ملک العلما سیمانچل میں (آخری قسط)

ملک العلما سیمانچل میں (آخری قسط)

مفتی محمد شہروز کٹیہاری

ملک العلما سیمانچل میں (پہلی قسط)
ملک العلما سیمانچل میں (دوسری قسط)
ملی خدمات:
۱۹۲۲ء سے ہی بہار مدرسہ اگزامیشن نامی ایک بورڈ قائم تھا۔ وسطانیہ تا فاضل امتحانات منعقد کروانا اور نتائج کا اعلان اس بورڈ کی ذمہ داری تھی۔ جناب غلام سرور کے وزارت تعلیم کے زمانے میں غالباً ۱۹۷۹ء میں اگزامیشن بورڈ تحلیل ہوکر بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی. مولانا عبدالعلیم علمی جناب غلام سرور کی سفارش سے اس بورڈ کے ممبر منتخب ہوئے۔ اور دو ٹرم تک ممبری کا موقع ملا۔ اس دورانیہ میں سیکڑوں مدارس کا الحاق بورڈ سے کرایا۔ ۱۹۶۲ء میں بہادر گنج علاقہ میں ایک کتب خانہ بنام علمی کتب خانہ قائم فرمایا۔ رجسٹر حاضری طلبہ و اساتذہ تیار کرکے شائع کیے۔ یہ رجسٹر بہار بورڈ سے ملحقہ مدارس میں رائج ہیں۔ متعدد مذہبی اورعلمی کتابیں بھی شائع فرمائیں۔
تصانیف:
[۱]علمی ترجمہ و تفسیر عم پارہ:
پارہ عم کی عام فہم زبان میں تفسیر اور ترجمہ درج ہے. یہ ترجمہ و تفسیر اس حیثیت سے منفرد ہے کہ پہلے ہر ایک لفظ کا جدا جدا ترجمہ پھر مربوط ترجمہ لکھنے کے بعد مختصر تشریح کردی گئی ہے. بہ قول مصنفِ کتاب یہ کتاب بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے وسطانیہ میں داخل نصاب ہے۔ علمی کتب خانہ بہادر گنج سے مطبوع ہے۔
[۲] علم الاوقات علمی:
خصوصاً سیمانچل اور عموماً صوبہ بہار و بنگال اور جھار کھنڈ کے لیے اوقات سحر و افطار و صلوٰۃ پر مشتمل یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ علمی کتب خانہ بہادر گنج سے چھپی ہوئی ہے۔
[۳]علمی جنتری:
۱۹۶۴ء سے جنتری لگاتار شائع ہورہی ہے. جو ایک کلینڈر کے ساتھ کثیر معلومات کا خزانہ بھی ہے۔ دعاؤں پر مشتمل ’’قرآنی ادعیہ‘‘ اور ’’سفرالحیات‘‘ نام سے خود نوشت بھی آپ کے قلمی رشحات ہیں۔ شاعری بھی کرتے ہیں اور ’’علمی‘‘ شاعرانہ نام ہے۔ دوبارحج کی سعادت بھی ملی. مولانا ابھی بہ قید حیات ہیں. ۸۵؍ سال کی عمر پار کرچکے ہیں. اس وقت بھی آسانی سے چل پھر لیتے ہیں۔ بلکہ اچھی محنت بھی کرلیتے ہیں۔ ان کا ذکر ملک العلما کے تلامذہ میں صرف ڈاکٹر اعجاز انجم لطیفی نے کیا ہے، وہ بھی صرف نام پر اکتفا کیا گیا ہے۔حالات محفوظ ہوں، اس نیت سے میں نے کچھ طویل کردیا۔
حضرت مولانا عبدالقادر رشیدی دام ظلہ:
مولانا عبدالقادر رشیدی، چندرگاؤں چکلہ، بائسی پورنیہ بہار کے باشندہ ہیں. اس وقت چوپڑا بائسی میں مقیم ہوگئے ہیں۔ مولانا صبغۃ اللہ مصباحی رشیدی کے والد گرامی ہیں. ۱۹۴۰ء میں ان کی پیدائش ہوئی۔ بچپن ہی میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ مدرسہ جامع العلوم شرفیہ چندرگاؤں میں ہدایۃ النحو تک کی تعلیم حاصل کی، پھر مدرسہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار آگئے۔ کافیہ کی جماعت سے لے کر فضیلت تک کی تعلیم بحرالعلوم ہی میں حاصل کی۔ حضور محدث اعظم ہند و دیگر معزز علما کے ہاتھوں سر پر دستار فضیلت سجائی گئی۔
ان پر ملک العلما کی شفقتیں خود ان کی زبانی پڑھیے:
’’حضرت ملک العلما کاخاص کرم اس فقیر پر تھا، خدمت کا موقع عنایت فرماتے۔ سفر و حضر میں معیت سے نوازتے، کہیں مریدی کے سلسلے میں جانا ہوتا تو ہمراہی سے مشرف فرماتے۔ اسٹیشن کا صاف پانی پیتے، فقیر روزانہ صبح کو ایک گھڑا پانی لاتا، جو چوبیس گھنٹے کے لیے کافی ہوتا‘‘ [بالمشافہ گفتگوپر مبنی] ایک سال کشن گنج میں فراغت کے بعد رہے، پھر ۱۹۶۱ء میں مدرسہ شمسیہ سہی پور اعظم نگر، کٹیہار آگئے۔ ۱۹۷۶ء میں یہاں کے صدر مدرس بنے۔ ۲۰۰۲ء میں سبک دوش ہوگئے۔ مجمع البحرین حضرت مفتی محمد عبیدالرحمٰن رشیدی قدس سرہ کے حکم پردارالعلوم طیبیہ معینیہ درگاہ شریف منڈواڈیہہ بنارس آگئے. اس وقت پیرانہ سالی کی وجہ سے گھر میں تشریف فرماہیں۔
مفتی محمد عبدالجبار اشرفی قدس سرہ:
شیخ پورہ نستہ، کدوا، کٹیہار کے باشندہ تھے حضرت مولانا مفتی عبدالجبار اشرفی صاحب، ملک العلما کے شاگرد ہیں۔ مدرسہ بحر العلوم کٹیہار کی تعلیم سے پہلے فیاض المسلمین بائسی میں بھی رہے۔ جامعہ نعیمیہ مراد آباد سے فارغ التحصیل تھے۔ جامعہ نعیمیہ میں دوران تعلیم معین المدرسین بھی رہے۔ فراغت کے بعد دارالعلوم محی الاسلام بجرڈیہہ بائسی پورنیہ، مدرسہ اظہارالعلوم ماچھی پور، بھاگل پور، جامعہ حمیدیہ ریوڑی تالاب بنارس میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد مدرسہ حمیدیہ پرانا بالو گنج میں مدرس ہوئے۔ بعد میں صدر مدرس کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ ۲۰۱۸ء کو حضرت کا وصال ہوگیا۔ سرکار کلاں حضرت سیدشاہ مختار اشرف اشرفی قدس سرہ سے بیعت حاصل تھی۔ قطب المشائخ حضرت سید شاہ قطب الدین اشرف اشرفی قدس سرہ سے خلافت و اجازت حاصل تھی۔ [بیان حضرت مولانا خورشید صاحب خلف مفتی عبدالجبار]
حضرت علامہ نصیرالدین اشرفی قدس سرہ:
ضلع کشن گنج، تھانہ پوٹھیہ، موضع پناسی حضرت علامہ نصیرالدین قدس سرہ کا مولد و مسکن تھا۔ ۱۸۷۸ء میں پیداہوئے۔ پناسی کے مکتب میں حافظ واجد علی صاحب [نابینا] اور حافظ و قاری عبدالرحمٰن صاحب سے ناظرہ و حفظ قرآن مکمل کیا۔ اول الذکر ضلع جون پور یوپی اور دوم ضلع دربھنگہ بہار سے رہنے والے تھے۔پناسی میں خدمت دین کی غرض سے مقیم تھے۔نحومیر تک کی تعلیم مولانا عبدالرحمٰن صاحب سے حاصل کی۔دربھنگہ کے کسی مدرسے میں بھی چھ ماہ تک رہے۔ وہاں سے مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں داخل ہوئے۔ یہاں ملک العلما علم و فضل کے گوہر لٹارہے تھے. ان سے خوب کسب فیض کیا۔ پھر مراد آباد پہنچ کر امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے دوسرے خلیفہ صدرالافاضل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ کی بارگاہ میں ایک سال رہے۔ حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں نعیمی قدس سرہ کی درس گاہ مدرسہ مسکینیہ دھوراجی گجرات میں لگی ہوئی تھی۔ علامہ نصیرالدین ان کی بارگاہ میں گجرات پہنچ گئے۔ تعلیم کی تکمیل و دستار فضیلت یہیں پر ہوئی. بعد فراغت پانجی پاڑہ دیناج پور، اسلام پور میں بھی رہے، مدرسہ عارفیہ چنامنا میں تقریباً ۴۰؍برس تک بڑی فیاضی سے علم کے گوہر لٹائے۔ شمس العلما مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی نے اسی ادارے میں آپ سے کسب فیض کیا۔ یہاں سے سبک دوشی کے بعد اپنے گاؤں پناسی کے آس پاس ایک ادارہ دارالعلوم اشرفیہ کی بنیاد ڈالی. ۱۹۹۷ء میں آپ کا وصال ہوگیا۔ ایک سو بیس سال کی لمبی عمر پائی۔ مجدد سلسلہ اشرفیہ اعلی حضرت اشرفی میاں سید شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ سے بیعت و خلافت رکھتے تھے۔ [کاملان پورنیہ دوم۔ ص:۳۳۸]
حضرت مولانا عبدالحکیم اشرفی علیہ الرحمہ:
موضع آشیانی اوربھری سے مغرب میں پربھیلی نام سے ایک گاؤں بہت مشہور ہے. اشرف الاولیا سید مجتبیٰ اشرف اشرفی قدس سرہ کا یہاں دورہ خوب رہا ہے۔ بلاک کدوا، ضلع کٹیہار ہے۔ حضرت مولانا عبدالحکیم کا تعلق اسی موضع پربھیلی سے ہے. شیخ فریدالدین مرحوم کے گھر ۱۹۴۲ء میں پیداہوئے۔ گھریلو تعلیم کے بعد جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہارمیں داخل ہوئے۔ متوسطات تک کی تعلیم یہیں حاصل کی۔ ملک العلما کے خاص شاگرد حضرت مولانا عبدالعلیم علمی، بھوپلا، کشن گنج کے بہ قول مولانا عبدالحکیم نے ملک العلما سے بھی متعدد کتابیں پڑھیں۔ پھر جامعہ منظر اسلام میں داخل ہوئے، ۱۹۵۹ء میں وہیں سے فراغت حاصل کی۔ ابتداً گانگی ہاٹ، بہادر گنج کشن گنج میں خانقاہ شرف الدین لطیفی میں تعلیم دی، ضلع سیوان بہار کے مدرسہ جامعۃ العلوم کے طلبہ کو بھی سیراب کیا۔ مدرسہ جامع العلوم شرفیہ چندرگاؤں چکلہ میں بحال ہوئے۔ صدارت کا منصب پاکر سبک دوش ہوئے۔ ۲۰۰۴ء میں آپ کا وصال ہوا۔ ’’عدل حکیم درجواب ظلم عظیم‘‘ آپ کی قلمی کاوش ہے۔[کاملان پورنیہ اول ۔ص: ۴۲۹]
حضرت مولانا عبدالرحمٰن اشرفی قدس سرہ:
بارسوئی ریلوے جنکشن اور سالماری اسٹیشن کے بیچ مکریا جنکشن واقع ہے، مکریا سے قریب بگڈار موضع آباد ہے۔ تحصیل اعظم نگر ضلع کٹیہار ہے، حضرت مولانا عبدالرحمٰن اشرفی صاحب اسی بگڈار کے سپوت ہیں۔۱۹۴۱ء میں پیدا ہوئے والد گرامی منشی محمد مفیض الدین دین دار شخص تھے۔ ان سے گھریلو تعلیم پائی، مدرسہ عثمانیہ لال گنج ملکی پورنیہ میں حصول تعلیم کی غرض سے داخل ہوئے۔ فارسی کی تعلیم وہاں سے حاصل کی۔ پھر مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار پہنچے. ملک العلما و دیگر اساتذہ سے خامسہ تک تعلیم حاصل کی۔ آگے کی تعلیم مدرسہ مظہر اسلام بریلی شریف سے حاصل کی۔ دستار فضیلت منظر اسلام بریلی شریف میں ہوئی۔ حضرت مولانا شاہ محمد عرفان رشیدی [بائسی] قدس سرہ۔ حضرت مولانا مقبول حسین قادری، سنگھیا ٹھاٹھول ان کے رفقا میں تھے۔ محدث اعظم ہند قدس سرہ سے بیعت رکھتے تھے۔ فراغت کے بعد منظر اسلام ہی میں درس و تدریس کی قندیل جلائی۔ پھر مدرسہ اصلاح المسلمین رگھوناتھ پور، بارسوئی کٹیہار میں بحال ہوئے۔ تقریباً ۲۵؍سال کے بعد صدر مدرس کے عہد سے سبک دوش ہوئے۔ [کاملان پورنیہ اول۔ص: ۴۴۵]
حضرت مولانا اسرار احمد صاحب قدس سرہ:
موضع چوراکٹی، کوچا دھامن، ضلع کشن گنج کے رہنے والے تھے۔ مولانا عبدالعلیم علمی کے ہم زلف بھی تھے۔مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار میں دو چند سال کے بعد ملک العلما نے درجہ میزان الصرف میں داخلہ بند فرما دیا تھا، درجۂ ہدایۃ النحو تا فضیلت کے طلبہ ہی کو داخلہ ملتا تھا۔ مگر جو طالب علم اپنی پوری کفالت خود سے اٹھانے پر قادر ہو، بشرط کفالت خود اس کا داخلہ ہوجاتا۔ ایسے طلبہ کو مولانا محمد یوسف پٹنوی صبح دس بجے سے قبل یا پھر شام کو چار بجے کے بعد وقت دیتے۔ خود کفیل طلبہ دلکش ہوٹل میں کھانا کھاتے اور مدرسہ میں قیام کرتے۔ مولانا اسرار صاحب ان ہی میں سے ایک تھے۔منظر اسلام سے فراغت پائی۔ بہار بورڈ سے ملحق شدہ ایک مدرسہ میں اپنے علاقہ ہی میں منسلک ہوئے۔ سبک دوشی سے قبل ہی وصال ہوگیا۔ ان کے فرزند مولانا نور قطب عالم صاحب ابھی باحیات ہیں۔ [روایت مولانا عبدالعلیم علمی]
ملک العلماکے کچھ تلامذہ جن کی تفصیل دستیاب نہ ہوسکی۔
٭ مولانا غیاث الدین صاحب مہتمم و مدرس اول مدرسہ حنفیہ موضع ہفنیہ پورنیہ بہار۔ ٭جناب مولانا الحاج انعام الرحمٰن صاحب صدیقی شمسی، موضع کھوپڑا، پوسٹ بیل باڑی ضلع کٹیہار بہار۔ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں ملک العلما کی شاگردی اختیار کی تھی۔[جہان ملک العلما۔ ص:۴۲۲]
٭ مولانا صادق صاحب مرحوم موضع چوراکٹی، کوچا دھامن، کشن گنج۔ ٭مولانا زین الدین بھورسیہ، چندوارا، بہادرگنج، کشن گنج۔ ٭مولانا غلام یسین صاحب ابن جواب الدین، متھورا پور، بائسی پورنیہ بہار۔ ٭مولانا محفوظ عالم صاحب ابن قاری مشیت اللہ صاحب چندر گاؤں چکلہ، بائسی پورنیہ بہار۔ ٭مولانا اسماعیل صاحب دھولا بھیٹہ، علاقہ گوال پوکھر، ضلع اتردیناج پور بنگال ٭مولانا مقیم الدین صاحب ساکن ریلوے اسٹیشن شمسی کے قریب موضع گورکھپور مالدہ بنگال۔ ٭مولانا عبدالعلی گانگی، کشن گنج، بہار۔ ٭مولانا نعمان صاحب [مولانا عبد القادر رشیدی] ٭حضرت مولانا محمد سلیمان شاہدی علیہ الرحمہ موضع بلیہاریور، پوسٹ چوکی ہری پور، کدوا، کٹیہار۔ [سابق صدرمدرس مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار]
ملک العلما سیمانچل کے علاقوں میں:
کٹیہار شہر سے قرب و پاس کے علاقوں میں کوئی پروگرام ہوتا۔ ملک العلما کو دعوت ہوتی تو عموماً بہ نفس نفیس شرکت فرماتے. مگر کشن گنج پورنیہ وغیرہ دور دراز علاقوں میں پروگرام اگر بڑا ہوتا۔شدید اصرار ہوتا، عقائد و معمولات کی بات آتی تو شرف شرکت سے نوازتے ورنہ بڑی جماعت کے طلبہ یا پھر بحرالعلوم کے دیگر اساتذہ کوبھیج دیتے. جن علاقوں کوشرف شرکت سے نوازا چند یہ ہیں۔
گانگی:
نٹوا پارہ بلاک بہادر گنج، ضلع کشن کے پاس گانگی موضع ہے، حضرت مولانا شرف الدین لطیفی مرید و خلیفہ حضرت مولانا شاہ حفیظ الدین لطیفی خانقاہ رحمٰن پور کی خانقاہ یہیں ہے، اسی خانقاہی مدرسے کے اجلاس میں ملک العلما کی شرکت رہی۔
شہر کشن گنج:
شہر کشن گنج میں ایک جلسہ سیرت النبی کے عنوان سے معنون تھا۔ ملک العلما کی یہاں بھی شرکت ہوئی۔
چندر گاؤں چکلہ:
مدرسہ جامع العلوم شرفیہ چندر گاؤں چکلہ میں بھی ایک اجلاس میں شرکت فرمائی۔
چمنی بازار شریف پورنیہ:
ملک العلما کو خلافت و ارادت سلسلہ رضویہ سے حاصل تھی مگر سلسلۂ رشیدیہ سے بھی فیض یافتہ تھے۔حضرت مولانا شاہ ایوب ابدالی رشیدی سے خلافت حاصل تھی۔ انھوں نے ہی آپ کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔ اس لگاؤ کی وجہ سے چمنی بازار شریف پورنیہ میں کئی بار حاضری دی۔ وہاں کی مخطوطات کا مطالعہ فرماتے۔ ملک العلما کی بڑی خوبی یہ تھی ضعف و نقاہت کے باوجود موٹی موٹی کتابوں کا لیٹے لیٹے گھنٹوں مطالعہ فرماتے۔
موضع بینی باڑی:
قیام بحرالعلوم کے درمیان جمعہ کے دن ملک العلما اپنے شاگرد مولوی عبداللہ اچھے پوری کے ساتھ کٹیہار سے بذریعہ ٹرین سودھانی اترے، وہاں سے بیل گاڑی کے ذریعہ بینی باڑی میں شاہ حکیم لطیف الرحمٰن رشیدی قدس سرہ کے گھر تشریف فرما ہوئے۔ جمعہ کی نماز ملک العلما نے ہی پڑھائی۔ بینی باڑی اس وقت دریا شکست خوردہ ہوچکا ہے۔
سورجاپور:
متصل ریلوے اسٹیشن، سورج کمل میں علامہ عبدالحمید بستہ ڈانگی کی صدارت میں تین روزہ عظیم الشان کانفرنس بتاریخ ۱۱؍۱۲؍۱۳؍مارچ[سنہ ندارد] کو منعقد ہوا۔ اشتہار میں علماے کرام کی فہرست میں سر فہرست ملک العلما کانام اس طرح درج ہے۔ ’’آفتاب شریعت و طریقت، شفیق امت، ملک العلما، سلطان المناظرین حضرت قبلہ مولانا، مولوی ظفرالدین صاحب رضوی مدظلہ ‘‘ [کاملان پورنیہ اول نوادرات]
مداحان ملک العلما:
لگے ہاتھ سیمانچل کے ان قلم کاروں کا مختصر تعارف پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جن کے قلم سے ملک العلما کے احسانات اجاگر ہوئے۔ ان کی حیات و خدمات سے دنیا روشناس ہوئی۔
ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی:
اس سلسلے میں بڑا نمایاں نام ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی صاحب کا ہے۔ ان کا تعلق بائسی، پورنیہ بہار کے مشہور موضع تاڑاباڑی سے ہے۔ قلم کے اس بادشاہ کا قلم ادب کی چاشنی کے ساتھ بڑی برق رفتاری سے چلتا ہے۔کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جتنی تیزی سے انسان سوچتا ہے اس سے بھی زیادہ تیز ان کا قلم چلتا ہوگا۔ روانی، سلاست، جاذبیت قاری کے تجسس کو اول تا آخر برقرار رکھنے کی صلاحیت کے مالک ہیں۔ رضویات ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ملک العلما پر کام کرنے والوں میں مولانا غلام جابر شمس مصباحی پورنوی کانام بڑے سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ جہان ملک العلما، مطبوعہ انجمن برکات رضا ممبئی میں بہت زیادہ لکھنے والوں میں ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی اور حضرت علامہ مفتی ارشاد احمد ساحل سہسرامی سابق استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے نام آتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی تحریریں تاثراتی ہیں اور مفتی صاحب کا انداز محققانہ ہے۔ [جہان ملک العلما کے مرتب ڈاکٹرصاحب ہی ہیں]
ڈاکٹر اعجاز انجم لطیفی صاحب:
حضرت مولانا ڈاکٹر اعجاز انجم لطیفی دام ظلہ مادھے پور، بارسوئی، کٹیہار کی ایک مایہ ناز شخصیت ہیں۔ بہار اور یوپی کے مختلف مدارس سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد منظر اسلام سے ۱۹۸۴ء میں فراغت حاصل کی۔فراغت کے بعد وہیں کے مدرس ہوئے، اس وقت نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔ روہیل کھنڈ یونی ورسٹی سے ایم اے اور بہار یونی ورسٹی مظفر پور سے پی. ایچ. ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ متعدد مضامین کے علاوہ درجن بھر کتابوں کے مصنف ہیں۔ اپنے دادا کے نام کی نسبت سے لطیفی نام کا لاحقہ ہے۔ حضور مفتی اعظم ہند سے بیعت رکھتے ہیں۔ ملک العلما کے شاگردوں میں بھوپلا، نٹوا پارہ، بہادر گنج کشن گنج کے مولانا عبد العلیم عرف علیم الدین مالک علمی کتب خانہ بہادر گنج کا سراغ ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے ہی ملا۔ پھر جب مولانا عبدالعلیم صاحب سے ملاقات ان کے گھر پر کی تو گویا انھوں نے معلومات کاپٹارہ ہی کھول دیا اور بہت ساری گتھیاں سلجھادیں۔
حضرت مولانا خواجہ ساجد عالم لطیفی مصباحی:
خانقاہ لطیفیہ رحمٰن پور، بارسوئی کٹیہار بہار سیمانچل کی اولین خانقاہوں میں سے ہے۔ بانی خانقاہ حضرت شاہ حفیظ الرحمٰن لطیفی قدس سرہ ہیں۔ ان کے فرزند اصغر، وحید عصرخواجہ وحید اصغر قدس سرہ ہیں۔ انھی کے پوتے ہیں تاجدار علم و فن، اردو زبان و ادب کے شہ سوار حضرت مولانا خواجہ ساجد عالم مصباحی لطیفی، تحریر و قلم میں پورے خانوادے میں یکتا ہیں۔ اپنے دادا تاجدار اہل سنت حضرت علامہ خواجہ وحید اصغر قدس سرہ سے بیعت اور والد خواجہ شاہ فرہاد عالم سے خلافت رکھتے ہیں۔ درجنوں مضامین کے علاوہ نصف درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ تصانیف میں ’’حیات حفیظی‘‘ کو سب سے زیادہ اعتبارحاصل ہوا۔ مدرسہ لطیفیہ رحمٰن پور کے کل وقتی استاذ ہیں۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اصاغر نوازی میں اپنی مثال آپ ہیں۔
مفتی محمد ساجد رضا مصباحی:
نوری نگر کمات، تھانہ چکلیہ، ضلع اتردیناج پور کے باشندہ ہیں، منشی محمد حسین رضوی کے فرزند ہیں۔حفظ و قرأت سے فراغت کے بعد ۲۰۰۰ء میں درجۂ ثانیہ میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں داخل ہوئے تو فضیلت و تحقیق فی الفقہ الحنفی کے بعد ہی دم لیے۔ جامعہ صمدیہ پھپھوندشریف کے بعد اب دارالعلوم غریب نواز کشی نگر میں حکومت اترپریش سے منظور شدہ ادارہ میں خدمت دین میں مصروف ہیں۔تقریباً سو سے زائد مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ نصف درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ سہ ماہی پیغام مصطفیٰ اتردیناج پور کے مدیراعلیٰ ہیں۔ ابھی قلم میں رفتار برقرار ہے۔ ملک العلما کی تدریسی زندگی پر خوبصورت روشنی ڈالی ہے۔
مفتی محمد شبیر عالم مصباحی:
کیلا باڑی، باغ غنچہ، پوسٹ بیل باڑی، وایہ سالماری ضلع کٹیہار بہار کے جواں سال عالم دین ہیں مفتی محمد شبیر عالم مصباحی صاحب۔ والد صدیرالدین ابن سیف علی ہیں۔ ان کی سنہ پیدائش: ۱۹۸۲ء ہے۔ مدرسہ لطیفیہ خانقاہ رحمٰن پور، مدرسہ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ، ضلع مئو کے بعد جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں داخل ہوئے۔ فضیلت، قرأت سبعہ اور تخصص فی الفقہ الحنفی کی دستار حاصل کرنے کے بعد ۲۰۰۷ء میں دارالعلوم انوار مصطفیٰ رضا دھرول گجرات میں نائب صدر مدرس رہے فتویٰ نویسی بھی کرتے رہے۔ اس وقت دارالعلوم انوار رضا نوساری گجرات میں مدرس اور صدر مفتی ہیں۔حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان علیہ الرحمۃ سے بیعت رکھتے ہیں۔ شیخ الاسلام والمسلمین حضور مدنی میاں کچھوچھوی مدظلہ العالی اور پیر طریقت حضرت علامہ مفتی محمد نیر صاحب خانقاہ لطیفیہ رحمٰن پور سے خلافت حاصل ہے۔ ۲۰۱۶ء کو عمرہ کا شرف بھی حاصل کرچکے ہیں۔ ملک العلما کی جدید و قدیم علوم پر مہارت کو بڑی خوش اسلوبی سے انھوں نے بیان کیا ہے۔
مفتی ذاکرحسین اشرفی جامعی:
اعلیٰ پوکھر، کدوا، کٹیہار ان کا گھر ہے۔ جناب انعام الحق مرحوم والد بزرگ وار ہیں۔ جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ سے فراغت رکھتے ہیں۔ فراغت کے بعد سے اس وقت تک مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف میں درجات عالیہ کے مدرس ہیں۔ تذکرۂ شیخ جلال الدین تبریزی، آپ کی پہلی باضابطہ تصنیف ہے۔ شیخ اعظم سید اظہار اشرف قدس سرہ سے بیعت رکھتے ہیں۔ حضرت سید شاہ جلال الدین اشرف قدس سرہ نے خلافت عطا فرمائی۔
مفتی آل مصطفیٰ مصباحی:
تقریباً تین دہائیوں سے، فقہ و افتا، درس و تدریس اور تحریر و قلم کی دنیا میں حکومت کرنے والی شخصیت کا نام ہے مفتی آل مصطفیٰ مصباحی صاحب۔ پیدائش موضع شہجنہ گورکھپور میں ہوئی تھی جو ان کا نانیہال بھی ہے۔ آبائی وطن مشہور گاؤں بھینس بندھا ہے۔ ۱۹۹۰ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فراغت پائی اور ملک کی عظیم درس گاہ جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی کی درس گاہ میں بیٹھے ازاں دم تا ایں دم بیٹھ ہی گئے۔ سیمانچلی فقہا کی تثلیث میں مفتی محمد عبیدالرحمٰن رشید، مفتی محمد مطیع الرحمٰن مضطرؔ رضوی کے ساتھ مفتی محمدآل مصطفیٰ مصباحی کانام آتاہے۔ قومی ملی، سماجی، مذہبی درد رکھتے ہیں۔ با اخلاق اور اصاغر نواز ہیں۔
٭٭٭
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: مفتی آل مصطفٰے مصباحی اشرفی : حیات و خدمات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے