” دو گھنٹے کی محبت" اور عظیم انصاری بہ حیثیت مترجم

” دو گھنٹے کی محبت" اور عظیم انصاری بہ حیثیت مترجم

ڈاکٹر مظفر نازنین، کولکاتہ، مغربی بنگال ، رابطہ:9088470916

سرزمین بنگال، ہندستان کی وہ ریاست ہے جس کے بارے میں گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ ہندستان سوتا ہے تو بنگال جاگتا ہے۔ بلاشبہ بنگال علم و ادب کا گہوارہ ہے، تعلیم و تہذیب کا مرکز ہے۔ بنگال کی راجدھانی کولکاتہ ہو یا مضافاتی علاقے، یہاں اچھے شعرا و ادبا کی ایک کثیر تعداد ہے۔ انھی شعرا اور ادبا میں شریف طبع عظیم انصاری کا بھی شمار ہوتا ہے جن کا تعلق مضافاتی علاقے شمالی چوبیس پرگنہ کے جگتدل سے ہے۔ موصوف شاعری و تنقیدنگاری کے ساتھ اب ترجمہ نگاری میں بھی اپنا جوہر دکھا رہے ہیں۔  ”دو گھنٹے کی محبت" عظیم انصاری صاحب کی ترجمے کی کتاب ہے۔ یہ بنگلہ افسانوں کا اردو میں ترجمہ ہے۔ انھوں نے بنگلہ افسانوں کا اردو میں کام یاب ترجمہ کیا ہے۔ ان کی یہ کتاب ان کے داماد علی شاہد ؔ دلکش صاحب نے مجھے بہ طور تحفہ عنایت کیا۔ اس کے لیے میں عظیم انصاری صاحب اور دلکش صاحب دونوں کی بےحد شکر گزار ہوں۔ علی شاہد صاحب کا تعلق کانکی نارہ چوبیس پرگنہ سے ہے۔ موصوف کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ذہین ہونے کے ساتھ اردو کے شاعر و ادیب بھی ہیں۔
بنگال کی تہذیب اردو، بنگلہ اور انگریزی تہذیب کا میناۂ نور ہے۔ وطن ِ عزیز ہندستان جس پر ہمیں ناز ہے۔ یہاں شمال میں وادیِ کشمیر سے لے کر جنوب میں کنیا کماری تک، مغرب میں تھار کا ریگستان اور مشرق میں ابر آلود چھوٹی چھوٹی پہاڑی ریاستیں ہیں۔ مختلف زبان، ادب و تہذیب کے لوگ رہتے ہیں۔ اس کے باوجود یہاں کثرت میں وحدت ہے۔ ڈاکٹر وی اسمتھ کا کہنا بجا ہے: ”India offers unity in diversity.” اور اس خوبی پر ہمیں ناز ہے۔ آج ڈیجیٹل ورلڈ ہے اور ہندستان کی تہذیب، کلچر، زبان اس حقیقت کا غماز ہے کہ یہاں فنِ ترجمہ نگاری کی کتنی اہمیت ہے۔ عظیم انصاری کی یہ کتاب 2020 میں قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے مالی تعاون سے شائع ہوئی۔ موصوف کی اس کتاب میں گراں قدر علمی و ادبی شخصیات کی تقریظ بھی شامل ہیں جن میں نصراللہ نصر، کلیم حاذق اور ڈاکٹر خورشید اقبال قابلِ ذکر ہیں۔ کتاب کے بیک کوور پر ڈاکٹر شاہد اختر، سابق صدر شعبۂ اردو، ہگلی محسن کالج کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ اس کتاب میں دس بنگلہ افسانہ نگاروں کے چوبیس (24) ترجمے شامل ہیں۔ جس میں آٹھ معروف افسانہ نگار ہیں۔ اس میں دو غیر معروف افسانہ نگاروں کے افسانے بھی شامل ہیں تاکہ قارئین اس بات سے واقف ہوسکیں کہ وہ بنگلہ ادب و ثقافت کی کس طرح عکاسی کررہے ہیں۔ یہ بڑی  قابلِ ذکر بات ہے۔
بنگال کی تہذیب اردو، بنگلہ اور انگریزی تہذیب کا منارۂ نور ہے۔ بنگلہ اور اردو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جس طرح اردو جاننے والے بہترین افسانہ نگاروں کے افسانے پڑھنے کا ذوق رکھتے ہیں ویسے ہی ہم اہلِ بنگالہ بنگلہ کے معروف افسانہ نگاروں کے نام اور افسانوں کو ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ رکھتے ہی نہیں بلکہ احترام کی نظروں سے دیکھتے بھی ہیں۔
صفحہ 9 سے لے کر صفحہ 17 تک بنگلہ کے مشہور افسانہ نگاروں کی مختصر سوانح حیات درج ہے جو بلاشبہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے اور یہ سوانحی خاکے تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جسے پڑھنے سے اردو داں حضرات کو بنگلہ افسانہ نگاروں کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ بنگلہ ادب میں افسانوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ بنگلہ افسانوں کے بہترین افسانہ نگاروں کے منتخب افسانے مذکورہ کتاب میں شامل ہیں جن میں بن پھول (بولائی چندر مکھرجی)، سنیل گنگو پادھیائے، سنجیو چٹو پادھیائے، سمریش مجمدار، مہاشویتا دیوی، رام ناتھ رائے اور سید مصطفیٰ سراج کے نام اہم ہیں۔ صفحہ 16 پر عظیم انصاری صاحب نے اپنے چھوٹے داماد علی شاہد دلکش اور چھوٹی صاحبزادی نکہت عظیم کا شکریہ ادا کیا ہے ‘جنھوں نے اس کتاب کی کمپوزنگ کی ہے۔
صفحہ 18 پر ”ترجمہ نگاری اور مختصر بنگلہ افسانوں کے اردو مترجمین" کے عنوان سے ایک اہم تحقیقی مضمون ہے جس میں مترجم عظیم انصاری صاحب نے ترجمہ نگاری جیسے اہم فن کی اہمیت دلائل و حقائق کی روشنی میں بہت خوب قلم بند کیا ہے۔ ساتھ ہی وطنِ عزیز ہندستان بالخصوص بنگال کے معروف مترجمین کے نام ان کی ترجمہ نگاری کے حوالے سے شان دار اقتباسات بھی قلم بند کیے ہیں۔ یہ میرا اپنا نظریہ ہے کہ Translation Studies بہت اہم ہے اور یہ فن بہت آسان نہیں بلکہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ اس میں کوشش کی جاتی ہے کہ متن سے قریب رہیں اور ترجمہ نگاری کے دوران خاص خیال رکھنا ہوتا ہے کہ مافی الضمیر کا کوئی حصہ ‘مفہوم کا کوئی پہلو ترجمہ کے بعد اپنی مقصدیت سے محروم نہ ہوجائے۔ نیز جو شخص بنگلہ ادب یا زبان کو قاعدے سے جانتا ہی نہ ہو وہ بنگلہ ادب کی تخلیقات کو اردو ادب کے قالب میں ڈھنگ سے ڈھال ہی نہیں سکتا۔
The prime purpose of translation is to transform the text from one language to another so that the actual concept should remain intact.
ربی ٹھاکر جو نوبل انعام یافتہ تھے ‘ان کے افسانے آج بھی اتنے ہی گراں قدر ہیں اور بلاشبہ بنگلہ ادب میں بڑا ذخیرہ ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ سال میں نے دربھنگہ (بہار) کے ایک بزرگ شخصیت ایڈوکیٹ سید محمود احمد کریمی کا ذکر کرنا چاہوں گی جنھوں نے اپنی ترجمہ نگاری کی چند کتابیں مجھے ارسال کی تھیں جن میں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی کتاب "ہر سانس محمد پڑھتی ہے" کا انگریزی ترجمہ ”Encomium of the Holy Prophet" اور ڈاکٹر امام اعظم صاحب کی کتاب ” قربتوں کی دھوپ" کا انگریزی ترجمہ Proximal Warmth” ” بہ طورِ خاص ہیں، جن پر میں نے تبصرہ کیا ہے۔
مختصر یہ کہ شیریں زباں اردو کی فروغ اور بقا، ترقی و ترویج کے لیے ترجمہ نگاری کی خاصی اہمیت ہے چاہے وہ اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہو یا بنگلہ سے اردو میں۔ ہر زبان کی اپنی اہمیت ہوتی ہے تاکہ اردو داں حضرات دوسری زبان و تہذیب سے آشنا ہوسکیں تو غیر اردو داں حضرات اردو زبان و تہذیب کو سمجھ سکیں۔ اس ضمن میں عظیم انصاری صاحب کی کتاب ”دو گھنٹے کی محبت" بلاشبہ کافی اہمیت کی حامل ہے۔
صفحہ 34 پر معروف ادیب کلیم حاذق صاحب (ڈبلیو بی سی ایس افسر) کی تقریظ بہ عنوان ” بنگلہ کہانیوں کے تراجم اور عظیم انصاری" ہے جس میں موصوف یوں رقم طراز ہیں:
”عظیم انصاری اچھے شاعر ہیں۔ زبان و بیان پر ان کی گرفت اور بنگلہ زبان سے واقفیت نے ان کے کام کی قدر و قیمت بڑھادی ہے۔" صفحہ 38 پر ایم نصراللہ نصر نے تقریظ لکھی ہے اور اس کتاب کی کئی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے صفحہ 40 پر لکھا ہے ”بے شک ان کی دن رات کی محنت رنگ لائی ہے اور بنگال ہی نہیں ملک کے اردو ادب کے سرمایے میں ایک خصوصی اضافے کی متحمل ہے۔"
ان تمام ترجمے کے حوالے سے معروف بنگلہ فکشن رائٹر مہا شویتا دیوی اور رام ناتھ رائے کے بہترین افسانے بالترتیب ”رانگ نمبر" اور ”دوئی گھنٹار بھالو باشا" کا بہترین ترجمہ بھی شامل ہے۔ رام ناتھ رائے کے افسانے ”دوئی گھنٹار بھالو باشا" عظیم انصاری اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے اپنے مجموعے کا نام ”دو گھنٹے کی محبت" رکھ دی۔
مہاشویتا دیوی بنگلہ کی وہ معروف افسانہ نگار ہیں جن کی پیدائش ڈھاکہ (مشرقی بنگال) موجودہ بنگلہ دیش میں ہوئی اور جنھیں پدم شری ایوارڈ (1986)، گیان پیٹھ ایوارڈ (1996)، بنگا بھوشن اور پدم وبھوشن (2006) سے نوازا گیا۔ بنگلہ ساہتیہ میں ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ میں نے عظیم انصاری کی پوری کتاب کا بہ غور مطالعہ کیا اور یہ دیکھا کہ original text اور Translation Work میں کافی مشابہت ہے صرف زبان الگ ہے یعنی بنگلہ اور اردو لیکن مافی الضمیر بالکل ایک ہی ہے۔ پوری کتاب کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ عظیم انصاری صاحب ایک اچھے مترجم ہیں اور انھیں بنگلہ اور اردو زبان دونوں پر قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے بنگلہ افسانوں کا ترجمہ اس کامیابی سے کیا ہے کہ یہ ترجمہ نہیں بلکہ ان کی اپنی تخلیق معلوم ہوتی ہے اور ترجمہ کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ انھوں نے original text کے مافی الضمیر، اس کے مفہوم کے ہر پہلو کو اردو میں اجاگر کیا ہے۔
اس ترجمہ نگاری پر میں عظیم انصاری صاحب کو تہہِ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ امید قوی ہے کہ اس کتاب کی ادبی حلقے میں خوب پذیرائی ہوگی اور میں دعا کرتی ہوں کہ باری تعالیٰ ان کے قلم کو طاقت بخشے تاکہ وہ فنِ ترجمہ نگاری میں جوہر دکھاسکیں اور مزید ترجمے کی کتابیں منظر عام پر آئیں اور ادب میں گراں قدر اضافہ ہو۔ ان شاء اللہ
مظفر نازنین کی گذشتہ نگارش: ’ڈاکٹر محمد ناصر علی امینی: شخصیت و خدمات‘ کی شان دار رسمِ رونمائی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے