مصور مناظر رمزی اٹاوی: فکر و فن کے آئینے میں

مصور مناظر رمزی اٹاوی: فکر و فن کے آئینے میں

رفیعہ نوشین
حیدرآباد، دکن، ہند
80992 50982

ہندستان کے اردو نقشہ میں راجستھان کو شروع سے اہمیت حاصل رہی ہے. اس کی شان دار علمی روایت و وراثت، اس کے کسی ایک حصے تک محدود نہیں ہے. بلکہ پورے خطے میں ادبی آبیاری کے نشان بکھرے ہوئے ہیں.
راجستھان میں ایسے شعرا و ادبا کی تعداد بھی کافی ہے جو تلاش معاش کے لیے راجستھان گئے اور وہیں کے ہو کے رہ گئے. ایسے ہی شاعروں میں ایک شاعر ابوالاسرار رمزی ہیں. آپ یکم دسمبر 1912 کو اٹاوہ (یو پی) میں پیدا ہوئے. آپ کا اصلی نام ظہور احمد ہے. لیکن آپ کا قلمی نام ابو اسرار رمزی ہے.
آپ نے 1930 سے ملازمت کے سلسلے میں جودھپور میں سکونت اختیار کی. رمزی کو شاعری ورثہ میں ملی ہے. آپ کے والد منشی مولا بخش رحمانی بھی شاعر تھے اور بیکس تخلص فرماتے تھے. والد کے علاوہ آپ کے نانا کے بڑے بھائی سکندر یار خان بھی شعر کہا کرتے تھے. "نہاں" ان کا تخلص تھا.
رمزی کا شعر و سخن کا ذوق فطری تھا. انھوں نے علامہ سیماب اکبر آبادی سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا.
"صحرا میں بھٹکتا چاند" رمزی کا مجموعہ کلام ہے، جسے ان کے پوتے اشراق الاسلام ماہر نے 2001 میں شائع کروایا. جس میں ایک حمد، بتیس غزلیں، باون نظمیں اور چند قطعات ہیں.
رمزی اٹاوی کا اصل قلمی سرمایہ ان کی مذہبی شاعری ہے، ان کے کلام کا بہ غور مطالعہ کرنے سے رمزی ایک ایسے جرت مند اور بے باک شاعر کے روپ میں نظر آتے ہیں جو معاشرے میں اعلا قدروں کے قیام کا خواہاں ہے۔
کچھ اس کی خبر بھی ہے تجھ کو وہ سوز جہنم کیا ہوگا
جس آگ کا ایندھن انساں ہے اس آگ کا عالم کیا ہوگا
اک بار خطا ہوجائے اگر سو بار ادب سے توبہ کر
اک اشک یہاں کا اچھا ہے، واں گریہ پیہم کیا ہوگا
یہ حال ہے رمزی دنیا کا، دنیا میں کسی کا کوئی نہیں
اس دہر کا جب یہ عالم ہے تو حشر کا عالم کیا ہوگا
رمزی اٹاوی کو غزل اور نظم دونوں پر یکساں دسترس حاصل تھا. لیکن غزلوں کی طرف ان کا رجحان کم کم ہی رہا. نظم کی طرف ان کا جھکاؤ زیادہ تھا. جس کی وجہ انھوں نے خود اپنے ایک کتابچے حریم نیاز میں یوں لکھی ہے:
"میں صالح ادب کا حامی ہوں. اس مقصد کے لیے میں نے جلد ہی غزل کہنا چھوڑ دیا اور نظم کہنے کی طرف مائل ہو گیا."
کہنہ مشقی، پختگی اور کلاسیکل روایات کی پاس داری ان کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں. انھوں نے جودھ پور میں جدید نظم نگاری کو کافی فروغ دیا. اور متنوع موضوعات پر نظمیں لکھیں.
عالمی ترانہ، سورج، جوش عمل، چیلنج، کارواں نمود، سرمایہ، مزدور وغیرہ ان کی شاہ کار نظمیں ہیں. ان کی ایک نظم کے بارے میں صحرا میں بھٹکتا چاند کے حرف آخر میں رمزی کے پوتے اشراق الاسلام کہتے ہیں کہ "1947 میں تقسیم ہند کے کربناک اور وحشیانہ ماحول سے منتشر رمزی نے ایک نظم خونی نمائش کے عنوان سے لکھی تھی اور پنڈت نہرو کو ارسال کیا. پنڈت نہرو کے دفتر سے جواب آیا کہ آپ کی نظم موصول ہوئی، خوشی ہوئی، اسے نشر کروانے کے لیے آل انڈیا ریڈیو بھیج دیا گیا ہے." یہ تھے اس وقت کے سیاست دان جو اس حد تک ادب کے قدر دان تھے کہ کلام کو نشر کروانے کا اہتمام بھی خود ہی کیا. یہ رمزی کے ممقصدی و معیاری کلام کی خاصیت تھی. ان کی بیشتر نظمیں قومی اور قدرتی مناظر، فطری حسن پر مبنی ہوتی ہیں.
ان کی نظموں میں جہاں کہیں کسی باغ، جنگل یا پہاڑ کی فضا کا بیان موجود ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع کی روح میں جو خاصیتیں تھیں، رمزی نے ان سب کا انتخاب کر لیا تھا. ان کی نظمیں پڑھ کر آنکھوں کے سامنے بالکل وہی سماں بندھ جاتا ہے جو خود اس مقام کو دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے.
علامہ بیدل بدایونی کے عہد حیات میں ان کی سرپرستی میں جو مشاعرے ہوا کرتے تھے ان میں رمزی بھی شریک ہوتے تھے. ان کی نظموں میں قدرتی مناظر کی دل کشی کو محسوس کرتے ہوئے علامہ بیدل نے انھیں "مصور مناظر" کے خطاب سے نوازا تھا.
ایسی ہی ایک نظم کا بند ملاحظہ کریں جس کا عنوان ہے: ریگستانی گاؤں
گرد و غبار ہر سو، جنگل پہ چھا رہا ہے
بستی پہ جیسے کوئی آسیب آرہا ہے
بھوری پہاڑیوں سے بھیڑیں گزر رہی ہیں
اونٹوں کی کچھ قطاریں نیچے اتر رہی ہیں
چرواہا مست لے میں نغمے سنا رہا ہے
سنسان وادیوں میں سیٹی بجا رہا ہے
کندھے پہ بانس رکھ کے ریوڑ چرا رہا ہے
سوکھی زمیں پہ جس سے پتے گرا رہا ہے
صحرا نشیں گڈریا، جنگل کا شاہزادہ
مخمور ہو رہا ہے لیکن بغیر بادہ !
آپ کی نظمیں ایمان افروز ہوا کرتی ہیں. اور وہ اپنی نظموں میں ان حدود کا لحاظ رکھتے ہیں جو اسلام نے قائم کی ہیں. ان کا لکھا ہوا سلام جماعت اسلامی کے نصاب میں داخل ہے.
سلام اس اسوہ حسنہ پر جس کا خلق قرآن تھا
سلام اس پر جو خود گنجینہ اسرار یزداں تھا
سلام اس ناخدا پر، آخری انسان کامل پر
سفینہ ڈوبتے انسان کا لایا جو ساحل پر
سلام اس پر کہ جس نے نیکیوں کو عافیت بخشی
ضعیفوں اور مظلوموں پر لطف و رحم فرمایا.
ان کی مذہبی شاعری انسان کو اعلا کردار اور اعلا اوصاف پیدا کرنے کی دعوت دیتی ہے:
صاف ہاتھوں سے ذرا تاریخ مستقبل لکھو
آنے والوں کے لیے سرمایہ عبرت بنو !!
جام صہبائے بقا پیتے رہو بہنے بھی دو
اس خدا کے ملک میں خود بھی جیو، جینے بھی دو!
رمزی کی ایک نظم ہے بہ عنوان: خطاب خاص، جس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تمام مذاہب میں اتحاد و اتفاق چاہتے تھے. اسی لیے انھوں نے مسلمانوں، ہندوؤں نیز سکھوں کو بطور خاص مخاطب کرتے ہوئے یہ نظم لکھی ہے. اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
سچ بتاؤ اے مسلمانوں! تمھیں حق کی قسم
کیا سکھاتا ہے تمھیں قرآن یہ جورو ستم ؟
سچ بتاؤ ہندوؤں تم کو انساں کی قسم
جذبہ رحم و کرم اور گاؤ رکشا کی قسم
کیا پرانوں میں لکھا ہے تم یہ بربادی کرو
جشن آزادی مناظر خون آزادی کرو
سچ بتاؤ اے سکھوں تعلیم نانک کی قسم
پوچھتی ہے مادر خستہ جگر مرہون غم
کیا گرنتھ میں یہ لکھا ہے کہ یوں خونریزی کرو
شانتی کی سر زمیں پر فتنہ انگیزی کرو
جو بدی کرتا ہے مرد باصفا ہوتا نہیں
ایسے کاموں سے کبھی راضی خدا ہوتا نہیں!
رمزی نے اپنی شاعری میں متناسب الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے ان کو اس طور پر ترتیب دیا ہے کہ شعر سے معنی و مقصود کے سمجھنے میں مخاطب کو کچھ بھی تردد باقی نہیں رہتا. نیز خیال کی تصویر ہو بہ ہو آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے. باوجود اس کے کہ اس ترتیب میں ایک جادو مخفی ہوتا ہے جو مخاطب کو مسخر کر لے۔ مثلا:
اسیر پنجہ غم ہے، بشر کی زندگی اب تک
مسیحاؤں کو گھیرے ہے خرد کی تیرگی اب تک
نہیں پہنچی دماغوں میں دلوں کی روشنی رمزی
غلامی کر رہا ہے آدمی سے آدمی اب تک !
رمزی نے نسخہ کائنات اور اس میں سے خاص کر نسخہ فطرت انسانی کا مطالعہ نہایت غور سے کیا ہے.
انسان کی مختلف حالتوں (جو زندگی میں اس کو پیش آتی ہیں) کو تعلق کی نگاہ سے دیکھا ہے.
ترا حال پریشاں تیری صورت سے عیاں ہو
زبان حال سے بھی تیرا افسانہ بیاں کیوں ہو
تم اپنے ہی وطن میں آج مجبور فغاں کیوں ہو
پناہیں دینے والے تھے ، طلبگار اماں کیوں ہو
شاعری میں جس قدر تشبیہات استعمال کی جائیں گی اتنا ہی کلام عمدہ ہوتا ہے.
لیکن اکثر شاعری میں تشبیہات یا تمثیلات کا ایک محدود ذخیرہ دیکھنے میں آتاہے، جسے پڑھتے پڑھتے قاری بیزارگی اور اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے.
لیکن رمزی اٹاوی نے اپنے کلام میں تشبیہات کو بالکل ہی منفرد اور نئے انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری اسے پڑھ کر خوب حظ اٹھاتا ہے، یہ ان کا شاعرانہ کمال ہے.
بہ طور مثال مندرجہ ذیل دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:
مضمحل ہو کرسمٹتا جا رہا ہے آفتاب
نیند سے بوجھل ہو جیسے فاختہ کی چشم خواب
قطرے کلی کلی کو پانی سے چھیڑتے ہیں
فطرت کی دیویوں کو شوخی سے چھیڑتے ہیں
جب کہ تشبیہات و استعارات کے بارے میں وہ خود فرماتے ہیں کہ:
تو الجھ کر رہ گیا ہے محض تاویلات میں
کھو گیا ہے استعارات اور تشبیہات میں
رمزی شاعر کے ساتھ ساتھ ایک بہترین نثر نگار بھی تھے. انھوں نے کئی مقالات، مضامین و انشائیے لکھے جو رسائل و جرائد میں شائع ہوا کرتے تھے.
ڈاکٹر معین الدین شاہین، پروفیسر، پرتھوی راج چوہان گورنمنٹ کالج، اجمیر رمزی کی نثر نگاری کے بارے میں رقم طراز ہیں:
"رمزی نے اپنی نثر کے حوالے سے قدم قدم پر یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ تخلیق اور تنقید ایک دوسرے سے منسلک اور مربوط ہیں. ان کی تحریروں میں ارضیات کا پہلو موجود ہے. اسی لیے ان کا وقار قائم رہا. ان میں ادب اور علم کا حسین سنگم ہوا ہے. اور یہ سنگم ان کے فکر و فن کو معیار، وقار اور اعتبار کی منزل تک پہنچا دیتا ہے."
رمزی اٹاوی نے ادب اطفال بھی تخلیق کیا ہے. انھوں نے بچوں کے لیے کلام لکھتے وقت بھی اخلاقیات، تعلیم اور مذہبیات کو ترجیح دی ہے. ان کی بچوں کے لیے لکھی دعا کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:
دست بستہ ہم کھڑے ہیں بے ریا
ہم سے معصوموں کی سن لے تو دعا
در اپنا کون ہے تیرے سوا
علم کی دولت ہمیں تو کر عطا
رمزی کا کلام تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے. اور اس کی افادیت مسلم ہے. اور عصر حاضر کا اعزاز بھی.
رمزی کی شخصیت اور ان کے فن کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ نثر ہو یا نظم ان کا دماغ اور قلم برق رفتاری سے چلتا تھا.
میدان نثر و نظم میں انھوں نے ایسی تخلیقات پیش کیں جو انھیں راجستھان کے اردو ادب میں ممتاز درجہ دلانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں. ڈاکٹر شاہد جمالی نے بڑی جاں فشانی سے "ابوالاسرار رمزی اٹاوی بحیثیت شاعر اور نثر نگار" کے عنوان سے ایک کتاب 2021 میں لکھی، جس میں رمزی کی چند نایاب نظمیں، اور مقالات و مضامین کو شامل کیا ہے. لیکن راجستھان میں رمزی کے فن اور شخصیت پر مزید گہرائی و گیرائی سے تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ادب کی دنیا میں رمزی کو وہ مقام مل سکے جس کے وہ حق دار تھے. اور یہ مقام حاصل کرنے کے لیے انہوں نے مسلسل ریاضت کی تھی.
رمزی، ایک کامیاب شاعر، مبلغ، مصلح اور
دعوت فکر دینے والا شخص 15 اپریل 2002 کو جودھ پور میں یہ کہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوا کہ:
افسانہ نیستی کا تم کو سنا رہا ہوں
سب گھر پہ آرہے ہیں، میں گھر سے جا رہا ہوں
اے ہمرہانِ میت اب آؤ پیچھے پیچھے
مر کر تمہیں نشان منزل بتا رہا ہوں
خاکسار اس مختصر سے مضمون کے ذریعہ رمزی اٹاوی کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے. دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے. آمین یا رب العالمین!
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :مستحسن عزم کی شاعری پر ایک نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے