امان ذخیروی کے تین منظوم تبصرے

امان ذخیروی کے تین منظوم تبصرے

امان ذخیروی 
(پہلا تبصرہ سہ ماہی رنگ کے گوشۂ منصور قاسمی کے لیے لکھا گیا، جو اس کے بعد کے شمارے میں شامل ہوا، سہ ماہی رنگ دھنباد سے ڈاکٹر اقبال حسین کی ادارت میں نکلتا ہے۔ اب تک اس رسالے کے سو سے زاید شمارے نکل چکے ہیں. 

 دوسرا تبصرہ ڈاکٹر احسان عالم کی بچوں کے لیے مرتب کردہ کتاب آؤ بچو تمہیں بتائیں کے لیے لکھا گیا جو اس  کتاب میں شامل ہے. ڈاکٹر احسان عالم شہرِ دربھنگہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ شہرت یافتہ شاعر، ادیب اور ناقد ہیں۔ آپ کی درجنوں کتاب منظر عام پر آ چکی ہیں۔ یہ کتاب نثر میں ہے اور سال 2023ء میں شائع ہوئی ہے. 

 تیسرا تبصرہ ڈاکٹر عبد الودود قاسمی کی کتاب ابو المحاسن مولانا سجاد حیات و خدمات کے لیے لکھا گیا جو اسی کتاب میں شامل ہے. ڈاکٹر عبد الودود قاسمی میتھلا یونی ورسٹی کے سی. ایم. بی کالج مدھوبنی میں صدر شعبۂ اردو ہیں۔ یہ کتاب آپ کی پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ اس کی اشاعت بھی 2023 میں ہی ہوئی ہے.) 

(1) سہ ماہی رنگ کا گوشۂ منصور قاسمی 
رنگ کا تازہ شمارہ آپ نے بھیجا مجھے
جس کے اک دیدار سے اس دل کے گل بوٹے کھلے

آپ کی اس قدر دانی کا بہت مشکور ہوں
کیا بتاؤں "رنگ" پا کر کس قدر مسرور ہوں

ہر ورق سے آپ کی محنت ہوئی ہے آشکار
آپ کو دے اس کا بدلہ خوب رب کردگار

خدمت شعر و ادب ہرگز نہیں آسان ہے
جس نے اس کی پرورش کی وہ شکستہ جان ہے

آپ کے اس جذبۂ ایثار کو میرا سلام
اس حسین و دل نشیں شہکار کو میرا سلام

شان صاحب نے ادب کا جو دیا روشن کیا
آپ نے اپنی فراست سے اسے بخشا جلا

عالم شعر و ادب میں”شان" کی کیا شان ہے
رنگ سہ ماہی سے ہی دھنباد کی پہچان ہے

اب ذرا کچھ ذکر اس تازہ شمارے کا کروں
اس میں پوشیدہ ہیں جو ان چاند تارے کا کروں

گوشۂ منصور اپنے آپ میں ہے لاجواب
حضرت اقبال کا یہ بھی ہے حسن انتخاب

ہم ادب والوں پہ بیشک آپ کا احساں ہے یہ
حضرت منصور کی تفہیم کا ساماں ہے یہ

ہیں مضامیں ان پہ جو "تنویر" اور "سلمان" کے
جن کو پڑھ کر قاسمی کے سیکڑوں جوہر کھلے

"صالحہ"، "معراج" و "محسن" کی بھی ہے تحریر خوب
صاحب گوشہ کی ہے جس سے عیاں تصویر خوب

"اختر" و "خالد"، "فریدہ" اور حضرت "افتخار"
قاسمی کو ان کی تحریروں نے بخشا ہے وقار

ان کی دس غزلوں میں ان کے فکر و فن کی گونج ہے
آگہی، زور تخیل، بانکپن کی گونج ہے

سارے مشمولات اپنے آپ میں نایاب ہیں
"مشتری"، "مریخ"، "زہرہ"، "کہکشاں"، "مہتاب" ہیں

ہے دعا رب سے کہ روشن رنگ کا احوال ہو
حضرت اقبال کا سب سے بلند اقبال ہو
***

(2)مولانا محمد سجاد، حیات اور کارنامے

اک معلم نکتہ داں ہیں حضرت عبد الودود
ہے فروغ علم و دانش میں رواں ان کا وجود

بس یہی ہے ایک تعلیم و تعلم ان کا کام
آپ ہیں شام و سحر اس مشغلے میں شاد کام

علم دین و دنیوی سے آپ بہرہ ور ہوئے
اپنی محنت اور لگن سے حامل گوہر ہوئے

آپ کا بیدار ہے اس درجہ تخلیقی شعور
آپ کو حاصل ہے ہر اک صنف پر کامل عبور

آپ کا سہرا نویسی پر بھی عمدہ کام ہے
اہل فن کو دعوت تفہیم اور افہام ہے

یوں فن سہرا نگاری کو فروزاں کر دیا
گویا نو آموز فن کی راہ آساں کر دیا

شعبۂ تنقید ہو یا ہو مضامین سخن
آپ دکھلاتے ہیں ان میں خوب اپنے فکر و فن

خاص کر شخصی سوانح پر بڑا ہے ان کا کام
آپ نے پیدا کیا ہے اس میں بیحد اپنا نام

آپ نے اس طرز کی لکھیں کتابیں بیشمار
رہ گیا ہے بن کے گویا آپ کا یہ اک شعار

دیکھیے ہے آپ کے زیر نظر جو یہ کتاب
یہ بھی اک شخصی سوانح کا ہے عمدہ انتخاب

بوالمحاسن حضرت سجاد کا ذکر جمیل
ہے بیاں تفصیل سے اس میں، نہیں ہرگز قلیل

قاسمی کی اس میں وہ طرز نگارش خوب ہے
جو یقیناً بزم خوباں میں بہت محبوب ہے

آپ نے اس میں لیا ہے جس ہنر مندی سے کام
آپ کا بزم ادب میں ہوگا مستحکم مقام

فکر و فن اور کارنامے جو بھی ہیں سجاد کے
اس کتاب زیست میں سب مثل تارے ہیں جڑے

ہے قطعہ تاریخ اس میں طلحہ رضوی برق کا
جو کہ ہیں اک شاعر خوش فکر، خوش دل، خوش ادا

قاسمی کے فکر و فن کی اس میں عکاسی بھی ہے
ان کے انداز سخن کی اس میں عکاسی بھی ہے

باب تو ہے ایک ہی پر مختلف عنواں کے ساتھ
اور ہر عنوان پر ہے گفتگو ایماں کے ساتھ

زندگی کی بوالمحاسن کے یہ اک آئینہ ہے
ان کے پیغام و عمل کا قصۂ پارینہ ہے

علمیت کا ان کی چرچہ بھی ہے بےحد دل نواز
کس طرح، کیوں، کیسے اس کا بھی مدلل ہے جواز

ظاہر و باطن سے ہم ہوتے ہیں ان کے روشناس
نظم میں ممکن نہیں حاضر کروں وہ اقتباس

ہے کہیں بکھرا ہوا ان کے تصوف کا جمال
کیا تھا ان کا زہد و تقویٰ اور کیا کشف و کمال

تذکرہ ہے ان کی تصنیفات و تالیفات کا
اک کھلا دفتر ہے یہ سجاد کی خدمات کا

ہے بیاں ان کی سیاسی زندگی کا حال بھی
اور سماجی زندگی کا دل نشیں احوال بھی

کس قدر بیدار تھا ان کی سیاست کا شعور
اب نظر آتا نہیں ان سا کوئی نزدیک و دور

آپ کے ہاتھوں ہوا بیشک "امارت" کا قیام
کیوں نہ ہم سجاد کو سمجھیں شریعت کا امام

بے نیازی وہ، بنے ہرگز نہیں اس کے امیر
ڈھونڈنے سے مل نہ پائے گی کہیں اس کی نظیر

کارنامہ ان کا اب بھی زندۂ جاوید ہے
ان کے جیسی ہند میں فرزانگی ناپید ہے

جاتے جاتے بوالمحاسن کام ایسا کر گئے
اپنی کوشش سے تہی دامن ہمارا بھر گئے

آج قائم ہے یہاں جو یہ شریعت کا نظام
حضرت سجاد سے حاصل ہوا اس کو دوام

غرض پیدائش سے لے کر خاتمہ بالخیر تک
اس عمل میں آپ سرگرداں رہے زیر فلک

ہے دعا رب سے کہ ان کی روح کو راحت ملے
روز محشر عرش کا پایا ملے اور چھت ملے

ہو جناب قاسمی پر رب کی رحمت بیشمار
جس نے بخشی ہے ادب کو یہ سوانح شاہکار

کم کبھی ہرگز قلم کی ان کے جولانی نہ ہو
تاقیامت ختم اس دریا کی طغیانی نہ ہو

دین و دنیا کی خوشی گھر کا کرے ان کے طواف
ایک دنیا کو ہو ان کے فکر و فن کا اعتراف

حاسدوں کے شر سے مولیٰ تو انہیں محفوظ رکھ
بغض کے نشتر سے مولیٰ تو انہیں محفوظ رکھ

ان کے فرزندان گوہر کی چمک قائم رہے
مثل خاور روشنی ان کی سدا دائم رہے

ہو کبھی ماہ مبیں سے کم نہ ثاقب کی ضیا
شہریار آتشیں سے کم نہ ثاقب کی ضیا

ہو سدا ہمدوش "وکرم" رفعت ایمن امام
سب کا موضوع سخن ہو نصرت ایمن امام

ہو نہیں کوئی مقابل احمد ابدال کا
راستہ روکے نہ کوئی اس بلند اقبال کا

کر رہا ہے یہ دعائیں ابن سعد اللہ خاں
بوالفتح اللہ و منت اور عبد اللہ خاں
***

(3)آؤ بچو ! تمہیں بتایں

ڈاکٹر احسان عالم ہیں ادیب با کمال
ان کی صورت، ان کی تخلیقات بھی ہیں بے مثال

اک ادیب خوش بیاں، شیریں زباں ان کو کہیں
اک محقق، اک مبصر نکتہ داں ان کو کہیں

معترف ہے ان کے فکر و فن کی ہر بزم سخن
ہیں سراپا آپ اپنی ذات میں اک انجمن

خود نمائی سے بھی خود کو دور رکھتے ہیں سدا
ہر کسی کو خوب خوش آتی ہے ان کی یہ ادا

ہے بہت پختہ مرے ہر ایک دعوے کی دلیل
آئینہ کردار کا ہے ان کے یہ ذکر جمیل

کوئی مجبوری نہیں ہے جو غلو سے کام لوں
چھوڑ کر کیوں راہ حق باطل کا دامن تھام لوں

تبصرہ بے لاگ اپنا پیش کرتا ہوں یہاں
جو نہاں خانے میں تھا وہ سب پہ کرتا ہوں عیاں

ان‌ کی تصنیفات کی تعداد بھی ہے بے شمار
واقعی ہر ایک سے ہے ان کی رفعت آشکار

خامہ فرسائی ہر اک پر ہو ابھی ممکن نہیں
ماپ لوں ہر اک کی گہرائی ابھی ممکن نہیں

ہے ابھی پیش نظر میرے جو ان کی اک کتاب
یہ بھی اپنے آپ میں ہے آفتاب و ماہتاب

یہ ادب اطفال میں جو ایک سنگ میل ہے
راہ میں اطفال کی یہ ضوفشاں قندیل ہے

نسل نو پائے گی اس سے رہنمائی بالیقیں
اس سے ہی بیشک سنوارے گی وہ دنیا اور دیں

تربیت بچوں کی اپنے، چاہتے ہیں جو کریں
اپنے بچوں کو پڑھائیں اور خود اس کو پڑھیں

یہ مفید ازحد ہے ان کی ذہن سازی کے لیے
اس سے بہتر کیا ہے ان کی سرفرازی کے لیے

ملک و ملت کے تو مسقبل یہی اطفال ہیں
کار دنیا ہے بھنور ساحل یہی اطفال ہیں

ان ستاروں سے ہی وابستہ ہیں امیدیں تمام
یہ اگر بگڑیں تو ہم رہ جائیں بے نیل و مرام

غلبۂ انگریزیت کر ڈالے گا ان کو تباہ
شیوۂ عیسائیت کر ڈالے گا ان کو تباہ

اس طرح یہ دین حق سے دور ہوتے جائیں گے
اور مسلماں خود کو یہ کہتے ہوئے شرمائیں گے

تھا ضروری ایسے میں آئے کوئی ایسی کتاب
ہر طرح کی جو برائی کا کرے خانہ خراب

سائنسی ادراک بھی بچوں کا ہو بےحد بلند
تاکہ ڈالیں یہ بڑے ہو آسمانوں پر کمند

ڈاکٹر احسان عالم کا بڑا احسان ہے
ان‌کی اس کاوش پہ دل سو جان سے قربان ہے

نسل نو کے ذہن کی یوں آبیاری کے لیے
یہ کتاب آئی ہے ان کی رہنمائی کے لیے

ہر گھڑی ان کو رہے ماں باپ کا احسان یاد
زندگی کے ہر قدم پر ان کا ہو فرمان یاد

ماں کی ممتا باپ کی شفقت سے وہ غافل نہ ہوں
ان کی یوں تعظیم سے، عظمت سے وہ غافل نہ ہوں

ان کے دل میں ہو جواں استاد کا بھی احترام
ہوتا ہے ماں باپ کا، استاد کا اونچا مقام

ہے جناب احساں کو بچوں کی صحت کا بھی خیال
تا‌کہ ان کی ہو نہ کمزوری کا کوئی احتمال

مچھلیاں کھانے کا وہ دیتے ہیں ان کو مشورہ
اور صحت پانے کا وہ دیتے ہیں ان کو مشورہ

اس طرح ہر طور ان کی رہبری کرتے ہیں وہ
نونہالان وطن کی دلبری کرتے ہیں وہ

ان کی‌یہ کاوش سراپا رنگ لائے گی ضرور
اس کتاب خیر کی ہوگی پزیرائی ضرور

دے رہا ہوں میں مبارکباد ان کو پیشگی
واقعی ہے قابل تحسین یہ ان کی سعی

ہے دعا میری یوں ہی ان کا قلم چلتا رہے
تاقیامت میرے مولیٰ! یہ شجر پھلتا رہے
***
امان ذخیروی کی گذشتہ نگارش :امان ذخیروی کی تیرہ موضوعی غزلیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے