کتاب: تاب سخن

کتاب: تاب سخن

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

غالب ؔ نے کہا تھا ”کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے"، حالاں کہ غالب کی زندگی سے شاعری کو نکال دیا جائے تو گوشت و پوست کے ایک انسان کے سوا کچھ نہیں بچتا، البتہ یہ بات علما پر صادق آتی ہے، طبقہ علما میں بڑے بڑے شعرا پیدا ہوئے، لیکن انھوں نے شاعری کو کبھی بھی ذریعہ عزت نہیں بنایا، ماضی کو چھوڑیے حال میں ہی مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کو ہی دیکھ لیجیے، کتنی اچھی شاعری ہے، لیکن ان کی شہرت و عزت قطعاً اس کی ممنون نہیں ہے، شعر و ادب سے علما کی اس بے اعتنائی کی وجہ سے ان کے کلام ادھر اُدھر منتشر ہوتے رہے، خود انھیں کبھی جمع کرنے، بلکہ سجو کر رکھنے کا بھی خیال نہیں آیا، جس کی وجہ سے علما طبقے کے بڑے بڑے شعرا، شعر و ادب کے حوالے سے گوشہ گم نامی میں پڑے رہے اور ان کا شعری سرمایہ زمانہ کے دست برد سے محفوظ نہیں رہ سکا، بلکہ بڑی حد تک ضائع ہو گیا، میں ایسے کئی علما کو جانتا ہوں، لیکن یہاں فہرست سازی کا نہ موقع ہے اور نہ ہی ضرورت۔
”تاب سخن" کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، یہ مولانا سید مسرور احمد مسرور (ولادت 1950وفات 21 اگست 2022) کا مجموعہ کلام ہے۔ وہ دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد سے 1986میں جڑے اور زندگی کے کم و بیش پینتیس سال یہیں گذار دیے، وہ اچھے کاتب تھے اور کتابت انھوں نے دارالعلوم دیوبند سے سیکھی تھی، اس لیے زیادہ وقت کتابت اور بچوں کو خوش خطی سکھانے میں گذرا، حیدر آباد جانے سے قبل ایک زمانے تک امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کی کتابت وہی کیا کرتے تھے، امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین سے وطنی قربت بھی تھی، مولانا سید مسرور کے والد چھپرہ سے نقل مکانی کرکے کوٹھی ضلع گیا منتقل ہو گئے تھے، جہاں ان کی سسرال تھی، امیر شریعت سادس کے گاؤں گھوری گھاٹ سے یہ بہت قریب ہے، یہیں پلے بڑھے، مدرسہ عبیدیہ کوٹھی اور مدرسہ قاسمیہ گیا سے تعلیم و تربیت حاصل کی، دیوبند کا رخ کیا، وہاں سے کتابتِ کا فن سیکھا اور پوری زندگی اسی کام میں لگا دیا۔
شعر و ادب کا ذوق اکتسابی نہیں، وہبی تھا، طبیعت موزوں تھی، مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، جن میں نعت، تہنیت، منقبت، سپاس نامے، الوداعی نظمیں، سہرے، نغمہائے شادی، خراج عقیدت اور متفرق چیزیں شامل ہیں، لیکن ان کو مرتب کرنے، جمع کرنے اور با قاعدہ محفوظ رکھنے کا خیال ان کے دل میں کبھی نہیں آیا، اس لیے ان کی زندگی میں مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری کے بار بار کے تقاضے کے باوجود وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے اور بالآخر موت نے انھیں آلیا۔
ان کے گذرنے کے بعد مولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری جو میرے برادر زادہ، داماد اور خانوادہ ہدی کے گل سرسبد ہیں، نے ان کے وارثین سے کسی کسی طرح ان کے اشعار کو حاصل کیا، جو کام ان کی زندگی میں آسان تھا وہ ان کے بعد مشکل ہو گیا اور اس کے لیے مولانا ازہری کو جو جگر کاوی کرنی پڑی، اس کا اندازہ کچھ انھی لوگوں کو ہوگا جو اس قسم کے کام سے دل چسپی رکھتے ہوں اور کبھی اس قسم کی خارزار وادی سے ان کا گذر ہوا ہو۔
مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری اگر صرف ان کے اشعار جمع کر دیتے تو یہ بھی بہت تھا، لیکن انھوں نے ایک غیر ضروری شرط اپنے اوپر لگائی کہ اسے تاریخ کے اعتبار سے مرتب کرنا ہے، یعنی جس تاریخ کو ان اشعار کا مولانا پر نزول ہوا، اس کی رعایت ترتیب میں کریں گے، اس نے اس کام کو ان کے لیے مزید دشوار کر دیا، بلکہ کہنا چاہیے کہ یہ تکلیف ما لا یطاق کے قبیل سے تھا، جو ان کی محنت میں مزید اضافے کا باعث ہو گیا، بہر کیف انھوں نے اپنی بے پناہ مشغولیات جن میں درس و تدریس، وعظ و خطابت، بچوں کی پرورش و پرداخت، متعلقین اور معتقدین کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ اس کام کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔
مولانا محمد سراج الہدیٰ کی نظر حدیث و فقہ، تفسیر پر گہری ہے، ان کی تفسیر دو جلدوں میں شائع بھی ہو چکی ہے، اس کے ساتھ ان کا ادبی ذوق بھی بالیدہ ہے، انھوں نے اس سے قبل حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کے اشعار بھی ”کلام شمس“ کے نام سے جمع کیا ہے، اس میں بھی ان کی محنت لائق ستائش ہے، لیکن اب تک یہ کتاب شائع نہیں ہو سکی ہے، مولویوں کے پاس اتنی اضافی رقم نہیں ہوتی جو کتاب کی طباعت کی متحمل ہو سکے اور غیرت و خود داری کا احساس کسی کے سامنے دست تعاون دراز کرنے سے مانع ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک ”کلام شمس" طبع نہیں ہوسکی۔
مولانا مرحوم کی شاعری اچھی ہے، لیکن وہ کسی نہ کسی موقعے سے لکھی گئی ہے، جس میں اپنی خواہش کم اور دوسروں کی خواہش کا احترام زیادہ ہے، اشعار میں ندرت اور فکر میں رفعت کے باوجود تہنیت، سہرے، خراج عقیدت وغیرہ کے بعض اشعار ایک دوسرے سے توارد کا مظہر ہیں، میں جانتا ہوں ایک جیسے خیالات اور مصرعے جب دو شاعروں کے یہاں مماثل ہو جاتے ہیں تو توارد کہلاتا ہے، مولانا کے یہاں جو کچھ ہے اس کے لیے صحیح لفظ تکرار ہے، لیکن تکرار کہنے میں سوء ادب معلوم ہوتا ہے، اس لیے اسے توارد سے تعبیر کیا ہے، کوئی فکر اگر شاعر پر غالب آگئی، اور وہ بار بار اس کا اعادہ کرنے لگے تو اسے توارد کہنے میں حرج نہیں معلوم ہوتا، گو ادبی پنڈتوں کے یہاں یہ زیادہ صحیح نہیں سمجھا جاتا، توارد پر اگر اعتراض ہو تو آپ اسے احباب کے تقاضوں کی تکمیل بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ توارد کبھی بعض الفاظ کو الٹ پلٹ کر اور کبھی بعض مصرعوں کو بڑھا کر بھی سامنے آتا ہے، اصل میں تہنیت، سہرے، خراج عقیدت میں ”مضامین نو کے انبار“ کا موقع نہیں ہوتا، اس کی لفظیات بھی محدود ہوتی ہیں، اور خیالات میں وسعت کی بھی کمی ہوتی ہے، لن ترانی اور ایران توران کی ہانکنے کا مولانا کا مزاج نہیں تھا، اس لیے ان اصناف میں عام طور پر یکسانیت کا احساس ہوتا ہے، اور صحیح اور سچی بات یہی ہے کہ وہ ان اصناف میں ” مضامین نو” کا انبار نہیں لگا سکے ہیں، اور ہر آدمی یہ کام کر بھی نہیں سکتا، اب میر انیس پیدا نہیں ہوں گے جو مضامین نو کے انبار لگاتے تھے، اور خرمن کے خوشہ چینوں کو خبر کرنے کی تلقین بھی کیا کرتے تھے۔
مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری ہم سب کی جانب سے شکر یہ کے مستحق ہیں، انھوں نے مولانا سید مسرور احمد مسرور کے کلام کو مرتب کرکے ان کو ضائع ہونے سے بچا لیا، اللہ تعالیٰ سے اس مجموعہ کے قبول عام و تام، مولانا مرحوم کی مغفرت اور مولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری کے علمی کاموں میں وسعت اور صحت و عافیت کے ساتھ درازیِ عمر کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
***
تبصرہ نگار کی گذشتہ نگارش:کتاب: اکبر رضا جمشید __کثیر الجہت شخصیت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے