ڈاکٹر اسلم پرویز : شخصیت و خدمات

ڈاکٹر اسلم پرویز : شخصیت و خدمات

علیزے نجف

انسانوں کی اس دنیا میں انسانی صفات کا عنقا ہونا ایک ایسا عام حادثہ بن چکا ہے جس پر افسوس ظاہر کرنا بھی ایک اضافی عمل کی حیثیت رکھتا ہے، جس کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ انسان کی اصل شناخت ان اخلاق و صفات سے بنتی ہے جس کو وہ شعوری طور پر اپناتا ہے، عہدہ، مرتبہ، رنگ اور نسل وغیرہ اس کی شناخت کی تشکیل میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل تقوی اور اعلا اخلاق کے حامل لوگوں کو بقیہ دوسرے انسانوں پر واضح فضیلت بخشی ہے۔ اس دنیا میں شب و روز ہمارا سابقہ مختلف انسانوں سے پڑتا ہے جہاں کچھ لوگ بہت جلد ہمارے حافظے سے محو ہو جاتے ہیں، وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی جدا گانہ صفات اور اعلا انسانی اقدار کی وجہ سے ہمارے ذہنوں پر ایسا تاثر چھوڑ جاتے ہیں کہ وہ شعوری و لاشعوری طور پر ہمیشہ ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں موجود رہتے ہیں۔ میرے لیے ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب ایسے ہی انسانوں میں سے ایک ہیں جن کا مہربان لہجہ اور مشفق رویہ آج بھی میرے ذہن پر ایک انمٹ نقش کی طرح ثبت ہے۔ بات کرتے ہوئے وہ اس قدر انکساری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہی اسلم پرویز صاحب ہیں جو مختلف عہدۂ جلیلہ پر فائز رہ چکے ہیں، ان کے لہجے و الفاظ دونوں ہی سے خلوص اور شفقت کا احساس ہوتا ہے۔ اخلاقی روایتوں کے زوال نے انسان کو ظاہر پرست بنا دیا ہے، اس لیے عہدے اور مرتبے کے حاصل ہوتے ہی اس کی پرواز کا رخ بدل جاتا ہے، ایسے میں اسلم پرویز صاحب جیسی منکسر المزاج شخصیتیں کسی گوہر نایاب سے کم نہیں۔
ڈاکٹر اسلم پرویز کا نام علمی و سائنسی دنیا میں کسی کے لیے بھی اجنبی نہیں، ان کی شخصیت شش جہت کی تفسیر ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم سرکاری پرائمری اسکول سے حاصل کی، پھر اینگلو عربک اسکول میں داخل ہو گئے، اس کے بعد دہلی کالج سے بی. ایس. سی کر کے علی گڑھ چلے گئے جہاں سے ایم. ایس. سی، ایم فِل اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ ان کے تدریسی شغل کا آغاز 1977ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ہوا، جہاں سے انھوں نے 1979ء میں نباتیات (Botany) میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔
انھوں نے تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ذاکر حسین دہلی کالج (دہلی کالج) میں پینتیس سال تک تدریسی خدمات انجام دی ہیں، وہاں کے آپ پرنسپل بھی رہے، طلبہ کی ذہن سازی اور ان کو صحیح فکر فراہم کرنا ہمیشہ ان کی اولین ترجیح میں شامل رہا، انھوں نے اب تک سینکڑوں طلبہ کے ذہنوں کو نہ صرف علم کی روشنی سے منور کیا بلکہ انھیں زندگی کی اعلا قدروں سے روشناس بھی کرایا، اسلم پرویز صاحب ایک استاد ہونے کے ساتھ مربی اور شخصیت ساز بھی ہیں وہ طلبہ کی انفرادیت کے مدنظر ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی حمایت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب کی تدریس کے تئیں سچی لگن اور جستجو کو دیکھتے ہوئے انھیں مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی میں وائس چانسلر کی حیثیت سے تقرری دی گئی۔ پانچ سال تک وہ اس عہدے پر فائز رہے، انھوں نے اس عہدے کے تقاضے اور اس کے اصول و قوانین کو بہت خوش اسلوبی کے ساتھ نبھایا، ان کی یہ اصول پسندی بہتوں کے لیے وجہِ تعریض بھی بنی، ان کے نزدیک اشخاص کی دل داری سے زیادہ ادارے کی ترقی اہم تھی اس لیے انھوں نے لوگوں کی بےجا خوشامد کرنے کے بجائے ہمیشہ ادارے کی ترقی اور اصولوں کی پاس داری کو ترجیح دیا، انھوں نے اپنے اصولوں سے سمجھوتا کرنا کبھی پسند نہیں کیا۔
اردو زبان میں سائنسی مواد کو فروغ دینے والوں میں ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب کا نام ہمیشہ جَلِّی حروف میں لکھا جائے گا، انھوں نے انتہائی عام فہم زبان میں سائنس کی گتھیوں کو سلجھا کر اسے مضمون کی صورت قارئین کے سامنے پیش کیا، ان کا پہلا مضمون "قومی آواز" میں 1982 میں شائع ہوا۔ اُس وقت موہن چراغی اخبار کے ایڈیٹر تھے، وہ سائنس اور ماحول پر مضامین لکھا کرتے تھے۔ جس کو لوگوں نے بہت پسند کیا اور پھر ہر منگل روزنامہ قومی آواز اخبار کے لیے ایک خاص آرٹیکل لکھنا شروع کر دیا. یہ سلسلہ طویل عرصے تک چلتا رہا۔ انھوں نے متنوع موضوعات پر قلم اٹھا کر سیر حاصل بحث کر کے اس موضوع کا حق ادا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے جس میں کہ وہ کامیاب بھی رہے، ان کا مزاج بھی بالکل سائنسی ہے. وہ کسی بھی بات کو محض عقیدت کی وجہ سے تسلیم کرنے کے قائل نہیں. وہ سوال کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی ترغیب دلاتے ہیں کہ وہ غور و فکر کریں. اگر کسی شے یا معاملے کی حقانیت مسلم ہو لیکن آپ کے فہم سے پرے ہو تو عقیدت کے غلاف میں سوال کو پس پردہ ڈالنے کے بجائے مناسب الفاظ میں اپنے شکوک و شبہات کو بیان کرنے کی جرأت کریں تاکہ آپ کو شرح صدر حاصل ہو اور علم کی افزائش کا سلسلہ جاری رہے۔ سائنس کے موضوع پر ان کی کتابیں "سائنس کی باتیں"، ’’سائنس نامہ‘‘ اور ’’سائنس پارے‘‘ اور "ماحول کی باتیں" شائع ہو چکی ہیں جس نے علمی و سائنسی حلقے میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ اپنے طالب علمی کے زمانے میں انھوں نے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی کہ اردو زبان میں سائنسی مواد انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے، وہ خود آٹھویں تک اردو کے طالب علم رہے تھے بعد میں وہ انگریزی میڈیم میں چلے گئے. انھوں نے اپنے عزم و استقلال سے بہت جلد انگریزی زبان پر اپنی گرفت مضبوط کر لی لیکن وہ اردو زبان میں موجود اس خلا کو کبھی بھول نہیں سکے. انھیں اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ اردو میڈیم طلبہ کے لیے سائنسی معلومات حاصل کرنا کتنا مشکل ہے. اس کے لیے شروع شروع میں تو وہ خود مضامین لکھتے رہے پھر جلد ہی انھیں احساس ہوا کہ اس کے لیے انھیں باقاعدہ ایک پلیٹ فارم کی ضرورت ہے. اس کے لیے انھوں نے 1992ء میں "انجمن فروغ سائنس" نامی جماعت کو سوسائٹیز کے تحت رجسٹر کرایا اور 1994ء سے ماہنامہ سائنس کی باقاعدہ اشاعت شروع کر دی اس کے اولین سرپرست پروفیسر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ) حکیم عبد الحمید اور سید حامد تھے۔ فروری 1994 سے یہ رسالہ مستقل نکل رہا ہے۔ یہ اردو زبان میں واحد سائنسی رسالہ ہے جس کا سفر اتنی طویل مدت پر محیط ہونے کے ساتھ آج بھی جاری ہے، ماہ نامہ سائنس کی اشاعت کے ابتدائی دنوں میں کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بہت جلد یہ رسالہ دوسرے سائنسی رسالوں کی طرح بند ہو جائے گا، آج تیس سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد اس کی مسلسل اشاعت نے ان کے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا، اس میگزین کے تحت انھوں نے اہم سائنسی موضوعات کو اردو میں مضمون اور کہانی کی صورت منتقل کیا اور ملک و بیرون میں رہنے والے قلم کاروں کو موقع دیا کہ وہ اپنی اردو سائنس پر مبنی کاوشوں کو اس میگزین میں شائع کرا سکتے ہیں۔ اس میگزین کے تمام مضمون انتہائی معیاری اور مستند ہوتے ہیں جو قارئین، خاص طور سے طلبہ کے لیے نہایت معلومات افزا ہوتے ہیں۔ اس میگزین سے متعلق ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب کا کہنا ہے کہ "یہ صرف ایک میگزین نہیں بلکہ ایک مشن ہے۔" اس رسالے نے لوگوں میں صرف سائنسی شعور ہی کو پروان نہیں چڑھایا بلکہ اردو زبان کی بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہے۔ ناچیز کے ذریعے لیے گئے انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا "زبان اور تہذیب استعمال کی چیزیں ہیں، اردو کو سب سے بڑا نقصان اردو طبقے کی بےحسی، لاپرواہی اور عدم دور اندیشی نے پہنچایا ہے، علم کی کمی نے ہماری اکثریت کی ذہنی وسعت کو بہت محدود کر دیا ہے، اسلام کے نام پہ چند ارکان پہ عمل کر کے اسے دین سمجھ کر وہ قرآن سے بھی دور ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے مال و دولت اور عیش و عشرت ان کے نئے بت ہیں، جن کے پیچھے یہ لگے رہتے ہیں اگر انھوں نے قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہوتا تو زندگی گزارنے کے صحیح طریقے، زندگی کا مقصد اور درست ترجیحات سے واقف ہوتے۔"
ڈاکٹر خلیق انجم (سابق جنرل سکریٹری، انجمن ترقی اردو ہند) ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی کتاب ’’سائنس کی باتیں‘‘ پر رائے دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’… اردو والوں میں سائنس کے مختلف شعبوں میں ماہرین کی تعداد بہت کم ہے اور جو ہیں وہ اپنی مادری زبان، اردو کی طرف سے احساسِ کم تری میں کچھ ایسے مبتلا ہیں کہ اردو میں نہیں بلکہ انگریزی میں لکھنا پسند کرتے ہیں۔ … اردو زبان میں اسلم صاحب جیسے ذہین، محنتی اور باصلاحیت نوجوان کی آمد پر ہمیں لال قالین بچھا کر ان کا استقبال کرنا چاہئے۔"
بےشک یہ بات صد فی صد درست ہے کہ اردو زبان کو اب احساس کمتری سے جوڑ دیا گیا ہے اور یہاں ہر کوئی ابھرنے و نکھرنے کا خواہش مند ہے، ایسے میں وہ اردو زبان کے نام پہ چند شعلہ انگیز تقریریں تو دے دیتے ہیں لیکن اس کی خدمت کے لیے چنداں فکر مند نہیں، بےشک دوسری زبانیں سیکھنا اس میں معاملات انجام دینا ہماری ضرورت ہے لیکن ایسی بھی کیا کم نظری کہ اردو زبان سے پیچھا ہی چھڑانے کی کوشش کی جانی لگے، اسے دوسری زبانوں کے ساتھ بھی لے کر چلا جا سکتا یے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز اس کی بہترین مثال ہیں۔ ایک طرف وہ "انجمن فروغ سائنس" کے تحت اردو زبان و ادب کا دائرہ وسیع کر رہے تھے اور اس کے ساتھ مارچ 1998ء تا جون 1999ء مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے دہلی ریجنل سینٹر میں تاسیسی ریجنل ڈائریکٹر بھی رہے۔ اس دوران دیگر علمی و سماجی خدمات سے بھی ان کی وابستگی رہی۔ 1994ء میں وہ ’اسلامک فاؤنڈیشن فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ‘ سے تعلیمی/ ماحولیاتی رضاکار کے طور پر وابستہ ہوئے۔ جون 2013ء میں انھوں نے ’یمنا قرآنک ایجوکیشن ٹرسٹ‘ کی بنیاد ڈالی اور اب بھی بہ حیثیت ڈائریکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم پرویز چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے سے مسلمانوں میں سائنس اور سائنسی فکر کو فروغ دینے میں شب و روز مصروف ہیں، ان کی رائے کے مطابق سائنسی یعنی علوم کے ذریعے قرآن کی آیات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے جب تک ہم قرآن کے اصل مفہوم کو نہیں سمجھیں گے مومن ہونے کا حق نہیں ادا کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر اسلم پرویز کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کا قرآن سے شغف ہے، انھوں نے اس بات کو بہت شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ قرآن سے لوگوں کا رشتہ انتہائی رسمی ہوتا جا رہا ہے، قرآن کے نزول کے اصل مقصد اور اس کے پیغام سے لوگوں کی واقفیت غیر تشفی بخش ہے، انھوں نے اس سمت میں کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا، پہلے انھوں نے خود قرآن فہمی کے لیے دیگر علوم سے مدد لی اور قرآنی تعلیمات کو اس کے پس منظر میں رکھ کر اس کے اصل پیغام کو سمجھنے کی غیر معمولی جدوجہد کی، قران جس سے ہر مسلمان عقیدت تو رکھتا ہے لیکن عملی سطح پر اس سے کٹا ہوا ہے؛ اس کی وجہ سے مسلمان انفرادی و اجتماعی ہر سطح پر تنزلی و پستی کا شکار ہیں، وہ سمجھ چکے تھے کہ ان کی اس ناگفتہ بہ حالات کو صرف قرآن کے ذریعے ہی بہتر کیا جا سکتا یے۔ اس لیے انھوں نے لوگوں کو قرآن پر غور و فکر کرنے کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا، اس کے لیے انھوں نے قرآن کانفرنس کا آغاز کیا اور خاص و عام کو اپنا مخاطب بنایا، قرآن ہمیں جو درس حیات دیتا ہے وہ حکمت و دانائی پر مبنی ہے، وہ نوع انسانی کے لیے فلاح و بہبود کی ضمانت ہے، انھوں نے قرآنی تعلیمات کو عام انسانی زندگی سے متعلق کر کے بالکل عام فہم زبان و اسلوب میں لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کیا، قرآن کانفرنسوں کا سلسلہ انھی جذبوں کا مرہون منت رہا ہے، ان کی ان کوششوں کو خواص و عوام سے بھرپور پزیرائی حاصل ہوئی، اس سے ان کے حوصلے مزید بلند ہو گئے. انھوں نے ذاکر نگر میں قرآن سینٹر قائم کیا. یہ سب کچھ انھوں نے خود اپنے بل بوتے پر کیا. انھوں نے طلبہ کو اس سینٹر کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک حکمت عملی بنائی. انھیں معلوم تھا کہ طلبہ کی پڑھائی کا شیڈول پہلے ہی کافی ٹف ہے. انھیں ناظرہ قرآن پڑھنا بھی انتہائی مشکل معلوم ہوتا ہے. ایسے میں ان سے یہ امید رکھنا کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے قرآن سینٹر میں آئیں گے یہ خواہش و کوشش کبھی بھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی. اس کے لیے انھوں نے ایک ٹیوشن سینٹر بھی اس سے جوڑ دیا. جس میں سائنس اور حساب کی فری کوچنگ کے انتظامات کیے. ساتھ ہی قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھانے کے لیے راہ ہموار کی، یہ حکمت عملی کارگر رہی اب تک سینکڑوں بچے اس کے ذریعے قرآن فہمی کا شرف حاصل کر چکے ہیں ۔ انھوں نے طلبہ میں غور و فکر کی روایت کو زندہ کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کی، جو کہ ہم سب کو عملی و فکری اصلاح کی دعوت دیتی ہے۔ قرآن جو  اس کائنات کی سب سے سچی اور اپنی تعلیمات کے اعتبار سے سب سے مستحکم کتاب ہے؛ اس پر غور و فکر نہ کرنا صرف اور صرف ذہنی پستی کی علامت ہے، ہم ایک عام سی تحریر پڑھتے ہوئے اس جستجو میں رہتے ہیں کہ اس کا مفہوم بھی سمجھ سکیں، ان زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کا ایک صفحہ بھی نہیں پڑھتے جن کی زبان سے ہم نابلد ہوتے ہیں تو پھر اس طرح بےسوچے سمجھے قرآن کو پڑھ کر کن فوائد و برکات کے حصول کی توقع رکھتے ہیں. یہ سطحی رویہ وقتی تسکین کا باعث تو بن سکتا ہے لیکن اس سے پستی و ضلالت کے بڑھتے اضافے میں کمی نہیں لائی جا سکتی، ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب اپنے بیانات کے ذریعے بار بار اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ قرآن کو اس طرح بار بار پڑھو کہ وہ رگوں میں جاری خون میں شامل ہو جائے، کچھ اس طرح کہ ہماری خواہشیں و کاوشیں قرآن کے تابع ہو جائیں۔
بےشک یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد خود کی دریافت کے ساتھ اپنے اصل خالق کو پہچاننا اور اس کے ساتھ پائدار تعلق کو استوار کرنا ہے، یہ مقصد تبھی پورا ہو سکتا ہے جب کہ انسان روایتی مذہبی ذہنیت سے اوپر اٹھ کر قرآن کا براہ راست مطالعہ کرے اور اس کے اندر موجود دستور حیات اور پیغامات کو اپنی عام زندگی میں نافذ کر سکے، قرآن کو پڑھتے ہوئے عام لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس میں مشرکین مکہ اور اس دور کے مسلمانوں کی زندگیوں کے پس منظر میں احکامات دیے گئے ہیں، آج کے دور میں سب کچھ بدل چکا ہے، ایسے میں ہم اس کا مخاطب خود کو کیسے سمجھیں، بےشک جب قرآنی تعلیمات کو بہ ظاہر پڑھا جائے تو چند معاملات کو چھوڑ کر باقی جگہوں پر ایسا ہی کچھ محسوس ہوتا ہے، کیوں کہ پس منظر کو سمجھے بغیر اصل بات تک پہنچنا ہمیشہ ہی مشکل ہوتا ہے، اسی لیے قرآن میں تفکر و تدبر کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، جب ہم قرآن کی ہر آیت پر غور کرتے ہوئے اپنی آج کی زندگی کے حالات و معاملات کے پس پردہ عوامل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے رہتی دنیا تک کے انسانوں اور انسانی معاملات کو ایڈریس کیا ہے، جس طرح سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر سمندر کی اصل گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل ہے بالکل اسی طرح ناظرہ قرآن اور بے ترتیب انداز میں چند آیتوں کا ترجمہ پڑھ کر قرآن کی آیتوں میں موجود احکامات کی اصل ماہیت و علت کو سمجھنا ناممکن ہے، قرآن ہمیشہ اصول پر بات کرتا ہے، اس کو عملی سطح پر مستنبط کرنے کے لیے اللہ نے انسان کو عقل دی ہے. عقل بہ معنی فہم اور قرآن کو باہم مربوط کر کے ہی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز  اسی خلا کو پر کرنے کے لیے قرآن فہمی اور انتہائی سادہ عام زبان و اسلوب میں قرآن کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے ہر ہفتے پروگرام کرتے ہیں. اس میں وہ بالترتیب آیات کی تشریح کرتے ہیں اور عام انسانی زندگی سے اس کو متعلق کر کے لوگوں کی الجھنوں کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اس طرح لوگ قرآنی تعلیمات کو زیادہ بہتر انداز میں اپنی زندگی سے جوڑ کر دیکھنے و سمجھنے اور عمل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اسلم پرویز صاحب بنا کسی تردد کے معاشرے میں موجود ان تمام برائیوں پر تنقید کرتے ہیں، جو اسلامی روایات پر گہن لگاتی ہیں اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی لوگ اسے اپنانے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔
ہر مسلمان فطری طور پہ قرآن سے ایک عقیدت اور محبت رکھتا ہے کیوں کہ مذہب کی ضرورت اس کی جبلت میں موجود ہے. جب وہ خدا سے آشنا ہوتا ہے تو اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے جس میں وہ اپنے بندوں سے مخاطب ہے تو اس کے اندر یہ فطری طور پر خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ اسے پڑھے لیکن ہمارے معاشرے میں قرآن کو لفظی طور پر پڑھنے کی روایت اس جبلی خواہش پر نقب لگا دیتی ہے. وہ ناظرہ قرآن پڑھ کر اس جبلت کی تسکین کی کوشش کرتا ہے. یہ کام اس عقیدت کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ذہنوں میں موجود سوال کو اپنے اندر ہی کہیں دبا دیتا ہے. اسی وجہ سے اسلم پرویز صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں ناظرہ قرآن پڑھنے کی روایت کو ختم کر کے اس کے معانی و مفاہیم کے ساتھ سمجھ کر پڑھنے کی روایت کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب عام زندگی میں ہمارا سابقہ کسی ایسے انسان سے ہوتا ہے جو  ہم سے الگ زبان بولتا ہے اور ہم اس کو سمجھنے کے لیے کسی دوسرے انسان کا سہارا لیتے ہیں پھر اس کو جواب دیتے ہیں تو پھر قرآن کو سمجھے بغیر اس کی تعلیمات پر آمنا و صدقنا کیسے کہہ دیتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ ہماری عقیدت مندانہ نفسیات ہے. جہاں ہم سوچنا و سوال کرنا تو درکنار ان روایات سے ہٹ کر کچھ تصور کرنے کی بھی اجازت خود کو نہیں دیتے، دوسرے ہمیں یہ بتا دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی فلاں فلاں سورہ پڑھنے سے یہ ثواب ملتا ہے یا یہ کرامت ہوتی ہے اور فلاں اسم اعظم پڑھنے سے اس طرح کے فوائد ملتے ہیں. عام انسانی نفسیات اسی میں الجھ کر رہ گئی ہے. اس کے خیال میں اوراد و اشغال اور تلاوت ہی سے سارے معجزے اور کرامتیں ہو جاتی ہیں، کبھی کچھ کمی محسوس ہوئی تو کسی مولانا و مفتی سے پوچھ کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کر لی. اس کے بعد یوں سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسلمان ہونے کا حق ادا کر دیا۔
کتب انزلنه الیک مبارک لیدبروا آیته ولیتذکروا اولوا الالباب
اس آیت میں واضح طور پر غور و فکر کی دعوت دی گئی، جو  صرف ناظرہ قرآن پڑھنے کی صورت میں قطعاً ممکن نہیں، اور عقل کسی چیز کو سمجھنے میں صرف کی جاتی ہے، صرف کسی چیز کو پڑھنے کے لیے عقل کے استعمال کا تناسب انتہائی کم ہوتا ہے۔
اسلم پرویز صاحب مسلمانوں کو اسی غلط فہمی و کج فہمی سے باہر نکالنے کی جدوجہد کر رہے ہیں کہ قرآن کے نزول کے اصل مقصد کو سمجھا جائے. دوسرے کی عقل سے سمجھے ہوئے مواد پر بےسوچے سمجھے عمل کرنے سے کبھی بھی قرآن کی فرضیت کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا، وہ اپنے پروگرامز کے ذریعے بار بار یہی پیغام دیتے ہیں کہ قرآن ایک مکمل دستور حیات ہے. انسانی زندگی سے جڑے معاملات و مسائل کا حل اس میں پنہاں ہے. ہر معاملے میں اس سے رجوع کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے. کیوں کہ قرآن میں یہ واضح لفظوں میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ قرآن تم پر فرض کیا گیا، فرائض کی ادائیگی کے بغیر مسلمان ہونے کے حق کو کبھی ادا نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کا مخاطب ہر مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر انسان ہے، دوسرے مذہب کے لوگ اگر اس کے پڑھنے سے روگردانی کریں تو یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن ایک مسلمان کا قرآن پر ایمان رکھتے ہوئے اس سے غافل ہونا گناہ کے زمرے میں شامل ہے۔ اس موضوع پہ ان کی کتاب "قرآن مسلمان اور سائنس" کے نام سے شائع علمی حلقے میں سند مقبولیت حاصل کر چکی ہے، اس کتاب کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور ہندی بنگلہ میں اس کا ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب کی خدمات وسیع ہیں، وہ ملک و بیرون ملک میں سینکڑوں لکچر دے چکے ہیں، ان کے مضامین ملک کے ساتھ بیرونی ممالک کی کتاب میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں، غیر ملکی یونی ورسٹیاں و تعلیمی ادارے انھیں اپنے یہاں لکچر دینے کے لیے بلاتے ہیں جن میں ہارورڈ، ییل (Yale) اور ٹورنٹو یونی ورسٹی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں اب تک کئی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے، جیسے اردو اکادمی دہلی کی جانب سے "سائنس ادب انعام"، دی مسلم ایسوسی ایشن فار ایڈوانسمنٹ آف سائنس کی جانب سے "سائںس پاپولرائزیشن ایوارڈ"، غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے "غالب انعام برائے فروغ سائنس"، نیز ریاست ہائے متّحدہ امریکہ کی انفارمیشن ایجنسی کی جانب سے "انٹرنیشنل وزیٹرشپ" وغیرہ جیسے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب ہماری قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں ہمیں ان کے وژن و مشن کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ مسلم قوم کی پس ماندگی و پستی میں کمی لائی جا سکے اور ان کے لوگوں کو دنیا کے بہترین دستور حیات قرآن کریم سے پھر سے جوڑا جا سکے۔

****

علیزے نجف کی گذشتہ نگارش :ڈاکٹر قمر رحمان: سائنسی افق کا ایک روشن ستارہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے