ملک العلما سیمانچل میں (پہلی قسط)

ملک العلما سیمانچل میں (پہلی قسط)

مفتی محمد شہروز کٹیہاری
موہنا ، چوکی ،کدوا کٹیہار ، بہار

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ کے درجن بھر سے زائد تلامذہ و خلفا اپنے وقت کےنابغۂ روزگار تھے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے مشن عشق و محبت کو فروغ دینے، ان کے علوم کو عام کرنے، ان کے نظریات کی تبلیغ میں ان خلفا و تلامذہ کا زبردست رول رہاہے۔ ان خلفا و تلامذہ میں ملک العلما، فاضل بہار، حضرت علامہ سید شاہ ظفرالدین بہاری قدس سرہ متعدد امتیازات سے ممتاز تھے۔ کثیر فنون پر سب سے زیادہ تصانیف کے مالک ہیں۔ رضویات کے موسس اول ہیں۔ امام احمد رضا قدس سرہ کے معتمد خاص تھے۔ اعلیٰ حضرت کے سب سے زیادہ خطوط ملک العلما ہی کے نام ملتے ہیں۔ علم توقیت میں اعلیٰ حضرت کے بعد آپ جیسا کوئی ماہر ہندستان میں نہیں تھا۔ متعدد علوم و فنون میں جومہارت آپ کوحاصل تھی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کے دیگر خلفا میں کسی کوحاصل نہیں تھی ۔صحیح البہاری [چھ جلدیں]، موذن الاوقات اورحیات اعلیٰ حضرت [چارجلدیں] ان تینوں کتابوں کے احسان تلے پورے ہندستان کے حنفی سنی علما و عوام دبے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے بعد سے اب تک ہندستانی علما کی اگر علمی کمال کے لحاظ سے فہرست تیارکی جائے تو یقینا ملک العلما کا شمار سرفہرست ہوگا۔ پورے بہار کے ساتھ خطۂ سیمانچل [کٹیہار، پورنیہ، کشن گنج اور ارریا] پر فاضل بہار کا فیضان خصوصی رہا ہے، انھوں نے اپنی دس سالہ زندگی کو سیمانچل میں کھپا کر یہاں کس کس طرح کے گل بوٹے پیدا کیے ہیں؟ ان کے اسی گوشۂ زندگی کامطالعہ قارئین تک پہنچانا ہے۔
پیدائش:
ملک العلما علامہ ظفرالدین بہاری قدس سرہ ۱۰؍محرم الحرام ۱۳۰۳ھ مطابق ۱۹؍ اکتوبر ۱۸۸۰ء کوصبح صادق کے وقت پیدا ہوئے۔ بہار کی راجدھانی پٹنہ [اب نالندہ] کا رسول پور میجر، پوسٹ بین آپ کی جاے پیدائش ہے۔ [جہان ملک العلما،ص:۱۵۴]
حضرت علامہ الحاج لعل محمد مدراسی قدس سرہ نے ۹؍ محرم الحرام روز جمعہ ۱۳۰۴ھ /۱۸؍ اکتوبر ۱۸۸۰ء تاریخ پیدائش بتائی ہے۔ مولانا لعل محمد مدراسی اعلیٰ حضرت کے سب سے زیادہ ذی ثروت خلفا میں تھے اور ملک العلما کے قریبی، اخص خاص احباب میں تھے۔ [جہان ملک العلما،ص:۱۱۰]
مفتی عزیرحسن بھاگل پوری علیہ الرحمہ تلمیذ و مرید خاص حضرت ملک العلمانے بھی ۹؍ محرم الحرام ہی تاریخ پیدائش رقم فرمائی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ مفتی عزیرحسن بھاگل پوری اورحضرت مولانا الحاج لعل محمد مدارسی نے اس وقت سوانح حیات مرتب کی تھی جب کہ ملک العلما باحیات تھے۔ بلکہ ابھی زندگی کا نصف اول ہی گزار رہے تھے. ایسے میں قرین قیاس ہے کہ ملک العلما سے پوچھ کرہی معلومات جمع کیے ہوں گے. لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اپنی تاریخ پیدائش صحیح طور پر بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہوتی ہے، زیادہ تر تعلیمی اسناد ہی کو سند تاریخ پیدائش کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مفتی اعظم ہالینڈ حضرت مولانا الحاج عبدالواحد دربھنگوی، امین شریعت ثالث ادارۂ شرعیہ، سلطان گنج، پٹنہ کے مطابق دس محرم الحرام ۱۲۹۳ھ کو ملک العلما پیدا ہوئے، والد گرامی نے’’غلام حیدر‘‘ تاریخی نام رکھا تھا۔ اس حساب سے سال پیدائش ۱۲۹۳ھ نکلتا ہے۔ [دیکھیے جہان ملک العلما، ص:۹۳۵]
نام و نسب :
گاؤں کے بعض معززین نے عبدالحکیم، بعضوں نے مختار احمد، والد ماجد ملک عبدالرزاق قدس سرہ نے محمد ظفیرالدین نام رکھا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے یا ہٹاکر ظفرالدین کیا، اسی نام سے مشہور زمانہ ہوئے۔ [جہان ملک العلما،ص:۱۱۶]
ملک العلما کا سلسلۂ نسب سید ابراہیم بن سید ابوبکر غزنی معروف بہ ملک بیا کے واسطے سے شیخ لاثانی، غوث صمدانی سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانی قدس سرہ تک ۲۹؍ واسطوں سے پہنچتا ہے۔ سید ابراہیم غزنہ سے ہجرت کرکے سلطان فیروز شاہ کے زمانے میں ہندستان آکر ہندستانی فوج میں ملازم ہوئے، ۷۵۲ھ میں قلعہ روہتاس کے ایک جنگ میں شہید ہوگئے، قصبہ بہار شریف میں ایک پہاڑی پر آپ کامقبرہ زیارت گاہ عام و خاص ہے۔ [جہان ملک العلما،ص:۱۵۵]
تعلیم و تربیت :
ملک العلماکی تعلیمی زندگی کئی بڑے شہروں میں گزری۔
پٹنہ:
دستور کے مطابق چارسال، چارمہینہ، چار دن پر حضرت شاہ چاند بابو قدس سرہ سے رسم بسم اللہ خوانی ادا کی۔ یہ غالباً ملک العلما کے والد گرامی کے پیر و مرشد تھے اور خانقاہِ کچھوچہ مقدسہ سے مجاز بیعت تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر والد ماجد سے لی۔ حافظ مخدوم اشرف میجروی سے قرآن پاک مکمل کیا۔ آگے کی کتابیں مولانا عبدالکبیر صاحب سے پڑھ کر، ننیہال موضع بین کے مدرسہ حنفیہ غوثیہ میں داخل ہوئے. یہاں تفسیر جلالین، ملا جلال، سبعہ معلقہ تک پڑھے۔ یہاں کے اساتذہ میں حضرت مولانا مہدی حسن صاحب، حضرت مولانا شیخ محمد منعم صاحب، حضرت مولانا شیخ محمد اکرم صاحب، حضرت مولانا شیخ فخرالدین حیدر صاحب، حضرت شیخ محی الدین صاحب، حضرت مولانا شیخ بدرالدین اشرف صاحب، حضرت مولانا شیخ معین اطہر صاحب، حضرت مولانا ابونعیم محمد ابراہیم صاحب اعظمی مدرس اول مدرسہ حنفیہ غوثیہ وغیرہم کے اسما آتے ہیں۔ [علیہم الرحمۃ والرضوان] [جہان ملک العلما ،ص:۱۱۱]
پھرمحب اعلیٰ حضرت قاضی عبدالوحید فردوسی کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ حنفیہ بخشی محلہ، پٹنہ میں داخل ہوئے۔ التعلیق المجلی شرح منیۃ المصلی کے مصنف، اپنے وقت کے عظیم محدث، حضرت علامہ وصی احمد محدث سورتی یہاں مدرس تھے. ان سے مسند امام اعظم اور مشکوٰۃ المصابیح کا درس لیا۔ [ایضا]
کان پور:
محدث سورتی پٹنہ چھوڑ چکے تھے۔ فاضل بہار کی علمی پیاس باقی تھی، اس لیے عازم کان پور ہوئے۔مدرسہ امداد العلوم، بانس منڈی کان پور، مدرسہ دارالعلوم، مسجد نگیان، کان پور اور مدرسہ احسن المدارس کان پور جیسے مدارس کے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ یہاں کے اساتذہ میں حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے مرید مولانا قاضی عبدالرزاق صاحب، حضرت مولانا شاہ عبداللہ قدس سرہ حضرت علامہ صوفی احمد حسن پنجابی ثم کان پور قدس سرہ ہیں۔
پیلی بھیت:
علامہ وصی احمد محدث سورتی قدس سرہ نے پیلی بھیت میں مدرسۃ الحدیث قائم فرمایا، تو آپ کان پور سے پیلی بھیت آگئے اور محدث سورتی سے حمداللہ کا درس لیا۔
بریلی شریف:
محدث سورتی کے تبلیغی دورے کثرت سے ہونے لگے، اسباق زیادہ سے زیادہ ناغہ ہونے لگے، اس لیے مدرسہ اشاعت العلوم معروف بہ مدرسہ مصباح التہذیب بریلی شریف میں داخل ہوئے۔ مولانا محمد احسن صاحب بجنوری، حضرت مولانا محمدالدین صاحب سے علمی فیض اٹھائے۔ آخرالذکر شیخ المعقولات حضرت علامہ احمد حسن کان پوری کے شاگرد رشید تھے۔ دیوبندی مکتب فکر کے مولانا محمد حسین بھی یہاں کے مدرس تھے، ان کے درس میں بھی آپ بیٹھے۔ دوران درس علم ماکان و مایکون پر ان سے بحث کرلی، اس سے طلبا کے اندر آپ کی علمی دھاک بیٹھ گئی۔
منظراسلام :
ملک العلما جب مدرسہ اشاعت العلوم میں تھے، بارگاہ اعلیٰ حضرت میں حاضری جاری تھی۔ منظر اسلام ابھی قائم نہیں ہوا تھا۔ ملک العلما نے اس کی شکایت سیدنا اعلیٰ حضرت سے کی، جس کے نتیجے میں منظر اسلام کا قیام عمل میں آیا۔ ملک العلما سب سے اول طالب علم ہوئے، علامہ حسن رضا خاں علیہ الرحمۃ والرضوان اس ادارے کے منتظم قرار پائے۔ حضرت مولانا حافظ حاجی حکیم امیراللہ صاحب بریلوی، حضرت مولانا حامد حسن صاحب ارشادی تلمیذ خاص مولانا ارشاد حسین فاروقی رام پوری، حضرت مولانا بشیر احمد صاحب علی گڑھی تلمیذ رشید حضرت مولانا لطف اللہ علی گڑھی، منظر اسلام کے اساتذہ منتخب ہوئے۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ باضابطہ منظراسلام کے مدرس نہ تھے. مگر مسلسل ڈھائی سال تک ظہر کے بعد ملک العلما کو بخاری شریف کا درس دیا۔ ملک العلما کے ساتھ دوسرے طلبا، علما اور عوام شریک درس ہوتے، مگر درس گاہ خاص ملک العلما کے لیے لگتی۔ پھر عصر کے بعد کا وقت بھی ملک العلما کو دیا اور تحریر اقلیدس، تصریح، شرح چغمینی اور علم توقیت پڑھاتے۔ یہیں تک بس نہیں، عشا کے بعد کا وقت بھی رسالہ قشیریہ، علم تکسیر، جفر و ہیئت وغیرہ کے لیے عطا فرمایا۔ اتنی عنایتوں اور محبتوں سے نوازا کہ کندن بن گئے۔
دستارفضیلت:
ملک العلما منظر اسلام کے پہلے طالب علم تھے. بلکہ منظر اسلام کے سبب تاسیس بھی تھے. ۱۳۳۵ھ میں ایک جلسۂ عام میں خانقاہ ردولی شریف کے سجادہ نشیں حضرت مخدوم شاہ التفات احمد قدس سرہ کے دست اقدس سے، دیگر علما کی موجودگی میں آپ کے سر پر دستار فضیلت سجائی گئی۔ مدرسہ منظر اسلام کی یہ پہلی رسم دستارتھی۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے اسی اسٹیج سے آپ کو ملک العلما اور فاضل بہار کا خطاب بھی عطا فرمایا، مرید تو پہلے ہی اعلیٰ حضرت سے ہوچکے تھے. آج اجازت و خلافت بھی عطا فرمائی. مزید ملک العلما کے علم و فضل کی گواہی اعلیٰ حضرت اپنے ایک خط میں یوں دیتے ہیں:
’’مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ سنی خالص مخلص، نہایت صحیح العقیدہ، ہادی مہدی [۲] عام درسیات سے بفضلہ تعالیٰ عاجز نہیں [۳] مفتی ہیں [۴] مصنف ہیں [۵] واعظ ہیں [۶] مناظرہ بعونہ تعالیٰ کرسکتے ہیں [۷] علماے زمانہ میں علم توقیت سے تنہا آگاہ ہیں [جہان ملک العلما، ص: ۳۴۶]
تصانیف:
ملک العلما کی تصنیفات ستر سے زائدہیں، کچھ مطبوعہ ہیں باقی سب طباعت کے انتظار میں ہیں۔ الجامع الرضوی معروف بہ صحیح البہاری اور موذن الاوقات کی علمی دھمک غیروں کے یہاں بھی سنائی دی اور حیات اعلیٰ حضرت چار جلدوں میں لکھ کر سارے سنی رضوی پر احسان فرمایا۔ صاحب زادہ ملک العلما پروفیسر مختار الدین احمد آرزو سابق صدر شعبۂ عربی مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ نے ’’حیات ملک العلما‘‘ میں ستر کتابوں کی فہرست مختصر تعارف کے ساتھ درج فرمائی ہے۔ مگر ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی پورنوی خواجہ علم وفن خواجہ مظفر حسین رضوی قدس سرہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
’’ملک العلما کی تصانیف کی مطبوعہ فہرست میری نظر سے گزری ہے جس میں ایک سو کتابوں کے نام درج تھے۔ فہرست کسی کتاب کے آخر میں چھپی تھی۔ ’’مختارنامہ‘‘ مطبوعہ علی گڑھ سے پتا چلتا ہے کہ ڈیڑھ سو کتب و رسائل کے مصنف تھے حضورملک العلما۔ ’’مختارنامہ‘‘ کے مرتبین ہیں ڈاکٹر خورشید اور میر الٰہی ندیم علی گڑھ. [جہان ملک العلما، ص:۴۷۲]
تدریسی خدمات :
ویسے تومدرسہ حنفیہ بخشی محلہ، پٹنہ سے لے کر بریلی شریف تک جہاں بھی آپ متعلم رہے، نیچے درجے کے طلبا کو پڑھاتے بھی تھے۔ مدرسہ منظر اسلام میں تو باضابطہ معین المدرسین تھے۔ فراغت کے بعد پوری زندگی تدریس میں گزری۔ مختلف مقامات تدریس یہ ہیں:
بریلی شریف:
فراغت کے بعد مدرسہ منظر اسلام میں چار سال تک مدرس رہے اور فتویٰ نویسی میں امام احمد رضا قدس سرہ کا ہاتھ بٹاتے رہے۔
شملہ:
امام احمد رضا قدس سرہ کے حکم پرشملہ تشریف لے گئے اور خطابت و امامت کا منصب سنبھالا۔
آرابہار:
شملہ میں ایک ہی سال رہنا ہوا، وہاں سے مدرسہ حنفیہ فیض الغربا آرا، بہار آگئے اور کئی سال تک یہاں زینت درس گاہ رہے۔
پٹنہ:
مسٹر سید نورالہدیٰ ڈسٹرک شیشن جج نے اپنے والد ماجد سید شمس الہدیٰ کے نام مدرسہ اسلامیہ، شمس الہدیٰ قائم کیا، توملک العلما یہاں کے صدر مدرس بحال ہوئے۔
سہسرام:
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ میں تقریباً چار سال تدریس کے بعد سہسرام کے مدرسہ عالیہ خانقاہ کبیریہ، سہسرام چلے گئے۔
پٹنہ:
۱۳۳۸ میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ حکومت بہار کی نگرانی میں آگیا تو ملک العلما دوبارہ سینئر مدرس کے عہدے پر بلائے گئے۔ بہت دنوں تک سینئر مدرس ہی رہے۔ ۱۹۴۸ء میں صدر مدرس بنے. ۱۹۵۰ء میں سبک دوش ہوگئے۔ اپنے گھر ظفر منزل میں مقیم ہوگئے۔
کٹیہار:
حانقاہ رحمٰن پور، تکیہ شریف، بارسوئی، کٹیہار میں واقع ہے۔ بانی خانقاہ مولانا شاہ حفیظ الدین لطیفی قدس سرہ ہیں۔ سید شاہ لطیف علی نوراللہ مرقدہ سابق سجادہ نشین درگاہ سید شاہ رکن الدین عشقی کے مرید و خلیفہ ہیں۔ اسی پاک نسبت سے ’’لطیفی‘‘ شاعرانہ تخلص کرتے تھے. مدرسہ لطیفیہ خانقاہ رحمٰن پور تکیہ شریف کے بانی مبانی بھی وہی ہیں. ان کے شاگرد و خلیفہ مولانا عابد حسین چنڈی پوری اسی مدرسے میں مدرس تھے. کشن گنج کے دو طالب مولوی منور حسین اور مولوی عبدالرزاق اسی مدرسے میں مولوی عابد حسین کے شاگرد تھے۔ یہ دونوں اعلا تعلیم کے حصول کے لیے بریلی شریف پہنچے، مگر بریلی شریف میں مطبخ کا انتظام نہ تھا۔ طلبا یا تو امامت کرتے یا پھر کسی کے گھر جاگیر لگتی۔ ان دونوں لڑکوں کے لیے جاگیر کا انتظام نہیں ہوسکتا اور دونوں امامت کرنے پر تیار نہ ہوئے، بالآخر دونوں کا داخلہ نہ ہوا۔ دونوں رحمٰن پور واپس آئے۔ مولانا عابد حسین چنڈی پوری نے اپنی جیب خاص کے صرفے سے دونوں کو دارالعلوم دیوبند پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔ اسی سال شاہ حفیظ الدین لطیفی قدس سرہ کا وصال ہوگیا۔ واضح رہے کہ شاہ حفیظ الدین قدس سرہ اہل سنت کے زبردست موید تھے۔ ۱۳۱۸ھ میں پٹنہ میں تحریک ندوہ کے خلاف جلسہ میں سیمانچل کی قیادت و نمائندگی آپ ہی نے کی تھی۔ تقویۃ الایمان کو مخرب الایمان آپ قرار دے چکے تھے۔جب دونوں مولوی دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوکر آئے تو مولوی عابدحسین نے کٹیہار شہر میں دارالعلوم لطیفی نام سے ایک عظیم الشان ادارہ قائم کیا۔ اہل سنت مولوی عابدحسین کوسنی سمجھتے تھے، اس لیے بڑھ چڑھ ان کا ساتھ دینے لگے، مولانا عابد حسین نے مولوی منور حسین کو دارالعلوم لطیفی کاشیخ الحدیث اور مولوی عبدالرزاق کو نائب شیخ الحدیث مقرر کیا۔ اہل سنت میں اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لے کئی سنی علما کو بھی مدرس رکھ لیا۔کل ملاکر نو اساتذہ منتخب ہوئے۔ خانقاہ رحمٰن پور کے مخدوم شرف الہدیٰ اور خواجہ وحید اصغر مولوی عابد حسین کی اس حرکت پر سخت برہم ہوئے۔ مولوی عابدحسین چنڈی پوری نے بجائے دیوبندی اساتذہ کودارالعلوم لطیفی سے برخواست کرنے کے، خود ہی مدرسہ لطیفیہ کو چھوڑ دیا۔ یہاں کے مذہبی حضرات مولانا عابدحسین کے اندرونی خیالات سے واقف ہوچکے تھے۔ اور کافی بے چین بھی تھے. مگر عوام مولوی عابد حسین کو خانقاہ رحمٰن پور کا نمائندہ ہی تصور کرتے تھے. عملہ ٹولہ کٹیہار شہر کی مسجد میں موضع سہرول، کدوا کے ایک منشی صاحب نے محفل میلاد کا پروگرام رکھا۔ مولوی عابدحسین و دیگر اساتذۂ دارالعلوم لطیفی کو مدعو کیا۔ میلاد کے بعد دستور کے مطابق قیام و صلوٰۃ و سلام ہونا تھا، مگر بغیرصلوٰۃ و سلام کے فاتحہ خوانی ہوگئی۔ کسی نے پوچھ لیا۔ تو مولوی عابد اور ان کے ہم نواؤں نے قیام کو ناجائز و بدعت قرار دے دیا۔ ملک العلما کے شاگرد رشید حضرت مولانا علیم الدین رضوی [ان کا تفصیلی ذکر آگے ہے] کے بہ قول ’’سچ پوچھیے توجامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار کے اصلی بانی سہرول کے وہی منشی جی ہیں‘‘۔ انھوں نے ہی وکیل عبدالسلام اور دیگر لوگوں کی توجہ اس کی طرف کروائی. میٹنگ لینے کے بعد ایک وفد حضرت خواجہ سید شاہد حسین عرف درگاہی میاں کے پاس پٹنہ بھیجا گیا۔ درگاہی میاں اس وقت خانقاہ بارگاہ عشق پاک میتن گھاٹ پٹنہ کے سجادہ نشین تھے۔ اس وقت اسی خانقاہ کا فیضان سیمانچل پر برس رہا تھا۔ خواجہ حفیظ الدین لطیفی قدس سرہ کو یہیں سے خلافت و اجازت حاصل تھی۔ مولوی عابدحسین کے تصوف کا سرا بھی یہیں سے جڑا ہوا تھا۔ درگاہی میاں کا دورہ کٹیہار میں ہوتا رہتا تھا۔ کدوا اسمبلی حلقہ سے ایک بار ممبر بھی رہے۔ درگاہی میاں کے والد حضرت سید شاہ حمیدالدین قدس سرہ کا وصال ہو چکا تھا۔ لوگ درگاہی میاں کے پاس پہنچے اور حالات سے باخبر کیا۔ درگاہی میاں معاملہ کے تصفیہ کے لیے خانقاہ رحمٰن پور تشریف لائے۔ خواجہ وحید اصغر قدس سرہ فرزند اصغر شاہ حفیظ الدین لطیفی قدس سرہ اس وقت خانقاہ رحمٰن پورکے سجادہ نشین تھے۔ مولوی عابدحسین چنڈی پوری کو بھی بلایاگیا۔ علماے دیوبند  کی تکفیر پر علماے عرب و عجم کا موقف پیش کیا گیا اور تصدیق و تائید چاہی، مگر انھوں نے تصدیق سے صاف انکارکردیا۔ پھرکیا تھا درگاہی میاں اور خواجہ وحید اصغر نے خانقاہ بارگاہ عشق پاک پٹنہ اورخانقاہ رحمٰن پورتکیہ شریف بارسوئی سے مولوی عابدحسین کی لاتعلقی کا اعلان فرمادیا۔ اب خواص کے ساتھ عوام بھی مولوی عابد حسین کے باطنی نظریات سے واقف ہوچکی تھی۔ مگر اب دارالعلوم لطیفی کے بالمقابل اہل سنت کے ادارے کی شدید ضرورت محسوس ہونے لگی۔
درگاہی میاں نے محسوس کیا کہ کوئی چھوٹا موٹا ادارہ اور کچھ چھوٹے موٹے علما کے انتخاب سے دارالعلوم لطیفی کی کاٹ نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ادارہ بڑا ہونا چاہیے جہاں اپنے وقت کے مایہ ناز اساتذہ مقرر ہوں۔ انہی دنوں حضور ملک العلما مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ سے سبک دوش ہوکر ظفر منزل میں قیام فرما تھے۔ کسی ادارے سے منسلک نہ ہوکر تصنیف وتالیف میں مصروف رہنا چاہتے تھے۔ مگر درگاہی میاں ان کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔
درگاہی میاں کے والد سید شاہ حمیدالدین قدس سرہ سے ملک العلماکے گہرے تعلقات تھے۔ ۲۷؍رجب المرجب کو خانقاہ عشق پاک میتن گھاٹ میں ہرسال جلسہ ہوتا، ملک العلما کی ضرور شرکت ہوتی اور واقعہ معراج پر تفصیلی گفتگو فرماتے۔ ملک العلما کی ان تقریرات کا مجموعہ کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکاہے، ملک العلما نے شاہ حمیدالدین علیہ الرحمہ کے وصال کو اپنی کمر ٹوٹنے سے تعبیر فرمائی ہے۔
درگاہی میاں نے ملک العلما کو حالات سے آگاہ کیا۔ بڑی منت و سماجت کی۔ اس وقت کے حساب سے بیش قرار تنخواہ دینے کا وعدہ فرمایا۔ آخرکار ملک العلما کو راضی کرلیا۔ یہ سب کچھ شعبان المعظم میں ہی ہوگیا۔ عملہ ٹولہ کٹیہار میں مکان کراے پر لے لیا گیا۔ شوال المکرم میں ملک العلما کٹیہار تشریف لائے۔ از خود مدرسہ کا نام مدرسہ لطیفیہ بحرالعلوم فرمایا۔ شہزداۂ ملک العلما پروفیسر مختارالدین آرزو کا ایک اقتباس نقل کرتاہوں. طوالت کے باوجودفائدہ سے خالی نہیں ہے ،وہ لکھتے ہیں:
’’شاہ شاہد حسین عرف درگاہی میاں خلف سید شاہ حمیدالدین سجادہ نشین تکیہ حضرت شاہ رکن الدین عشق کی استدعا پر ۲۱؍ شوال ۱۳۷۱ھ کو کٹیہار ضلع پورنیہ بہار میں جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کا انھوں نے افتتاح فرمایا اور صدر مدرس کے عہدے کو رونق بخشی، صرف اس بنا پر کہ اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی کے باوجود کوئی قابل ذکر دینی مدرسہ نہ تھا۔ انھوں نے مدرسے کے لیے اچھے اساتذہ کا انتخاب فرمایا۔ جن میں مولانا احسان علی مظفرپوری سابق استاد مدرسہ منظر اسلام بریلی شریف، مولانا محمد یوسف، مولانا محمد مشتاق، مولانا محمد شہاب الدین، مولانا محمد سلیمان رضوی کے نام یادآتے ہیں. مولانا شاہ عبدالمنان چشتی فردوسی سابق مدرس مدرسہ محمدی خاں پٹنہ سٹی نے بھی کچھ عرصہ اس مدرسے میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ کبر سنی اور دوسری انتظامی ذمہ داریوں کے باوجود ملک العلما روزانہ چھ گھنٹے پڑھاتے تھے۔ مدرسہ کا نظام الاوقات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنے ذمہ تفسیر مدارک، بیضاوی شریف، بخاری شریف، مسلم، ہدایہ آخرین اور مناظرہ رشیدیہ کی تدریس رکھی تھی۔ مدرسہ کی نظامت و تدریس کے ساتھ فتویٰ نویسی، تالیف و تصنیف اور مواعظ حسنہ کا سلسلہ بھی انھوں نے جاری رکھا۔ سالانہ جلسہ دستار بندی کے موقع پر وہ نامور علما و مقررین کو مدعو کرتے رہے، حضرت مولانا سید محمد کچھوچھوی، مفسر قرآن مولانا ابراہیم رضا خان [جیلانی میاں] اور دوسرے علما کے مواعظ حسنہ سے بھی مدرسے کے طلبا و اساتذہ مستفیض ہوتے رہے۔
جامعہ لطیفیہ کے قیام سے شمالی بہار کے مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچا اور اس علاقے میں دین کو فروغ ہوا، سیکڑوں طلبا وہاں سے فارغ ہوکر دور و دراز علاقوں میں پھیل گئے۔ بعضوں نے نئے مدارس بھی قائم کیے، کچھ اصحاب نے مواضع قصبات کے مدارس کو اپنی خدمات سے ترقی دی جہاں اب تک محدود پیمانے پر تعلیم کا انتظام تھا۔ اس لحاظ سے ملک العلما کا پورنیہ میں دو سال کا قیام بہت مفید رہا، جب انھوں نے دیکھا کہ ان کا لگایا ہوا پودا مضبوط و توانا ہوکر شجر بارآور ہوگیا تو ربیع الاول شریف ۱۳۸۰ھ میں جامعہ لطیفیہ کٹیہار سے وہ ظفر منزل شاہ گنج پٹنہ آکر مقیم ہوگئے اور یہاں انھوں نے سلسلہ رشد و ہدایت شروع کیا۔ [جہاں ملک العلما،ص:۱۶۰]
کٹیہار میں مدت قیام :
ڈاکٹر مختارالدین آرزو صاحب کا یہ لکھنا کہ ’’پورنیہ میں دوسال کا قیام بہت مفید رہا‘‘ قابل غورہے۔ اس سے متشرح ہوتا ہے کہ ملک العلما کٹیہار بحرالعلوم میں صرف دو سال رہے۔ غالباً ڈاکٹر مختارالدین صاحب ہی کی پیروی میں کئی مضمون نگار نے جہان ملک العلما میں کٹیہار میں ملک العلما کے قیام کی مدت دوسال ہی درج فرمائی ہے. مگر خود ڈاکٹر آرزو صاحب نے کٹیہار میں ملک العلما کی تشریف آوری کی تاریخ ۲۱؍شوال ۱۳۷۱ھ اور واپسی کاسال ۱۳۸۰ھ درج فرمایا ہے. ڈاکٹر آرزو صاحب کے شہزادے ڈاکٹر طارق مختار پروفیسر شعبہ عربی مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ نے بھی آمد و رفت کی وہی تاریخ رقم فرمائی ہے. اس حساب سے مدت قیام نو سے دس سال ہوئی ہے نہ کہ محض دو سال۔ امیرالقلم ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی پورنوی، خواجہ علم و فن خواجہ مظفر حسین رضوی قدس سرہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
’’امام علم و فن حضرت خواجہ مظفر حسین صاحب مدظلہ جوملک العلما کے قابل فخر تلمیذ ہیں۔ اور بفضلہ تعالیٰ بقیدحیات ہیں وہ فرماتے ہیں ! پانچ سال تک میں نے خدمت کی ہے اوریہ کوئی ١٩٥٥ء کازمانہ تھا، لہٰذا پانچ سال کاقیام تومیری آنکھوں نے دیکھا ہے۔ [حیات ملک العلما، ص: ۲۷۵]
ڈاکٹر غلام جابر شمس صاحب مزید رقم طراز ہیں:
’’حسن اتفاق سے ملک العلما کا ایک فتویٰ اس وقت میرے سامنے ہے جس پرنومبر ۱۹۵۴ء کی تاریخ درج ہے۔ اختتامیہ جملہ ہے: ’’والسلام علی اہل الاسلام محمد ظفر الدین قادری رضوی غفرلہ پرنسپل جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار ضلع پورنیہ ۔ بقلم محمد عبدالرشید متعلم جامعہ لطیفیہ‘‘ [ایضا]
ڈاکٹر شمس صاحب کے دونوں اقتباس سے مسئلہ حق الیقین سے عین الیقین تک پہنچ جاتا ہے کہ ملک العلما کے قیام کی مدت کم ازکم دوسال تو نہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ ہے، ملک العلما ۱۹۵۰ءمیں کٹیہار تشریف لائے اور ۱۹۶۰ء کو طبیعت علیل ہونے کی وجہ سے واپس چلے گئے، اس طرح کم وبیش دس سال قیام رہا۔ ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی صاحب نے پروفیسر ڈاکٹر مختارالدین آرزوکی ’’دوسال مدت قیام ‘‘ کی روایت کو کتابت کی غلطی کا خدشہ جہان ملک العلما کے ص: ۲۷۵ میں ظاہر کیا ہے. مگر اس سے پہلے انھوں نے بھی کئی جگہ جہان ملک العلما ہی میں مدت قیام دوسال ہی درج فرمایا ہے، غالباً یہ مختارالدین صاحب کے اتباع میں ہے۔
ایک غلط فہمی:
مدرسہ لطیفیہ بحرالعلوم کا قیام ۱۳۷۱ھ مطابق ۱۹۵۰ء میں ہوا تھا، ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی پورنوی کے ساتھ جملہ تذکرہ نویسوں کا اس پر اتفاق ہے۔ اس ادارے کا قیام خانقاہ بارگاہ عشق پاک میتن گھاٹ پٹنہ سٹی پٹنہ کے خواجہ سید شاہد حسین عرف درگاہی میاں نے کیا تھا۔ مولوی عابد حسین کے معاملہ کا تصفیہ رحمٰن پور خانقاہ آکر انھوں نے ہی کیا تھا۔ ملک العلما کٹیہار آنے پر راضی بھی انہی کی منت وسماجت پرہوئے تھے۔ یہ باتیں مجھے میرے پدر بزرگ وار، منبع شفقت، الحاج ماسٹر محمد زین الدین دام ظلہ نے کئی بار بتائیں۔ خانقاہ رحمٰن پور کی عظیم شخصیت حضرت مولانا خواجہ ساجد عالم لطیفی مصباحی دام ظلہ علینا نے بھی اپنے مضمون [مطبوعہ جہان ملک العلما] میں درگاہی میاں ہی کا ذکر کیا ہے۔
بالمشافہ گفتگو پر بھی انھوں نے درگاہی میاں کا ہی نام لیا۔ ملک العلما کے شاگرد رشید علامہ عبدالعلیم علمی بھوپلا، کشن گنج [ان کاتفصیلی ذکر آگے ہے] سے بھی بالمشافہ دریافت کرنے پر انھوں نے  درگاہی میاں کو ہی بحرالعلوم کا بانی مبانی قرار دیا۔ ملک العلما کے دوسرے شاگرد حضرت مولانا عبدالقادر رشیدی دام ظلہ علینا [تفصیلی ذکرآگے ہے] چوپڑا، بائسی سے روبرو گفتگو ہوئی، انھوں نے بھی درگاہی میاں کا نام لیا اور اپنی ایک بیاض میں ان ہی کانام لکھا جس کی فوٹو کاپی میرے پاس بھی ہے. مگر ڈاکٹر غلام جابر شمس پورنوی نے جہان ملک العلما کے ص:۱۰۵ میں ملک العلما کے شاگرد رشید امام علم و فن خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ پر ایک مضمون کے تحت درگاہی میاں کی جگہ ان کے والد ماجد شاہ حمیدالدین قدس سرہ کا ذکر فرمایا ہے. مولوی عابد حسین کے معاملہ کے تصفیہ سے لے کر ملک العلما کے لانے اور بحرالعلوم کے قیام تک سارے معاملات کی نسبت شاہ حمیدالدین کی طرف کی ہے، کاملان پورنیہ میں بھی ایک جگہ قضیۂ بحرالعلوم کی نسبت شاہ حمیدالدین کی طرف کی ہے۔ جو کہ عقلا و روایت دونوں حساب سے غلط ہے۔ روایت تو ظاہر ہے۔درایتا اس لیے کہ مدرسہ بحرالعلوم کاقیام ۱۳۷۱ھ میں ہوا اور شاہ حمیدالدین کا وصال ۱۳۶۴ھ میں ہی ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر مختارالدین آرزو لکھتے ہیں:
’’ملک العلما اپنے ایک خط مورخہ ۴؍ شوال ۱۳۶۴ھ میں استاذ العلما مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی کو تحریر فرماتے ہیں: جناب کا کرامت نامہ آیا۔ ۲۳؍ رمضان المبارک شب کے ایک بجے محب سنت و علماے سنت، مخلص جناب سید شاہ حمیدالدین صاحب سجادہ نشیں تکیہ شریف میتن گھاٹ پٹنہ، جن کے یہاں جلسہ رجبی شریف میں دومرتبہ جناب تشریف لائے تھے، ان کا انتقال پرملال ہوا۔ اس حادثے نے میری کمر توڑدی. آل انڈیا سنی کانفرنس کی کامیابی کا اعتماد انہی کے بازوے ہمت پر تھا۔ [جہان ملک العلما،ص:۱۶۰]
ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی پورنوی قلم کے بادشاہ ہیں، ان کے قلم کو بڑے بڑوں نے سراہا ہے۔ ان کی تحریرات کے سامنے میرا قلم طفل مکتب ہے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب سے میری گزارش ہے کہ متعدد تاریخی لغزشات ان کی تحریروں میں جگہ پاگئی ہیں، جن پرخاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اساتذہ کاانتخاب:
مدرسہ بحرالعلوم کی انتظامیہ کمیٹی ضرور تھی، مگر تعلیمی امور، اساتذہ کے انتخاب وغیرہ کا کل اختیار آپ کوحاصل تھا۔ آپ نے جن علما کا انتخاب فرمایا وہ اپنے وقت کے آفتاب و ماہتاب تھے. جیسے :
علامہ محمدسلیمان اشرفی قدس سرہ :
جامع معقولات و منقولات علامہ محمدسلیمان اشرفی قدس سرہ موضع ماجھی پور، سبور، ضلع بھاگلپور بہار سے تعلق رکھتے تھے. جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ، فیض آباد یوپی میں سید شاہ محمد اشرفی جیلانی قدس سرہ سے تعلیم حاصل کی. جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں صدرالافاضل علامہ نعیم الدین مرادآبادی کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا۔ جامعہ معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں حضور صدرالشریعہ علامہ امجد علی قدس سرہ مصنف بہارشریعت کے شاگرد ہوئے۔ فراغت وہیں سے حاصل کی اور جامعہ نعیمیہ مرادآباد کے مدرس منتخب ہوئے. پھر ایک طویل عرصہ تک جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ میں نائب شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز رہے۔ جامعہ حمیدیہ بنارس میں بھی بساط تدریس بچھائی۔ ملک العلما علامہ ظفرالدین بہاری کے بلاوے پر مدرسہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار آگئے اور سیمانچل کو خوب سیراب کیا۔ اپنے گاؤں ماجھی پور میں ایک ادارہ مدرسہ اشرفیہ اظہارالعلوم قائم فرمایا۔ ۱۳۹۷ھ مطابق ۱۹۷۷ء کو وصال فرمایا۔ [مجاہدملت نمبر، ص:۳۶۲]
علامہ احسان علی مظفرپوری محدث بہاری قدس سرہ:
موجودہ ضلع سیتامڑھی [سابق مظفرپور] کے علاقہ فیض پور، باتھ اصلی، تھانہ نان پور سے تعلق رکھنے والی یہ شخصیت پورے ملک کے لیے بافیض ثابت ہوئی۔ ملک کا کون ساخطہ ہوگا جن پر ان کا فیض رواں نہ ہو۔ آپ ۱۳۱۶ھ کو پیداہوئے ہیں. سرکار محبی ٰکے جاں نشیں علامہ ولی الرحمٰن ولی، پوکھریرا کی بارگاہ میں تعلیم کے لیے حاضر ہوئے. کافیہ، قدوری تک ان سے ہی تعلیم لی ۔ ۱۳۳۳ھ میں منظر اسلام بریلی شریف پہنچ گئے۔حجۃ الاسلام علامہ حامد رضاخاں، صدرالشریعہ علامہ امجد علی، حضرت نورالحسین نوری فاروقی رامپوری علیھم الرحمۃ الرضوان جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ دستار بندی کے سال اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا وصال ہوچکا تھا۔ اعلیٰ حضرت کے عرس چہلم میں دستار بندی ہوئی، شیر بیشۂ اہل سنت علامہ حشمت علی خاں لکھنوی ثم پیلی بھیتی آپ کے رفیق درس تھے۔ فراغت کے بعد منظر اسلام کے مدرس ہوئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ایک سال مدرسہ انوارالعلوم علیمیہ دامودر پور میں صدر مدرس کا عہدہ سنبھالا۔ مگر مفسر قرآن علامہ ابرہیم رضا خاں [جیلانی میاں] قدس سرہ کے اصرار پر دوبارہ منظر اسلام آگئے. پھر تقریباً چالیس سال تک وہیں خدمت انجام دی اور شیخ الحدیث کے عظیم منصب پر فائز رہے. درمیان میں ملک العلما علامہ ظفرالدین بہاری قدس سرہ کے بلاوے پر جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار بھی تشریف لائے۔ بحرالعلوم کٹیہار میں آپ کی مدت قیام کیا تھی؟ یہ ایک غور طلب پہلو ہے. پروفیسر مختارالدین آرزو نے ’’حیات ملک العلما‘‘ میں صرف علامہ احسان علی مظفرپوری کی آمد کا ذکر کیا ہے. مدت قیام کا ذکر نہیں ہے. علامہ احسان علی مظفر پوری قدس سرہ کے پوتے مولانا حسان علی احسانی ہیں، فاضل منظر اسلام ہیں، خانقاہ احسانیہ کے موجودہ سجادہ نشیں ہیں. دارالعلوم احسانیہ رضویہ کے ناظم اعلیٰ بھی۔ ان سے جب فون پر دریافت کیا تو انھوں نے محدث بہار کی کٹیہار تشریف آوری سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
محدث بہار کے ایک شاگرد ہیں علامہ عبدالعلیم علمی مالک علمی کتب خانہ، بہادرگنج، کشن گنج، یہ بحرالعلوم کٹیہار اور منظراسلام دونوں جگہ سے فیض یافتہ ہیں۔ منظراسلام میں علامہ احسان علی مظفرپوری سے بخاری شریف وغیرہ پڑھ چکے ہیں۔ محدث بہار نے انھیں تعویذ و وظائف اور حدیث کی سند بھی عطا کی ہے، مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار میں ملک العلما کی بھی شاگردی میں رہ چکے ہیں. ان کے مطابق ملک العلما کی خواہش پر محدث بہار بحرالعلوم ضرور تشریف لائے تھے. مگر یہاں کی آب و ہوا انھیں راس نہیں آئی. یہاں کی مشقتیں ان کی قوت برداشت سے باہر تھیں۔ اس لیے چند ہی مہینے کے بعد واپس چلے گئے اور منظر اسلام کو پھر سے رونق بخشی، حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں سے شرف بیعت رکھتے تھے۔ ۱۰؍شوال ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۹۸۲ء میں آپ کا وصال ہوگیا۔ ہرسال شوال کو تیس کا مان کر ۲۰؍ذی قعدہ میں فیض پور میں ان کا عرس منایا جاتاہے۔
محدث بہار کا یہ حیات نامہ ان کے پوتے حضرت مولانا حسان علی احسانی صاحب نے فراہم کرایا، جو مولانا ریحان رضا انجم مصباحی صاحب کاقلم برداشتہ ہے۔ چھ صفحات پر بڑے خوب صورت کاغذ میں مطبوعہ ہے۔ محدث بہار کے مایہ ناز تلامذہ کی ایک لمبی فہرست بھی اس میں شامل ہے. بہ غرض اختصار یہاں صرف نظرکرتاہوں ۔
مفتی عبدالمنان گیاوی قدس سرہ:
گیا بہار کا ایک معروف ضلع ہے، مفتی عبدالمنان گیاوی اسی ضلع سے تعلق رکھتے تھے، تفصیلی حالات دستیاب نہیں، علامہ عبدالعلیم علمی مالک علمی کتب خانہ کے بہ قول جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے پروردہ تھے۔ علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمۃ الرضوان کے ہم درس تھے۔ ہم عصر علما میں متوسط درجے کے علما میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ محدث بہار کی طرح آپ نے بھی مختصر اوقات ہی بحرالعلوم کٹیہار کو دیے ۔
مولانا محمد یوسف عظیم آبادی قدس سرہ:
مولانا محمد یوسف پٹنوی کی پیش کش درگاہی میاں حضرت سید شاہد حسین نے کی تھی۔ ازیں قبل مولانا یوسف صاحب خانقاہ عشق پاک میتن گھاٹ کے مدرسہ میں مدرس تھے۔ مشربا خانقاہ سے منسلک بھی تھے. انھوں نے بحرالعلوم کوطویل مدت قیام سے نوازا۔بحرالعلوم میں شروع شروع ابتدائی درجات کی کتابیں پڑھاتے تھے. بعد میں متوسطات تک بلکہ ترمذی شریف وغیرہ پڑھانے لگے۔ ملک العلما کے حجرے میں ہی آپ کا قیام تھا۔ دوران مطالعہ ملک العلما سے پوچھتے رہتے. ملک العلما بڑی شفقت سے جواب عطا فرماتے. کثرت سوال پر کبھی جھنجھلاہٹ بھی دکھاتے، مگر مولانا یوسف پر کوئی برا اثرنہیں پڑتا، ایک بار شہر کٹیہار میں ہندو مسلم کا ہنگامہ ہوگیا۔ ملک العلما خائف ہوئے. مولانا یوسف ملک العلما کا خوف دور کرنے کی غرض سے ڈنڈا لے کر گیٹ پر کھڑے ہوگئے اور جب تک ملک العلما پر نیند غالب نہیں ہوئی آپ کھڑے رہے. اس طرح ملک العلما پر جب بھی کسی وجہ سے خوف طاری ہوتا، آپ سپاہی بن کر ان کاخوف دور کرتے۔ اس سے دونوں کے درمیان کی محبت و عقیدت کا پتا چلتا ہے۔
علامہ مشتاق احمد مظفرپوری قدس سرہ :
حضرت علامہ مفتی محمد مشتاق احمد مظفرپوری قدس سرہ مقام و پوسٹ باتھ اصلی، تھانہ نان پور ضلع سیتامڑھی [سابق ضلع مظفرپور]  کے رہنے والے تھے. محدث بہارعلامہ احسان علی مظفرپوری کے شاگرد تھے۔منظر اسلام سے فراغت حاصل تھی۔ ان کے والد مولانا عبدالکریم تھے. مولانا مشتاق احمد مظفرپوری نے مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار کے علاوہ جامعہ عربیہ سلطان پور میں بھی تدریسی خدمات انجام دیے، کٹیہار کے بعد منظر اسلام بریلی شریف میں بھی مدرس رہے۔ ۱۹۷۲ء میں آپ کا وصال ہوگیا۔ وصال کے وقت آپ مدرسہ منظراسلام میں مدرس تھے۔ علامہ مشتاق احمد نظامی قدس سرہ کی کتاب ’’خون کے آنسو‘‘ مطبوعہ بار دوم ۱۹۹۸ء رضوی کتاب گھر دہلی کے صفحہ ۳۲۵ میں علامہ مشتاق احمد مظفرپوری کا ایک خط ’’بحرالعلوم کٹیہار‘‘ کے عنوان سے مطبوع ہے۔ مراسلہ نگارکا نام اس طرح درج ہے۔
’’آپ کا اپنا محمد مشتاق احمد غفرلہ مظفرپوری خادم شعبۂ تدریس و افتا جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار‘‘
مدرسہ منظراسلام بریلی شریف کی جانب سے ہر سال ’’ریحان ملت کلینڈر، جاری ہوتا ہے۔ اس وقت ۱۴۴۲ھ مطابق ۲۰۲۰ء کا کلینڈر میرے سامنے ہے۔ ۲۶؍ ربیع الآخر مطابق ۱۴؍ دسمبر کے باکس میں لکھاہے ’’وصال مولانا محمد مشتاق احمد باتھ اصلی "۔ علامہ محمد مشتاق احمد مظفرپوری کے شہ زادے مولانا محم داشیتاق احمد رضوی کریمی مدرس مدرسہ فیضان رضا مقام ڈکا، پوسٹ مادھوٹانڈہ، تحصیل کل نگرضلع پیلی بھیت نے بتایا کہ ہرسال کے کلینڈرمیں علامہ مشتاق مظفرپوری کانام ضرور رہتاہے۔ دوسری قسط یہاں پڑھیں : ملک العلما سیمانچل میں (دوسری قسط)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے