امان ذخیروی کی تیرہ موضوعی غزلیں

امان ذخیروی کی تیرہ موضوعی غزلیں

امان ذخیروی
جموئی، بہار، الہند
رابطہ: 8002260577

(سنا ہے گاؤں کے پیپل کے پاس اک پتھر
بہت دنوں سے مرا انتظار کرتا ہے
خورشید اکبر کا مذکورہ شعر اپنے موضوعی اور لسانی اظہار کی بنا پر مابعد جدید شاعری کے نمایاں اشعار میں بہ طور مثال پیش کیا گیا ہے. اس شعر میں شاعر ماضی کو حال سے مربوط کرتا ہوا اقدار کے نئے حوالے بیان کرتا ہے. گاؤں، پیپل کا درخت اور درخت کے پاس کے پتھر کا انتظار قاری کو ناسٹلجیائی کیفیت سے بھی دوچار کراتے ہیں.
امان ذخیروی کی زیر نظر غزلوں کا موضوعی اور لسانی اظہار ایک قسم کی ناسٹلجیائی کیفیت کی غمازی کرتا ہے. ان غزلوں کو شاعر نے علامتی غزلوں کا نام دیا ہے. لیکن ہم انھیں موضوعی یا موضوعاتی غزلیں کہہ سکتے ہیں. علامت کا اپنا نظام ہے. ان غزلوں کو علامتی غزلیں کہنے کا سب بڑا خطرہ یہی ہے کہ شاعر ما بعد جدیدیت سے قبل کے زمانے کے شعری رجحان سے خود کو منسلک کرلیتا ہے. حالاں کہ یہ غزلیں مابعد جدید زمانے کی کسب کردہ شعری آزادی کے اظہار کی بنا پر وجود پذیر ہوئی ہیں. ان غزلوں میں ماضی کو حال سے مربوط کرنے کا عمل نظر آتا ہے اور ماضی میں استعمال کی جانے والی اشیا سے منسلک اور پیدا شدہ تہذیب و اقدار کے دھندلے ہوتے نقوش کی عظمت کا ترانہ گایا گیا ہے.
ان غزلوں کو موضوعی یا موضوعاتی غزلیں اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ ان غزلوں کی تخلیق کا ایک خاص مقصد ہے. اور اس مقصد کے تحت انھوں نے ہر غزل کی مخصوص ردیف متعین کی ہے، جیسے صراحی، خط، قلم دوات کھڑاوں وغیرہ. یہ غزلیں فنی اعتبار سے مسلسل غزلوں کی طرح ہیں. اور نظم سے اتنی قریب ہیں کہ اگر انھیں عنوان دے دیا جائے تو یہ نظم بھی شمار ہوسکتی ہیں. لیکن غزل اور نظم کے درمیان کی باریک لکیر کو نمایاں کرنے میں شاعر نے اپنی فنی ہنرمندی کا بہترین ثبوت پیش کیا ہے. کیوں کہ ہم ہر شعر کو الگ الگ کرکے بھی اس کی تکمیلیت کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور حظ اٹھا سکتے ہیں.
ان غزلوں میں واردات قلبی نہیں ہے بلکہ خارجی حقیقت نگاری ہے. لیکن شاعر نے احساسات کو پیکر ضرور عطا کیا ہے. پروفیسر شہپر رسول نے اپنے مضمون "مابعد جدید غزل یا نئی غزل" میں لکھا ہے :
"ما بعد جدید شعرا نے زبان کے مجازی اور تخلیقی اظہار کی نئی سمت و رفتار کے ساتھ ساتھ بارہا استعمال کیے ہوئے الفاظ کو بھی نئی اور بھر پور تخلیقی توانائی اور ندرت کے ساتھ برت کر اظہار و معنی کی نئی سمتوں اور سطحوں سے غزل کو روشن کرایا۔ غیر اطمنان بخش معاشرے اور نئے حالات کے جبر کو قبول کرتے ہوئے ماضی قریب اور ماضی بعید کو آج کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے حال و ماضی سے استعارے، پیکر اور جدید تلمیحات اخذ کیں۔ نیز نئے اور پرانے کا ایک حیرت خیز، طلسماتی، خوشگوار اور تازگی سے بھر پور لسانی اظہار کیا۔"
(ادب کا بدلتا منظر نامہ، اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ،گوپی چند نارنگ،ص ۔۱۸۸)
امان ذخیروی کی زیر نظر تیرہ غزلوں میں زبان و بیان اور معنی کی سطحوں کو نئے اور اچھوتے ابعاد سے روشناس کرانے کی کوشش ملتی ہے.
اشتراک ڈاٹ کام ان کی خدمت میں نیک خواہشات پیش کرتا ہے. مدیر)

(1) غزل

نہیں بننا مجھے ہرگز گوارہ بیل کولہو کا
ہے دنیا میں بڑا قسمت کا مارا بیل کولہو کا

یہ بیٹے اس لیے ہی باپ کی پروا نہیں کرتے
کہاں جائے گا اب یہ بے سہارا بیل کولہو کا

خدائے وقت کچھ تو اس کی محنت کا صلہ دیتے
بڑھاپے میں کرے کیوں کر گزارا بیل کولہو کا

کب اس کی جان چھوٹے گی بھلا اس جانفشانی سے
کبھی کر کے تو دیکھے استخارہ بیل کولہو کا

سمجھتا ہے کچھ اس کا درد تو کولہو سمجھتا ہے
وگرنہ کس کی آنکھوں کا ہے تارا بیل کولہو کا

وہ کچی کھانیوں کی سوندھی خوشبو پر فدا ہو کر
چلے جاتا تھا ہر پل بے اشارہ بیل کولہو کا

دلہن پا کر سمندر پار جانا بھول جائے گا
سو رکھ چھوڑا ہے اماں نے کنوارا بیل کولہو کا

مزے سے اب یہاں کولہو تو برقی رو سے چلتا ہے
اور اس کی یاد میں پھرتا ہے مارا بیل کولہو کا

(2) غزل

نہیں ہے اب کوئی قیمت ادھیلہ اور دمڑی کی
کسے پڑتی ہے اب حاجت ادھیلہ اور دمڑی کی

ترے در سے کسی کو بے بہا دولت ہوئی حاصل
کوئی لوٹا، لیے حسرت ادھیلہ اور دمڑی کی

اکنی اور دو انی، پانچ، دس پیسے ہی دیکھے ہیں
ہمیں بھی کب ملی قربت ادھیلہ اور دمڑی کی

سنا ہے سیر، آدھا سیر اس کی دال ملتی تھی
کبھی ایسی بھی تھی رفعت ادھیلہ اور دمڑی کی

بڑی مشکل سے ان لوگوں کا اب دیدار ہوتا ہے
جنہیں حاصل رہی صحبت ادھیلہ اور دمڑی کی

لہو سے تر بہ تر مزدور کے، ان سرخ نوٹوں میں
کہاں سے آئے وہ برکت ادھیلہ اور دمڑی کی

جمال بنت حوا کوڑیوں کے بھاؤ بکتا ہے
ہے لرزاں دیکھ کر غیرت ادھیلہ اور دمڑی کی

ذرا لعل و گہر کی بات ہی کرتے امان اللہ
یہ کیا لے بیٹھے تم مدحت ادھیلہ اور دمڑی کی

(3) غزل

اب کس کو یاد آئے صراحی گھڑے کی بات
دل میں بھی کون لائے صراحی گھڑے کی بات

محروم اس کی دید سے خود بھی رہا ہے جو
بچوں کو کیا بتائے صراحی گھڑے کی بات

جائے کہاں کمہار کرے کس سے ذکر خیر
خود دل میں ہی پکائے صراحی گھڑے کی بات

اس نے تو لیا اپنا نیا آشیانہ ڈھونڈ
پانی بھی کیوں چلائے صراحی گھڑے کی بات

اک بوڑھے شخص کو جو دیا میں نے سرد آب
پی کر کہا کہ ہائے صراحی گھڑے کی بات

تدبیر بچانے کی کریں اس کے ہم ضرور
مٹی میں مل نہ جائے صراحی گھڑے کی بات

پانی میں وہ گھلی پکی مٹی کی سوندھی باس
بس تشنگی بڑھائے صراحی گھڑے کی بات

اب ہیں یہاں فریز گزیدہ تمام لوگ
کہتے ہیں باے بائے صراحی گھڑے کی بات

(4) غزل

کر دیا کس نے ہمارا بند حقہ گڑگڑی
ہو گیا اب خاک کا پیوند حقہ گڑگڑی

ہم نے بھی شام و سحر دیکھا اسے نزدیک سے
تھا بڑی دادی کا جو دلبند حقہ گڑگڑی

ہے خبر آتے ہیں وہ میرے رقیبوں کو لیے
ڈھونڈنے نکلا ہوں میں بھی چند حقہ گڑگڑی

بھول مت جانا بزرگوں کی نشانی دیکھنا
ہے تری پہچان اے فرزند حقہ گڑگڑی

خواب میں اک شب پیا میں نے بڑے بوڑھوں کے ساتھ
دے گیا مجھ کو بہت آنند حقہ گڑگڑی

نے کسی کے ہاتھ میں ہے اور کوئی بھرتا خمیر
ہے اکیلی جاں مری مانند حقہ گڑگڑی

اس کے ہونے سے محبت کی فضا ہموار تھی
کس قدر ملت کا تھا پابند حقہ گڑگڑی

حضرت غالب یقیناً چھوڑ ہی دیتے شراب
ڈال کر پیتے جو وہ گل قند حقہ گڑگڑی

عہد نو میں دیکھ کر یہ اپنی ناقدری امان
ہو گیا روپوش غیرت مند حقہ گڑگڑی

(5) غزل

گھر کے بنگلے پر جلا کرتی تھی پیاری لالٹین
اب کہاں گم ہو گئی قسمت کی ماری لالٹین

منتظر ہے وہ کہ کوئی چاہنے والا ملے
رو رہی ہے حال پر اپنے کنواری لالٹین

روشنی میں پڑھ کے اس کی جو ہوئے ایواں نشیں
اک انہیں کی سازشوں سے آج ہاری لالٹین

جس کی صورت تھی کبھی رشک قمر، اب پھر رہی
ایک قطرہ روشنی کو ماری ماری لالٹین

گر پڑا ہے آج جو، کل اٹھ بھی سکتا ہے ضرور
دیکھ لینا پھر کرے گی شہسواری لالٹین

پھر انہیں کے درمیاں ہوگا کوئی پیدا کلام
نسل نو کی گر کرے گی آبیاری لالٹین

کب کوئی بھٹکے مسافر کو یہاں دیتا پناہ
اب کہاں جا کر کرے گی شب گزاری لالٹین

بے غرض خود کو جلا کر اس نے پھیلائی ضیا
مر گئی پر بن نہ پائی کار و باری لالٹین

آؤ کچھ ایسا کریں جلنے لگے پھر سے امان!
خواہ وہ جو ہو، ہماری یا تمہاری لالٹین

(6) غزل

نہیں لیتا یہاں کوئی بھی ہے اب نام چکی کا
مشینی دور میں کیا رہ گیا ہے کام چکی کا

جہاں حرکت نہیں ہوتی وہاں برکت نہیں آتی
زمانے کے لیے ہے اک یہی پیغام چکی کا

مری دادی، مری نانی جو تھیں قبروں میں جا سوئیں
پتا دے بھی تو آخر کون دے گمنام چکی کا

ہوئے کچھ ایسے خائف ہم بھی چکی کی مشقت سے
کہ ہم نے پھینک ڈالا توڑ کر ہر دام چکی کا

تمہاری ہی تن آسانی نے کر ڈالا اسے رسوا
کیا تم نے ہی بیڑا غرق اے گلفام! چکی کا

اگر بیماریوں سے بنت حوا! تجھ کو بچنا ہے
تو میرا مشورہ ہے بڑھ کے دامن تھام چکی کا

جو اس کے درمیاں آئے گا سالم بچ نہیں سکتا
پھر اس کے بعد چاہے جو بھی ہو انجام چکی کا

بھلے ہی شکل بدلے پر روانی تھم نہیں سکتی
ہوا ہے اور کبھی ہوگا نہ چکا جام چکی کا

شکم سیری اسی کے دم سے قائم ہے امان اللہ
سو ہم انسان پر لازم ہوا اکرام چکی کا

(7) غزل

حیف! تھا کتنا سہانا بیل گاڑی کا سفر
اب فقط ہے اک فسانہ بیل گاڑی کا سفر

چل رہی ہے برق رفتاری سے دنیا آج کل
کیو کرے گا اب زمانہ بیل گاڑی کا سفر

نغمۂ الفت سنانا سب کو، گاڑی بان کا
کس قدر تھا دلبرانہ بیل گاڑی کا سفر

میرے ہمدم! گر ترا، منزل بہ منزل ساتھ ہو
میں کروں شانہ بہ شانہ بیل گاڑی کا سفر

سونپ کر ہاتھوں میں اس کے خود کو، ہو جانا دراز
واہ تھا کیا مومنانہ بیل گاڑی کا سفر

اجنبی راہوں پہ ہو اک ہم سفر پہچان کا
پھر تو ہو کیا عاشقانہ بیل گاڑی کا سفر

بیل گاڑی، تھی بزرگوں کی نشانی، گم ہوئی
ہو گیا اب کافرانہ بیل گاڑی کا سفر

کب دلہن آئے گی، اس پر ڈال کر رنگیں اوہار
کب بنے گا میکدانہ بیل گاڑی کا سفر

(8) غزل

کس کے رخ کی تاب سے شرمائے اب چولہے کی آگ
کون آنچل سے چھپا لے جائے اب چولہے کی آگ

آگ نفرت کی دلوں میں اس قدر ہے تابناک
کیوں نہ اس کو دیکھ کر شرمائے اب چولہے کی آگ

ہے لگا ہر ایک گھر میں سائلنڈر گیس کا
کیا ضرورت ہے کوئی لہرائے اب چولہے کی آگ

موسم باراں میں آئے اور جل بجھ کر ہمیں
زندگی کا فلسفہ سمجھائے اب چولہے کی آگ

گرم موسم میں بھی آپس کے یہ رشتے سرد ہیں
ہو سکے تو پھر انہیں گرمائے اب چولہے کی آگ

آگ ہے دونوں، سیاست کی ہو وہ یا پیٹ کی
کیا کرے مفسد کسے ٹھہرائے اب چولہے کی آگ

آنچ بھی دینا وہ ماں کا، روٹیاں بھی سیکنا
کاش! پھر منظر وہی دہرائے اب چولہے کی آگ

اب کہاں اس کو میسر ہے کسی کا دست ناز
خود پہ پھر کس بات پر اترائے اب چولہے کی آگ

(9) غزل

جانے کس جور میں ٹھہرا ہے کنویں کا پانی
کس کی کب سنتا ہے بہرا ہے کنویں کا پانی

جیسے ٹوٹا ہو کسی عاشق ناکام کا دل
اس طرح ٹوٹ کے بکھرا ہے کنویں کا پانی

اس کا ہمدرد ملے کوئی تو پوچھوں اس سے
کتنے حالات سے گزرا ہے کنویں کا پانی

لگ گیا داؤ پہ جب حیف! تقدس اس کا
تب کہیں فیض سے مکرا ہے کنویں ‌کا پانی

ڈول خالی ہے پڑا اور ‌جگت سونا ہے
اتنی گہرائی میں اترا ہے کنویں ‌کا پانی

جس سے عنقا ہوئی جاتی ہیں پرانی قدریں
اس ترقی کا وہ چہرہ ہے کنویں ‌کا پانی

ہو میسر تو نئی نسل پہ چھڑکیں اس کو
آب زمزم کا ہی قطرہ ہے کنویں ‌کا پانی

اے اماں! بھول کے بھی اس کو بھلانا نہ کبھی
اپنی تہذیب کا شجرہ ہے کنویں کا پانی

(10) غزل

کون ہے وہ جس نے توڑا ہل سے رشتہ بیل کا
منتشر ہی کر کے چھوڑا ہل سے رشتہ بیل کا

تھے مرے دادا بھی، میں بھی ہوں کسان ابن کسان
جانتا ہوں میں بھی تھوڑا ہل سے رشتہ بیل کا

اس مشینی دور میں تحقیق کا ہے یہ سوال
سب سے پہلے کس نے جوڑا ہل سے رشتہ بیل کا

اب مرے بچے بھی اس رشتے سے ناواقف ہوئے
برسوں پہلے ہم نے موڑا ہل سے رشتہ بیل کا

صنعتی تحریک نے انسانی رشتوں کی طرح
ہائے کر ڈالا کدوڑا ہل سے رشتہ بیل کا

ٹریکٹر آکر نہ گر دھرتی کا سینہ توڑتا
یوں نہ ہوتا پھوڑا پھوڑا ہل سے رشتہ بیل کا

اس سے گنے کی طرح فصلوں میں بھی آئے مٹھاس
اس لیے پرکھوں نے گوڑا ہل سے رشتہ بیل کا

یاد گزرے وقت کی شدت سے آتی ہے امان
دیکھتا ہوں جب نگوڑا ہل سے رشتہ بیل کا

(11) غزل

کچھ تو لائے کوئی، اقرار کہ انکار کا خط
مجھ کو مطلوب ہے ہر حال میں دلدار کا خط

فون پر ہونے لگی عاشق و معشوق میں بات
اس لیے بند ہوا پیار کے اظہار کا خط

روز پڑھتا ہوں پر عقدہ نہیں کھلتا کوئی
کتنا مبہم ہے اس ہشیار، طرحدار کا خط

پھر عدالت پہ خطا کا نہیں الزام آتا
کاش! وہ کھول کے پڑھتے جو خطاکار کا خط

اپنی تحریر پہ نازاں ہے یہاں جو بھی کوئی
پہلے غالب تو بنے پھر لکھے معیار کا خط

میں تو خط وقت کے ماروں کا پڑھا کرتا ہوں
وہ پڑھیں خوب جہانگیر و جہاں دار کا خط

سخت غیرت میں پڑے ڈوب مرے دریا میں
پڑھ کے ساحل بھی کبھی دیکھے جو مجدھار کا خط

منتظر ہیں کئی، پیغام محبت کے لیے
کون لائے مگر اس پار سے اس پار کا خط

اب فضاؤں میں وہ بے امن و اماں اڑتے ہیں
لے اڑا کون فاختاؤں کے منقار کا خط

(12) غزل

فکر سخن کو بیٹھتے لے کر قلم دوات
پر اب ہمیں کہاں ہے میسر قلم دوات

خوابوں میں بھی جب اس کا بسیرا نہیں رہا
پھر ڈھونڈتا ہے کیوں دل مضطر قلم دوات

عاشق جو اس کے تھے سبھی مٹی میں مل گئے
سویا ہے غم کی اوڑھ کے چادر قلم دوات

خود تو نہ جانے کون سی ظلمت میں کھو گیا
حرفوں کو دے کے چاند سا پیکر قلم دوات

ہم نے لیا جب اس کے رقیبوں کو ہاتھ ہاتھ
رخصت ہوا لپیٹ کے بستر قلم دوات

وہ درد، میر، غالب و مومن، فراق و داغ
رکھتے تھے کیسے کیسے سخنور قلم دوات

لکھے گا بہاروں پہ خزاؤں کا اقتباس
تھامے گا جب بھی کوئی ستم گر قلم دوات

تتلی کے پر پہ امن کا نقشہ اکیرنے
کب ڈھونڈ کے لائے گا گل تر قلم دوات

(13) غزل

اب کسی کے پاؤں کی زینت بنے کیوں کر کھڑاؤں
جب سر منظر ہو کوئی اور پس منظر کھڑاؤں

اس کے پائے ناز پر وہ خود کو کر ڈالے نثار
ڈھونڈنے نکلے جو کوئی چاند کا پیکر کھڑاؤں

عشق میں محبوب کے ہوتا ہے بیشک سب روا
حضرت خسرو کے، بولی سر پہ یہ چڑھ کر کھڑاؤں

اب بھلے ہی اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں
مدتوں شاہوں کے پیروں کی رہی دلبر کھڑاؤں

اصفیا و اولیاء کا جب کبھی آتا ہے نام
ذہن کے پردے پہ ہوتی ہے عیاں مضطر کھڑاؤں

چشت کی صحبت نے بخشا تھا اسے ایسا عروج
اک اشارے پر بنی جیپال کی رہبر کھڑاؤں

بے نیازوں اور خوداروں کی پروردہ رہی
نوک پر رکھتی تھی اپنے شوکت سنجر کھڑاؤں

جانے اس سے ہے مرا یہ کون سا رشتہ امان
بجتی رہتی ہے سدا دل کے مرے اندر کھڑاؤں
***
امان ذخیروی کی گذشتہ نگارش:ورود دل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے