ملک العلما سیمانچل میں (دوسری قسط)

ملک العلما سیمانچل میں (دوسری قسط)

مفتی محمد شہروز کٹیہاری
موہنا، چوکی ، کدوا، کٹیہار ، بہار، ہند
ملک العلما سیمانچل میں (پہلی قسط)
بحرالعلوم کی مرکزیت:
کٹیہار میں ملک العلما کی آمد ہوتے ہی بحرالعلوم کو علما اور طلبہ دونوں کے لیے مرکزیت حاصل ہوگئی۔ سیمانچلی علما و طلبہ کے لیے ملک العلما نعمت غیر مترقبہ تو تھے ہی، باہری علما و طلبہ کٹیہار کارخ کرنے لگے۔ بحرالعلوم میں غیرسیمانچلی علماوطلبہ جنھوں نے ملک العلما سے کسب فیض کیا ہو، صحیح تعداد تو نہیں معلوم، مگر جن چند کا ذکر ملا، یہاں درج کیا جاتا ہے۔
علامہ حافظ عبدالروف بلیاوی قدس سرہ:
حضورحافظ ملت عزیزالاولیا حضرت علامہ الشاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے دست راست تھے علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی قدس سرہ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے شیخ المعقولات اور نائب شیخ الحدیث تھے۔ ضلع بلیا، یوپی ان کا آبائی مسکن تھا۔ والد ماجد جناب محمد اسلام صاحب کلکتہ میں ریلوے ملازم تھے۔ کلکتہ سے حفظ قرآن کے بعد امروہہ اور احسن المدارس کان پور ہوتے ہوئے جامعہ اشرفیہ مبارک پور پہنچے اور حضور حافظ ملت کی بارگاہ میں دستار فضیلت حاصل کی، کچھ دنوں بریلی شریف اور کان پور میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد مستقل طور سے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ہو کر رہ گئے۔ فتاویٰ رضویہ کی ترتیب و اشاعت میں آپ کا نمایاں کردار ہے۔
جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی تدریس کے زمانے میں کچھ مہینہ چھٹی لے کر ملک العلما سے علم ہیئت و توقیت کے مشکل اسباق کی عقدہ کشائی کی۔ یہاں تک تو ملک العلما کے سبھی سوانح نگار متفق ہیں. مگر شہزادۂ ملک العلما ڈاکٹر مختارالدین آرزو کے مطابق یہ تعلیم پٹنہ کے ظفر منزل [ملک العلما کا گھر] میں حاصل کی تھی۔ جب کہ ملک العلما کے تلمیذ رشید حضرت مولانا شہاب الدین صاحب اشرفی بارسوئی، کٹیہاری قدس سرہ لکھتے ہیں کہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی نائب شیخ الحدیث کی آمد بحرالعلوم کٹیہار میں ہوئی تھی۔ تین ماہ کی رخصت لے کر آئے تھے، مگر ملک العلما نے چند ہفتوں میں انھیں علم توقیت سکھادیا. [دیکھیے جہان ملک العلماص:۴۵۲]
جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے سابق استاذ اور ملک العلما پر سب سے بڑے لکھاری حضرت علامہ مفتی، محقق محمد ارشاد احمد ساحل سہسرامی مصباحی لکھتے ہیں:
’’جب ملک العلما مدرسہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار میں درس دے رہے تھے، اس وقت آپ [عبدالرؤف بلیاوی] نے اس فن کو سیکھنے کے لیے کٹیہار کا سفر کیا اور چھے مہینہ رہ کر اس فن میں مہارت حاصل کی۔‘‘[جہان ص:۱۰۴۳]
ملک العلما کے باحیات تلامذہ میں علامہ عبدالعلیم علمی مالک علمی کتب خانہ کشن گنج اور مولانا عبدالقادر رشیدی سابق پرنسپل مدرسہ شمسیہ سہی پور، کٹیہار بہار ساکن چندرگاؤں نے بھی اپناچشم دید واقعہ بتایا۔
مولانا عبدالقادر صاحب کے مطابق حافظ عبدالرؤف بلیاوی قدس سرہ کو ملک العلما بعد عصرتامغرب کا وقت دیتے تھے جو ان کی چائے نوشی کاوقت تھا۔
کٹیہار میں علامہ عبدالرؤف بلیاوی قدس سرہ کی مدت قیام میں اختلاف ضرور ہے۔ مگر قیام و تعلم ثابت ہے۔ممکن ہے پٹنہ ظفر منزل میں بھی رہ کر کچھ اسباق پڑھے ہوں۔
مولانا محمد یعقوب صاحب گیاوی قدس سرہ:
گیا، بہار کے حضرت مولانا یعقوب صاحب ایک خطیب تھے اور کسی مدرسے میں مدرس تھے۔ بحرالعلوم کٹیہار میں رہ کر ملک العلما سے تفسیر کے کچھ اسباق پڑھے۔[بروایت مولاناعبدالعلیم علمی و عبدالقادری رشیدی]
علامہ مصطفیٰ رضاعرف شبنم کمالی قدس سرہ:
پوکھریرا، سیتامڑھی، بہارکی مشہور شخصیت علامہ شبنم کمالی [ولادت ۱۹۳۸ء] سے کون واقف نہیں۔ نعت گوئی میں بہار کے سب سے بڑے شاعرہیں. آپ ملک العلما کی بارگاہ میں پندرہ دن کے لیے بحرالعلوم کٹیہار تشریف لائے اور علوم عقلیہ کے کچھ اسباق پڑھ کر واپس ہوگئے۔[بروایت مولاناعبدالعلیم علمی]
غیرسیمانچلی طلبہ:
مولانا فیض الرحمٰن اشرفی:
مدھوبنی ضلع، سبقی تھانہ، موضع بلہا کے باشندہ تھے، مولانا محمد فیض الرحمٰن اشرفی قدس سرہ، والد گرامی حضرت مولانا شرف الدین قدس سرہ تھے۔ دادا شیخ کفایت حسین ایک فارسی داں شخص تھے۔گھریلو تعلیم کے بعد مدرسہ انوارالعلوم کمّاں سیتامڑھی میں داخل ہوئے، یہ ان کے والد کامدرسہ تھا۔ شرح وقایہ تک کی تعلیم کے بعد ۱۹۵۴ء میں مدرسہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار میں ملک العلما کی خدمت میں آگئے، خواجہ علم و فن خواجہ مظفر حسین رضوی قدس سرہ کے ہم سبق تھے۔ دوسال یہاں رہے پھرجامعہ نعیمیہ مراد آباد اور مدرسہ مظہر اسلام بریلی شریف پہنچ گئے۔ مگر ملک العلما کی چاہت نے انھیں ۱۹۵۷ء میں دوبارہ مدرسہ لطیفیہ بحرالعلوم پہنچادیا۔ ۷؍شعبان المعظم ۱۳۷۸ھ ۲؍ مارچ ۱۹۵۸ء کو بحرالعلوم ہی میں دستارفضیلت پائی اور مدرسہ اشرفیہ اظہارالعلوم مانجھی پور میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس مدرسے کے بانی شیخ المعقولات علامہ سلیمان اشرفی ہیں. [جہاں ملک العلما، ص:۱۰۷۷]
مولانا ولی الرحمٰن صاحب:
موضع کماں، ضلع سیتامڑھی کے رہنے والے تھے، مولانا ولی الرحمٰن صاحب۔ ۱۹۵۸ء میں بحرالعلوم کٹیہار سے فارغ ہونے والوں میں سے ایک ہیں۔ حضرت ملک العلما کے معتمد طلبہ میں سے تھے۔ پاکیزہ کردار و عمل کے مالک تھے۔ اپنے گاؤں کماں کے مدرسہ انوارالعلوم میں خدمت دین انجام دے رہے تھے۔ [جہان ملک العلما، ص:۱۰۷۸]
مولانا لطیف الرحمٰن صاحب :
یہ بھی مولانا فیض الرحمٰن بلیاوی کے ساتھیوں میں تھے. مظفر پور سے تعلق رکھتے تھے اور بحرالعلوم کٹیہار میں زیرتعلیم تھے۔ یہیں سے فراغت بھی حاصل کی۔ عمدہ صلاحیت کے مالک تھے۔ درگاپور کے کسی مدرسے میں تدریس کے فرائض نباہ رہے تھے، [جہان ملک العلما، ص:۱۰۷۸] ان کے علاوہ ایک نام مولانا محبوب عالم مونگیری کا بھی ہے مگر تفصیل دسیتاب نہیں۔
بحرالعلوم میں مشائخ طریقت:
ملک العلما کی بحرالعلوم میں تشریف آوری کے بعد ہی علماومشائخ کے لیے مدرسہ بحرالعلوم مرکز توجہ بن گیا۔سیمانچل کے اجلاس میں تشریف لانے والے علماے کرام کا ریلوے اسٹیشن عموماً کٹیہار ہی پڑتا، آتے یا جاتے وقت ملک العلما سے ملاقات کرنے ضرور آتے۔ ملک العلما کی دس سالہ زندگی میں کتنے علما و مشائخ آئے ہوں گے اس کاشمار اس وقت ممکن نہیں۔ چند مشائخ جن کا ذکر تحریری یا زبانی دستیاب ہوا مختصر تعارف کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔
سید شاہ محمد کچھوچھوی [محدث اعظم ہند] قدس سرہ:
جائس، ضلع رائے بریلی، یوپی، آپ کا مولد و مسکن ہے۔یہیں آپ کی پیدائش ۱۳۱۱ھ /۱۸۹۴ء میں ہوئی۔ حکیم سید شاہ نذیر اشرف قدس سرہ آپ کے والد تھے۔ والد ماجد کے علاوہ علامہ عبدالباری فرنگی محلی، مولانا لطف اللہ علی گڑھی، مولانا محمد عبدالمقتدر بدایونی، مولانا وصی احمد محدث سورتی اور امام احمد رضا فاضل بریلوی جیسی شخصیات آپ کے اساتذہ ہیں۔ بیعت اعلیٰ حضرت اشرفی میاں سید شاہ علی حسین اشرفی علیہ الرحمہ سے حاصل تھی۔ خلافت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ سے پائی. ۱۳۸۱ھ / ۱۹۶۱ء میں وصال ہوگیا۔
محدث اعظم ہند آپ کا پیارا لقب ہے۔ خطابت کی دنیا میں آپ کی حکمرانی تھی، سیمانچل میں آپ کی آمد جب بھی ہوتی آپ بحرالعلوم کٹیہار ضرور تشریف لاتے، آپ جب بھی مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار میں تشریف لاتے، ملک العلما کے دروازے پر جاکر اپنے مخصوص بے تکلفانہ انداز میں بلند آواز میں ملک العلما کو سلام عرض کرتے۔دونوں کے آپس میں گہرے مراسم تھے۔ ہر ایک دوسرے کا بے حداحترام کرتے۔
شیر بیشۂ اہل سنت علامہ حشمت علی خان قدس سرہ:
اہل سنت کا ایک تاب ناک چہرہ شیربیشہ اہل سنت کا ہے۔ وطناً لکھنوی ہیں، پیلی بھیتی سے مشہور ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے شاگردوخلیفہ ہیں۔ ۱۳۴۰ھ میں منظر اسلام سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے عرس چہلم کے موقع پر آپ کی دستار بندی ہوئی۔ محدث بہارحضرت علامہ احسان علی مظفرپوری، سابق استاذ منظر اسلام آپ کے رفیق درس تھے۔ سیدنا امام احمد رضا قدس سرہ کا مشہور فتویٰ حسام الحرمین کی تائید میں الصوارم الہندیہ نامی یک کتاب شائع کی، جو درحقیقت ڈھائی سو سے زائد علماے ہند و سندھ کی تصدیقات کامجموعہ ہے۔ ۱۹۸۰ء میں ان کا وصال ہوگیا۔
مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار میں شیر بیشۂ اہل سنت کی آمد کئی بار ہوئی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ شیر بیشہ اہل سنت کی کٹیہار سے واپس جانے والی ٹرین چھوٹ گئی۔حضرت مدرسہ بحرالعلوم میں تشریف فرما ہوئے۔ ٹرین اب دوسرے دن ہی مل سکتی تھی، اس لیے شب گزاری مدرسہ بحرالعلوم ہی میں ہوئی۔ ملک العلما اس دن مدرسہ سے کہیں باہر تھے۔ مولانا محمد یوسف عظیم آبادی مدرس مدرسہ بحرالعلوم کا قیام ملک العلما ہی کے حجرے میں ہوتا تھا۔ مولانا محمد یوسف صاحب نے ملک العلما کی سیٹ پر شیر بیشۂ اہل سنت کو بٹھایا، بعد مغرب علماوطلبہ کی حجرے میں بھیڑ تھی۔ سب شیر بیشۂ اہل سنت کی طرف ہمہ تن بگوش تھے. شیر بیشۂ اہل سنت کو جب پتا چلا کہ یہ تخت جس پر وہ تشریف فرما ہیں ملک العلما ہی کا ہے۔ چھلانگ نما انداز میں اس سے کود کر نیچے آگئے اور تخت کو بوسہ دے کر مولانا محمد یوسف صاحب کے تخت پر بیٹھ گئے۔ مولانا محمد مشتاق احمد مظفرپوری کی گزارش پر عملہ ٹولہ کی مسجد میں خطاب بھی فرمایا، صبح کی ٹرین سے واپس گئے۔ [بروایت مولانا عبدالقادر رشیدی]
مفسر قرآن علامہ ابراہیم رضاخاں قدس سرہ [جیلانی میاں ]:
امام احمد رضا قدس سرہ کے پوتے ہیں، حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں کے بیٹے ہیں اور تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا خاں ازہری میاں کے والد بزرگ وار ہیں. ۱۳۲۵ھ میں پیدائش ہوئی. منظر اسلام بریلی شریف کے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ والد ماجد کے وصال کے بعد تا عمر مدرسہ منظر اسلام کے مہتمم رہے۔ ۱۳۸۵ھ/ ۱۹۶۵ء میں آپ کا وصال ہوا۔
۱۹۵۸ء میں بحرالعلوم کٹیہار میں جلسۂ دستار فضیلت تھی۔ اس میں آپ کی شرکت ہوئی. اس کے علاوہ بھی سیمانچل میں جب بھی تشریف لاتے موقع نکال کر کٹیہار بحرالعلوم میں ضرور تشریف لاتے۔ ایک بار ملک العلما مصلاے امامت پر تشریف فرما، وقت جماعت کے منتظر تھے۔ اچانک جیلانی میاں کی آمد ہوگئی۔ ملک العلما ضعف و نقاہت کے باوجود کھڑے ہونا چاہتے تھے۔اُدھر جیلانی میاں کو بھی احساس ہوا کہ ملک العلما میرے لیے کھڑا ہونا چاہتے ہیں، فوراً ہی مصلاے اقتدا پر بیٹھ گئے. بعد میں ملک العلما سے کسی نے پوچھا کہ آپ تو بڑے ہیں پھر کیوں کھڑے ہورہے تھے۔ فرمایا کہ اس در کا کتا بھی آجائے تو مجھے احترام کرنا چاہیے۔[بروایت عبدالقادررشیدی]
علامہ مشتاق احمدنظامی قدس سرہ:
پھول پور، ضلع الٰہ آباد سے تعلق رکھنے والی عظیم شخصیت ہیں، علامہ مشتاق احمد نظامی قدس سرہ۔مجاہد ملت حضرت علامہ حبیب الرحمٰن قدس سرہ کے زیر سایہ مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد میں تعلیم حاصل کی۔مجاہد ملت سے شرف بیعت بھی حاصل کیا۔ مختلف مدارس میں تدریسی خدمات کے بعد الٰہ آباد میں وقت کی مشہور درس گاہ دارالعلوم غریب نواز قائم فرمایا۔ ’’خون کے آنسو‘‘ آپ کی شہرۂ آفاق تصنیف ہے۔ تبلیغ آپ کا مشہور ترین مشغلہ تھا۔ سیمانچل کے دورے پرآتے تو ملک العلما کی زیارت کو بحرالعلوم آنے کا موقع ضرورنکالتے۔
صوفی شاہ محمد تیغ علی مظفرپوری قدس سرہ:
مظفر پور کے گوریاہ قصبے میں ۱۳۰۰ھ میں پیدا ہوئے۔سلسلۂ نسب شیخ احمدسرہندی مجدد الف ثانی تک پہنچتا ہے۔ کلکتہ وغیرہ سے تعلیم حاصل کی۔ حضرت مولانا شاہ سمیع احمد مونگیری قدس سرہ سے سلسلہ قادریہ مجددیہ آبادانیہ میں بیعت حاصل کی۔ حضرت شاہ مولاعلی لال گنجوی نے خلافت عطا فرمائی. قصبہ سرکانہی میں خانقاہ قائم فرمایا، بہار و بنگال آپ کے فیض سے خوب سیراب ہوئے۔ تبلیغی دورے پر پورنیہ تشریف لاتے تو بحرالعلوم کٹیہار بھی تشریف لاتے۔ ۱۳۷۸ھ میں آپ کاوصال ہوگیا۔ سُرکانہی شریف میں آپ کا مزارپاک ہے۔
حضرت علامہ شاہ عبدالحفیظ صاحب قدس سرہ:
مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار کے جلسۂ دستار بندی میں مقرر خصوصی کی حیثیت سے تشریف لاتے تھے۔ آگرہ میں ان کا ایک عظیم الشان ادارہ چل رہاتھا، مفتی آگرہ سے مشہورتھے۔ سیرت نبوی پر جادو بیانی کے لوگ فریفتہ تھے۔ بحرالعلوم میں بھی اسی موضوع پر خطاب فرمایا تھا۔ غالباً بعد میں پاکستان چلے گئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ [روایت مولانا عبدالعلیم علمی]
مدرسہ بحرالعلوم کا مطبخ :
مدرسہ میں مطبخ کا نظم نہیں تھا۔ ایڈوکیٹ حضرات اپنے اپنے مؤکلین کے لیے باورچی رکھ کر کھانا پکواتے اور اپنے تمام موکلین کو دونوں ٹائم بامعاوضہ کھانا کھلاتے۔ مدرسہ کے ذمہ داران نے چار وکلا سے بات کی۔ساڑھے تیرہ روپے ماہانہ معاوضہ فی طالب علم بات طے ہوئی۔ چار الگ الگ جگہوں پر کھانے کا نظم کیا گیا۔ چوں کہ دراصل وکلا اپنے موکلین کے لیے کھانا بالعوض بنواتے تھے، اس لیے کھانا بہت ہی عمدہ ہوتا تھا، جو بڑے بڑے رئیسوں کے گھر بھی کم ہوتا۔ دوپہر کو خَصّی کے گوشت کے ساتھ چاول لازمی تھا۔ شام کو چاول اور روٹی میں اختیار دیا جاتا۔ شام کو مچھلی یا دو انڈے ملتے اور موسم کے لحاظ سے ایک سبزی اور سلاد کا انتظام ہوتا۔جس دن دوپہر یا شام کو مچھلی، گوشت اور انڈا نہ ہو تو عمدہ دال ہوتی، گاڑھی اور فرائی شدہ ہونے کی وجہ سے بہت لذیذہوتی۔ کھانے کی مقدار میں بھی کوئی قید نہیں تھی۔ [روایت مولانا عبدالعلیم علمی]
مدرسہ کانظام الاوقات:
درس گاہ صبح دس بجے سے شروع ہوتی تھی. طلبہ دس بجے سے پہلے ہی نہا دھو کر ضروریات سے فارغ ہوجاتے۔ ملک العلما ٹھیک دس بجے درس گاہ میں حاضر ہوجاتے، سوا ایک بجے چھٹی کی گھنٹی بجتی، بعدہ ظہر کی اذان ہوتی۔
ظہرکی نمازکے بعد سب کھانا کھانے چلے جاتے۔ وہاں پہلے سے ہی دسترخوان سجا ملتا۔ مہمانوں کی طرح کھانا کھاکر واپس آتے. دوبجے پھر تعلیم کی گھنٹی بجتی اور چار بجے تک تعلیم جاری رہتی، بعد عصر طلبہ کو گھومنے پھرنے کی مکمل آزادی تھی۔ مگر مغرب کی نماز باجماعت مدرسے میں پڑھنا لازمی تھا، مغرب و فجر کی نماز کے بعد باضابطہ طلبہ کی حاضری لگتی۔ ایک دو بار بلاعذر غیرحاضری پر تنبیہاً کھانا بند ہوجاتا، ترک صلوٰۃ پر اصرار کرنے والوں کا خارجہ ہوجاتا۔ نماز کی امامت خود ملک العلما فرماتے. دو وقت تعلیم ہونے پر طلبہ نے احتجاج بھی کیا کہ درس گاہ صبح دس بجے کے بجائے آٹھ بجے سے کردی جائے اور ظہر کے بعد کے وقت کو آزاد کردیا جائے. مگر ملک العلما نے ایک نہ سنی۔ ضعف و نقاہت کی وجہ سے ملک العلما کو سر پر تیل مالش کی ضرورت پیش آتی. اس کام کے لیے طلبہ کی باری لگی ہوتی تھی۔ [روایت مولاناعبدالعلیم علمی]
سیمانچلی تلامذہ:
قدیم پورنیہ [جدید کٹیہار، بہار پورنیہ،کشن گنج، ارریہ] سیمانچل کہلاتا ہے اور اگر سرجاپوری زبان کے اعتبارسے دیکھاجائے تو اتردیناج پور کا اسلام پور بھی سیمانچل میں آ جاتا ہے۔ یہاں علما و فضلا کی شکل میں ملک العلما کا فیض کسی پیمانے سے ناپا جاسکتا ہے نہ کسی آلہ سے اس کی مقدار متعین کی جاسکتی ہے، بس یوں کہیے کہ تب سے اب تک ابرباراں کی طرح برس رہا ہے اور اب تو موسلا دھار بن چکا ہے۔ جس طرح ایک دانے سے سات بالیاں اور ہر ہر بالی میں سو سو دانے ہوتے ہیں، پھر یہ سلسلہ کوینٹل اور ٹن تک پہنچ جاتاہے، انہی اصولوں پر ایک ملک العلما کے اس وقت سو شاگرد سیمانچل کے نکلے ہوں گے تو آج ان کی تعداد بالواسطہ ہزاروں تک پہنچ گئی ہوگی۔ جن تلامذہ کی مستند حوالوں سے دریافت ہوئی ہے، ان کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
خواجۂ علم و فن خواجہ مظفر حسین رضوی قدس سرہ:
حضرت خواجہ مظفر حسین رضوی خواجۂ علم و فن ہیں۔ علامہ ظفرالدین بہاری کے علوم عقلیہ کے وارث ہیں۔ ۱۹۳۴ء میں سنگھیا ٹھاٹھول میں اپنی آنکھیں کھولیں. ابجد خوانی گھر پر ہوئی۔ شرح جامی تک مدرسہ اسٹریٹ پورنیہ معروف بہ اساقت رحمت میں پڑھے۔ ان کے والد گرامی حضرت مولانا زین الدین قدس سرہ یہاں مدرس تھے۔ مدرسہ کے بانی حضرت مولانا شاہ حفیظ الدین لطیفی قدس سرہ [خانقاہ لطیفیہ رحمٰن پور] ہیں۔ملک العلما کی مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار میں آمد ہوئی تو خواجہ صاحب بحرالعلوم میں داخل ہوگئے، اصول الشاشی، مشکوٰۃ المصابیح، صحیح البھاری، طحاوی شریف وغیرہ کتابیں ملک العلما سے پڑھیں۔ علامہ سلیمان اشرفی بھاگل پور و دیگر اساتذہ سے بھی کسب فیض کیا۔ پانچ سال تک بحرالعلوم میں رہ کر۱۹۵۵ء میں مدرسہ مظہر اسلام بریلی شریف پہنچے، علامہ ثناء اللّٰہ محدث مئو، حضرت علامہ معین الدین خاں گھوسوی، علامہ غلام جیلانی گھوسوی، شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی سے کتب متداولہ پڑھے، ۱۹۵۶ء میں سر پر دستار فضیلت سجائی گئی۔ تاج داراہل سنت شہزادۂ اعلیٰ حضرت، مفتی اعظم ہند، علامہ مصطفیٰ رضاخاں قدس سرہ نے سند حدیث کے ساتھ بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔ فراغت کے بعد ہی پانچ سال تک، مدرسہ مظہر اسلام کے مدرس رہے۔ دارالعلوم مصطفائیہ چمنی بازار، پورنیہ، جامعہ منظر اسلام بریلی شریف، جامعہ عربیہ سلطان پور، دارالعلوم فیضیہ ایشی پور، بھاگل پور، جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ، دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف، دارالعلوم غریب نواز الٰہ آباد، مدرسہ قادریہ بدایوں جیسے معتبر اداروں میں خدمات انجام دینے کے بعد دارالعلوم نور حق چِرّا محمد پور میں تقریباً دو دہائی سے خدمات انجام دیتے ہوئے ۲۰؍ اکتوبر ۲۰۱۳ء مطابق ۱۴؍ذی الحجہ ۱۴۳۴ھ مالک حقیقی سے جا ملے۔ ان کے علم و فضل کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ علامہ ظفرالدین بہاری بہت سے فنون میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضاقدس سرہ کے تنہا وارث تھے۔ یوں ہی خواجۂ علم و فن ملک العلما کے متعدد علوم کے تنہا وارث تھے۔ [جہان ملک العلما ص:۱۰۵]
شمس العلما مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی قدس سرہ:
۲۴؍جولائی ۱۹۳۵ء مطابق ۲۳؍ربیع الآخر ١٣٥٤ھ، پوٹھیا، کو سیاری ضلع کشن گنج بہار میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ نورالاسلام، مدرسہ عارفیہ چنامنا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار پہنچے. ملاحسن، نورالانوار، توضیح تلویح وغیرہ ملک العلما سے پڑھی۔فراغت منظراسلام بریلی شریف سے ہوئی۔
تدریس:
جامعہ منظر اسلام، مدرسہ اسلامیہ شاہی چبوترا امروہہ، جامعہ نعیمیہ مرادآباد، جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ جیسے عظیم اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیے۔دارالعلوم دیوان شاہ بھیونڈی، تھانے، مہاراشٹر میں مختار کل کی حیثیت سے صدر مدرس رہے۔ ۲۰۰۲ء میں آپ کا وصال ہوگیا۔ حضور سرکار کلاں سیدشاہ مختار اشرف اشرفی قدس سرہ سے بیعت و خلافت حاصل تھی۔ دوبار زیارت حرمین شریفین بھی فرمایا۔قہر خداوندی بر فرقۂ دیوبندی، منظر آیات الباری مافی صحیح البخاری [چارجلدیں غیرمطبوعہ] کے علاوہ آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ’’فتاویٰ شمس العلما‘‘ [غیرمطبوعہ] آپ کی تصنیفی کاوشیں ہیں۔
آپ کے علم و فضل کا اندازہ آپ کی تصنیفات کے علاوہ آپ کے مایہ ناز تلامذہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے. تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضاخاں ازہری قدس سرہٗ، ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی [صدرشعبۂ عربی مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد] قائد ملت سید محمود اشرف اشرفی، حضرت علامہ منان رضا منانی میاں، حضرت علامہ سبحان رضا سبحانی میاں وغیرہ آپ کے تلامذہ ہیں۔
ایک غلط فہمی:
قلم کے بادشاہ ڈاکٹر غلام جابر شمس پورنوی نے کاملان پورنیہ [اول] میں مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی قدس سرہ کے چند تلامذہ کی ایک مختصر فہرست دی ہے۔ اس میں ساتویں نمبر پر حضرت علامہ غلام معصوم اکبر اشرفی کٹیہاری استاذ دارالعلوم محمدیہ ممبئی کا نام بھی مذکور ہے۔ حضرت ہمارے سگے خالو ہیں. ان سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اسے غلط قرار دیا۔
امام النحو حضرت مولانا بلال احمد نوری قدس سرہ:
مفتی بلال احمد نوری صاحب کے خاندانی افراد لوہا گڑا نزد ملک پورہاٹ سے نقل مکانی کر کے بن گاؤں میں تشریف لائے۔ والد منشی محمد عبدالغنی، دادا قدم علی، پردادا شیرعلی ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں مفتی بلال احمد نوری کی بن گاؤں میں پیدائش ہوئی۔ گھریلو تعلیم کے بعد مدرسہ جامع العلوم شرفیہ چکلہ چندرگاؤں بائسی گئے، منشی عبدالمتین بتہاسوری پوری، مولانا محمد تمیزالدین یہاں کے اساتذہ تھے۔ مفتی عبدالجلیل اشرفی گوہاس والے ان کے رفیق درس تھے۔ وہاں سے بحرالعلوم کٹیہار داخل ہوئے۔ ملک العلما علامہ ظفرالدین بہاری، شیخ معقولات علامہ سلیمان اشرفی بھاگل پوری، مولانا محمد یوسف عظیم آبادی آپ کے اساتذہ تھے۔ اصول الشاشی، صحیح البہاری، سبعہ معلقہ، قصیدہ بردہ، مقامات حریری، نورالانوار، شرح جامی، حسامی، ہدایہ آخرین، مشکوٰۃ شریف اور تفسیرجلالین پڑھی۔ مدرسہ مظہر اسلام بریلی شریف سے دستار فضیلت حاصل کی۔
مفتی محمد مجیب اشرف ناگ پوری اور خواجہ مظفر حسین رضوی رفقا میں تھے۔ فراغت کے بعد جامعہ منظر اسلام بریلی شریف، دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف، دارالعلوم مصطفائیہ چمنی بازار، جامعہ عربیہ سلطان پور، جامعہ نعیمیہ مرادآباد، جامعہ نوریہ بریلی شریف، دارالعلوم اہل سنت کنہیاباڑی جنتاہاٹ کشن گنج ،جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ، جامعہ قادریہ اشرفیہ سونا پور ممبئی کے طلبہ کی علمی پیاس بجھائی، حضور مفتی اعظم ہند سے بیعت و خلافت حاصل تھی [کاملان پورنیہ دوم] ۲۰۲۱ء میں ان کا تیسرا سالانہ عرس منایا گیا اس حساب سے ۲۰۱۸ء میں وصال ہوا ہوگا۔
حضرت مولانا خواجہ چراغ عالم لطیفی قدس سرہ:
خانقاہ لطیفیہ رحمٰن پور، بارسوئی میں ہے۔ بانی خانقاہ مولانا شاہ حفیظ اللہ قدس سرہ ہیں. مولانا چراغ عالم لطیفی قدس سرہ ان کے پوتے ہیں۔ والد مخدوم شاہ شرف الہدیٰ تھے۔ ۱۹۳۲ء میں پیداہوئے۔ مدرسہ لطیفیہ خانقاہ رحمٰن پور میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۵۳ء میں مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار میں ملک العلما کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا۔ تقریباً تین سال رہ کر میبذی، ہدایہ اولین، دیوان حماسہ، وغیرہ کادرس لیا۔ ۱۹۵۷ء میں منظر اسلام بریلی شریف سے فراغت پائی۔ سید شاہ خواجہ شاہد حسین عرف درگاہی میاں خانقاہ بارگاہ عشق پاک متین گھاٹ پٹنہ سے بیعت و خلافت تھی۔ خانقاہ لطیفیہ رحمٰن پور کے سجادہ نشیں بھی بنے، تاعمر مدرسہ لطیفیہ رحمٰن پور میں تدریسی خدمات انجام دیے۔ ۲۰۰۰ء کو آپ کا وصال ہوا۔[جہان ملک العلما، ص:۱۰۴۶]
حضرت مولانا خواجہ شمس العالم لطیفی :
وحیدعصر،تاج داررحمٰن پور،حضرت مولاناخواجہ وحیداصغر قدس سرہ ہیں ۔ان کے فرزندہیں حضرت مولاناشاہ شمس العالم صاحب ۔۱۹۳۶ء میں پیدا ہوئے ۱۹۵۵ء میں جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار میں داخل ہوئے۔ ملک العلما و دیگر اساتذہ بحرالعلوم سے کسب فیض کیا۔ جلالین شریف، مشکوٰۃ شریف، دیوان متنبی وغیرہ کا درس لیا۔
فراغت جامعہ نعیمیہ مرادآباد سے ۱۹۵۹ء میں پائی۔مدرسہ لطیفیہ رحمٰن پور میں مدرس بنے۔ بیعت خواجہ سید شاہ شاہد حسین درگاہی میاں کے دست اقدس پر کی۔ خلافت والد ماجد نے عطا کی۔ پھر خانقاہ لطیفیہ رحمٰن پور کے سجادہ نشیں بنے۔ [جہان ملک العلما، ص: ۱۰۴۷]
حضرت مولانا مفتی عین الہدیٰ شاہدی علیہ الرحمہ:
بارسوئی تحصیل کے تحت معروف فیض رساں گاؤں رحمٰن پور ہے۔ مفتی عین الہدیٰ شاہدی علیہ الرحمہ اسی موضع سے تعلق رکھتے ہیں۔ مدرسہ لطیفیہ خانقاہ رحمٰن پور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد غالباً ۱۹۵۷ء میں مدرسہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار پہنچے۔ فراغت ۱۹۶۰ء منظر اسلام سے پائی. دارالعلوم رضویہ مقصود پور، مظفر پور بہار، دارالعلوم اہل سنت کنہیاباڑی جنتاہاٹ بہادر گنج، کشن گنج بہار، جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار میں تدریسی خدمات انجام دیے۔ حضرت سید شاہ خواجہ شاہد حسین درگاہی میاں قدس سرہ سے شرف بیعت رکھتے تھے۔ حج و زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ایک باوقار خطیب و واعظ کی حیثیت سے بھی علاقے میں مذہبی خدمات انجام دیتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ [جہان ملک العلما،ص:۱۰۴۸]
حضرت علامہ مفتی قاضی نور پرویز صاحب رشیدی شاہدی:
بارسوئی اور سالماری کے درمیان شہجہنہ ایک مشہور موضع ہے۔ مفتی نور پرویز صاحب یہیں کے پروردہ ہیں۔ ۱۹۳۹ء میں قاضی ثمیرالدین مرحوم کے گھر پیدا ہوئے۔۱۹۵۵ء میں ملک العلما کی بارگاہ میں بحرالعلوم کٹیہار پہنچے۔ تفسیرجلالین، ہدایہ آخرین، مسلم الثبوت، مقامات حریری، مسلم شریف، بخاری شریف وغیرہ کا درس ملک العلما سے لیا، ۱۹۵۹ء میں یہیں سے فراغت حاصل کی، کئی درس گاہ کو زینت بخشنے کے بعد بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق مدرسہ سے متعلق ہوئے۔ اس وقت گھر پر تشریف فرما ہیں. حضرت سید شاہ شاہد علی سبزپوش قدس سرہ سجادہ نشیں خانقاہ رشیدیہ جون پورسے شرف بیعت حاصل کی۔ حضرت مولانا مفتی قاضی فضل احمد مصباحی صاحب اور حضرت مولانا قاضی فضل رسول مصباحی صاحب آپ کے قابل ذکر فرزند ہیں۔ اول الذکر بنارس میں اور دوسرے مہراج گنج یوپی میں تدریسی خدمات میں مصروف ہیں۔ [جہان ملک العلما، ص: ۱۰۴۹]
حضرت علامہ مفتی محمدخلیل الرحمٰن رضوی قدس سرہ:
ضلع کٹیہار، کدوا بلاک، موضع طیب پور کی اس علمی شخصیت کو مسلم الثبوت، مدارک التنزیل، دیوان حماسہ وغیرہ ملک العلما سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ۱۹۵۵ء میں مدرسہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار میں داخل ہوئے۔۱۹۶۰ء میں جامعہ منظر اسلام بریلی شریف سے فراغت حاصل کی۔ ایک عرصہ تک جامعہ منظر اسلام ہی میں خدمت تدریس انجام دیے۔ بعد میں مدرسہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار میں استاذ ہوئے۔ پھرجامعہ بحرالعلوم کٹیہار میں صدر مدرس کے پوسٹ پر بحال ہوئے۔ آپ ایک زبردست عالم دین، تجربہ کار مفتی اور ایک اچھے حافظ و قاری تھے۔ مسئلہ لاؤڈ اسپیکر پر ایک کتاب بھی تصنیف فرمائی۔ حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ سے شرف بیعت حاصل تھا۔ [جہان ملک العلما، ص: ۱۰۴۹]
حضرت مولانا محمد شہاب الدین لطیفی اشرفی قدس سرہ:
بھینس بندھا، کدوا، کٹیہار کا مشہور موضع ہے۔ محقق عصر حضرت مفتی آل مصطفیٰ مصباحی مدظلہ بھی کٹیہار کی مشہور شخصیت ہیں۔ آپ جامعہ امجدیہ رضویہ کے مایہ ناز استاذ و مفتی ہیں۔ تحقیق اور تصنیفی صلاحیت میں ذروہ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں۔ مولانا شہاب الدین صاحب قدس سرہ بھینس بندھا کے باشندے اور مفتی آل مصطفیٰ مصباحی صاحب کے والد ماجد ہیں. منشی نجابت حسین صدیقی ان کے والد تھے۔مدرسہ لطیفیہ رحمٰن پور، دارالعلوم مصطفائیہ چمنی بازار، مدرسہ فیض الغربا آرا، مدرسیہ نیازیہ اسلامیہ خیرآباد جیسے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ نعیمیہ مرادآباد پہنچے۔ تفسیر مدارک کی جماعت میں تھے کہ ملک العلما کی کٹیہار میں تشریف آوری کا اشتہار دیکھا۔ جامعہ نعیمیہ کے اساتذہ سے اجازت لے کر مدرسہ بحرالعلوم کٹیہار آگئے۔ بخاری شریف، طحاوی شریف، مسندامام اعظم، تفسیر مدارک، ہدایہ اخیرین، تصریح، مسلم الثبوت، دیوان حماسہ وغیرہ ملک العلما کی بارگاہ میں دوسال رہ کر پڑھے۔ ملک العلما کی آپ پربڑی شفقتیں تھیں. شعبۂ عالیہ میں بہ حیثیت استاذ بحرالعلوم ہی میں ان کی تقرری بھی فرمائی۔ تقریبات پانچ سال تک وہاں آپ مدرس رہے۔ اس طرح زمانۂ تدریس بھی جو دراصل اکتساب علم کازمانہ ہوتا ہے ملک العلما کی سایہ میں گزرا۔ ملک العلما کے بعد وہاں سے مستعفی ہوئے تو مختارالعلوم گھسکی ٹولہ، دارالعلوم حنفیہ کھگڑا، کشن گنج میں خدمات انجام دیے۔ پھر شیخ اعظم حضرت سید اظہار اشرف اشرفی قدس سرہ کی ایما پر مدرسہ اشرفیہ اظہارالعلوم سوناپور، وایا بارسوئی ضلع کٹیہار میں صدر مدرس کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہاں تک کہ واصل بحق ہوگئے۔ حضور سرکار کلاں سید مختار اشرف اشرفی قدس سرہ کے ہاتھ پر بیعت فرمائی، حضرت نے خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا۔ [جہان ملک العلما، ص:۱۰۵۶]
مفتی ابوظفر طیب قادری رشیدی قدس سرہ:
حضرت ابو ظفر مفتی طیب قادری رشیدی قدس سرہ چوپڑا بائسی کے الحاج نصیرالدین کے فرزند ہیں۔ ۱۳۵۷ھ کو پیدائش ہوئی۔ ناظرہ خوانی پدر بزرگ وار سے، مفتی محمد حنیف مرحوم سے اور مفتی محمد ارشاد حسین موضع گھاٹ پانی صدرہ سے کی۔ مدرسہ جامع العلوم شرفیہ چندر گاؤں، دارالعلوم لطیفی کٹیہار سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار میں داخل ہوئے۔ ملک العلما و دیگر اساتذہ سے اصول الشاشی، نورالانوار، مناظرہ رشیدیہ، سبعہ متعلقہ، مسلم الثبوت، ہدایہ آخیرین، شفاشریف اور تفسیر مدارک وغیرہ کتابیں پڑھیں. چار سال یہاں رہ کر مدرسہ مظہر اسلام بریلی شریف پہنچے. ۱۳۸۰ھ مطابق ۱۹۶۱ء میں دستار فضیلت عطا کی گئی۔ دارالعلوم لطیفی کٹیہار، جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار، دارالعلوم محی الاسلام بجرڈیہہ، بائسی، دارالعلوم معدن الخیرات گوال پوکھر اتردیناج پور بنگال، دارالعلوم غریب نواز الٰہ آباد، جامعہ فاروقیہ بنارس، جامعہ عربیہ سلطان پور جیسے مشاہیر اداروں میں فیض بانٹنے کے بعد حکومت بہار سے منظور شدہ مدرسہ جامع العلوم شرفیہ چندرگاؤں چکلہ میں ملازم ہوگئے۔ بیس سال تک خدمات کے بعد ۲۰۰۰ء میں عہدہ صدارت سے سبک دوش ہوئے۔ سید شاہ مصطفیٰ علی شہید سبزپوش گورکھ پوری قدس سرہ سے بیعت رکھتے تھے۔ حضرت مولانا شاہ غلام یسین شاہدی علیمی قدس سرہ آپ کے مرشد اجازت تھے۔ [جہان ملک العلما ،ص: ۱۰۶۴]
حضرت مولانا محمد سلیمان رضوی قدس سرہ:
ملک عقیل پٹواری کے گھر موضع بلیہار پور، پوسٹ چوکی ہری پور، کدوا، کٹیہار میں حضرت مولانا محمد سلیمان رضوی علیہ الرحمہ کی پیدائش ہوئی۔ مدرسہ حمایت الاسلام سنگھیا ٹھاٹھول، ڈگروا، پورنیہ، دارالعلوم لطیفی کٹیہار سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار سے فراغت حاصل کی۔ملک العلما نے بحرالعلوم کٹیہار میں آپ کو مدرس منتخب فرمایا۔ ۱۹۶۴ء تک وہاں تدریس کی ذمہ داری نبھائی، ۱۹۶۴ء کے بعد پورنیہ ضلع کے مشہور قصبہ ککرون اماری دہمداہا کے ایک مکتب کو عظیم ادارہ کی شکل عطا کی۔ ملک العلما آپ کے مرشد طریقت اور شیخ شریعت دونوں تھے۔ ۲۲؍رمضان المبارک ۱۴۱۹ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ آپ کے فرزند حضرت مولانا مفتی محمد آفاق احمد اشرفی ایک مستند عالم دین ہیں. [جہان ملک العلما، ص: ۱۰۸۴]
صوفی ملت حضرت مولانا محمد طاہر حسین رضوی قدس سرہ:
بائسی بلاک، ضلع پورنیہ کے تحت ’’بتہاسعدی پور‘‘ ایک مشہور گاؤں ہے۔ صوفی ملت حضرت مولانا محمد طاہر حسین کا تعلق اسی موضع سے ہے۔ گھریلو تعلیم کے بعد مدرسہ جامع العلوم شرفیہ چندرگاؤں پہنچے۔مولانا میزالدین قدس سرہ سے شرح جامی تک کی تعلیم حاصل کی۔ پھر جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار میں داخل ہوئے۔ ملک العلما علامہ ظفرالدین بہاری قدس سرہ، شیخ المعقولات علامہ سلیمان اشرفی بھاگل پوری وغیرہ سے اکتساب فیض کیا۔ جامعہ منظراسلام بریلی شریف سے فراغت پائی۔ بعد فراغت مالن گاؤں، جھاڑباڑی کشن گنج کے مدرسہ میں دوسال مدرس رہے۔ مدرسہ مدینۃ العلوم سنگھیا دلالی، بہادرگنج ضلع کشن گنج میں تین سال، دارالعلوم فیاض المسلمین میں گیارہ سال رہے۔حکومت بہار سے منظور شدہ دارالعلوم محی الاسلام بجرڈیہہ بائسی میں بائیس سال تک تعلیمی خدمات دے کر ۲۰۰۳ء کوسبک دوش ہوئے۔ ۲۷؍مارچ ۲۰۱۸ء کو آپ کا وصال ہوگیا۔ حضور مفتی اعظم ہند بریلی شریف سے بیعت رکھتے تھے۔ [صوفی ملت حیات و خدمات ۔از محمد تحسین رضا اشرفی]
حضرت مولانا وارث حسین صاحب قدس سرہ:
حضرت مولانا وارث حسین بھی بتہا سعدی پور، پکی ٹولہ سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا طاہر حسین کے رفیق درس تھے۔ جناب سراج الدین کے فرزند تھے۔مولانا سکندر علی مرحوم اور جناب علیم الدین مرحوم ان کے سگے بھائی تھے۔ مولانا طاہر حسین بتہا سعدی پوری کے ساتھ بحرالعلوم کٹیہار میں داخل ہوئے۔ ملک العلما سے خوب اکتساب فیض کیا۔ فراغت بحرالعلوم کٹیہار سے ہی حاصل کی۔ فراغت کے بعد تدریسی خدمات اور وعظ و تقریر سے خلق خدا کی رہ بری کرتے رہے۔ خوش گلوئی آپ کا خصوصی وصف تھا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے نعتیہ اشعار مسحور کن انداز میں پڑھتے۔خاص کر اعلیٰ حضرت کی چار زبان میں لکھی ہوئی مشہور نعت پاک ’’لم یات نظیرک فی نظر‘‘ پڑھنے کا حق ادا کردیتے۔ مگر افسوس کہ زندگی نے وفانہ کی اور جوانی ہی میں آپ کا وصال ہوگیا۔ جب ملک العلما کو ان کے وصال کی خبر پہنچی تو آب دیدہ ہوگئے۔ بلکہ پھوٹ پڑے۔ مولانا طاہر حسین رضوی بتہا سعدی پوری کے فرزند مولانا تحسین رضا اشرفی نے مولانا وارث مرحوم کے برادرزادے ماسٹر عالم گیر ابن علیم الدین سے روایت کیا کہ مولانا وارث مرحوم کی قبر پر ملک العلما کئی بار تشریف لائے اور فاتحہ خوانی فرمائی۔ [قلمی بیاض مولانا عبدالقادر رشیدی وفونی بیان مولانا تحسین رضا اشرفی]
حضرت مولانا عبداللہ و مولانا عبدالرحمٰن صاحبان قدس سرہما:
موضع اچھے پور، کنہریا ضلع پورنیہ کا ایک مشہور اور تعلیم یافتہ گاؤں ہے۔ مولانا عبداللہ صاحب و مولانا عبدالرحمٰن صاحب اسی اچھے پور کے رہنے والے تھے۔دونوں سگے بھائی تھے۔ والد کانام خواجہ غلام یسین اور دادا خواجہ معصوم علی تھے۔ ملک العلما کے اکابر تلامذہ میں دونوں کا شمار ہوتا تھا۔
حضرت مولانا عبداللہ صاحب:
مدرسہ بحرالعلوم کی تعلیم کے بعد غالباً آلٰہ آباد کے مدرسہ سبحانیہ میں پہنچے اور وہیں سے فراغت پائی۔اپنے گاؤں اچھے پور میں بہار حکومت سے منظور شدہ ادارہ اسلامیہ اچھے پور میں ملازمت کی. وہاں سے سبک دوشی کے بعد ۲۰۱۰ء کو واصل بحق ہوئے۔ مولانا عبد العلیم علمی [بھوپلا، کشن گنج] کے بہ قول ملک العلما کے پاس میلاد وغیرہ کا پروگرام آتا، اگر شہر کٹیہار سے قریب کا ہوتا تو خود تشریف لے جاتے ورنہ مولانا وارث مرحوم، مولانا عبداللہ اور مولانا عبدالرحمٰن وغیرہ کو بھیجتے. حضرت مولانا عبداللہ کی گیارہ اولاد [چھے لڑکے پانچ لڑکیاں ] میں حافظ مولانا خواجہ محمد اشتیاق نعیمی مدرسہ شمسیہ سہمی پور میں حکومت سے منظورشدہ مدرسے میں ملازمت پر ہیں۔ ذی علم بااخلاق ہیں۔
حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحب:
مولانا عبدالرحمٰن صاحب باذوق شاعر، باصلاحیت مدرس اور ہر دل عزیز مقرر تھے۔ مدرسہ انوارالعلوم گانگی نزد خانقاہ، حضرت شرف الدین لطیفی قدس سرہ میں آپ نے علمی فیضان بانٹا۔ مفتی ایوب مظہر رضوی علیہ الرحمہ اور مفتی محمد طاہر حسین اشرفی گانگی نے آپ سے اسی ادارے میں کسب فیض کیا۔ وہاں سے گاؤں کے مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ اچھے پور آگئے۔ ڈھلتی جوانی میں راہی ملک عدم ہوئے۔ [قلمی بیاض مولانا عبدالقادر رشیدی وفونی بیان مولاناخواجہ اشتیاق نعیمی]
حضرت علامہ الحاج عبدالعلیم علمی معروف بہ مولانا علیم الدین دام ظلہ:
ملک العلما کے مدرسہ بحرالعلوم کے شاگردوں کی اگر مربع شکل تیار کی جائے۔ تو امام علم و فن خواجہ مظفر حسین رضوی، شمس العلما حضرت مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی، امام النحو حضرت مفتی بلال احمد نوری کے ساتھ فاضل علوم شرقیہ مولانا عبدالعلیم علمی چوتھے گوشے پرکھڑے نظرآئیں گے۔ مولانا عبدالعلیم علمی موضع بھوپلا، علاقہ نٹواپارہ، بلاک بہادر گنج، ضلع کشن گنج بہارسے تعلق رکھتے ہیں۔ علمی لیاقت، تدریسی صلاحیت، تنظیمی استعداد، تصنیفی ذوق و شوق کا بھرپور حصہ قدرت نے عطا فرمایا ہے۔ غالباً ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوئے۔ مگر تعلیمی اسناد کے اعتبار سے ۱۹۴۰ء ہے۔گاؤں کے مختلف اساتذہ اور منشیان علاقہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ جامع العلوم شرفیہ چندر گاؤں چکلہ بائسی پورنیہ. جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار، مدرسہ اظہارالعلوم ماجھی پور، بھاگل پور، جامعہ نعیمیہ مرادآباد، دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف میں علمی پیاس بچھائی۔ ۱۹۵۹ء میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے فراغت حاصل کی۔ رفقا میں مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی، مفتی عبدالحلیم صاحب مظفرپوری ثم ناگ پوری [سرپرست دعوت اسلامی ہند] حضرت مولانا الحاج محمد مقیم الدین رضوی [موہنا، چوکی، کدوا، کٹیہار] حضرت مولانا نعیم الدین چھپرہ بہار آتے ہیں۔ اساتذہ کی تعداد دو درجن سے بھی زائد ہے. چند مشہور یہ ہیں۔ شیخ المعقولات علامہ سلیمان اشرفی بھاگلپوری، شیخ الادب علامہ غلام جیلانی گھوسوی، شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی، حبیب الٰہی حضرت مفتی حبیب اللہ نعیمی، بحرالعلوم مفتی افضل حسین مونگیری ثم پاکستانی، محدث بہار علامہ احسان علی مظفر پوری، مفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضاخاں [جیلانی میاں]
ملک العلما علامہ ظفرالدین بہاری قدس سرہ سے مشکوٰۃ شریف، سبعہ معلقہ، قصیدہ بردہ شریف وغیرہ پڑھے۔مولانا عبدالعلیم علمی صاحب اپنے شیخ شریعت ملک العلما اور مرشد طریقت حضور مفتی اعظم ہند پر ناز کرتے ہیں. ملک العلما کا خطبہ یوں پڑھتے ہیں ’’ان کا ہر شاگرد چاہے وہ مدرسہ بحرالعلوم کا ہو یا مدرسہ شمس الہدیٰ کا ہو جہاں بھی ہے ہیڈپوسٹ پر ہے۔‘‘
علم توقیت پر ملک العلما سے اچھی معلومات حاصل کرنے کی بعد علم الاوقات نامی ایک کتاب بھی آپ کی تصنیف ہے۔ جس میں سفرالحیات نام سے خود نوشت سوانح بھی، مطبوع ہے۔
جامعہ رضویہ منظر اسلام سے فراغت کے بعد اول تقرری مدرسہ حمیدیہ بنارس میں ہوئی۔ پھر اپنے آبائی وطن نٹوا رپارہ میں ایک مکتب میں مکتبی مدرس کی حیثیت سے ۱۹۶۰ء کو مقرر ہوئے۔ مکتب کو عروج بخشا اب وہ مکتب مدرسہ غوثیہ کے نام سے جانا جانے لگا۔۱۹۶۲ء میں وہاں سے مستعفیٰ ہو کر بارہ ڈینگا کے مکتب میں بحال ہوئے. اس مکتب کو مدرسہ نظام المسلمین کا نام دیا اور اسے بہار اگزامینیشن بورڈ سے الحاق کرایا۔مفتی محمد ناظر اشرف بھدیسیری ثم ناگ پوری اسی ادارے کے فیض یافتہ ہیں۔ نٹواپارہ کے مدرسہ غوثیہ میں دوبارہ تقرری عمل میں آئی. پھر وہ اسی ادارے کے ہو کر رہ گئے۔ ۲۰۰۲ء کو صدر مدرس کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ مدرسہ غوثیہ نٹوا پارہ اور مدسہ نظام المسلمین دونوں کے بانی آپ ہیں. مگر مدرسہ غوثیہ کو جو ترقی کی منزلوں پر پہنچایا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اگر یہ ادارہ حکومت بہار کی گرانٹ میں نہ آتا تو یقینا ضلع کشن گنج کے بڑے اداراوں میں شمار ہوتا۔ناچیز نے ادارہ کی زیارت کی تو دل سے موصوف کے لیے دعا نکلی اس افسوس کے ساتھ کہ دیگر بہاری سرکاری اداروں کی طرح یہ بھی محض ایک تعمیراتی ادارہ ہے۔
***
پہلی قسط یہاں پڑھیں :ملک العلما سیمانچل میں (پہلی قسط)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے