رالف رسل اور جنسی ترغیبات : ایک تقابلی و تجزیاتی مطالعہ

رالف رسل اور جنسی ترغیبات : ایک تقابلی و تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر مجاہد لاسلام
مانو لکھنؤ کیمپس ،لکھنؤ
(ادارتی نوٹ: رالف رسل برطانوی شہری، مارکسوادی اور اردو اسکالر تھے، انھیں برطانوی بابائے اردو بھی کہا جاتا ہے. دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج میں شامل ہوکر ہندستان آئے، یہاں سے جا کر انھوں نے اردو سیکھی اور اس کی بہتر مشق کے لیے علی گڑھ آئے، اردو کی ممتاز شخصیات سے ان کی واقفیت یہیں ہوئی، انھوں نے غالب اور دوسرے کلاسیکی شعرا پر کئی کتابیں لکھی ہیں. ان کی آپ بیتی 

Findings, Keepings :Life, Communism and every things

 کا اردو  ترجمہ "جویندہ یابندہ: حیات، کمیونزم اور سب کچھ" کے نام سے پروفیسر ارجمند آرا (دہلی یونی ورسٹی) نے رالف کی زندگی میں ہی کیا تھا جس کے مسودے کی صفائی دونوں نے برطانیہ میں کی۔

زیر نظر مقالہ رالف رسل کی اسی کتاب کے محور پر گھومتا ہے، جس میں نہ صرف یہ کہ رالف رسل کی جنسی سرگرمیوں کا شرح و بسط کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے بلکہ فراق، جوش، منٹو، خوشونت سنگھ اور نیاز فتحپوری کی جنسی عبارتوں سے اس کا تقابل بھی پیش کیا گیا ہے۔ صاحب مقالہ ڈاکٹر مجاہدالاسلام (لکھنؤ کیمپس مانو) اس نتیجے پر پہنچے ہیں: "ایسا لگتا ہے کہ جنسیات کے معاملے میں سارے اردو ادیب احساس کمتری میں مبتلا ہیں اور وہ اسے احساس برتری میں بدلنے کے خواہاں ہیں") 

اس مضمون میں رالف رسل کی جنسی سرگرموں سے متعلق جو بھی ان کی گفتنی و نا گفتنی ہیں، اس کو میں نے اپنے اس مقالے کا موضوع بنایا ہے۔ایسا کرتے وقت کہیں نہ کہیں میرے ذہن میں یہ تشویش ضرور تھی کہ یہ اردو کے عام قارئین کا مزاج نہیں ہے۔ جیسا کہ خود مترجمہ (ارجمند آرا) نے اپنے مضمون "باتیں رالف رسل کی" کے شروع ہی میں لکھا ہے:
”اپنی ذاتی زندگی جس میں جنسی زندگی بھی شامل ہے کا ذکر بھی انھوں (رالف رسل ) نے اسی کھلے پن سے کیا ہے جو ہو سکتا ہے اردو معاشرے میں بہت سے لوگوں کو پسند نہ آئے حالانکہ معاصر ہندوستان میں خصوصاً بڑے شہروں میں اور انگریزی نظام تعلیم کے تحت، اب جنسیات کی تعلیم اور اس کے مسائل پر گفتگو خاصی عام ہو چکی ہے اور اس کھلے پن کو اب شہری تعلیم یافتہ متوسط طبقے میں قابل اعتراض نہیں سمجھا جاتا۔" (جوئندہ یابندہ:ر الف رسل۔ (باتیں رالف رسل کی (مضمون) : ارجمند آرا)۔ ذکی سنز پرنٹرز، کراچی۔ سنہ 2005 ص463)
میرا کچھ حوصلہ گیان چند جین کے ایک مضمون "فراق صاحب سے میری ملاقاتیں" سے بڑھا، جس کو سالوں پہلے میں نے پڑھا تھا اس کا دھندلا سا عکس اب بھی میرے ذہن کے پردے پر منعکس تھا، ادھر جب میں نے اس مضمون کو دوبارہ پڑھا تو میری ہمت اور بھی بڑھی۔ گیان چند جین نے لکھا ہے کہ "دروغ مصلحت آمیز پر راستی فتنہ انگیز کو ترجیح د ینا چاہیے۔ اور ہر بڑے ادیب کی شخصیت کو پورے کا پورا صحیح صحیح پیش کرنا چاہیے۔ اس کی شخصیت کا کوئی گوشہ چھپانا نہیں چاہیے۔" یہاں پر میں یہ چاہوں گا کہ آپ خود بھی جین صاحب اور فراق صاحب کے در میان ہوئی گفتگوکا وہ حصہ ملاحظہ فرما ئیں:
”اسپین میں سانڈ کا مبازر (Matador) لڑائی کے بیچ بیچ میں غصیلے سانڈ کو لال رومال دکھاتا ہے اور اس سے وہ اور بپھر کر حملہ کرتا ہے۔ اقبال کے نام پر فراق کی بھی وہی حالت ہوئی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ اقبال کے خون کے پیاسے ہیں۔ نشہ گھُمنڈ رہا تھا. سارے حجابات اٹھ گئے تھے ….. اس کے بعد یہ شاہکار ڈھلے ترشے جملے کہے: ”اقبال کے یہاں کون سا ایسا فلسفہ ہے جو کسی چار آنے کی فلسفے کی کتاب میں نہیں
مل جاتا۔ اقبال  ویکا نند کے گھر میں جھاڑو بھی نہیں لگا سکتا۔ اسلام اسلام کرتا ہے۔ اسلام ….. نابدان کا کیڑا۔مسلمان! بیگن کا ٹھیلہ ڈھکیلنے والے۔" میں نے اس ملاقات کی تفصیل اور مندرجہ بالا جملے ایک لمبے تامل کے بعد لکھے ہیں۔ فراق پرست مجھ پر ان کی کردار کشی کا الزام لگائیں گے۔ میرے بعض ہندو دوست مجھے خاموشی سے خط لکھیں گے کہ تو نے ہندو ہو کر ایک ہندو کو کیوں متعصب اور فرقہ پرست ٹھہرایا لیکن ذوق تحقیق نے مجھے حقیقت کا ایسا شیدائی بنا دیا ہے کہ میں دروغ مصلحت آمیز پر راستی فتنہ انگیز کو ترجیح دینے لگا ہوں۔ اس کے علاوہ میرا ایمان ہے کہ ہر بڑے ادیب کی شخصیت کو پورے کا پورا صحیح صحیح پیش کرنا چاہیے۔ اس کی شخصیت کا کوئی گوشہ چھپانا نہیں چاہیے۔" (پرکھ اور پہچان: گیان چند جین (فراق صاحب سے میری ملاقاتیں (مضمون)، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، سنہ: 1990، ص: 226)
اس کے علاوہ میرے حوصلہ کو کچھ مہمیز مشہور تنقید نگار و ناول نویس شمس الرحمن فاروقی کے ان جملوں نے بھی لگائی۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ فاروقی کے مشہور زمانہ ناول "کئی چاند تھے سر آسماں" کا وافر حصہ جنس اور جنسیات پر مشتمل ہے۔ وہ اس ناول کے آخر میں ایک جگہ پر لکھتے ہیں:
”میری چھوٹی بیٹی باران سلمہا (نئی دہلی)، اس نے ناول کا بڑا حصہ پڑھا، اس کے بارے میں مفید مشورے دیے اور انگریزی میں اس کا ترجمہ کرنے کی تجویز پر بخوشی صاد کیا۔ اس نے ناول کے بعض اجزا بھی اپنی بیٹی نیساں فاطمہ کو بطور سبق پڑھائے۔" (کئی جاند تھے سر آسماں: شمس الرحمن فاروقی، پینگوئن گروپ، نئی دہلی، ص: 2006، ص: 848)
یہ اقتباس بہت حد تک شمس الرحمن فاروقی اور ان کی بیٹی باراں فاروقی کی جرأت مندی و بے باکی پر دلالت کرتا ہے۔
قدرت نے جنس مخالف میں "جنسی کشش"  فطری طور پر رکھ دی ہے اور عمر کی ایک خاص دہلیز پر پہنچنے کے بعد اس میں اور بھی زیادہ شدت آجاتی ہے۔ اس میں خاص رول انسان کے "پوشیدہ اعضا"  ادا کرتے ہیں۔ اور چونکہ لڑکیوں کی بالیدگی ظاہر بھی ہو تی ہے، اس لیے کم عمر لڑکے بھی ان کی طرف ملتفت ہونے لگتے ہیں۔ اور پھر وہ انھی پوشیدہ اعضا کے بارے میں اپنے خواب و خیال میں بھی سوچنے لگتے ہیں۔ رالف رسل نے اپنے شروعاتی جنسی رجحان کے بارے میں اپنی آپ بیتی "جوئندہ یابندہ"  میں ایک جگہ لکھا ہے:
”مجھے اتنا بخوبی یاد ہے کہ ان دنوں میں عورتوں اور لڑکیوں کے لیے کشش محسوس کرنے لگا تھا ….. اپنی ہم عمر لڑکیوں کے بجائے خصوصاً دوشیزاؤں میں۔ ہوم کے ایک شراب خانے کے مالک (Publican) کی تین خوب صورت بیٹیاں تھیں اور ان میں ایک آئلین برک (Eileen Burke) کی جانب میں بے انتہا کھنچا جاتا تھا. اس کی عمر اٹھارہ انیس برس رہی ہوگی۔ مجھے یاد ہے کہ میں یہ تصور کرتا تھا کہ وہ بے لباس ہوکر کتنی اچھی لگے گی اور اس کا خوب صورت عضو تناسل دیکھنے میں کتنا مزہ آئے گا۔ کینتھ گراہم (Kenneth Grahame) کی 1895 کی تصنیف "سنہرا دور" ( The Golden age) میں ایک حیرت انگیز قصہ Young Adam Cupid ہے جس میں اس نے ایک کمسن لڑکے کو ایک نانبائی کی بیوی کے سحر میں گرفتار دکھایا ہے۔ آئلین کے لیے میرے جذبات بالکل ایسے ہی تھے۔" (جوئندہ یابندہ: رالف رسل۔(مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ:  2005، ص: 22)
اسی ذیل میں مشہور صحافی اور ادیب خوشونت سنگھ اپنی آپ بیتی "سچ محبت اور ذرا سا کینہ"  میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
”مجھ میں عورت کو ننگا دیکھنے کی زور دار خواہش پروان چڑھ چکی تھی۔ اکثر بگاڑی عورتیں ایک کلرک کے صحن میں نہانے کے لیے آیا کرتی تھیں جہاں ایک دستی نلکا (ہینڈ پمپ)نصب تھا۔ میں ایک نیم کے درخت پر چڑھ جایا کرتا تھا اور اپنے ٹھکانے سے انھیں اپنی چھاتیوں پر صابن ملتے ہوئے دیکھا کرتا تھا، وہ اپنے آپ کو پوری طرح ننگا نہیں کیا کرتی تھیں۔" (سچ محبت اور ذرا سا کینہ: خوشونت سنگھ۔ ایم آر پبلی کیشنز، نئی دہلی، سنہ: 2018، ص: 34)
وہ ایک اورجگہ لکھتے ہیں:
”چودہ برس کی عمر تک مجھے پتہ نہیں تھا کہ کسی بالغ عورت کے جنسی اعضا کیسے دکھائی دیتے ہیں۔ پہلی مرتبہ میں نے دیکھے، یہ ایک ایل فریسکوڈنر کا موقع تھا جو وارانسی کے ایک پروفیسر کے باغ کے لان میں ماڈرنائٹس (ماڈر اسکول میں تعلیم پائے ہوؤں) کو دیا گیا تھا۔ مجھے ایک صف کے سامنے بیٹھنے کا موقع ملا جس میں ہماری سینئر ٹیچر میں سے ایک درمیان میں بیٹھی ہوئی تھی۔ جوں ہی وہ گھاس پر جھکی اس کی ساری اٹھ گئی اور اس کی رانوں کے درمیان کوئی بہت بالوں والی شے نمایاں ہوگئی، میں تو دہل کر رہ گیا." (سچ محبت اور ذرا سا کینہ: خوشونت سنگھ، ایم آر پبلی کیشنز، نئی دہلی، سنہ: 2018، ص: 34)
اسی طرح خوشونت سنگھ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
”اس وقت تک میں نے کسی عورت کی رانوں کے درمیان اتنی اچھی طرح کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کملا بوس کے بالوں والے اعضائے مخصوصہ کی ایک سرسری جھلک نے مجھے گھن میں مبتلا کردیا تھا۔ عورت کے نچلے حصے کے متعلق میرا تصور وہی تھا جو میں [نے] سنگ مرمر کے مجسموں میں مشاہدہ کیا تھا، ان میں سے کسی کے ناف کے نیچے بال نہیں تھے۔ اس کالی موٹی عورت نے، جو میرے سامنے اپنی ٹانگیں اٹھائے لیٹی ہوئی تھی، جس کے گھٹنے اس کی ٹھوڑی کو چھو رہے تھے، شیو کی ہوئی تھی۔" (سچ محبت اور ذرا سا کینہ: خوشونت سنگھ، ایم آر پبلی کیشنز، نئی دہلی، سنہ: 2018، ص: 72) 
جب کہ شمس الرحمٰن فاروقی کا خیال اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ اس طرح کی سوچ کو محض روایت کی اسیر بتاتے ہیں۔ وہ اپنے ایک مضمون ”ترسیل کی ناکامی کا المیہ" میں لکھتے ہیں:
”مذاق عام، رسوم کے روایتی احترام اور روایتی ثقہ پن کا جس درجہ اور جس طرح اسیر ہے وہ ہم سب پر واضح ہے۔ مغرب میں ڈھائی ہزار برس سے مصور اور سنگ تراش عریاں عورتوں کی شبیہ بناتے رہے ہیں اور کسی کو بھی ان تصویروں میں کوئی مخرب الاخلاق اور فحش بات نہیں دکھائی دیتی تھی۔ مگر جب ڈی.ایچ لارنس نے اپنی عریاں عورتوں کے موئے زہار بھی دکھانے شروع کردیے تو ہر طرف ایک غلغلہ مچ گیا اور اسے وہ تصویریں نمائش گاہ سے اٹھا لینی پڑی۔" (لفظ و معنی: شمس الرحمن فاروقی، شب خون کتاب گھر، رانی منڈی الٰہ آباد، سنہ 1968، ص: 98)
یہاں پر ہم جنسی کشش کے ذیل میں  مشہور افسانہ نگار سعات حسن منٹو کے افسانے "بلاؤز"  کو بھی پیش نظر رکھ سکتے ہیں، جس میں جوانی کی دہلیز پر کھڑے اس افسانے کے مین کریکٹر مومن کے ذہن میں شکیلہ کی بغل کے بال کچھ اس طرح سے رچ بس جاتے ہیں کہ اسے ہر چیز میں چاہے وہ کوئلہ ہو یا اونی کپڑا اسے وہ شکیلہ کی بغل کا بال ہی دکھتا ہے۔ یہاں پر متذکرہ افسانے کا ایک مختصر سا اقتباس پیش کیا جانا خالی از دل چسپی نہ ہوگا:
”مومن کو ایک دن میں کئی بار بلایا گیا۔ دھاگہ لانے کے لیے، استری نکالنے کے لیے۔ سوئی ٹوٹی تو نئی سوئی لانے کے لیے۔ شام کے قریب جب شکیلہ نے دوسرے روز پر باقی کام اٹھا دیا تو دھاگے کے ٹکڑے اور اودی ساٹن کی بیکار کترنیں اٹھانے کے لیے بھی اسے بلایا گیا۔ مومن نے اچھی طرح جگہ صاف کردی۔ باقی سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ مگر اودی ساٹن کی چمکدار کترنیں اپنی جیب میں رکھ لیں ……. بالکل بے مطلب کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ ان کو کیا کرے گا! دوسرے روز اس نے جیب سے کترنیں نکالیں اور الگ بیٹھ کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع کر دیے۔ دیر تک وہ اس کھیل میں مشغول رہا۔ حتیٰ کہ دھاگے کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا اس کو ہاتھ میں لے کر وہ دباتا رہا، مسلتا رہا …….. لیکن اس کے تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی۔ جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا چھوٹا سا گچھا دیکھا تھا۔" (منٹو کے متنازعہ افسانے ۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی: 2008 ص99)
اسی ضمن میں منٹو کے ایک اور مشہور افسانے "دھواں" کو بھی ملاحظہ فرمایا جا سکتاہے۔ جس میں اس افسانے کا مین کریکٹر مسعود جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کی تیاری میں ہے اور اس کے اندر جسمانی تبدیلی واقع ہورہی ہے، مگر اسے اس بات کا بدیہی طور پرا حساس نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی بہن سکینہ کا پاؤں تو بد دلی سے دبانا شروع کرتا ہے مگر جلد ہی اس کے اندر اس عمل سے دل چسپی پیدا ہونے لگتی ہے۔اقتباس اس طرح ہے:
”اس نے بڑی بد دلی سے کمر دبا نا شروع کی مگر اسے اس کام میں لذت محسوس ہونے لگی. اس کے وزن کے نیچے کلثوم ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔ یہ بھینچی بھینچی آواز جو کہ مسعود کے پیروں کی حرکت کا ساتھ دے رہی تھی اس گمنام سی لذت میں اضافہ کر رہی تھی۔ ٹائم پیس میں گیارہ بج گئے مگر مسعود اپنی بہن کلثوم کی کمر دباتا رہا جب کمر اچھی طرح دبائی جا چکی تو کلثوم سیدھی لیٹ گئی …… مسعود نے دیوار کا سہارا لے کر کلثوم کی رانوں پر جب اپنا پورا وزن ڈالا تو اس کے پاؤں کے نیچے مچھلیاں سی تڑپ گئیں۔ بے اختیار وہ ہنس پڑی اور دہری ہوگئی۔ مسعود گرتے گرتے بچا لیکن اس کے تلووں میں مچھلیوں کی وہ تڑپ منجمد سی ہو گئی۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پھر اسی طرح دیوار کا سہارا لے کر اپنی بہن کی رانیں دبائے، چنانچہ اس نے کہا "یہ آپ نے ہنسنا کیوں شروع کردیا. سیدھی لیٹ جائیے. میں آپ کی ٹانگیں دبا دوں۔"….اس سے پہلے کئی بار اس نے اپنی بہن کلثوم کی ٹانگیں دبائی تھیں مگر وہ لذت جو کہ اسے اب محسوس ہورہی تھی پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔" (منٹو کے متنازعہ افسانے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، سنہ: 2008، ص: 137)
رالف رسل نے اپنی اس آپ بیتی میں اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ انھیں بہت بعد میں لڑکے اور لڑکیوں کے عضو تناسل میں فرق کا پتہ چلا۔ عام طور سے یہ دیکھا گیا کہ جب ایک ہی فیملی میں کئی بچے بچیاں ہوں، تو نہ چاہتے ہوئے بھی کبھی نہ کبھی ان کی نظریں ایک دوسرے کے عضو تناسل پر پڑ ہی جاتی ہیں، مگر رالف رسل کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں تھا کیوں کہ وہ اپنے والدین کی اولاد میں سب بھائی ہی تھے، ان کے یہاں بہن کوئی نہیں تھی۔ انھوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ آج کل کی مائیں اپنے بچوں کے سامنے بے پردہ ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں محسوس کرتی ہیں۔ مگر رسل کی ماں ان جدید قسم کی ماؤں کی طرح نہیں تھیں جو  اپنے بچوں کے سامنے ہی اپنے کپڑے تبدیل کرنے کے لیے عریاں ہو جا یا کرتی ہیں، جن سے عورتوں کے عضو مخصوصہ کے بارے میں رسل کی معلومات میں کچھ اضافہ ہوتا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”ملڈ ریڈ فنج وہ امتیازی شخصیت ہے جس نے مجھے احساس کرایا کہ لڑکے اور لڑکیوں کے جسموں میں فرق ہوتا ہے۔ مجھے اس کا ذرا بھی اندازہ اس لیے نہیں تھا کہ اپنے خاندان میں ہم سب لڑکے ہی لڑکے تھے اور میری ماں ….. ماضی قریب کی دوسری ماؤں کی طرح ….. اپنے بچوں کے سامنے بے لباس ہونے کے بارے میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔" (جوئندہ یابندہ: رالف رسل۔ (مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ:  2005، ص:22)
عورتوں اور مردوں کے جسمانی تفرق کا مصنف کو اس وقت احساس ہوتا ہے جب وہ ملڈ ریڈ فنج کے ساتھ ایک ایسے کھیل میں جس کو  ایک دوسرے کے اعضائے مخصوصہ کو چھو کر کھیلا جاتا ہے، کھیلا تو ایک قسم کی سگبہاہٹ سی محسوس ہوئی. چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”میں کوئی سات برس کا تھا جب ملڈ ریڈ نے مجھے اپنے والد کے بنے کھیتوں میں بنے ریت کے ایک گڑھے میں چل کر کھیلنے کی دعوت دی جس کے بارے میں مجھے پتہ چلا کہ اس کا مطلب ایک دوسرے کے اعضا کو چھوکر کھیلنا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرا جسم تن گیا تھا اور میں نے اس کی شرم گاہ میں اپنا عضو داخل کرنے کوشش کی تھی. اس کی ترغیب یا تو مجھے جبلی طور پر ملی تھی یا ملڈ ریڈ نے مجھ سے ایسا کرنے کو کہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے پیشاب کرنے کی زبردست خواہش ہوئی تھی لیکن کر نہیں سکا تھا۔ مجھے ملڈ ریڈ کے عضو کی پر کشش خوشبو بھی اب تک یاد ہے جب ہم رتیلے گڑھے سے باہر نکل کر فنج کے باغیچے میں آئے تھے تو سڑک کی دوسری جانب برلیز کے دروازے پر بیٹھے اوزی برلی (Ozzie Burley) نے کھلی باچھوں کے ساتھ ہمارا استقبال کیا. مجھے خیال آیا کہ اس کو یقینا اندازہ ہو گیا کہ ہم کیا کر رہے تھے …..۔ بس اس قسم کا یہ اکیلا ہی تجربہ ہے۔ اس کو دہرانے یا نہ دہرانے کا خیال شاید میرے ذہن میں کبھی آیا بھی نہیں۔" (جوئندہ یابندہ: رالف رسل۔(مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص:23)
خواتین کی قربت سے مرد کے جذبات کا مشتعل ہو جانا، یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔ جوش ملیح آبادی نے بھی اس طرح کے کئی واقعات اپنی آپ بیتی "یادوں کی برات" میں درج کیے ہیں. یہاں پر میں انھی میں سے ایک دو واقعے کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ یہ پہلا واقعہ کچھ کھیت میں کام کرنے والی دیہاتی لڑکیوں کا ہے جس کے بارے میں جوش رقم طراز ہیں:
”نِکائی کرنے والی جوان عورتیں اور لدّر گدّر چھوکریاں، اُدھر طوفان اِدھر اٹھان۔ ان کے لال پیلے لہنگے، اودی اودی چندریاں، ان کے خالص ہوا اور مسلسل محنت کے پروردہ، چھلکتے شاداب چہرے اور گٹھے گٹھے، چٹکتے بدن، ایسے بدن کہ پوری طرح کسمسا کر انگڑائی آئے، تو جلد مسک کر رہ جائے اور دیکھنے والے کے دل میں یہ آرزو دھومیں مچائے کہ انھیں چھو کر بھی دیکھ لیا جائے کہ یہ بنی ہیں کن عناصر سے، یہ سماں دیکھ کر میرے سینے کی تمام کھڑکیاں کھل گئیں …. رگ رگ میں بشاشت کے پھوارے چھوٹنے لگے، نچلے پپوٹوں کے نیچے خنگی دوڑ گئی، آنکھیں جیسے ایک دم سے بڑی ہو گئیں، نگاہیں جھکیں تو اپنے چہرے کی سرخی نظر آگئی، پور پور میں تازگی، انگلیاں چٹخنے لگی، سانس لینے کا، غیر محسوس عمل، ایک محسوس عیاشی بن گیا اور میرے جسم کے اندر پو پھٹنے لگی۔" (یادوں کی برات: جوش ملیح آبادی، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، سنہ: 2013، ص: 52)
اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ ایک رقاصہ کا ہے، اس کے بارے میں جوش یوں رقم طراز ہیں:
”اور جب ناچتے ناچتے، انعام کی خاطر، وہ ہچکولے کھاتی کشتی کے مانند، آہستہ آہستہ میری طرف بڑھنے لگی تو میرا گلا رندھنے سا لگا۔ میری گردن کے ہاروں کی خوشبو تیز ہوگئی اور جب وہ ایک گھٹنا ٹیک کر چھم سے میرے سامنے بیٹھ گئی، تو اس کی کم سنی کے انفاس کی خوشبو، کھچ سے میرے سینے میں چبھ گئی۔اور اس کا پشواز کا سرا، جب میرے ہاتھ کی پشت سے مس ہو گیا تو میرے بدن میں پو سی پھٹنے لگی۔" (ایضاً، ص: 101)
جنسی کھنچاؤ اور پھر اس کی عملی شکل، اس کے کچھ حدود و موانع بھی ہیں، جس کا ایک مہذب سماج میں پاس و لحاظ رکھا جانابہت ضروری ہوتاہے۔ پھر ظاہر ہے کہ ایک بالغ مرد جس طرح سے اس کا پاس لحاظ رکھ سکتا ہے، سمجھا جاتا ہے ایک بچے کے لیے اپنی جنسی ترنگ پر قابو رکھ پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ اس طرح کی جنسی ہلڑ بازی ہمیں اردو افسانوں میں کافی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ یہاں پر ہم دو اقتباس منٹو کے ایک ہی افسانے "دھواں" سے پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں:
”مسعود کو ایک دم شرارت سوجھی۔ وہ پلنگ پر نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گدگدگی کرنا شروع کردی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہوگئی۔اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے۔ لیکن جب اس نے ارداہ کرکے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہو گیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے باہر نکل گیا۔" (منٹو کے متنازعہ افسانے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، سنہ: 2008، ص:137)
اسی افسانے سے ایک دوسرا اقتباس ملاحظہ فرمایا جا سکتا ہے:
”مسعود نے گیند وہیں پڑی رہنے دی اور ہاکی ہاتھ میں لیے سامنے والے کمرے کا رخ کیا۔ اس کا ایک دروازہ بند تھا اور دوسرا نیم وا ….. مسعود کو ایک شرارت سوجھی۔ دبے پاؤں وہ نیم وا دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے ساتھ دونوں پٹ کھول دیے۔ دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو کہ پاس پاس لیٹی تھی خوفزہ ہوکر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔بملا کے بلاؤز کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور کلثوم اس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی۔ مسعود کچھ نہ سمجھ سکا اس کے دماغ میں دھواں سا چھا گیا۔" (ایضاً، ص: 139)
رالف رسل کی اس آپ بیتی میں بھی ہمیں متذکرہ قسم کے ٹکڑوں سے اکثر و بیشتر سابقہ پڑتا ہے۔ جہاں پر وہ بریڈی فیملی کی لڑکی کو اس کی ٹانگوں کے بیچ میں اپنے ہاتھ ڈال کر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
”ہمارے گھر سے سڑک کی اونچائی کی جانب بریڈی (Brady) گھرانے کا مکان تھا۔ اس خاندان کا سربراہ ایک بس ڈرائیورتھا جو اپنے آپ کو خصوصی اہمیت دیتا تھا اور یہ پسند کرتا تھا کہ لوگ اسے میجر بریڈی کہہ کر مخاطب کریں۔ ہو سکتا ہے ماضی میں وہ میجر رہا ہو لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ سارجنٹ میجر تھا اور بہرحال، میجر اور سارجنٹ میجر دو بالکل الگ الگ عہدے ہیں۔ اس کے دو بیٹے اور ایک خوب صورت بیٹی روزا لنڈ (Rosalind) تھی جس کی عمر، میری یادداشت کے مطابق، تقریباً پانچ سال تھی۔ ایک دن میں نے اس کی ٹانگوں کے بیچ میں اپنے ہاتھ ڈال کر اٹھانے کی کوشش کی اور میں اسے اٹھانے میں کامیاب بھی ہو گیا۔ مجھے اچھا لگا لیکن مجھے خوب یاد ہے کہ اس حرکت میں کسی جنسی کشش کا جذبہ نہیں شامل تھا، نہ ہی اس واقعہ سے مجھے ملڈریڈ فنج کے ساتھ گزرا تجربہ یاد آیا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میرے اس رویے پر میری ماں اور روزا لنڈ کی ماں کے درمیان گفتگو ضرور ہوئی ہوگی۔ کیوں کہ مجھے آئندہ ایسا نہ کرنے کی تاکید کی گئی تھی۔" (جوئندہ یابندہ: رالف رسل۔(مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص:33)
اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے جو  ذرا اس کے بعد کا ہے، یہاں پر وہ ایک لڑکی مے (May) کا اسکرٹ پیچھے سے ایک مری ہوئی لکڑی کے ٹکڑے سے اوپر کو اٹھا دیتے ہیں:
”ایک روز موسم گرماں میں اسکاؤٹس نے ڈنچ (Dunwich) میں کیمپ لگایا اور مجھے یہاں آکر بہت اچھا لگا اور صرف اس وجہ سے نہیں کہ ایک مقامی دکان دار کی بیٹی مے (May) سے مجھے محبت ہو گئی تھی۔ میں اس سے دور دور سے خاموشی سے محبت کرتا تھا۔ مجھے واضح طور سے یاد ہے کہ میں ایک دن فٹ پاتھ پر اس لڑکی سے ٹھیک پیچھے اپنی ٹکڑی کے کمانڈر روجر فری (Roger Free) کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔روجر کا اس لڑکی کے ساتھ ہلکا پھلکا معاشقہ چل رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں کمان کے مانند مری ہوئی لکڑی تھی جس کو میں نہ جانے کہاں سے لے آیا تھا اور اب اس کا ایک سرا سڑک پر ٹکائے ہوئے اس کے پیچھے چل رہا تھا اچانک ایسا ہوا کہ لکڑی کا سرا زمین سے اچٹ گیا اور اس نے مے کی اسکرٹ کے پچھلے حصے کو اوپر اٹھا دیا۔میں بری طرح گھبرا گیا لیکن وہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔" (جوئندہ یابندہ: رالف رسل (مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص:62)
جنسی کشش اور قربت کی بہت سی سطحیں ہو تی ہیں، کبھی کبھی تو عاشق کو معشوق کا طور طریقہ اور اس کی آرائش و زیبائش ہی ایک دوسرے کو اس قدر بھا جاتی ہے کہ انھیں پھر کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔ "رسیدی ٹکٹ" کی مصنفہ امریتا پریتم کے بارے میں کسی نے لکھا ہے:
”امرتا پریتم کو پڑھنے اور جاننے والے جہاں ان کو ”وارث شاہ" کو مخاطب کر کے لکھی گئی نظم کے حوالے سے جانتے ہیں وہیں ان کے اور ساحر کے محبت کے قصوں کو سننے میں بھی دل چسپی لیتے ہیں۔ دونوں کی محبت شروع ہوئی لاہور کے پاس پریت نگر نام کے علاقے سے، امریتا کسی تقریب میں یہاں گئی اور محبت کر بیٹھی۔ شاید اس گاؤں میں انھوں نے ساحر کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ امریتا کہتی ہیں کہ ساحر کے لفظوں میں جادو تھا یا اس کی خاموش نظروں کا اثر کہ انھیں ساحر سے عشق ہو گیا۔ لاہور میں جب بھی ان سے ملتا تھا خاموش بیٹھا رہتا تھا۔ وہ چپ چاپ سگریٹ پیتا، اور آدھی سگریٹ پی کر بجھا دیتا، اور پھر ایک نیا سگریٹ سلگا دیتا۔ جب وہ چلا جاتا تو سگریٹ کے ٹکڑے وہاں اس کے گھر میں رہ جاتے، وہ ان سگریٹ کے ٹکڑوں کو سنبھال کر الماری میں رکھ دیتی تھی۔ پھر اکیلے میں ایک ایک ٹکڑے کو ہاتھ لگاتی تھی اور ایسا محسوس ہوتا، جیسے وہ ساحر کے ہاتھ کو چھو رہی ہو۔" 
مشہور فرانسسی مفکر اور ادیب جان جیکس روسو کے بارے میں بھی ف۔س اعجاز نے ایسا ہی کچھ لکھا ہے:
”روسو کی بعض حرکات بڑی عجیب تھیں۔ وہ بے جان چیزوں کے ساتھ انتہائی وجد میں آجاتا تھا۔ جب وہ اپنی معشوقہ مدام دے وارنز کے ساتھ رہتا تھا تو اس کے گھر میں خالی چکر لگاتا رہتا تھا۔ کبھی اس کی کرسی کے ہتھے کو چومتا کبھی خواب گاہ کے پردے کا بوسہ لیتا حتیٰ کے کبھی صحن کو بھی چوم لیتا ……. ایک اور محبوبہ نے اسے اپنی اترن بھیج دی جس کے بارے میں روسو نے لکھا ہے "وہ چاہتی تھی کہ میں اس کے پیٹی کوٹ کی صدری بنا کر پہن لوں ….. گویا اس نے میرا تن ڈھانپنے کے لیے اپنے بدن کی دھجیاں کر ڈالیں ….. میں نے اس شدید جذبے میں اس کی تحریر اور پیٹی کوٹ کو روتے روتے میں بوسے دیے۔" (ادیبوں کی حیات معاشقہ: مرتب: ف۔ س اعجاز، انشا پبلیکیشن، سنہ:  2014، ص:685)
عام طور سے فی زمانہ یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی لڑکی کسی لڑکے کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے یا اس کے لیے وہ خود کو وقف کردیتی ہے تو اس کے دوسرے عشاق خود بہ خود اپنا راستہ الگ کر لیتے ہیں۔ مگر رالف رسل فریڈی لیمبرٹ نام کی ایک ایسی لڑکی کے ٹخنے کو چھو کر دیکھنے کی بات کرتے ہیں جو خود پہلے سے ایک کمیونسٹ کامریڈ جان وکرس کے عشق میں مبتلا ہے۔ اسی طرح سے رسل بھی خود کو میری نام کی ایک لڑکی کے عشق میں مبتلا بتاتے ہیں، ان سب کے باوجود رالف رسل فریڈی ونیفریڈ کی چاہت میں مر مٹتے ہیں۔ رسل لکھتے ہیں:
”ایل ایس ای گروپ میں عورتوں کی تعداد کیمبرج سے کہیں زیادہ تھی، اور اب ہماری برانچ کمیٹی میں عورتیں شامل ہو گئی تھیں۔ ان میں ایک فریڈی (یعنی ونیفریڈ) لیمبرٹ (Freddie Lembert) کے ساتھ میری خاص قربت ہوگئی تھی۔ اس کے بال ریت کے رنگ کے (زردی مائل سرخ) تھے اور اس کے سامنے کے دونوں دانتوں کے درمیان ایک جھری تھی (یہ ایسی خصوصیت ہے جو مجھے ہمیشہ پرکشش لگتی ہے)۔ وہ ہاکی کی بہت اچھی کھلاڑی تھی اور اس کی چال بھی اس کی غمازی کرتی تھی۔ میرے لیے یہ دوسری دل کشی تھی. اس کشش کے باوجود کبھی کسی پیش قدمی کی خواہش نہیں ہوئی کیوں کہ اس کا ایک مستقل بوائے فرینڈ موجود تھا (جان وکرس John Vickers جو کمیونسٹ کامریڈ تھا) اور میں نے بھی میری کے ساتھ پیمان باندھ لیا تھا۔پیمان کے ان دونوں ہی رشتوں کو میں مستحکم مانتا تھا لیکن اپنے جذبات کے مناسب اور محدود اظہار میں بھی مجھے کچھ قباحت نظر نہیں آتی تھی۔ کمیٹی کی میٹنگوں میں میں فریڈی کی کرسی کے برابر میں فرش پر بیٹھتا اور اس کے ٹخنوں کو چھوکر دیکھتا رہتا تھا۔اس پر اسے کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ وہ خود اس سے لطف اٹھاتی تھی۔" (جوئندہ یابندہ: رالف رسل (مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص: 214)
عام طور سے عاشق کی ساری تگ و دو منزل کو پا لینے کی چاہ میں ہوتی ہے۔ میری ایک فیس بک جرمن دوست جو اتفاق سے اس وقت تین بچے کی ماں ہیں وہ اپنے شوہر کے بارے میں بتاتی ہیں کہ  وہ ایسا جنسی بھیڑیا ہے کہ قربت کے لمحات میں اس کی ساری توجہ "ہم جفتی" پر ہوتی ہے یہاں تک کہ ان لمحات میں اس کو میرا ٹاپ (Top) اتارنا بھی سخت ناگوار گزرتا تھا۔ یہی نہیں میرے اصرار پر وہ مجھےسختی سے منع بھی کر دیتا ہے۔
مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرد کو عورت کا اوپر جھاپر ہی اس قدر بھا جاتا ہے کہ اصل منزل یکسر اس کے ذہن سے محو ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اردو و فارسی کے مشہور شاعر اسد اللہ خان غالب اپنی شاعری میں "زلف و رخسار" سے کبھی آگے نہیں بڑھے. استاد محترم پروفیسر محمد حسن نے غالب پر اپنے مضمون” غالب اور غالب آفرینی" میں ایک جگہ لکھا ہے:
"کلام غالب میں محبوب کے جسم و جسمانیات کی تلاش کریں تو زلف و رخ کے تذکرے پر رکنا پڑے گا: چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے
یا
وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے
یا
تو آرائش خم کاکل
یا
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
چکنی ڈلی والے قطعے کی تشبیہ سے گریز کریں تو کلام غالب میں جسم اور جسمانیات کا تذکرہ تقریباً غائب ہے." (طرز خیال: پروفیسر محمد حسن ۔اردواکادمی، دہلی، سنہ: 2005، ص:52)
اسی طرح اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے جس رغبت اور جوش و خروش سے عورتوں کے دیگر جسمانی اعضا کا بکھان کیا ہے وہ ان کے عضو مخصوصہ کے بکھان میں مفقود ہے۔ پروفیسر محمد محسن نے لکھا ہے:
”عورت کے جسم کے وہ حصے منٹو کو دعوت نظارہ نہیں دیتے جو شہوانی جذبات کو بر انگیختہ کرتے ہیں، اس کی کشش ان اعضا میں ہوتی ہے جس کا جنسی تسکین کے وسیلوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا …. جن افسانوں میں منٹو نے عورت کے سینے اور اس کی جزئیات پر اپنے قاری کو دعوت نظارہ دیا ہے ان کی خاصی تعداد ہے۔ اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاید ہی اردو کے کسی افسانہ نگار نے عورت کے سینے کی ایسی تفصیلی تشریح و بیان اتنے تواتر سے کیا ہوگا۔" ( سعادت حسن منٹو اپنی تخلیقات کی روشنی میں: پروفیسر محمد محسن، دار الاشاعت ترقی،دہلی، سنہ: 1982، ص: 58)
پہلے منٹو کے مشہور افسانے "خوشیا" کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمایا جاسکتا ہے جو ایک طوائف کے عضو مخصوصہ کے بکھان میں ہے:
” تھوڑی ہی دیر کے بعد دروازہ کھلا، خوشیا اندر داخل ہوا۔ جب کانتا نے دروازہ اندر سے بند کیا۔ تو خوشیا نے مڑ کر دیکھا۔ اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ جب اس نے کانتا کو بالکل ننگا دیکھا، بالکل ننگا ہی سمجھو۔ کیونکہ وہ اپنے انگ کو صرف ایک تولیے سے چھپائے ہوئے تھی، چھپائے ہوئے بھی نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ چھپانے کی جتنی چیزیں ہوتی ہیں۔ وہ تو سب کی سب خوشیا کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے تھیں ۔….. اس وقت بھی وہ کانتا کے ننگے جسم کو دیکھ رہا تھا، جو ڈھولکی پر منڈھے ہوئے چمڑے کی طرح تنا ہوا تھا ۔…… اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کانتا کو یک بیک ننگ دھڑنگ دیکھ کر بہت گھبرایا تھا لیکن چور نگاہوں سے کیا اس نے کانتا کی ان چیزوں کا جائزہ نہیں لیا۔ جو روزانہ استعمال کے باوجود اصلی حالت پر قائم تھیں۔" (منٹو کے افسانے، پیشکش: چودھری نذیر احمد خوشیاں، مکتبہ لاہور، ص: 78)
اسی کے بالمقابل عورتوں کی چھاتیوں سے متعلق منٹو کے یہ اقتباسات ملاحظہ فرمائے جا ئیں:
”رندھیر اس کے پاس بیٹھ گیا اور گانٹھ کھولنے لگا۔ جب نہیں کھلی تو اس نے چولی کے دونوں سروں کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ گانٹھ سراسر پھیل گئی اور اس کے ساتھ ہی دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں ایک دم سے نمایاں ہو گئیں۔ لمحہ بھر کے لیے رندھیر نے سوچا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پر، نرم نرم گندھی ہوئی مٹی کو ماہر کمھار کی طرح دو پیالوں کی شکل بنا دی ہے۔ اس کی صحت مند چھاتیوں میں وہی گدگداہٹ، وہی دھڑکن، وہی گولائی، وہی گرم گرم ٹھنڈک تھی جو کمھار کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے تازہ برتنوں میں ہوتی ہے۔" (منٹو کے متنازعہ افسانے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، سنہ: 2008، ص: 57)
آگے وہ مزید لکھتا ہے:
مٹمیلے رنگ کی جوان چھاتیوں میں جو بالکل کنواری تھیں۔ ایک عجیب و غریب قسم کی چمک پیدا کردی تھی جو چمک ہوتے ہوئے بھی چمک نہیں تھی۔ اس کے سینے پر یہ ایسے دیے معلوم ہوتے تھے جو تالاب کے گدلے پانی پر جل رہے تھے …… رندھیر کے ہاتھ ساری رات اس کی چھاتیوں پر ہوا کے جھونکوں کی طرح پھرتے رہے۔ چھوٹی چھوٹی چوچیاں اور موٹے موٹے گول دانے جو چاروں طرف ایک سیاہ دائرے کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے، ہوائی جھونکوں سے جاگ اٹھتے اور اس گھاٹن لڑکی کے پورے بدن میں ایک ایسی سرسراہٹ پیدا ہو جاتی کہ خود رندھیر بھی کپکپا اٹھتا۔ (منٹو کے متنازعہ افسانے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، سنہ: 2008 ص:57)
اسی طرح منٹواپنے افسانے موذیل میں لکھتا ہے:
”کرپال کور نئی نئی اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔ وہ یوں تو ہٹے کٹے کنگھر سنگھ کی بہن تھی، مگر بہت ہی نرم و نازک لچکیلی تھی۔ اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی۔ وہاں کی کئی گرمیاں سردیاں دیکھی تھیں مگر اس میں وہ سختی، وہ گٹھا، وہ مردانہ پن نہیں تھا جو دیہات کی عام سِکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے جنھیں کڑی سے کڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے نقش پتلے پتلے تھے، جیسے ابھی نامکمل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی۔" (منٹو کے متنازعہ افسانے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، سنہ: 2008، ص: 240)
اسی طرح اس ذیل میں مشہور صحافی و ادیب خوشونت سنگھ اپنی آپ بیتی میں ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”دیویانی مجھے راج کپور کے نجی سنیما میں ”ستیم، شوم، سندرم" کے افتتاحی مناظر دکھانے کے لیے لے گئی۔میں نے اپنے ساتھ اپنے اپارٹمنٹ کے اوپر رہنے والی سندھی خاندان کے افراد شیلا، اس کی بیٹی جیوتی اور ان کی گھریلو ملازمہ فاطمہ کو لیا، وہ سب عظیم کلاکار سے ملنے کے شائق تھے، زینت امان بھی موجود تھی۔ میں راج کپور اور زینت امان کے درمیان بیٹھا ہو ا تھا۔دیویانی میرے مہمانوں کے ساتھ پچھلی صف میں بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ زینت امان ایک دیہاتی تالاب سے باہر نکل رہی تھی، اس کی ساری گیلی ہوکر اس کے بدن سے چمٹی ہوئی تھی اور اس کے تراشیدہ پستان جھلک رہے تھے۔ ”میں چھاتیوں کو پسند کرتا ہوں" راج نے جوش کے ساتھ مجھ سے کہا۔ ”کیا تم نہیں کرتے ہو؟" میں نے اتفاق کیا کہ خوبصورت چھاتیاں اپنی ہی خوبیوں کی حامل ہوتی ہیں۔" (سچ محبت اور ذرا سا کینہ: خوشونت سنگھ، ایم آر پبلی کیشنز، نئی دہلی، سنہ: 2018، ص:265)
اسی طرح سے رالف رسل کو بھی باربرا کی چھاتیوں سے جو دل چسپی ہے وہ اس کے عضو مخصوصہ سے نہیں ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”باربرا اب تقریبا سولہ برس کی پرکشش لڑکی میں بدل چکی تھی۔ ہندوستان میں اپنے طویل قیام کے دوران میں عورتوں کی صحبت سے دور رہا تھا، اس لیے میں نے اس میں خصوصی دل چسپی لی۔ اس نے بھی حوصلہ افزائی کی اور اس صورت حال کا میں نے خوب لطف اٹھایا۔ میرا اندازہ ہے کہ میری کے منظر سے غائب ہو جانے کے بعد باربرا کے والدین یہ آس لگا رہے تھے کہ میں ان کی بیٹی سے شادی کر لوں گا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک رات جب میں ان سے ملاقات کے لیے گیا ہوا تھا اور باربرا میرے گھٹنوں پر بیٹھی ہوئی تھی تو فرینگ اور گرٹی نے کہا تھا کہ "ہم سونے کے لیے جا رہے ہیں، باربرا تمھارے ساتھ ٹھیک رہے گی، یہ ٹھیک ہے نا؟ ہمیں یقین ہے تم اسے کسی پریشانی میں نہیں ڈالو گے۔ نہیں ڈالوگے نا؟؟" (میرا خیال ہے یہ یہی سوچ رہے تھے کہ میں ایسا ضرور کروں گا اور پھر مجھے اس سے شادی کرنی پڑے گی۔ باربرا کے جواب سے انھیں ضرور خوشی ہوئی ہوگی۔ وہ بولی تھی،”ٹھیک ہے، اس کی دل چسپی صرف میری چھاتیوں سے ہے۔" (جوئندہ یابندہ: رالف رسل،(مترجم :ارجمند آرا)۔ ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ:  2005، ص:447)
موجودہ دور میں اس بات پر شدت سے زور دیا جاتا ہے کہ شادی سے پہلے عورت مرد کا ایک دوسرے کو جاننا اور اس کے ساتھ کچھ وقت گزارنا ضروری ہے۔ اور یہ بات مغربی ممالک میں اور بھی زیادہ کثرت سے دیکھی جاتی ہے۔ مولانا نیاز فتح پوری نے اپنی کتاب "ترغیبات جنسی" میں ایک جگہ لکھا ہے:
”یورپ میں بغیر نکاح کے جو تعلقات جنسی قائم ہوجاتے ہیں، انھیں”آزمائشی شادیاں" (Trial Marriages) کہتے ہیں۔ ان تعلقات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نکاح سے قبل ہی آئندہ ازدواجی زندگی کے خوش گوار ہونے کا یقین کر لیا جائے۔ اس قسم کی آزمائشی شادیاں”کورٹ شپ" (Court Ship) کا عمومی نتیجہ ہو ا کرتی ہے۔اول اول باہم تعارف ہوتا ہے۔ پھر شناسائی ہوتی ہے اور یہی شناسائی رفتہ رفتہ یکجائی کی صورت اختیار کر لیتی ہے  یہ طریقہ قلٹی (Celtie) اور طوطانی (Teutonic) ممالک میں عام طور پر رائج ہے اور مختلف علاقوں میں اس کے لیے مختلف اصطلاحیں رائج ہیں …… اگر فریقین کے درمیان یہ آزمائشی شادی کامیاب ثابت ہوتی ہے تو باقاعدہ نکاح کر لیا جاتا ہے۔ ورنہ اس آزمائش کے لیے دوسرا میدان تلاش کر لیا جاتا ہے۔ اگر اس قسم کے تعلقات کے دوران کوئی بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو سوسائٹی میں اس عورت کو ذلیل نہیں سمجھا جاتا۔انگلستان کے علاقہ اسٹیفورڈ شائر (Staffordshire) میں تو یہ رواج بہت عام ہے اور وہاں مشہور ہے کہ ایسی عورتیں نہایت اچھی رفیق، حد درجہ جفا کش بیویاں اور مائیں ثابت ہوتی ہیں۔" ( ترغیبات جنسی: نیاز فتح پوری، آواز اشاعت گھر، اردو بازار لاہور، سنہ ندارد، ص: 25)
اس کتاب میں بھی اس طرح کے کئی واقعات مذکور ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رالف رسل اس طرح کی سوچ کے قائل ہی نہیں بلکہ وہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔ وہ اپنے ساتھی ریکس کے رویے پر اس لیے حیرت زدہ ہیں کہ وہ ایک جرمن عورت سے "آزمائشی مدت" گزارے بغیر ہی شادی کرلیتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”لندن سے ریکس اپنے ساتھ کارل نام کے ایک پستہ قد آسٹریائی پناہ گزیں کو اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ بائیں بازو کے بہت سے حامیوں میں یہ بات عام تھی کہ ہٹلر کی دہشت کے شکار لوگوں، یعنی کمیونسٹوں، ٹریڈ یونین والوں اور یہودیوں کو وہ اپنے گھروں میں رضاکارانہ طور پر پناہ دیتے تھے۔ مدد کا ایک طریقہ یہ تھا کہ یہاں لاکر ان کی شادی کردی جاتی تھی کیونکہ ان دنوں برطانوی شہری سے شادی کرنے والوں کو ازخود برطانوی شہریت مل جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے جارج مائلز نے ایک جرمن عورت سے شادی کی تھی اور اپنی معصومیت کے سبب میں اس پر حیرت زدہ تھاکہ آخر اس نے ایک ایسی عورت سے شادی کیسے کرلی جس سے اس نے کوئی رومانی دل چسپی نہیں لی تھی۔ ریکس بھی اس قسم کے کئی پناہ گزینوں کے رابطے میں تھا جن میں سے اس کی سب سے زیادہ قربت ایک جرمن کمیونسٹ، اس کی بیوی اور ان کے ننھے سے بیٹے کے ساتھ رہی۔" (جوئندہ یابندہ: رالف رسل(مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص:228)
اسی طرح وہ ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
”میری بہن گرٹی کے خط سے پتہ چلا کہ میری رونی کنگ سے شادی کرنے والی ہے اور ”ایک ننھا سا شہزادہ یا ننھی سی شہزادی" (کنگ کی مناسبت سے) بھی آنے والی ہے۔مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ اس کو "اسی وجہ سے شادی کرنی پڑ رہی ہے" (اس وقت کے محاورے میں اسی طرح کہا جاتا تھا ) کہ رونی کنگ نے اسے حاملہ کردیا ہے اور میرا خیال درست ثابت ہوا۔ میں نے طے کر لیا کہ اب اس سے رابطہ نہ قائم کروں گا، تاکہ اپنی شادی سے اسے جتنی بھی خوشی مل سکے وہ اس سے پوری طرح لطف اندوز ہولے۔" (جوئندہ یابندہ:رالف رسل۔ (ایضاً، ص: 365)
یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ انسان اپنی اس دنیاوی زندگی میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں کچھ ایسی بدعتوں میں بھی گرفتار ہو جاتا ہے جو انسانی فطرت کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ انسانیت کے چہرے پر بد نما داغ بھی ہے۔ نیاز فتح پوری نے اپنی کتاب ترغیبات جنسی کے شروع ہی میں لکھا ہے:
”اگر کارگاہ حیات پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ عالم کی تمام رونق، دنیا کا سارا ہنگامہ منحصر ہے صرف انسانی خواہشات پر جس کی تکمیل کے لیے وہ اپنی تمام جسمانی و دماغی قوتیں صرف کر دیتا ہے۔ وہ بھوکا ہوتا ہے تو حصول غذا کے لیے کوشش کا کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتا ہے، وہ سردی گرمی محسوس کرتا ہے تو اس کو دور کرنے کے لیے شب و روز محنت کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا اور جب اسے پیاس معلوم ہوتی ہے تو پانی کے لیے دیوانہ وار دوڑتا پھرتا ہے۔ منجملہ انھیں فطری خواہشات کے ایک خواہش وہ بھی ہے جو تعلق جنسی یا جذبہ شہوانی سے وابستہ ہے اور اس کے لیے بھی تگ و دو کرنا اس کی عادت ہے۔ لیکن جس طرح فراہمی غذا کے سلسلے میں انسان سدّ رمق یا نان جویں سے بڑھ کر مزعفر و بریانی سے بھی بس نہیں کرتا ہے، حفاظت جسم کے لیے کھدر سے گزر کر حریر پرنیاں تک پہنچ جاتا ہے۔ تشنگی رفع کرنے کے سلسلے میں سادہ پانی سے شراب انگور تک پہنچ جاتا ہے، اسی طرح وہ خواہش جنسی پورا کرنے میں ایک جائز حد سے گزر کر ان بدعتوں تک پہنچ جاتا تھا جو بڑی حدتک غیر فطری، غیر انسانی اور غیر تمدنی ہیں۔" (ترغیبات جنسی:نیاز فتح پوری، آواز اشاعت گھر،اردو بازار لاہور، سنہ: ندارد، ص:4)
اس کتاب کا بڑا حصہ وہ ہے جس میں رالف رسل نے خود اپنی طبیعت کا جھکاؤ کسی مرد کی طرف دکھایا ہے، اس طرح کے تعلق کو اردو میں استلذاذبالمثل کہا جاتا ہے۔ اس کا نشانہ خود پہلے پہل مصنف بنتے ہیں مگر وہ شکارنہیں ہو پاتے۔ رالف رسل نے اسی کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے:
”مجھے یاد ہے کہ روجر فری ان دولوگوں میں سے ایک تھا جنھوں نے میرے تئیں جنسی میلان کا اظہار کیا۔مجھے یہ تو بالکل یاد نہیں کہ درحقیقت اس نے کس طرح سے اپنا عندیہ ظاہر کیا لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اپنے ارادوں میں کچھ زیادہ آگے نہ بڑھ سکا ہوگا. دوسرا شخص دان ولسن (Don Wilson) نام کا ایک بس کنڈکٹر تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں وہ فوج میں سپاہی رہ چکا تھا اور اس کو اپنی ہر چیز پر تھوک کر اور پھر اس کو رگڑ کر چمکانے کی عادت پڑگئی تھی، میں نے کوئی دوسرا ایسا بس کنڈکٹر نہیں دیکھا جس کے کرایہ رکھنے کے تھیلے کے بند اتنے چمچماتے ہوئے ہوں جتنے کہ اس کے تھیلے کے ہوتے تھے۔ ہم رسل لڑکے … یعنی ولفریڈ اور میں …. ان لوگوں میں سے تھے جن کو وہ ایپنگ فارسٹ میں ٹہلانے کے لیے لے جا تا تھا. وہ ہمارے گھر آتا اور ہم کو باہر بلواتا اور مجھے لگتا کہ ہماری ہی طرح ہماری ماں کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ اس کے ذہن میں ہمارے بارے میں کچھ نامناسب خیالات ہیں۔ وہ کبھی کبھی ہم کو فوجیوں کے گیت بھی سناتا تھا ……. ایک بار جب وہ میرے ساتھ جنگل میں تھا اس نے کہا تھا ہم ساتھ ساتھ لیٹتے ہیں اور اس کے بعد اس نے اپنی ران میری ران پر رکھ دی. لیکن جیسے ہی اس کو اندازہ ہوا کہ اس کی اس حرکت کو میں نے پسند نہیں کیا تو پھر آگے کچھ کرنے کا ارادہ اگر اس کے ذہن میں تھا تو بھی اس نے ترک کردیا۔" (جوئندہ یابندہ: رالف رسل۔ (مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص:63)
نیاز فتح پوری نے اس طرح کے رویے کی کئی وجہیں بتائی ہیں۔ اسی ضمن میں وہ ایک جگہ کیمپف کا یہ خیال نقل کرتے ہیں:
”کیمپف (Cempf) کا خیال ہے کہ بعض مردوں میں عورت کی طرف سے ایک قسم کی نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور اس نفرت کا سبب در حقیقت عورت کا رعب یا خوف ہوتا ہے اور مرد باور کر لیتا ہے کہ وہ اس پر قادر نہ ہو سکے گا. نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ استلذاذبالمثل کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔" ( ترغیبات جنسی: نیاز فتح پوری، آواز اشاعت گھر، اردو بازار لاہور، سنہ: ندارد، ص:168)
ماہرین جنسیات کا خیال ہے کہ جو لوگ اس "فعل" میں شروع میں”مفعول" کا کردار ادا کرتے ہیں وہی بعد میں "فاعل" ہوجاتے ہیں۔ رالف رسل نے اسی کتاب میں آگے لکھا ہے:
”انھی برسوں میں میں نے پہلی بار شدید محبت کو محسوس کیا، یقینا اس جذبے کے لیے یہی مناسب ترین لفظ ہے اور یہ ایسا احساس تھا جو میں نے اب سے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا. میں کوئی نو برس کا تھا اور جو کچھ میں نے محسوس کیا وہ تھا ایک لڑکے لاری ٹاملن کے تئیں گہری عقیدت کا احساس، جس کا ذکر پہلے بھی میں نے کیا ہے۔ مجھے یہ بات خصوصی طور پر یاد ہے کہ جب اس کی انگلی کٹ گئی تو میں اسے صاف کرنے کے لیے اس کی انگلی چوسنا چاہتا تھا۔ وہ میری بات سے خوب محظوظ ہوا اور اس نے میرے ساتھ رواداری کا رویہ برتا، میں اس سے بدلے میں کچھ نہیں چاہتا تھا سوائے اس کے کہ وہ مجھے اس کی اجازت دے کہ میں اس سے محبت کروں. محبت کے احساس سے ہی مجھے بے حد خوشی محسوس ہوتی تھی۔" (جوئندہ یابندہ:رالف رسل۔ (مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص:64)
اسی طرح وہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
” چگویل کے ابتدائی دنوں میں مجھے اپنے ہی ہم عمر لڑکے کے ساتھ انسیت ہو گئی تھی (میرا خیال ہم کوئی بارہ برس کے تھے) گو یہ محبت اس سے کم شدید تھی جو میں نے لاری ٹاملین کے لیے محسوس کی تھی، پھر بھی کافی شدید تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے یہ کہہ کر اسے پریشان کر دیا تھا کہ بڑے ہونے کے بعد ہم لوگوں کو شادی کرلینی چاہیے۔ اس نے خاصے تیز لہجے میں مجھ سے کہا تھا کہ ایسا کرنا ممکن نہیں اور یہ مرد آپس میں شادی نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ جواب اس نے دیا تھا اس لیے میں نے اسے بغیر چون چرا کے قبول کر لیا اور یہ پوچھنا غیر ضروری سمجھا کہ ہم شادی کیوں نہیں کر سکتے۔" (جوئندہ یابندہ:رالف رسل۔ (مترجم : ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص: 64)
اسی ذیل میں یہ اقتباس بھی دیکھا جاسکتا ہے، جس سے  ان کے ہم جنس پرست ہونے کے عندیہ ملتا ہے:
”اسی سال میں نے اور کرس نے راؤنڈ چرچ اسٹریٹ میں واقع ایک مکان میں ایلن اور ایک نوجوان جیک پٹیرس (Jack Petres) کے ساتھ مشترکہ رہائش اختیار کی. پیٹرس کو ہم لوگ "ہارس" کہہ کر پکارتے تھے کیوں کہ اس کے جوتے کھٹ کھٹ کی زور دار آوازکرتے تھے۔ اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے وہ ہنستا تھا۔ ہم لوگ فرش پر ایک قطار میں سوتے تھے اور میں کرس ایک دوسرے کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کرتے تھے۔ ایلن کے خیال میں یہ بات نا زیبا اور ہم جنسی کے رجحان کا ثبوت تھی۔ لیکن ایلن کی ناپسندیدگی کا ہم نے ذرا بھی اثر نہ لیا۔" (جوئندہ یابندہ:رالف رسل۔ (مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص: 215)
یہی چیز بعد میں فوج میں بھرتی ہونے کے بعد رالف رسل کی فطرت ثانیہ بن گئی۔ نیاز فتح پوری نے اس کی وجوہات "ترغیبات جنسی" میں یوں بیان کی ہے:
”علاوہ اس کے ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ مردوں یا عورتوں کی کوئی جماعت عرصہ دراز تک اس طرح رہنے پر مجبور ہوتی ہے کہ جنس مخالف سے کوئی واسطہ نہیں رہتا تو ان میں مذموم عادت پیدا ہو جاتی ہے۔چنانچہ فوجوں کے سپاہی اور جہازوں کے ملاح جنھیں عرصہ دراز تک عورتوں سے جدا رہنا پڑتا ہے، استلذاذبالمثل کے عادی ہو جاتے ہیں." (ترغیبات جنسی: نیاز فتح پوری، آواز اشاعت گھر، اردو بازار لاہور، سنہ: ندارد، ص:168)
اسی بات کو اپنی کتاب ترغیبات جنسی کے صفحات پر نیاز فتح پوری نے جانوروں کی مثالوں سے اس طرح سے سمجھایا ہے:
”فرانس کے مشہور ماہر علم حیوانات کلونٹ ڈی بفون (BUffoon) نے اپنی کتا ب میں جانوروں خصوصاً پرندوں کی بہت مثالیں استلذاذبالمثل کی لکھی ہیں. ان کا قول یہ ہے کہ اگر بہت سی قسم کے صرف نر یا مادہ پرندے. مثلاً تیتر، بٹیر، مرغے، مرغیاں، فاختہ وغیرہ ایک جگہ بند کر دیے جائیں تو ان میں جلد استلذاذبالمثل کا شوق شروع ہوجاتا ہے۔ لطف یہ کہ بمقابلہ مادہ کے نر میں یہ کیفیت جلد پیدا ہوتی ہے اور فرانسیسی مفکر سینٹ کلیر ڈی ویلیو (Stclair De Velli) نے لکھا ہے کہ: ”اگر مینڈکوں، بکروں، کتوں، سانڈ، بیلوں وغیرہ کو اگر الگ بند کردیا جائے تو ان میں بھی یہی شوق پیدا ہو جاتا ہے، لیکن جب کوئی مادہ ان کو مل جاتی ہے تو وہ پھر طبعی حالت پر آجاتے ہیں۔" بومبارڈا (Bom Barida) ساکن شہر لزبن کا قول ہے کہ: ”ملک پرتگال میں ہر شخص اس بات سے واقف ہے کہ سانڈ بیلوں کے غول میں ہمیشہ ایک ایسا رہتا ہے، جو اپنا ساتھی بیلوں کے اس شوق کی تسکین کرتا رہتا ہے اور گائے بکری میں تو یہ حرکت اکثر دیکھنے میں آتی ہے۔ اسٹیناخ (Istinakh) کا مشاہدہ یہ ہے کہ سفید چوہوں میں یہ عادت ہے کہ جب ان کے پنجروں سے مادہ دور کردی جاتی ہے تو وہ آپس میں یہ حرکت کرنے لگتے ہیں. مول (Moll) نے بندروں اور گدھوں کو بھی یہ حرکت کرتے دیکھا ہے۔" (ترغیبات جنسی: نیاز فتح پوری، آواز اشاعت گھر، اردو بازار لاہور، سنہ: ندارد، ص: 173)
رالف رسل کو اس بات کا اعتراف ہے کہ اس طرح کے تعلقات غلط ہیں، ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں تفریحاً لوگ اس کو گوارا بھی کر لیتے ہیں:
”ان دنوں میں ہم جنسی کی شدید خواہش محسوس کرنے لگا تھا، جیسا کہ لمبے عرصے تک صرف مردوں کی صحبت میں رہنے کے سبب بہت سے لوگ محسوس کرنے لگتے ہیں، خصوصا اس صورت میں جب ان میں سے اکثر لوگ جنوبی ہند کے لوگوں کی طرح خوب صورت جسموں کے مالک ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں خان کے اردلی سبحان کے ساتھ کچھ اس طرح سے مذاق کر رہا تھا کہ اس نے یہ تاثر لیا (جودرست ہی تھا) کہ میرا دل اس پر آگیا ہے. میرے رویے پر وہ ہنس پڑا اور بولا، میں کوئی عورت نہیں ہوں صاحب، میں مرد ہوں مرد، مجھے نہیں لگتا کہ میرے سلوک سے اسے کوئی جھٹکا لگا تھا. مردوں کے درمیان جنسی تعلقات قائم ہوجانا ایک عام بات تھی اور حالانکہ اصولی طور پر اسے برا سمجھا جاتا تھا لیکن لوگ اسے تفریحاً گوارا بھی کر لیتے تھے۔" (جوئندہ یابندہ:رالف رسل۔ (مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص:360)
یہی نہیں بلکہ بعد کے صفحات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اس طرح کی علت میں مبتلا بھی ہو گئے تھے:
”دوسرا واقعہ ایک دن شام کے وقت ہوا. قبول شاہ اور میں تنہا تھے۔ اس نے باتوں باتوں میں مجھے بتایا کہ پیچھے کی طرف سے جنسی فعل بغیر کسی تکلیف کے کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح اس نے مجھ سے یہ بات کہی اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اس تجربے سے گذر چکا ہے۔ اس کے بعد اپنے بیان کی تصدیق کے لیے اس نے اس فعل میں میری مدد کی۔ پہلے ہی کی مانند، یہ سب بغیر کسی ہیجان کے، بڑی فطری طور پر ہو گیا۔ دونوں میں سے کوئی بھی کسی خاص جذباتی کیفیت سے دوچار نہیں ہوا۔ تھوڑی مشکل صرف اس وقت پیش آئی جب اس نے کہا کہ اس نے مجھ پر احسان کیا ہے۔ اب میں بھی اس پر یہی احسان کروں۔ اس کا مطالبہ جائز اور معقول تھا لیکن میں اپنے آپ کو اس کے لیے تیار نہ کر سکا اور خاموشی کے ساتھ اس نے میرے اس فیصلے کو بھی تسلیم کر لیا۔" (جوئندہ یابندہ: رالف رسل۔(مترجم: ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص:311)
استلذاذ بالمثل کی کئی وجہیں ہو سکتی ہیں. فوجی اپنی جنسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے طوائفوں کا سہارا بھی لے سکتے تھے مگر متعدی بیماریوں خصوصا آتشک بیماری کی وجہ سے وہ ادھر کا رخ نہیں کرتے تھے۔اس کی اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ رالف رسل لکھتے ہیں:
”مجھے یاد ہے کہ نارتھمپٹن میں سارجنٹ ویب نے ہم لوگوں کو اس اصول پر چلنے کی ترغیب دی تھی کہ گوہ سے بھری مقعد آتشک مول لینے سے بہتر ہے (Aforeskin full of shit is better than a dose of pox)۔" (جوئندہ یابندہ: رالف رسل۔ (مترجم: ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص: 317)
جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں فوجیوں کو چھٹی بڑی مشکل سے ملتی ہے اور جب کوئی مہم چھڑی ہوئی ہو تو یہ کام اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ جن فوجیوں کو چھٹی مل جاتی تھی وہ خود کو بڑا ہی خوش نصیب سمجھتے تھے۔ اور جب وہ ڈیوٹی پر واپس لوٹتے تھے تو سب فوجی گلا جوڑ کر اس سے گھر پر گزارے وقت کا لیکھا جوکھا مانگتے تھے۔ اس میں گونا گوں قسم کے موضوعات ہوا کرتے تھے۔ جن میں خاص طور سے ان کے اپنی بیویوں اور محبوباؤں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات ہوتے تھے۔ رالف رسل ایک جگہ لکھتے ہیں:
”اسی طرح جنسی کامیابیوں کے بارے میں جھوٹی سچی باتیں کرنا اور جنسی طور پر کھلی ہوئی افسانہ طرازیاں بھی عام بات تھی۔ جو آدمی ویک اینڈ اپنی بیویوں کے ساتھ گزارتے تھے، واپسی پر ان سے پوچھا جاتا کہ کیا انھوں نے اپنا سارا وقت گھونسلے پر گزارا۔اور اگر ان کو یہ پتہ چلتا کہ Robin was on the nest (یعنی بیوی مہینے سے تھی) تو پھر سب اس کے ساتھ ہمدردیاں جتاتے۔ چھٹیوں سے واپس آنے کے بعد مرد اپنی بیویوں کے ساتھ محبت کے تجربے خوب بیاں کرتے تھے۔ ایک نے اطلاع دی کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی بیوی کی شرم گاہ تعجب خیز حد تک تنگ ہوگئی تھی. ایک اور نے مجھے بتایا کہ اس کے لیے بیوی کے ساتھ صحبت کرنے کا بہترین وقت وہ تھا جب وہ بچے کی پیدائش کے وقت ہسپتال سے واپس آئی اور اس کی شرم گاہ کے چھوٹے چھوٹے بال چبھتے تھے۔" (جوئندہ یابندہ:رالف رسل۔ (مترجم :ارجمند آرا)، ذکی سنز پرنٹرز، کراچی، سنہ: 2005، ص239)
جیسا کہ ہم سبھی واقف ہیں کہ اگر مردوں کو عورتوں کی قربت نصیب نہ ہو تو وہ جانور بن جا تے ہیں۔ یہاں پر بھی فوجی اور ان کے افسران عورتوں سے دور رہنے کی وجہ سے طرح طرح کی فرسٹیشن (Frustration) کے شکار ہو گئے تھے، لھٰذا وہ ہتھیار چلانے کی ٹریننگ کے دوران بھی جو اشاروں، کنایوں کا استعمال کرتے تھے وہ بھی سیکس و اس کے متعلقات سے متعلق ہی ہوا کرتے تھے۔ رالف رسل لکھتے ہیں:
”ہتھیار چلانے کی یہ تربیت جنسی اور فحش اشاروں سے معمور ہوتی تھی۔ لیٹ کر رائفل سے نشانہ لگانے میں ہلکا سا ایک مخصوص زاویہ بنا کر ٹانگیں چوڑی کرکے لیٹنا پڑتا ہے. اگر کوئی اس پوزیشن میں نہیں لیٹتا ہے تو سارجنٹ چیخ کر کہتا تھا Open your legs,you wont get fucked (ٹانگیں چوڑاؤ، یہاں تمھیں کوئی نہیں…..) اس کے بر خلاف لائٹ مشین گن سے فائر کرتے وقت بندوق کی سیدھ میں ٹانگیں جوڑ کر لیٹا جاتا ہے، اگر کوئی اس طرح سے نہیں لیٹتا تو اس سے کہا جاتا Close your legs,your breath smells!(ٹانگیں سمیٹو، سانس سے بدبو آرہی ہے) لائٹ مشین گن کا ایک مخصوص حصہ باڈی لاکنگ پن کہلاتا تھا اور سارجنٹ اس کو کہتا Body locking pin or ladies delight  (باڈی لاکنگ پن یعنی خواتین کی مسرت)۔ بندوق کے نچلے حصے میں ایک شٹر ہوتا تھا۔ فائر کرنے بعد اسے بند کرنا پڑتا تھا. اس کے نچلے حصے میں لگی ایک چھوٹی سی گھنٹی کو انگلی رکھ کر دبانا پڑتا تھا جس سے شٹر بند ہو جاتا تھا. اس گھنٹی کو تلاش کرنے میں اگر کوئی مشکل پیش آتی تو سارجنٹ کہتا تھا You,d soon find it if we put some hair round it, (اگر اس کے چاروں طرف بال لگا دیں تو تم اسے آسانی سے ڈھونڈ لوگے)۔ اس بات کے باوجود کہ میں جنسی تجربے سے گزر چکا تھا، مجھے بالکل سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس جملے سے کیا مراد ہے۔ اسی طرح جب ان لوگوں نے ٹنے کو The boy in the boat (کشتی میں لڑکا) کہا تو مجھے اس کا مطلب بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت مجھے اس کا باکل اندازہ نہیں تھا کہ ٹنے جیسے کسی جز کا بھی کوئی وجود ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ لگانا تو دور کی بات تھی۔" ( ایضاً، ص: 242)
یہ تو تھا رالف رسل کی آپ بیتی جوئندہ یابندہ میں پائی جانے والی جنسی سرگرمیوں کا مختصر جا ئزہ۔دوران مطالعہ ایک بات جو میں نے شدت سے محسوس کی وہ یہ کہ مصنف عام موضوعات کی طرح جنس کے بیان میں بھی کسی طرح کی کوئی خاص دل چسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں۔ ہر چیز کو یکساں آنکتے ہیں، اس پوری کتاب میں مصنف جنس اور جنسیات کے ساتھ ویسے ہی اسموتھلی Smoothly برتاؤ کرتا ہے جیسے کہ ایک نارمل شخص ہوا پانی کے ساتھ کرتا ہے۔ اس پوری کتاب میں اس معاملے میں آپ کو کہیں بھی کسی طرح کا دلدر پن نظر نہیں آئے گا۔ جب کہ اس کے بالمقابل ہندستانی آب بیتی نگاروں میں چاہے وہ جوش ملیح آبادی ہوں، کنور مہندر سنگھ بیدی ہوں یا پھر خوشونت سنگھ، وہ اس معاملے میں اتنا زیادہ تعلی سے کام لیتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے  وہ جھوٹ بول رہے ہوں. ان کا یہ رویہ بہت کچھ فرائڈ کے شاگرد ایڈلر کے نظریے احساس کمتری کی تجرگاہ [؟] نظر آتا ہے۔ بقول نورالحسن نقوی:
”احساس کمتری کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز سے محروم ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے مقابلے میں خود کو حقیر یا کمتر سمجھنے لگتا ہے …… اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی اسے کس طرح برداشت کرتا ہے اور اس کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔ اسی ردعمل سے انسان کی شخصیت تعمیر ہوتی ہے. کوئی احساس کمتری پر قابو پانے کے لیے خود کو دوسروں سے برتر ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے احساس برتری کہا جاتا ہے۔ انگریزی شاعر پوپ بہت لاغر تھا، وہ خود کو دوسروں سے زیادہ صحت مند ظاہر کرنے کے لیے تلے اوپر کئی جوڑی کپڑے اور نیچے اوپر کئی کئی جرابیں پہن لیتا تھا. غالب کی داد و دہش ان کی تنگ دستی کا ردعمل تھی۔ پریم چند کے افسانے کفن کے کردار گھیسو اور مادھو جب نشے کے عالم میں بچی ہوئی پوریاں بھکاری کو دے ڈالتے ہیں تو گویا ساری زندگی کی فاقہ مستی کا بدلہ لے لیتے ہیں. مرزا عظیم بیگ چغتائی کی صحت خراب تھی، وہ مرزا پھویا کہلاتے تھے اور اپنے خاندان کے لوگوں میں پھوٹ ڈلواکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے تھے۔" (فن تنقید اور تنقید نگاری: نورالحسن نقوی، ایجو کیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، سنہ: 1990، ص:41)
ایسا لگتا ہے کہ جنس اور جنسیت (سیکس) کے معاملے میں تمام ہی ہندستانی ادیب بالخصوص آپ بیتی نگار، ایک طرح کی احساس کم تری کا شکار ہیں، جن کو وہ احساس برتری میں تبدیل کرنا چاہتے ہوں.
***
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش: ’بازگشت‘: ایک تنقیدی جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے