادوگر وغیرہ علامتوں اور استعاروں کے ذریعہ کہانی کو آفاقی بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اس میں سیاسی جبر و تشدد اور بے اعتدالی کی زد میں آکر پِس جانے والی زندگی کی آواز مدھم نہیں بلکہ بہت تیز ہے جو قاری کو غور و فکر کرنے کی طرف مائل کرتی ہے۔ اس افسانے میں اسٹوری ٹیلر کے ذریعے کہانی کی بنت، نئے مسائل کی پیش کش، نفسیاتی چبھن اور کرافٹ وغیرہ پر دسترس کی بنیاد پر مستقبل قریب میں انھیں ایک بڑے فن کار کے روپ میں دیکھنے کا اشاریہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ افسانہ نثار انجم کے لفظو ں میں ’عالمیSanke and dragan کے سیاسی بساط پر عصری کرب سے دو چار زندگی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی تصادم اور ذہنی کشاکش کے ساتھ جوجھتی ملتی ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جو بین الاقوامی سیاسی بازی گروں کے ننگے فکری حمام کی میٹھی جارحیت کا شکار ہے‘ اس افسانے کے ذریعے مصنف نے ہندستان ہی نہیں بلکہ عالمی تناظر میں اسٹوری ٹیلر کے ذریعہ سیاسی و سماجی اور معاشی استحصال اور تصادم کے طریقہ کار کی قلعی کھولنے کی کامیاب کوشش ہے۔ چند اقتباس دیکھیں تاکہ پورا منظر نامہ واضح ہوجائے:
”ایک بہت عظیم الشان ملک تھا جس کا نام گلستاں تھا۔اس کی شان دار تاریخ، اس کی تہذیب و تمدن، ثقافت، اس کی شان و شوکت اور عظمت کا چرچہ دنیا بھر میں تھا۔ مگر چند دہائیوں سے جن حکمرانوں نے ملک کی ذمہ داری سنبھالی تھی وہ اس کی عظمت کو برقرار نہ رکھ سکے تھے۔“
”پھر اس ملک کی باگ ڈور ایک ایسے شخص نے اپنے ہاتھوں میں لے لی جو مکار، چالاک اور موقع پرست تھا۔اس نے اپنے آس پاس خوشامد کرنے والوں کی فوج تیار کر رکھی تھی جو اس کے اشارے پر کام کرتے تھے۔دل چسپ بات یہ تھی کہ ملک کے کچھ دانشوروں کے خیال میں وہ بہت بڑا احمق تھا۔ اسی مناسبت سے وہ عوام کے ایک بڑے طبقے میں احمق ہی مشہور ہوگیا تھا ۔۔۔۔ احمق کی ’حماقت‘ کے چر چے ملک سے نکل کر غیر ممالک میں بھی ہونے لگے تھے ۔۔۔۔ ملک جادو نگری کو اس کی حماقتوں کا علم ہوا تو اس کے حاکم جادوگر نے فوراً حکمت عملی تیار کی اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے احمق کے ملک کے سفر کا ارداہ کیا اور احمق کو بھی جادونگری میں آنے کی دعوت دی۔“
”دیکھیے حاکم گلستاں! جادو نگری کے ایک سائنس داں نے ایک ایسی ایجاد کی ہے، جس سے کسی بھی انسان کے خوابوں کو ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ ایک بہت چھوٹی سی چِپ کو جس انسان کے بازو میں معمولی سے آپریشن کے ذریعہ فٹ کر دیا جائے گا، وہ جب بھی کوئی خواب دیکھے گا، ایک مخصوص کمپیوٹر میں ریکارڈ ہو جائے گا، وہ خواب جاگتی آنکھوں کا ہو یا پھر نیند میں آنے والا خواب ہو“
مذکورہ تینوں اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ افسانہ کس نوعیت کا ہے۔ احمق نے گذشتہ کئی برسوں میں جو جو کارنامے انجام دیے اور جس طرح کی احمقانہ حرکتیں کیں اور نہ صرف عوام الناس کو پریشان کیا بلکہ بڑے بڑے آفیسرس، ڈاکٹرس، بزنس مین، اسپورٹس مین، فلم اسٹارس، انجینئرس، پروفیسرس، عدلیہ، غرض یہ کہ کوئی بھی اس کی احمقانہ حرکتوں سے نہیں بچا اور ملک کی سالمیت پر بھی خطرہ منڈلانے لگا۔ جس کی طرف مصنف نے کئی اشارے کیے ہیں جو افسانے کی قرأت کے دوران واضح ہوں گے۔
اسی طرح ”وائرس“ بھی ایک اچھوتا افسانہ ہے جو سادہ اور سپاٹ بیانیے کے ذریعہ سماج کے ناسور اور آوارہ چور اچکوں، رہزنوں کی کہانی جو آئے دن ہماری روز مرہ زندگی میں رونماں ہوتی رہتی ہیں اور معصوم افراد کو اپنا شکار بنا کر ان کی اور ان کے خاندان کی زندگی کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، کو پیش کرکے ایک نفسیاتی پہلو کو ابھارا ہے۔ ایک معصوم یتیم بیٹے اور بیوہ ماں کی زندگی کے شب و روز کی انتھک کاوشوں اور غیرت مندی کو پیش کرنے میں تخلیق کار نے انتہائی فن کاری سے کام لیا ہے۔ قاتل کے ذہن میں معصوم مقتول کا یہ جملہ کہ ”بھیا میری ماں سے کہنا کہ میں مر گیا“ ایک وائرس بن کر اس کی زندگی میں داخل ہو گیا اور یہ جملہ اس کے ذہن و دل اور دماغ پراس قدر حاوی ہو گیا کہ وہ اس سے نکل نہیں پایا۔ یہی تاثر افسانہ کے اختتام پر ایک المیاتی کیفیت لیے اپنے انجام کو پہنچتا ہے اور آگے کی کہانی قاری کے ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے۔ یہی ان کے بیشتر افسانوں کی خوبی ہے۔
مذکورہ افسانوں کے علاوہ مجموعے میں شامل جو افسانے اہم ہیں، ان میں اسٹوری میں دم نہیں ہے، ہریا کی حیرانیاں، میرا کمرہ، جنگ جاری ہے، عجوبے کا عجائب گھر، گیتا اور قرآن، کلائمکس، اخبار کی اولاد، بدری، دعوت نون ویج وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اور افسانچوں میں جھٹکے کا گوشت، اکیسویں صدی کی داستان، دلہن، انسان کی موت، کپڑوں میں پیشاب کرنے والے بے حد اہم ہیں۔ ان تمام افسانوں اور افسانچوں کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ذاکر فیضی نئی نسل کا ایک اہم اور انوکھا افسانہ نگار ہے جو اپنے سادہ اور سپاٹ بیانہ کے ذریعہ قاری کو شروع سے آخر تک باندھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
***
ذاکر فیضی کے افسانے یہاں ملاحظہ فرمائیں: نیا حمام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے