اشرفؔی میاں کچھوچھوی کی حمد گوئی

اشرفؔی میاں کچھوچھوی کی حمد گوئی

طفیل احمد مصباحی

حمد کا لغوی معنیٰ ہے: تعریف و توصیف، ثنا، بزرگی اور بڑائی بیان کرنا۔ شعری اصطلاح میں اللہ رب العزت کی تعریف و توصیف اور اس کی ثنا و بزرگی بیان کرنے کو "حمد" کہتے ہیں۔ اردو میں حمدیہ شاعری کی روایت قدیم ہے۔ دکنی ادب میں جو قدیم مثنویاں آج سے چھ، سات سو سال قبل لکھی گئیں، ان میں حمد کے نقوش ملتے ہیں، جس سے اس صنفِ سخن کی قدامت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حمد کی عہد بہ عہد تاریخ تقریباً وہی ہے جو نعت و منقبت کی ہے۔ آئندہ صفحات میں "نعت گوئی کے آغاز و ارتقا" پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی ہے۔ شعراے قدیم و شعراے متوسطین و متاخرین نے حمد کو تبرکاً و تیمناً بھی اپنے شعری دواوین میں جگہ دی ہے اور مستقل طور پر بھی حمدیہ شعری مجموعے منظرِ عام پر آئے ہیں۔ اکیسویں صدی عیسوی میں حمدیہ مجموعہ ہائے کلام آئے دن شائع ہو رہے ہیں۔ اردو کے نامی گرامی شعرا مثلاً: میر تقی میرؔ، سوداؔ، غالبؔ، بہادر شاہ ظفر، شادؔ عظیم آبادی، مومن خان مومن، علامہ اقبالؔ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ بریلوی وغیرہم نے اعلیٰ پایے کی حمدیں لکھی ہیں۔ حکیم مومن خان مومنؔ کے یہ حمدیہ اشعار دیکھیں:
نہ کیوں کر مطلعِ دیواں ہو مطلع مہرِ وحدت کا
کہ ہاتھ آیا ہے روشن مصرع انگشتِ شہادت کا
بچاؤں آبلہ پائی کو کیوں کر خار ماہی سے
کہ بامِ عرش سے پھسلا ہے یارب پاؤں دقت کا
غضب سے تیرے ڈرتا ہوں رضا کی تیری خواہش ہے
نہ میں بیزار دوزخ سے نہ میں مشتاق جنت کا
خدایا ہاتھ اٹھاؤں عرضِ مطلب سے بھلا کیوں کر
کہ ہے دستِ دعا میں گوشہ دامانِ اجابت کا
قرآن مقدس کا آغاز ہی "اَلْحَمْدُ لِلہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ" سے ہوتا ہے، جس سے اس کی اہمیت و فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کرنا طہارتِ فکر و قلم کی علامت ہے۔ خوش بخت افراد کو ہی حمد کی توفیق بخشی جاتی ہے۔ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہان والوں کا پالنے والا ہے اور ہر طرح کی حمد و ثنا اور تعریف و توصیف کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے، جو تمام صفاتِ کمالیہ کا جامع ہے۔ اصطلاحِ شرع میں حمد کا مفہوم یہ ہے: کسی کی اختیاری خوبیوں کی بنا پر اُس کی تعریف کرنا اور شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے احسان کے مقابلے میں زبان، دل یا اعضا سے اُس کی تعظیم کرنا۔ ہم اللہ عَزَّ وَ جَلَّ کی حمد عام طور پر اُس کے احسانات کے پیش نظر کرتے ہیں، اس لیے ہماری یہ حمد "شکر" بھی ہوتی ہے۔ احادیثِ طیبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے کثیر فضائل بیان کیے گئے ہیں، اس سلسلے میں تین احادیث ملاحظہ فرمائیں:
( ۱ ) حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتاہے کہ وہ کچھ کھائے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور کچھ پیے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔
(مسلم شریف٬ کتاب الذکر والدعاء، باب استحباب حمد اللہ تعالیٰ)
( ۲ ) حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے٬ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: سب سے افضل ذکر "لَا اِلٰــہَ اِلَّا اللہُ" ہے اور سب سے افضل دُعا "اَلْحَمْدُ لِلہ" ہے)
(سننِ ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین)
( ۳ ) حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہ وَ سَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) "اَلْحَمْدُ للہ" کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔
(سننِ ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین)
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کے کلامِ بلاغت نظام میں دیگر اصناف کے علاوہ اردو و فارسی و ہندی میں متعدد نعتیہ کلام پائے جاتے ہیں۔ آپ کی شاعری سراسر عرفانی شاعری ہے۔ آپ کا پورا شعری دیوان تصوف و معرفت کے رنگا رنگ پھولوں سے مرصع ہے٬ جس میں سلوک و تصوف اور معرفت و روحانیت کے حسین جلوے قارئین کو مسحور و متاثر کرتے ہیں۔ مولانا محمد نور الہدیٰ اشرفی (مدرس دار العلوم محمدیہ٬ ممبئی) لکھتے ہیں: "تحائفِ اشرفی" جو حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمۃ و الرضوان کا دیوان ہے، جس میں تصوف اور معرفت کے کیسے کیسے حسین رنگوں سے گلکاریاں کی گئی ہیں، جس کے حصول اور مطالعہ کے بعد آپ ایک روحانی کیف محسوس کریں گے اور فرحت و انبساط سے یقیناً جھوم اٹھیں گے۔
(پیش لفظ صحائفِ اشرفی٬ حصہ دوم٬ ص: ۳۱ ٬ مطبوعہ: دار العلوم محمدیہ٬ ممبئی)
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کی حمدیہ شاعری میں زبان و بیان کا حسن، اسلوب کا بانکپن اور معنوی تہہ داری پائی جاتی ہے۔ اپنے مخصوص عارفانہ لب و لہجے میں آپ نے اللہ رب العزت کی ذات و صفات کی عظمتوں اور بزرگیوں کو بڑے سلیقے سے شعری جامہ پہنایا ہے اور کامیاب حمد کی ہے۔ اللہ رب العزت کی حمد و ثنا اور تسبیح و تقدیس جملہ مخلوقات بیان کرتی ہیں۔ آیتِ کریمہ: و ان من شیئ الا یسبح بحمدہ. اس حقیقت پر دال ہے۔ نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یُسَبِّحُ لِلہ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ. (ترجمہ: جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے٬ سب اس اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں جو بادشاہ، نہایت پاکی والا، بہت عزت والا، بڑا حکمت والا ہے)
یعنی آسمانوں اور زمین میں موجود تمام چیزیں اللہ رب العزت کی ہر نقص و عیب سے پاکی بیان کرتی ہیں، جس کی شان یہ ہے کہ وہ حقیقی بادشاہ، انتہائی پاکی والا، عزت والا اور حکمت والا ہے۔ خداے قادر و قیوم جملہ مخلوقات کا خالق و مالک اور ان کا منعم و محسن ہے اور اپنے خالق و منعم کی حمد و ثنا اور تسبیح و تقدیس بیان کرنا ایک فطری امر ہے۔ تسبیح٬ حمد ہی کی ایک شکل ہے۔ تسبیح کی تین قسمیں ہیں:
( ۱ ) خلقت کی تسبیح:
وہ یہ ہے کہ ہر شے کی ذات اور اس کی پیدائش خالق و قدیر رب تعالیٰ کی قدرت، حکمت، اس کی وحدانیّت اور ہر نقص و عیب سے اس کے پاک ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
( ۲ ) معرفت کی تسبیح:
وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے مخلوق میں اپنی معرفت پیدا کردے اور وہ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرے۔
( ۳ ) ضروری تسبیح:
وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک جَوہَر پر اپنی تسبیح جاری فرماتا ہے اور معرفت کے بغیر ہی ہر جَوہَر اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔
حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی حمد گوئی "تسبیحِ معرفت" اور "تسبیحِ خلقت" کے زمرے میں آتی ہے۔ آپ اپنے وقت کے ولیِ کامل٬ مردِ قلندر اور عارفِ باللہ تھے۔ آپ کی دور بیں نگاہیں کائنات کی جملہ اشیا میں معرفتِ خداوندی کا مشاہدہ کرتی تھیں۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ "اہلِ دل اور اہلِ نظر کی نگاہ میں کثرت عین وحدت ہے اور بندوں کو ہر حال میں اللہ جل مجدہ کا قرب و وصال حاصل ہے۔ اس وسیع کائنات کو واجب اور ممکن دونوں جہت سے انوارِ الہٰی و تجلیاتِ ربانی کا نظارہ ہو رہا ہے۔" اشعار دیکھیں کہ بلبلِ باغِ معرفت کس طرح نغمہ سرائی کر رہا ہے:
مشہور ہو رہا ہے عز و جلال تیرا
جاری ہے ہر زباں پر قال و مقال تیرا
تو پردۂ تعین رخ سے اگر اٹھا دے
عالم کو محو کر دے حسن و جمال تیرا
آنکھوں میں عاشقو کی شکلوں میں مہ رُخوں کی
جلوہ دکھا رہا ہے یہ خط و خال تیرا
گاہے بشکلِ ممکن گاہے برنگِ واجب
نظّارہ ہو رہا ہے اے با کمال تیرا
نظروں میں اہلِ دل کی کثرت ہے عین وحدت
ہر حال میں ہے حاصل قرب و وصال تیرا
خود کر کے عشق اپنا پردے میں کیوں چھپا ہے
شاہد ہے مجلسوں میں یہ وجد و حال تیرا
مل جائے جامِ وحدت گر واعظا تجھے بھی
مٹ جائے دل سے تیرے یہ قیل قال تیرا
مرنے سے اپنے پہلے مر کر ہوا جو واصل
حاصل ہوا اُسی کو پیارے وصال تیرا
جب تجھ میں اشرفؔی ہے اور اشرفؔی میں تو ہے
پھر کیا سمجھ میں آئے ہجر و وصال تیرا
مندرجہ ذیل کلام کے مطلع سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعتیہ کلام ہے، لیکن مطلع کے بعد آخر تک جتنے اشعار ہیں٬ وہ رنگِ حمد میں رنگے ہوئے ہیں۔ شاعر نے ان اشعار کے ذریعے خدائے قادر و قیوم کی عظمت و کبریائی، اس کی عظمت و رفعت اور اس کی معرفت میں اپنی حیرانی ظاہر کرنے کے ساتھ ایک شعر میں "فلسفۂ وحدت الوجود" کی طرف بھی اشارہ کیا ہے:
وہ ترا جمالِ خدا نما جو خدا خدا نظر آ گیا
بہ خدا خدا نظر آ گیا بہ خدا خدا نظر آ گیا
جو فنا کے بعد بقا ہوئی تیری ذات جلوہ نما ہوئی
یہ وجودِ فانی سر بسر مجھے شکلِ لا نظر آ گیا
جسے غیر کہتے تھے ہے خدا٬ نہ وجود اس کا کہیں ملا
اسی اپنی صورت و شکل میں وہ مرا خدا نظر آ گیا
کہوں کیا کہ کون ہوں کون میں جو کہوں کہ میں ہوں نہ میں ہوں میں
یہ سمجھ میں آیا کہ تُو ہے تُو جو حجاب والا نظر آ گیا
وہی ایک مہرِ منیر ہے وہی آپ اپنا نظیر ہے
وہ ہر ایک شکل میں جلوہ گر مجھے خود نما نظر آ گیا
یہی اہلِ راز کی بات کہ نہیں سوائے ظہورِ حق
اُسے خود نمائی کا شوق تھا جو یہ ما سوا نظر آ گیا
جسے لوگ کہتے تھے اشرفؔی اُسے چشمِ غور سے دیکھ کر
لگے کہنے اہلِ نظر یہی کہ یہ کیا تھا کیا نظر آ گیا
قرآنِ مقدس میں اللہ جل مجدہ کی ذات و صفات کی معرفت سے متعلق جن حقائق کی ترجمانی کی گئی ہے٬ حضرت اشرفؔی میاں نے "صنعتِ اقتباس" کی صورت میں ان کی بڑی اچھی توضیح و تصویر پیش کی ہے۔ مثلاً:
کوئی ہم سے جو اس کا پتہ پوچھے بتلائیں گے ہم یہ پردہ سے
"فی انفسكم، فی انفسكم، فی انفسكم٬ فی انفسكم"
کیوں ڈھونڈتے پھرتے ہو عالم میں کیوں اس کی تلاش میں ہوتے ہو گم
"هو معكم، هو معكم، هو معكم، هو معكم"
جب ”من کان للہ" ہوئے پھر ”کان اللہ لہ" ہوئے
لا ریب لکم ٬ لا ریب لکم ٬ لا ریب لکم ٬ لا ریب لکم
یہی کہتا ہے اشرفؔیِ مسکیں نہیں خالی ہے اس سے کوئی کہیں
” احد منکم٬ احد منکم٬ احد منکم٬ احد منکم"
وہ تو پاس تھے پر دیکھا ہی نہیں لو چپکے سے ہم کو سنا بھی چلے
"انا اقربکم٬ انا اقربکم ٬ انا اقربکم٬ انا اقربکم"
” فی انفسکم ” سے ہم نے جانا
جو کچھ ہے وہ اللہ ہی ہے
فارسی و اردو کے علاوہ آپ نے ہندی زبان میں بھی حمد گوئی کے نمونے پیش کیے ہیں۔ یہ کلام "ہولی" کی ہیئت میں ہے اور اسی انداز و اسلوب کو اختیار کیا گیا ہے۔ یہ حمد سادگی و صفائی کا انمول نمونہ ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جہاں آپ نے "وحدت کی پچکاری" جیسی ترکیب استعمال فرمائی ہے٬ اس کا جواب نہیں۔
آئے بسنت ” رَوْحٌ رَیْحَانٌ"٬ پھول رہی پھلواری
” فِیْ اَنْفُسِکُمْ" کا رنگ بنا ہے، وحدت کی پچکاری
” اِنّیْ اَنا للہُ" کی دھوم مچی ہے٬ بھیج گئی تن ساری + بھلا کیسو رنگ جماری
آئے بسنت
"نَحْنُ اَقْرَبْ" کون سناوے، مل گئے شام بہاری
"لاَ اِلہٰ غیری" سب بولیں، اچرج پھاگ مچاری + سیّاں تورے بلہاری
آئے بسنت
"ثَمَّ وَجْہُ اللہ" کی ہولی، گاوت ہیں نر ناری
احمد نام کا دھر کے پردہ "مَنْ رَآنِیْ" ہے پکاری، سکھی اس بچن کے واری
آئے بسنت
جامِ "سَقَاھُمْ" پی کے اشرفؔی، دوو جگ من سے بساری
” اِنّیْ اَنَا" سب بھول گیو ہے ہو ہو کہت پکاری + بھئی کیسی متواری
آئے بسنت
***
طفیل احمد مصباحی کی گذشتہ نگارش : قاری میکائیل ضیاؔئی کا نعتیہ مجموعہ مرحبا: چند ادبی خصوصیات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے