شادی شدہ عورتوں کے مسائل: ایک نفسیاتی اور مشاہداتی تجزیہ

شادی شدہ عورتوں کے مسائل: ایک نفسیاتی اور مشاہداتی تجزیہ

عبدالرحمٰن
سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک
دہلی- این سی آر
Email:rahman20645@gmail.com

ایک مشہور مقولہ (quotation)، اپنی اصلیت میں غیر حقیقی ہونے کے باوجود، انسانی نفسیات (Human Psychology) کو بڑے پیمانے پر متاثر کیے ہوئے ہے۔ وہ ضرب المثل (proverb) یہ ہے کہ "تاریخ خود کو دوہراتی ہے" (History repeats itself)، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ جو اسباق (lessons) فراہم کرتی ہے، لوگ عام طور پر ان کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ نتیجتاً انسانی حالات و واقعات کا اعادہ (repetition) ہوتا رہتا ہے۔ چوں کہ انسان اپنی کوتاہیوں کا اعتراف اور ان کی اصلاح مشکل سے ہی کرتا ہے، اس لیے وہ غلط زاویے سے کی گئیں اپنی کوششوں کے برے نتائج کی بار بار رونمائی کو تاریخ سے منسوب کر دیتا ہے اور خود کو بدستور معصوم عن الخطا گردانتا رہتا ہے۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیقی اعتبار سے کائنات کو مختلف اصول و ضوابط (The Principles) کا پابند بنایا ہے، تاکہ دنیا کے بیشتر معاملات ایک خود کار نظام کے طور پر انجام پاتے رہیں۔ قدرت کے ان اصولوں کو انسانی زبان میں قوانین فطرت (The Laws of Nature) بھی کہا جاتا ہے۔
فطری قوانین کی موجودگی کے پیش نظر، جب کسی معاملے میں انسانی غلطیوں کو درست کرنے کے بجائے ان کے ارتکاب کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تب متعلقہ حالات و واقعات کا تکرار، یعنی ان کے بار بار ہوتے رہنے کا عمل بھی موجود رہتا ہے۔ درحقیقت تاریخ رقم کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ آدمی ماضی میں سرزد انسانی حماقتوں کا ادراک حاصل کرتے ہوئے انھیں اپنی زندگی میں دوبارہ وقوع پذیر نہ ہونے دے۔ مگر ایسے باشعور لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو دوسرے افراد کی غلطیوں سے کچھ مثبت رہ نمائی حاصل کر کے اپنی زندگی میں مبینہ طور پر تاریخ کے دہرائے جانے کے عمل (The Process of the Alleged Repetition of History) کو روک سکیں۔
کم و بیش، تاریخ دوہرانے کے معاملے کا مشاہدہ (Observation) شادی شدہ عورتوں کی زندگی میں بھی بہ کثرت کیا جاسکتا ہے۔ گھروں میں "ساس- بہو" (In Laws) کی عجیب و غریب نفسیات سے پیدا ہونے والے جھگڑے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، جب کہ اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور دل چسپ بات یہ ہے کہ وہاں موجود ساس (mother in law) اسی گھر کی بہو (daughter in law) بھی رہ چکی ہوتی ہے، اور موجودہ بہو ساس بننے کی راہ میں رواں دواں۔ عمومی طور پر نہ بہو ساس سے کچھ سیکھتی ہے اور نہ ساس اپنی بہو سے۔ اتنا ہی نہیں، ساس خود اپنے بہو ہونے کے زمانے کے احوال سے بھی کوئی سبق اخذ کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔ اس صورت حال میں، جو معاشرتی اور نفسیاتی غلطیاں (The Social and Psychological Aberrations) خود کو درست کروانے کے لیے بار بار موقع فراہم کرتی ہیں، وہ کسی بھی جانب سے التفات حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ منظر عام پر بنی رہتی ہیں۔
بنیادی طور پر لفظ "سسرال" سے وابستہ منفی ذہنیت شادی شدہ عورتوں کو کبھی ٹھیک سے جینے نہیں دیتی، بلکہ یہی نسوانی کمزوری ان کے تمام مسائل کا تمام عمر محور (axis) بنی رہتی ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر محسوس کی جانے والی اس کم زوری کو کرہ ارض پر آباد سبھی عورتوں سے منسوب کیا جانا درست نہیں۔ بےشک انسانی زندگی کے متعلق خالقِ کائنات کی پلاننگ (منصوبہ بندی) کے مطابق انسانوں کے درمیان استثنیات (exceptions) کا موجود ہونا بھی ایک بدیہی حقیقت ہے۔ اس لیے مختلف لوگوں کے مشاہدات بھی مختلف ہوسکتے ہیں۔
اس فطری حقیقت کے ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شادی شدہ عورتوں کی سسرال سے متعلق بھیڑ چال (herd mentality) والی سوچ اور اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کے بلا انقطاع، نسل در نسل جاری رہنے سے صرف وہی عورتیں محفوظ رہ سکتی ہیں، جنھوں نے معصومیت بھری کم سنی کے دور میں خود اپنے بزرگوں سے صالح اقدار کو عملی شکل میں مبدل ہوتے ہوئے دیکھا ہے یا پھر مذکورہ خاندانی بگاڑ سے وہ عورتیں خود کو آلودہ ہونے سے بچا سکتی ہیں، جنھوں نے اعلا تعلیم کے توسط سے تہذیب و تمدن کے مختلف النوع پہلوؤں، معاشرتی عوامل اور انسان کے فطری، نفسیاتی اور جذباتی داعیات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ وہ کس طرح زندگی کے معاملات کو متاثر کرتے ہیں اور انھیں خوش رنگ و خوش ذائقہ بنائے رکھنے میں کس طرح معاون ہوسکتے ہیں۔
جن چیزوں کو روایتی دور (The Traditional Age) کی معاشرتی اور ازدواجی زندگی (The Social and Marital Life) میں عورتوں کے مسائل کی وجہ تصور کیا جاسکتا تھا، ان کا آج کے نسبتاً زیادہ مہذب اور تعلیم یافتہ دور (The Enlightened Period) میں بھی موجود ہونا بلا شبہ باعث تشویش ہونا چاہیے۔ یقیناً آج کی اعلا تعلیم یافتہ عورتوں کو اس زاویہ سے بھی سوچنا ہوگا کہ سسرال کے تعلق سے ابھی تک چلا آرہا وہی پرانا منفی رجحان خود ان کے فہم و آگہی پر بھی ایک حرف ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسی قسم کے مسائل (problems) کی نوعیت کو سنجیدہ مطالعہ اور مختلف مشاہدات کی روشنی میں سمجھنے اور پھر خوش اسلوبی کے ساتھ ان کو منظم (manage) کرنے کی جدوجہد کی گئی ہے۔ بلا شبہ میاں بیوی کے درمیان شادی شدہ زندگی کو نہ صرف خوش گوار اور معطر بنائے رکھنے میں، بلکہ ان کے توسط سے حاصل نومولود بچوں کی نرم و نازک پرورش کرتے ہوئے نسل انسانی کو پروان چڑھانے میں بھی ایک عورت بہت زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے اس کا غیر ضروری مشکلات سے محفوظ رہنا بھی نہایت ضروری ہے۔
شادی شدہ عورتوں کے بیشتر مسائل کی بنیاد انھیں اپنی عظیم حیثیت کا علم اور اس سے وابستہ مقاصد کا ادراک نہ ہونے میں پوشیدہ رہتی ہے۔ انسان پیدا کرنے کی خدائی اسکیم میں عورت کو تخلیق کرنے کا مقصد اس سے بہت زیادہ بلند ہے کہ وہ محض سسرالی نفسیات سے نشوونما پانے والے پست سطحی جذباتی مسائل میں الجھ کر رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو مرد کی سچی رفیقہ حیات کے طور پر آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور بنا کر پیدا کیا ہے، تاکہ دونوں کے اشتراک سے افزائش نسل انسانی کا ربانی کارخانہ انسانی دنیا میں قائم و دائم رہ سکے۔ اس لیے عورتوں کے لیے اپنے مقام و مرتبے کا ادراک حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھاری جنس سے تمھارے ليے جوڑے پیدا کيے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے ليے جو غور کرتے ہیں. (تذکیرالقرآن: سورۃ الروم-30: 21)
انسانی زندگی سے متعلق پیچیدگیوں، خصوصاً شادی شدہ عورتوں کو درپیش مسائل کا خوش آئند حل تجویز کرنے کے لیے معاشرے کا لکھنے اور بولنے والا تعلیم یافتہ طبقہ ہمیشہ ہی کسی نہ کسی صورت میں کوشاں نظر آتا ہے۔ معروف قلم کار، محترمہ عارف النساء صاحبہ کی ایک اہم تحریر بہ عنوان "شیریں زبان لڑکیاں بھی زبان دراز عورتیں کس طرح بن جاتی ہیں"، وہاٹس ایپ گروپ (گلدستہ) کے توسط سے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ قارئین کے استفادے کی خاطر مذکورہ مختصر مضمون کو یہاں بریکٹ میں من وعن نقل کیا جاتا ہے:
(میں نے اپنی زندگی میں ایسی ایسی شیریں زبان، نرم گفتار لڑکیاں دیکھیں ہیں کہ جب وقت نے ان کے ساتھ نرمی نہیں برتی اور ان کے شوہر اور سسرال والوں نے ان کا جینا حرام کردیا تو ان عورتوں کی زبانیں حلق سے باہر نکل آئیں۔ آواز ایسی ہو گئی گویا شیر دہاڑتا ہو۔ سارا قصور عورت کا نہیں ہوتا، بعض اوقات حالات انسان کو جانوروں سے بھی بدتر بنا دیتے ہیں۔
یاد رکھیں! عورت کی زبان مرد کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اگر مرد چاہے تو عورت کبھی بھی بد زبانی نہیں کرے گی۔ ایک بات کے پیچھے پڑ جانا، یا عورت کی خواہش کا احترام نہ کرنا، اس کو حقیر سی چیز سمجھ کر بات کرنا، ہر وقت عورت کی بےعزتی کرنا، محبت سے بات نہ کرنا، اور ہر بات ڈانٹ ڈانٹ کر کرنا جیسے وہ کوئی نا سمجھ بچی ہے۔ یہ سب چیزیں عورت کی زبان درازی کی وجہ بن جاتی ہیں)
بلا شبہ اس تحریر میں کافی مواد ہے جو غور و فکر کا متقاضی ہے۔ راقم الحروف کو مضمون کی لائق و فائق مصنفہ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ "عورت کی زبان مرد کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اگر مرد چاہے تو عورت کبھی بھی بد زبانی نہیں کرے گی۔۔۔"۔ یہ اقتباس شوہر یعنی مرد حضرات سے بھی تقاضا کرتا ہے کہ یہاں جن اشکالات کی نشان دہی کی گئی ہے، وہ اپنی ازدواجی ذمے داریوں کی ادائیگی میں ان کو بھی جگہ دیں اور اپنی مشترکہ زندگی کو دل کش اور دل فریب بنانے کے لیے پیش کی گئیں تجاویز پر نہ صرف غور کریں، بلکہ انھیں عملی جامہ بھی عنایت کریں۔ معاملات میں خلوص نیت اور وسیع زاویہ سے سوچنے پر عمل کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔
مرد حضرات پر یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو شوہر کی شکل میں قوام (Caretaker) بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ انھیں کوئی "حاکم" بنانے کی اطلاع نہیں، بلکہ بھاری بھرکم ذمے داری اٹھانے کا فرمان ہے۔ اس خدائی مصلحت میں خاندان کا ادارہ (Family Institution) وضع کرنے اور دنیا میں انسانی سلسلے کے استحکام کو یقینی بنانے والی ایک جامع پلاننگ کار فرما ہے۔ جہاں ایک طرف عورت کو گوناگوں خصوصیات سے مزین کیا گیا ہے، وہیں دوسری جانب وقتاً فوقتاً پیش آنے والے چیلنج اور ضرورتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مرد کے اندر وہ کثیر الجہات اوصاف اور وسعتیں پیدا کردی ہیں کہ تمام قسم کی مشکل معاشی اور معاشرتی ذمے داریوں کے باوجود وہ اپنی "صنف نازک" کے نخرے بھی خوش دلی اور خوش اسلوبی سے اٹھا سکتا ہے۔ دراصل عورت کی فطری ذمے داریاں ہی اتنی سخت اور زیادہ ہوتی ہیں کہ ان کے مقابلے مرد کی بڑی سے بڑی قربانی بھی کم ہی نظر آئے گی۔
بس اتنی سی بات ہے جس کے مرد کی یادداشت میں بنے رہنے سے گھر کے سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ گھریلو عصبیت کی پیچیدگیوں کے چلتے اکثر اوقات مرد کے لیے اپنی بیگم کی بات، وہ بھی بروقت اور تفصیل کے ساتھ، سننا مشکل ہو جاتا ہے، حالاں کہ وہ بعد میں کئی طرح کے مسائل کو بھی جَنم دیتا ہے۔ اگر شوہر حضرات اپنی اس مشکل کو حل کرلیں، تو گھر کی باقی مشکلات کے حل ہونے کا سہل راستہ بھی خود بہ خود دریافت ہوجائے گا۔ بیوی کی بات کو سننا وہ بھی اچھے اسلوب میں تب ہی ممکن ہے جب شوہر وقتِ ضرورت اپنی یادداشت سے یہ نکتہ اخذ کرلے کہ بیوی کی ضرورتیں پوری کرنا ہی نہیں، اس کو خوش رکھنا بھی اس کی ذمے داریوں کے نصاب کا ہی ایک بنیادی حصہ ہے۔
چوں کہ پورا خاندان ایک عورت کے اردگرد گھومتا ہے۔ اس لیے کچھ باتیں "بیگمات" سے کرنا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔ شادی شدہ عورت کی زندگی میں اس کے چاروں طرف بہت سی طاقتیں (Forces) بیک وقت حرکت میں رہتی ہیں۔ موجودہ معاشرے کی نشوونما کچھ اس طرح ہورہی ہے کہ لفظ سسرال عورت کو مستقل طور پر ایک منفی نفسیات میں مبتلا رکھتا ہے۔ اس کے باوجود میکے میں والدین، بہن بہنوئی، بھائی بھابھی اور دیگر رشتہ دار بھی مختلف قسم کے صالح ہی نہیں غیر صالح مشورے بھی فراہم کرتے رہتے ہیں۔ انسانوں کا معاملہ بھی بہت عجیب ہے۔ سگے رشتے دار بھی محبت کے ہزار دعووں کے باوجود آپ کا صحیح معنی میں بھلا کم ہی چاہتے ہیں۔ اس پس منظر میں بصیرت کی آنکھوں سے دیکھا جائے تو اس طرح کے بیشتر مشورے آپ کی ازدواجی زندگی کو خوشیوں کی شاہراہ پر گامزن رکھنے کے لیے کم پٹری سے اتارنے میں زیادہ کارگر نظر آئیں گے۔ شادی شدہ عورتوں کے لیے معاشرت کے اس نازک پہلو کا ادراک اور پھر اس کو منظم رکھنے کی حکمت عملی وضع کرتے رہنا نہایت ضروری ہے۔ بلا شبہ بامعنی زندگی جینے کے لیے واضح حکمت عملی شوہر اپنی بیوی اور بیوی اپنے شوہر کے تعاون سے ہی بنا سکتی ہے۔
والدین، بھائی بہن اور دیگر سگے رشتوں سے محبت ایک فطری امر ہے جس کو ہمیشہ باقی رہنا چاہیے اور مختلف مواقع پر اس محبت کا اظہار بھی ہوتے رہنا چاہیے؛ نہ صرف پیار بھرے الفاظ کی صورت میں بلکہ ضرورت پڑنے پر حقیقی تعاون کی صورت میں بھی۔ اللہ تعالیٰ نے تو اولاد کو اپنے والدین کے ساتھ "احسان" کے درجہ کا حسن سلوک روا رکھنے کا حکم دیا ہے (سورۃ الاسراء-17: 23)۔
اسی طرح خاندان کو پر شکوہ بنائے رکھنے کے لیے شوہر کے والدین اور ان کی نسبت سے وقوع پذیر رشتوں کا زندہ و جاوید بنا رہنا بھی اشد ضروری ہے۔
مگر ان تمام رشتوں کے باوجود میاں بیوی کے درمیان جس چیز کا وجود سب سے زیادہ اہم ہے وہ ہے ان کی "خوشگوار ازدواجی زندگی" جو صرف ان دونوں کے اشتراک سے ہی کام یاب ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ شادی کے بعد "شوہر، بیوی اور بچوں" کی شکل میں معاشرے میں ایک نیا خاندان وجود پذیر ہوتا ہے جس کی بقا اور استحکام کے لیے اس کو ترجیحات کی فہرست میں اوپر جگہ ملنی چاہیے۔ بہ صورت دیگر اس کی نشو و نما درست طور پر نہیں ہو پائے گی۔ اس لیے شوہر اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی جانب آنے والے سبھی مشورے اور نصیحتوں کو بے شک پوری توجہ اور احترام سے سنیں، مگر درست اور نتیجہ خیز فیصلہ کرنے کے لیے دونوں کے درمیان جامع گفت وشنید، سنجیدہ غور و فکر اور آپسی رضامندی بھی ناگزیر ہے۔
دریں اثنا ایک مزید اہم بات بھی عورتوں کے گوش گزار کرنا ضروری ہے۔ انسانوں خصوصاً عورتوں کے مسائل کی نوعیت عجیب و غریب ہوتی ہے۔ وہ اس پہلو پر مشکل سے ہی غور کرتی ہیں کہ ان کو لاحق مشکلات صرف سسرال والوں کے سبب ہی نہیں خود ان کی اپنی وجہ سے بھی ہوسکتی ہیں۔ اپنے معاملات کو اس زاویے سے زیر بحث نہ لانے کے سبب ان کے مفروضہ مسائل بھی کبھی ان کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں اپنے ماں باپ، بھائی بہن اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے ملنے والی "لگائی بجھائی" اور بڑی تعداد میں حاصل ہونے والے بے شمار غیر ضروری مشوروں سے قطع نظر شادی شدہ عورتوں کے مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ شادی کے بعد اپنا ذاتی خاندان بن جانے کے باوجود وہ اکثر و بیشتر خود کو ذہنی طور پر اپنے میکے کا ہی اسیر بنائے رکھتی ہیں۔ خود اپنے گھر پر سو فی صد توجہ دینے کے بجائے،اپنے بھائی بھابھیوں کی زندگی میں بے معنی تاک جھانک اور غیر ضروری دخل اندازی پر اپنی غور و فکر کا ایک بڑا حصہ برباد کرتی رہتی ہیں۔ بھابھیوں کے برعکس اپنے شادی شدہ بھائیوں سے اس طرح بات کرتی ہیں گویا ان کا ان سے بڑا کوئی خیر خواہ نہیں۔
مگر عورتوں کی اپنے بھائی یا بھائیوں کے تئیں والہانہ محبت اس وقت بے قیمت ہو کر رہ جاتی ہے جب خود ان کی بھابھی یا بھابھیاں اس حقیقت کا ادراک حاصل کرلیتی ہیں کہ ان کی نند اپنے دل میں ان کے لیے بغض رکھتی ہے۔ پس منظر میں کوئی صالح اور عظیم مقصد نہ ہونے کی وجہ سے اپنے میکے سے وابستہ سرگرمیوں میں شادی شدہ عورتوں کی حرکات و سکنات بڑی حد تک خود غرض سیاسی قائدین کے جیسی ہو جاتی ہیں، نہ کہ کسی مخلص اور دردمند بزرگ شخصیت جیسی۔ اس طرح کی بے معنی سرگرمیوں میں ملوث رہنے کی وجہ سے عورتیں میکے میں بھی اپنی باوقار حیثیت کو مجروح کر بیٹھتی ہیں اور نتیجتاً والدین کو اپنی بہو – بیٹے سے حاصل ہونے والی خدمات و احترام کو بھی کم کروا دینے کی وجہ بن جاتی ہیں۔
شادی شدہ عورتوں کے مسائل کو سمجھنے کے دوران یہ ادراک حاصل کرنا بھی چنداں مشکل نہیں کہ عورتیں لاشعوری طور پر میکے میں ہی جیتی رہتی ہیں اور شعوری طور پر کبھی اس حقیقت کو سنجیدہ غور و فکر کا موضوع نہیں بنا پاتی ہیں کہ شادی کے بعد وہ خود ایک آزاد مملکت (بہ معنی ازدواجی زندگی) کی ایک خود مختار "ملکہ" کی حیثیت حاصل کرچکی ہیں اور "فیملی" ریاست کو چلانے کے لیے فرماں بردار شوہر کی شکل میں ایک وفادار وزیر اعظم انھیں ہر وقت دستیاب ہے۔ میکے کی نفسیات میں جینے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ خود "ساس" نہیں بن جاتی ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ساس بننے کے فوراً بعد بھی کسی راحت کے بجائے، برعکس نوعیت کے مسائل انھیں دوبارہ گھیر لیتے ہیں، جو پھر کبھی واپس جانے کا نام نہیں لیتے۔ اپنی نوعیت میں غیر حقیقی ہونے کی وجہ سے اس طرح کے تمام مسائل صرف مسائل ہوتے ہیں، اصلیت میں ان کا کوئی حل نہیں ہوتا، سوائے جذباتی حماقتوں کو جھٹک کر اپنے خوابیدہ شعور کو بیدار کرنے کے۔
شادی کی بعد اپنے میکے پر اتنی زیادہ فکری توانائی، وہ بھی بے لذت، صرف کرنے کے بجائے اگر عورتیں اپنی سسرال سے متعلق افراد کی خدمت اور ان سے محبت کرنے کے معاملے میں اس کا ایک حصہ بھی مخلصانہ طور پر خرچ کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرلیں، تب یہ یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہتی ہے کہ سسرال نام کی اسی ناپسندیدہ عمارت کے اندر سے نئی آب و تاب کے ساتھ ایک دوسرا "میکہ" بھی برآمد ہوسکتا ہے۔
ایسا حوصلہ نہ کرپانے کی صورت میں شادی شدہ عورتوں کی شخصیت میں "میکہ-سسرال" کا تصادم تا حیات جاری رہتا ہے، جو ماحول کو اتنا مکدر بنا کے رکھ دیتا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ شکر گزاری کی زندگی جینے کے بجائے، مختلف قسم کی شکایتوں کے ڈھیر کے نیچے دبے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق، "شکر خداوندی" میں کمی گھر میں نازل ہونے والی نعمتوں کے فقدان کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے علاوہ میکے سے متعلق معاملات میں بڑے پیمانے پر ملوث رہنے کی وجہ سے عورتیں خود اپنی زندگی کے کیے بنیادی اہداف (targets) کو حاصل کرنے سے بھی محروم رہ جاتی ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، اس کو سنجیدہ غور و فکر کا معاملہ ہونا چاہیے۔ آخرش موجودہ دنیا میں مرد ہو یا عورت، سبھی کو ایک محدود زندگی حاصل رہتی ہے اور اصلاح کے مواقع بھی بار بار دستیاب نہیں ہوتے۔ گہری غور و فکر کے بعد ہی یہ عقدہ کھل سکتا ہے کہ عورتوں کے مسائل کی بڑی وجہ مرد نہ ہو کر وہ خود ہی ہوتی ہیں۔ جتنی جلدی اس حقیقت کا اعتراف کر لیا جائے، زندگی اتنی جلدی دوبارہ خوش گوار ہوسکتی ہے۔
غیر شادی شدہ ہوں یا شادی شدہ، سبھی مرد و زن پر یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ جب ایک عورت اور ایک مرد نکاح کا ارادہ کرتے ہیں، تب وہ صرف اپنی جنسی آزادی کا پروانہ (Certificate) ہی حاصل نہیں کررہے ہوتے ہیں، بلکہ نسبتاً ایک بڑے پیمانے پر اپنے پروردگار سے یہ خاموش عہد بھی کررہے ہوتے ہیں کہ وہ اس کی مرضی کے مطابق خاندان کا ادارہ بناکر اپنی کوشش سے افزائش نسل انسانی کی ربانی اسکیم میں لائق و فائق افراد کا عطیہ پیش کریں گے۔ جس طرز پر انسان کی پیدائش اور پھر پرورش و تربیت کا دشوار عمل انجام پاتا ہے، وہ یقیناً ذمے داریوں سے لبریز ایک بڑا منصب ہے۔ اس عہدے کا حق ادا کرنے کے لیے بلند سطحی یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یکسوئی کی اس سطح کو بنائے رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ میاں بیوی دونوں، مختلف قسم کے غیر ضروری مشاغل میں ملوث رہنے اور فضولیات میں وقت و توانائی (Time and Energy) ضائع کرنے سے خود کو بچائیں۔
بلا مبالغہ نومولود بچے کی پرورش اور کم سنی کی عمر تک جامع تربیت میں اس کی ماں بہت زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے شادی شدہ عورتیں اس کا تحمل نہیں کرسکتیں کہ وہ اپنے بیش قیمتی وقت کا سرمایہ اپنے میکے سے متعلق افراد کے ساتھ گھنٹوں کے حساب سے موبائل پر خوش گپیوں میں ضائع کردیں یا پھر سسرال سے متعلق مفروضہ مسائل پر بے معنی بحث و تکرار کے حوالے کر دیں۔ دراصل عورتوں کو شادی کے بعد خصوصاً بچوں کی ولادت کی شروعات ہوجانے کے بعد بہت زیادہ محتاط زندگی گزارنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی انسانوں کو پیدا کرنے اور انھیں کرہ ارض پر پھیلا دینے کی اسکیم کی کام یابی میں مثبت رول ادا کیا جاسکے۔ عزیز و اقارب کے ساتھ رشتوں کو استوار رکھتے ہوئے، شادی شدہ عورتوں کا زیادہ وقت خود اپنی شخصیت اپنے شوہر اور بچوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہیے۔ دولت ہو یا وقت، موقع و محل کے صحیح تناسب میں خرچ کرنے سے گھر میں خوش حالی بنی رہتی ہے، جو آگے بڑھ کر دوسرے لوگوں کے لیے بھی رہ نمائی اور معاونت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
نسل انسانی کو درپیش چیلنج اور ارتقائی ضرورتوں کے پس منظر میں اللہ کی خاص رحمت سے عورتوں کو ارادے کی جو مضبوطی عنایت کی گئی ہے اس کا جواب نہیں۔ اسی مضبوطی کے پیش نظر، طاقتور ترین اشخاص بھی عورتوں کو ان کی مرضی کے خلاف کسی اقدام کے لیے مجبور نہیں کرسکتے، گویا عورتوں کو درپیش مسائل میں خود انھی کی مرضی شامل رہتی ہے۔ اس لیے، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ "ارادہ اور اختیار" کی قوت کو استعمال کرکے نہ صرف مرد حضرات بلکہ عورتیں بھی اپنی نفسیاتی پیچیدگیوں (Psychological Complexities) کو درست کر سکتی ہیں اور سسرال کے نام سے وابستہ غائبانہ ڈر (Phobia) پر بھی گرفت حاصل کرسکتی ہیں۔
عورتوں کی زندگی کے کچھ دوسرے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالنا مناسب رہے گا۔ اپنے بچوں سے باطنی محبت کے علاوہ، ظاہری محبت کے معاملے میں بھی عورتیں پیش پیش نظر آتی ہیں؛ جب کہ ان کے شوہر حضرات فطری طور پر بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہزار قربانیاں پیش کرنے کے باوجود ان کے تئیں محبت کی نمائش میں اپنی بیگمات سے ہمیشہ پچھڑ جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں بچوں کی والہانہ محبت ان کی ماں کو تو خوب، بلکہ بہت زیادہ اور ہمیشہ دستیاب رہتی ہے، مگر ان کے باپ اپنی اولاد کی جذباتی قربت سے اکثر محروم ہی رہ جاتے ہیں۔
عام مشاہدے کے طور پر حالات سے سبق و رہ نمائی اخذ نہ کرنے کے معاشرتی رجحان کے چلتے یہ بھی زمانے کا ایک دستور جیسا بن گیا محسوس ہوتا ہے کہ بچوں کو اپنے باپ کی سچی محبت اور ایثار کا اندازہ ان کے باحیات نہ رہنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ ہر ایک عورت کو اس حقیقی صورت حال کا نہ صرف ادراک ہونا چاہیے، بلکہ اس کو بچوں کے درمیان اپنے شوہر کے جذبات و احساسات اور ان کے تئیں اس کی بلند سطحی قربانیوں کا ترجمان بھی ہونا چاہیے۔ بلا شبہ اس طرح کی صورت حال کو درست کرنا بھی عورتوں کے لیے ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔ عورتوں کو اپنے بچوں کے سامنے یہ واضح کرتے رہنے میں کبھی کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے کہ ان کا باپ ان سے کتنا زیادہ پیار کرتا ہے اور اپنی اولاد کی فلاح و بہبود اور ان کو لائق و فائق بنانے کے ضمن میں اس کی شفقت و محبت اور نتیجہ خیز جدوجہد کا کوئی ثانی نہیں۔
عورتوں کے ایسا کرنے سے ماں کو بچوں سے ملنے والی محبت میں تو کوئی کمی واقع نہیں ہوگی، البتہ اپنے باپ کے لیے بھی ان کا احترام اور محبت بڑھ جائے گی۔ دراصل اپنے بچوں کی نظر میں ان کے باپ کے مقام و مرتبے کی بلندی کو واضح کرتے رہنے سے خود عورتوں کی اہمیت کا مقام بھی نہ صرف مزید بلند ہوگا، بلکہ ان کے بہت سارے ذہنی اور جذباتی مسائل (The Intellectual and Emotional Problems) بھی خود بہ خود حل ہوتے ہوئے نظر آنے لگیں گے۔
اس فطری اصول کے تحت کہ بچے جو دیکھتے ہیں بڑے ہوکر اسی کو دہراتے ہیں، عورتوں کا اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنے ساس سسر کی خدمت اور ان کے ساتھ ادب و احترام کا رویہ (attitude) اختیار کیے رہنے سے بڑھاپے میں خود ان کے اپنے بچوں سے ضروری تکریم و محبت کا ملنا بھی یقینی ہو سکتا ہے۔ اس لیے باشعور لوگوں کے لیے عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انھیں اپنے "حال" (Present) کو اس حال میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے بطن سے ایک خوش گوار اور تابناک "مستقبل" طلوع ہو سکے.
[25.02.2024AD=14.08.1445 AH]
***
گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں: اساتذہ کی کوتاہیاں: ایک تجزیاتی اور تجرباتی نگارش

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے