کتاب : نئی فیکٹری (ناول)

کتاب : نئی فیکٹری (ناول)

مصنف: ذاکر فیضی
صفحات : 238
قیمت : 300
سنہ اشاعت : 2023
ناشر : عرشیہ پبلی کیشنز دہلی
تبصرہ نگار: عزہ معین

ناول کے فن پر میلان کنڈیرا نے نہایت پر مغز اور معتدل آرا پیش کی ہیں۔ اسی لیے ناول کی فنی تعبیرات کو پرکھنے کے لیے میلان کنڈیرا کے ذریعے ڈھالے گئے سانچوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کنڈیرا کہتا ہے، ” ناول کو ایک ایسی عمارت یا قلعہ نہیں ہونا چاہیے جس کا بڑا حصہ ہماری آنکھ سے اوجھل ہو جائے ورنہ اس کی تعمیر کی خوب صورتی اور ہنر ہم پر نہیں کھل سکتے۔ انسانی حافظے کی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر ناول کو ختم کرتے وقت ہم اس کی ابتدا یا درمیانی متن کو بھول جائیں تو ناول کی تعمیر میں جو فن کارانہ باریکیاں اور ہنر بروئے کار لائے گئے ہیں، وہ بےکار ثابت ہو جاتے ہیں۔"
میں نے جب ناول "نئی فیکٹری" کو پڑھنا شروع کیا تو ہر صفحے پر اس کی حیران کن کروٹیں سامنے آکر ناول میں فنی خوبیوں کا احساس دلاتی رہیں۔ ابتدا میں ہی کتابوں کا شور کرنا دیکھ کر مجھے لگا پتہ نہیں کیا کہانی سامنے آنے والی ہے۔ مرکزی کردار معراج میز پہ رکھی کتابوں کو ان کے شور مچانے ہر ڈانٹ رہا ہے۔
"معراج نے جھنجھلا کر میز پر رکھی کتابوں کو ڈانٹا:
یہ کیا بحث لگا رکھی ہے ہر وقت بکری کی طرح میں میں ۔۔۔۔۔۔۔ ذرا دیر خاموش نہیں رہ سکتیں ۔۔۔ یہ بھی خیال نہیں کہ میں کچھ سوچ رہا ہوں، کسی بات پر غور کر رہا ہوں۔ کسی فکر میں ڈوبا ہوا ہوں ۔۔۔۔ اب آپ لوگوں کی بالکل بھی آواز نہیں آنی چاہئے۔ معراج کی ڈانٹ سن کر میز پر رکھی کتابیں خاموش ہوگئیں،"
ناول آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس میں نئے انکشافات ہوتے رہے۔ عرصہ ہوا کوئی کتاب ایک دن میں ختم نہیں ہوئی تھی۔ یہ ناول ایک ہی دن میں مکمل کرنے کے بعد ہی کتاب ہاتھ سے رکھی۔ کہانی شروعات میں دل چسپ تو لگتی ہے لیکن ایک نہج پر پہنچ پانا مشکل لگتا ہے۔ جیسے کہ ابتدا میں معراج ایک تاریخ کا طالب علم ہے اور وہ بہت پڑھتا ہے لیکن یکایک کھڑکی سے نکل کر بھاگ جانا، نام بدل جانا، پھر پر تعیش ڈرائنگ روم سے اینشیئینٹ یعنی ماضی بعید میں قبیلے سے منسلک دکھایا جانا۔ اس کے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو خیالوں کی دنیا تھی۔ مطالعہ کا اس قدر اثر دماغ کی رگوں پر ہو جانا سمجھ میں آتا ہے۔ شروع کے دو تین واقعات کے بعد کہانی اپنی اصل ڈگر پر چلنی شروع ہوتی ہے۔ یہ ناول مرادی پور کے ہاسپٹل میں داخل ایک حادثے کے شکار مریض کی عیادت سے واپس جارہی صبا اور اس کی بچی کے اغوا سے دوبارہ شروع ہوتا ہے۔ اس حصے میں گلی کے غنڈوں کی گالی گلوچ والی گندی زبان کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں ابھرتے ہوئے کرداروں نے متجسس کیا۔ اغوا کے کیس اتنے عام بھی نہیں ہیں اور پھر اس کہانی کو آگے بڑھانے میں تمام کردار مدد گار ثابت ہوئے۔ یہ تمام کردار اسی باب میں رہ جاتے ہیں۔ آگے بڑھنے پر بہت سے دھندوں کا پردہ فاش ہوتا ہے۔ فقیروں کی نئی کھیپ تیار کرنا، سیکس ورکرز کی ٹولیاں معاشرے میں داخل کرنا. اس ناول میں ان سب سے اوپر ایک اور نیا کام ہوٹلوں میں انسانی لحم کے ذائقے کو قیمتوں کے اعلا پیمانے پر رئیسوں کی پلیٹوں تک پہنچانے جیسا سنگین جرم اور اس پر حکومت کا ساتھ جیسے گھنونے فعل کو پیش کیا گیا ہے۔ سیکس ورکرز بنا کر زمینی سطح پر پھیلانا، فقیروں کے ذریعے دولت سے گھر بھرنا وغیرہ تو عام گناہوں کے زمرے میں رہ گئے۔ یہ زندگی چھوٹے گناہوں سے کہیں اوپر پہنچ چکی ہے۔ یہاں آکر انسانیت کو ختم کرکے اشرف المخلوقات کی بے حسی کا آخری درجہ دکھایا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوا جیسے مصنف کہانی بیان کرتے ہوئے تھوڑا سا بھٹک گیا یا پھر راستے میں چلتے ہوئے اسے رک کر پیچھے کو واپس جانا پڑا۔ فقیر کیوں بنائے گئے تھے؟ یہاں ایک جواب ہو سکتا ہے کہ جب فقیر بنائے گئے تھے اس کے بعد اس نئی فیکٹری میں کام کیا جارہا ہو۔ اس کی ابتدا بعد میں کی گئی ہو۔ جس سے اس ناول کے متحرک کرداروں کو مجرم دنیا کا سراغ لگانے میں آسانی رہی۔ علی کا کردار عجب کشمکش کا شکار رہتا ہے، خود سے فیصلے لینے میں کامیاب نہیں ہے۔ محبت کا حق ادا کرنا ہو یا میدان میں اتر کر عملی طور پر فعال ہونے کی باری ہو، خالہ کے آنسو و تڑپ دیکھ کر آنے کے بعد بھی علی دوستوں کے سہارے بہت آرام سے اس گینگ کی تلاش کے منصوبے بنا رہا ہے۔ دوستوں کے اصرار سے اس نے تلاش شروع کی لیکن کوئی لائحہ عمل اس کے پاس نہیں ہے۔ معراج اور ابھے دونوں علی کے دوست ہیں لیکن دیپا اس ناول میں سب سے ذہین کردار ہے۔ یہ تینوں دوست علی کی خالہ زاد بہن کی تلاش میں جرائم کی دلدل میں اتر گئے لیکن علی محض تماشائی کی طرح باہر رہا جب کہ اس کی محبوبہ اور دوست ان تمام مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نئی فیکٹری میں زندگی کے دن گزار رہے تھے۔ وہاں سے نکل بھاگنا اتنا آسان بھی نہیں تھا کیونکہ ظاہر ہے اس جگہ سے بھاگنے کی کوشش تقریبا روز ہی لوگ کرتے ہوں گے۔
ناول اپنے کینواس پر فن کے اصولوں کے تحت مکمل ہے یا نہیں، اس پہلو پر بات کرنے اور اس کی اندرونی تکمیل کا تعیین زیادہ بہتر طور پر اس طرح کیا جاسکتا ہے.
(۱) قصہ گوئی: ناول قصےکے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ ناول کو پورا پڑھنے کے بعد کچھ بھی بھول پانا مشکل امر محسوس ہوتا ہے۔ ناول میں کردار و واقعات کا ایک مربوط سلسلہ ہونے کی وجہ سے یادداشت میں محفوظ رہتا ہے.
(۲) دل چسپی کا عنصر: پہلے صفحے سے ہی تجسس اور دل چسپی برقرار رہتی ہے۔ ہر واقعہ قاری کو آگے پڑھنے کے لیے اکساتا ہے۔
(۳) واقعہ طرازی: منظر نگاری کے ساتھ واقعہ طرازی ناول میں خوب صورتی سے پروئی گئی ہے۔ جیسے آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہو رہا ہو۔ کرداروں کے غم اور ان کی جذباتی کیفیات میں قاری ساتھ ساتھ شامل رہتا ہے۔
(۴) کردار نگاری: معاشرے میں رہنے والے منفرد لوگوں، مختلف طبقات اور عدم مساواتی ماحول کو ناول نگار نے خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔ ہر کردار اپنے اپنے حصے کا کام کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے احساسات و تجربات ان کے کرب کی عکاسی مصنف نے ناول میں پیش کی ہے۔
(۵) ماحول (۶) منظر نگاری (۷) جذبات نگاری وغیرہ عناصر ناول کو مضبوطی سے قاری کے ہاتھوں میں تھامے رکھنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ کہیں بھی اکتاہٹ طاری نہیں ہونے دیتے۔
(۸) نصب العین: نصب العین کی بات کی جائے تو ناول نگار نے نقطہ عروج تک اپنے کرداروں کو اپنی پکڑ میں رکھا یے اور ایک نتیجے تک پہنچتے ہوئے مکمل کیا ہے۔ حالات سے کہیں بھی منھ نہیں موڑا۔ مصنف اپنے چہار اطراف جن حوادث کو دیکھتا ہے اور ان کے انجام سے عوام کس قدر مایوس ہے ہر پہلو کو واضح کردیا ہے۔
(۹) مکالمہ: کرداروں نے بے جا مکالمے سے قاری کو بور کرنے کا کام بالکل نہیں کیا ہے۔ جتنا اور جس قدر ضرورت ہے اسی حد تک مکالموں کو قلم بند کیا، طوالت کی بیماری سے ناول محفوظ ہے۔
(١٠) پس منظر: سب سے اہم ناول کا پس منظر ہے۔ دہلی ملک کی راجدھانی میں رہتے ہوئے گزرے برسوں میں جن حالات کا مقابلہ دہلی واسی کرتے رہے ہیں ان سے نبرد آزما ہونے کے بعد اسی طرح کا کینواس ادیب کے حساس ذہن پر اپنی چھاپ چھوڑ جائے گا۔ نیچے سے اوپر تک ہر عہدے پر اسی فی صد لوگ رشوت کا طوق گلے میں لٹکانے سے کسی طرح کا کوئی عار محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ اس جیسے ریکٹ ابھی میڈیا میں نہیں آئے ہیں لیکن دوسرے اسکیم ہوتے رہتے ہیں اور وقت کی دھول مٹی میں دب جاتے ہیں۔
(۱۱) پلاٹ (١٢) اسلوب: ناول کی فنی قدروں میں ان تمام عناصر کی متوازن و معتدل ہم آہنگی اور یک رنگی ناقابل فراموش ہے۔ سب سے آخر میں معراج کی ذہنی حالت کا بیان، جب وہ گوشت کی دکانوں میں بھی نونہالوں کو کند ذہن حالت میں دیکھتا ہے جنھیں کوئی مطلب نہیں ہے کہ کھانے کو کیا دیا جارہا ہے اور غور و فکر اور متحرک طاقتیں کیا ہوتی ہیں۔ ان پروڈکٹ کو اس طریقے سے بنایا جاتا ہے کہ بولنے، دیکھنے، سوچنے الغرض قوت خامسہ ہی ختم کر دی جاتی ہے اور نفسیاتی کیفیت کا ان کے اندر کوئی پرزہ باقی نہیں رکھا جاتا ہے۔ اس ناول کا چونکا دینے والا اختتام آپ خود پڑھیے کیونکہ اگر آپ فکشن پڑھتے ہیں تو بالکل مایوس نہیں ہوں گے۔
*
Izza Moin D/o Abdul Moin
Hindu pura samman Shaheed
Sambhal Uttar Pradesh
pin.244302
Mob 9012953333
***
آپ اس ناول کے سات ابواب یہاں پڑھ سکتے ہیں:نئی فیکٹری (پہلا باب)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے