نسیم اشک  کا افسانوی مجموعہ ”رات ڈھلنے کو ہے“

نسیم اشک  کا افسانوی مجموعہ ”رات ڈھلنے کو ہے“

 عظیم انصاری، جگتدل
رابطہ : 9163194776
    مغربی بنگال کے ادبی منظر نامے پر تازہ دم قلم کاروں میں نسیم اشک کا نام آج کل لوگوں کے درمیان اپنی تخلیقی نثر کے حوالے سے کافی چرچے میں ہے۔ نسیم اشک کا نام جب بھی راقم الحروف کے ذہن کے کینوس پر نمودار ہوتا ہے، تو ساتھ ہی موصوف کی ادبی شخصیت کے حوالے سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انھیں شاعر کہا جائے، ناقد کہا جائے یا افسانہ نگار۔  اس تذبذب کی وجہ بالکل صاف ہے کہ نسیم اشک نے گزشتہ ایک دہائی میں شاعر و ادیب اور ناقد، تینوں حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ موصوف کی ادبی تخلیقات اور تنقیدی مضامین تواتر کے ساتھ اخبارات اور رسائل و جرائد کی زینت بنتے رہے ہیں۔ موصوف کی تخلیقات بالخصوص بنگال اور بالعموم بیرون بنگال نیز ملک سے باہر بھی وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہتی ہیں۔   لہذا مغربی بنگال کا ادبی حلقہ ان کے نام سے اچھی طرح واقف ہے۔ راقم الحروف بہ ظاہر یہ تو نہیں کہ سکتا کہ نسیم اشک بہ حیثیت شاعر، بہ حیثیتِ ناقد اور افسانہ نگار بہت زیادہ کامیاب ہیں۔ البتہ راقم الحروف کو کہہ لینے دیجئے کہ اگر موصوف اسی دل جمعی کے ساتھ لکھتے رہے تو ان شاء اللہ آئندہ دس برسوں میں وہ متذکرہ تینوں حیثیت سے اپنی شناخت مزید مستحکم کرنے میں حددرجہ کامیاب نظر آئیں گے۔
 ”رات ڈھلنے کو ہے“ نسیم اشک کی کہانیوں کا مطلق پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ البتہ اس سے قبل ایک نثری نظم کا مجموعہ ”دل کا موسم“ (2020) اور علاوہ ازیں تنقیدی مضامین کا مجموعہ بہ عنوان ”بساطِ فن“ (2022) منصہ شہود پر آچکے ہیں۔
 زیرِ نظر کتاب میں کل 24 افسانے  شامل ہیں۔ ان افسانوں میں نسیم اشک نے زندگی کے مختف گوشوں اور کڑوی سچائیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہیں غریبوں کی زندگی کی عکاسی نظر آتی ہے اور کہیں نفسیاتی پیچیدگیوں کو الفاظ کا جامہ عطا کرکے اسے قاری تک پہنچانے کا عزم معلوم پڑتا ہے۔ متذکرہ کتاب میں رومان سے بھرپور کہانیاں بہ زبانِ خود اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ”رات ڈھلنے کو ہے“ کا مصنف ایک بالغ النظر افسانہ نگار ہے۔ مختصر یہ کہ نسیم اشک کے افسانے، افسانہ نگاری کی روایت سے گزرتے ہوئے، آج کی گلوبل دنیا کے مسائل سے بھی وابستہ ہیں۔ اس کتاب میں شامل کہانیوں کو پڑھ کر ایسی امید پیدا ہوتی ہے کہ آنے والے دنوں میں مصنف اپنے اندر کے فن کار کو اور بھی زیادہ اور نت نئے تجربات سے گزرنے کا موقع دے کر اپنے قارئین کو چونکائے گا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شاعر ہو یا ادیب، وہ بنیادی طور پر ایک فن کار ہوتا ہے اور فن کار کے یہاں لطیف جذبات کا ہونا ایک فطری امر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ایک دھڑکتا ہوا دل رکھتا ہے۔ وہ اپنی تخلیقی و تنقیدی نگاہ سے گردونواح کے مسائل پر مضبوط گرفت رکھتا ہے۔
مجھے کہہ لینے دیجئے کہ نسیم اشک کی زندگی کے تجربات و مشاہدات بھی ان کی ادبی کاوشوں میں مضمر معلوم پڑتے ہیں۔ غرض یہ کہ اپنی زندگی کے تجربات و مشاہدات کو تخلیقیت عطا کرنا ایک مشکل امر تو ہے لیکن اگر ہو جائے تو یہ ایک کرشماتی عمل سے کم تصور نہیں کیا جاتا۔
اس موقعے پر راقم الحروف یہ بھی باور کرنا چاہتا ہے کہ ایک افسانہ نگار کے پاس تین چیزیں لازماً ہوتی ہیں۔ یعنی مطالعہ، مشاہدہ اور اسلوب کے علاوہ اس کا اندازِ فکر، یہی اسے دیگر لکھنے والوں میں ممتاز بناتا ہے۔ نسیم اشک کو اگرچہ اپنے مخصوص اسلوب اور طرز فکر کو مستحکم کرنے میں ابھی وقت لگے گا، تاہم وہ اس راہ میں تیز رفتاری سے گامزن ہیں۔ نسیم اشک اردو زبان و ادب کے ساتھ انگریزی ادب کا بھی مطالعہ رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ مندرجہ بالا تمام کوائف سے اچھی طرح واقف ہیں اور ان کی یہ ہنرمندی عمر کے ساتھ فکر و نظر میں مزید پختگی لائے گی۔
  مذکورہ کتاب میں جو افسانے غریبوں کی زندگی اور اس کی کشمکش کی مکمل عکاس ہیں وہ ہیں ”اور آخری زیور بھی چھن گیا“ ”بجھتے دیپ نینوں کے“ ”اندھی روشنی“ اور”صبح کا انتظار“۔ یہ افسانے ذہن و دل پر ایک مستقل نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ انھیں پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے نشیب وفراز پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ایسا اس لیے بھی ہے کہ ان کا تعلق ایک صنعتی علاقے سے ہے، جہاں انھوں نے مزدوروں کی جدوجہد کو قریب سے  دیکھا ہے۔ ان کے دل میں غریبوں کے تئیں  درد مندی و ہمدردی بدرجہ اتم موجود ہے۔  افسانہ ” اندھی روشنی" کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”غریبی وہ لعنت ہے، جو غریبوں سے ان کے جینے کا حق چھین لیتی ہے۔ ظلم سہنا ہر دور میں غریبوں کا مقدر رہا ہے۔ غریب ہوتے ہی ہیں گھٹ گھٹ کر جینے کو۔“
اسٹون مین، یادوں کے سائے تلے، رات ڈھلنے کو ہے، کھویا جہاں اور سوپ کیس روایتی افسانہ نگاری کی عمدہ مثال ہیں۔ ان میں رومانیت عروج پر ہے لیکن رومانی فضا میں رچے بسے ان افسانوں میں نسیم اشک کے مشاہدات کی چھاپ بھی موجود ہے جو ان کی ہنر مندی کی دلیل ہے۔ ”اسٹون مین“ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”وہی پری بانو، جس کو نہ ہنسنے کی بیماری تھی، کسی محراب کی مانند چپ آنکھیں   Keats کی نظموں کی طرح مسحور کردیتیں۔ بالکل راجاؤں کے زمانے کا کوئی افسانوی کردار، جس کی تصویر نگاری کی جاتی تو مصور کو اس کی آنکھوں کے سمندر سے ہی رنگ لینا پڑتا ۔“
  اس میں کوئی شک نہیں کہ نسیم اشک کے افسانوں میں رومان پسندی کے ساتھ زندگی کی تلخ حقیقتیں بھی شامل ہیں۔  ان کے افسانوں میں فکر کی گہرائیاں بھی ہیں اور ادبی معنویت بھی۔ فیصلہ، چیختے زخم، آخری سفر، اور وہ بھگوان ہوگیا اور روئے گا فلک برسوں جیسے افسانے اس کی عمدہ عکاس ہیں۔ افسانہ ”روئے گا فلک برسوں“ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”دراصل امجد ایک پل تھا جو دونوں کو آپس میں جوڑتا تھا جس کی وجہ سے اس علاقے میں بھائی چارگی اور امن تھا اور آپسی محبت کی وجہ سے مذہبی سیاست کے پاؤں نہیں جم سکتے تھے، اس لیے اس پل کو ہی مسمار کردیا گیا۔ اس شخص کو ہی ہٹا دیا گیا جو خدا کی عبادت کرتا تھا اور بھگوان کے لیے مالے بھی بناتا تھا۔ پھول تو اب بھی بکتے ہیں مگر پھولوں کا مذہب ہوگیا ہے۔“
مذکورہ کتاب میں اور بھی دل کو چھونے والے افسانے ہیں۔ ”بونے لوگ“ ایک نفسیاتی کہانی ہے۔ ”گھٹن“ ایک فکر انگیز افسانہ ہے تو افسانہ ”گم شدہ“ کھوئی ہوئی شناخت کا المیہ ہے جس میں نہایت سلیقے اور فن کاری سے استعارے کا استعمال ہوا ہے جو نسیم اشک کی بالغ نظری کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔
مجموعی طور پر”رات ڈھلنے کو ہے“ ایک عمدہ افسانوی مجموعہ ہے۔ نسیم اشک میں کہانی کہنے کا ایک فطری اور نکھرا ہوا شعور ہے۔ وہ بڑی تیزی سے اپنے فن کی معراج کی طرف رواں دواں ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کا مشاہدہ جس قدر نازک ہے اسی طرح انداز بیان بھی قابل قدر ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے برسوں میں افسانے کے تعلق سے وہ اپنا نام مزید روشن کرپائیں گے۔ اس مجموعے کی اشاعت پر میں نسیم اشک کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ ادبی حلقوں میں اس مجموعے کی پذیرائی کشادہ دلی کے ساتھ کی جائے گی۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: ” دو گھنٹے کی محبت" اور عظیم انصاری بہ حیثیت مترجم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے