"سمندر منتظر ہے" میری نظر میں

"سمندر منتظر ہے" میری نظر میں

ڈاکٹر احسان تابش

علمی اور تخلیقی کمالات میں ماہر اور فکر و خیال میں وسعت رکھنے والی شخصیت کا نام فضل رب ہے۔ لوح و قلم پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے والے ناول نگار فضل رب نے "سمندر منتظر ہے"تخلیق کر کے اردو ناول نگاری کے فن کو آگے بڑھایا ہے۔ اپنے ناول کے ذریعہ بھائی چارگی، انسان دوستی اور مہاجر کے کرب کو قاری تک پہنچایا ہے۔
فضل رب نے اپنے ناول میں زندگی کے خارجی پہلو اور داخلی کیفیتوں کی عکاسی کی ہے۔ ناول نگار نے جو دیکھا، جو سنا، جو محسوس کیا اسے قلم بند کر دیا، ادبی منظر نامے پر ناول نگار متحرک نظر آتا ہے، ان کے ناول "سمندر منتظر ہے" کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ تخلیق کار دور کی نظر اور لفظ سے لفظ جوڑنے کا ہنر رکھتے ہیں.
ڈاکٹر سید فضل رب کی پیدائش ریاست بہار میں ہوئی. آپ نے ایم.اے عمرانیات میں کیا۔ آپ نے کئی جگہوں پر اپنی خدمات انجام دیں۔ آپ کی کئی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ آپ کے مضامین و مقالے اور افسانے شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کو لکھنے کا شوق 60 کی دہائی میں پیدا ہوا۔ درس و تدریس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ہند و پاک کی تقسیم کے تناظر میں لکھا گیا یہ ناول مسلمانوں کی جذباتی کیفیات اور مہاجروں کے کرب کا آئینہ ہے۔ بکھرے خاندان کی آپ بیتی ہے۔ محبت کا نغمہ اور بچھڑنے کا ماتم ہے۔ ملنے کی حسرت، ہجرت کے مسائل بھی شامل ہیں۔ تقسیم ہند و پاک کی سچائی اور جذبات کی شدت بھی ہے۔ ہجرت کرنے والوں کے دل پر گزرنے والے دکھ درد کا بیان بھی ہے۔ اجتماعی زندگی کے کرداروں سے مرتب ناول "سمندر منتظر ہے" مٹتی تہذیب کی عکاس اور تقسیم کے تناظر میں لکھا گیا حقیقت نگاری پر مبنی ہے۔ زمین کھود کر حقیقت تک پہنچنے کی کامیاب کوشش ہے.
کرب زدہ ماحول میں سانس لیتا ہوا ناول نگار مہاجرین کے مسائل، سقوط ڈھاکہ اور جڑوں کی تلاش کا نام "سمندر منتظر ہے" رکھتا ہے۔ گم گشتہ شبیہوں کو سامنے لانے اور وسیع موضوع کو اپنے اندر سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ تقسیم کا المیہ اس ناول کا موضوع ہے "سمندر منتظر ہے" سہمی ہوئی زندگی کی داستان ہے.
صنف ناول کو اردو ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ پیغام آفاقی، شمویل احمد، عبدالصمد، رحمان عباس، حسین الحق، مشرف عالم ذوقی، کوثر مظہری، علی امام، سید محمد اشرف، احمد صغیر وغیرہ نے سیاسی سماجی استحصال اور حادثات کو فنکاری کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ موجودہ دور میں فضل رب کا نام بھی معتبر ہے اور ان کا ناول "سمندر منتظر ہے" ایک شاہ کار ناول ہے.
ناول "سمندر منتظر ہے" میں فرقہ وارانہ فسادات اور ہجرت کے سانحہ کا کرب موجود ہے۔ یہ ناول ہر ایک خاندان کی داستان ہے۔ ناول نگار نے آزادی کے بعد مہاجر کہلانے کے کرب اور مسائل کی ترجمانی موثر طریقے سے کی ہے. ماضی و حال کے تناظر میں یہ ناول مسلمانوں کی زبوں حالی اور شکست زدہ روحانی قدروں کی کہانی ہے جس کی تصویر کشی بڑی فنکاری سے کی گئی ہے۔
اس ناول میں یادیں، مشاہدے، رنگا رنگی، حرارت و نزاکت، رشتوں کی پاکیزگی، بچھڑنے کا کرب سب موجود ہے۔ انسان کے باطنی کرب کا اظہار تقسیم کے سانحے اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مشاہدات کی شکل میں آنے والے واقعات اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ جذبات کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ زندگی کے ہر گوشے کو ناول نگار نے بڑی سچائی سے پیش کیا ہے۔ رحمت نگر، منشی نگر محبت بھائی چارگی کی مثال ہے۔
بہ قول شفیع جاوید:
"یہ بصیرتوں سے بصارتوں تک کا سمندر ہے اور وہ
سب کچھ یاد دلاتا ہے جو ہم نے کھو دیا ہے اور انھی
کی تلاش وجستجو کے لیے یہ "سمندر منتظر ہے"۔
” سمندر منتظر ہے" کردار نگاری اور حقیقت نگاری کے اعتبار سے فکر انگیز ہے۔ زبان و بیان کے لحاظ سے فضل رب کا ناول "سمندر منتظر ہے" خوب سے خوب تر ہے۔ تجربے، مشاہدے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا آئینہ اور اردو فکشن کا سنگ میل ہے۔ فن و اسلوب دل چسپ ہے۔
ناول نگار کردار و واقعات کے ذریعہ ایک پل تعمیر کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے. نصیحت، اصلاح، طبقاتی کشمکش۔ تقسیم ہند، قدیم و جدید تہذیب کا نظریہ، معاشرے پر گزرنے والے سارے اثرات، ہجرت سے قبل کی زندگی اور آج کی زندگی کا درد و کرب اس ناول میں موجود ہے۔ رحمت نگر اور منشی نگر کی دل چسپ کہانی کا نام "سمندر منتظر ہے".
یہ ناول پاکستان کے قیام، پاکستان کی تقسیم کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ ناول میں کردار نگاری بھی پرکشش اور اثر انگیز ہے۔ تجسس کا عنصر بھی موجود ہے ۔ اس ناول میں تمام واقعہ مل کر ایک مضبوط پلاٹ کی تعمیر میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ معاشرتی زندگی کی سماجی اور مذہبی روایتیں سامنے دکھتی ہیں۔
اس ناول میں ناول نگار فضل رب نے فنی سلیقہ مندی اور اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پلاٹ میں قصے کی دل چسپی شروع سے آخر تک موجود ہے. اسلوب بیان کے اعتبار سے بھی یہ کامیاب ناول ہے۔ قومی یکجہتی کا نمونہ ہے۔ اس ناول کے تمام کردار اپنے اندر انفرادیت رکھتے ہیں۔ یہ ناول تحریک آزادی کے دور کا عکاس ہے۔ اس ناول کے سبھی کردار ایک زنجیر سے وابستہ ہیں۔ چھوٹا کردار بھی ناول کے پلاٹ کا ایک اہم حصہ ہے۔ قومی اور بین الاقوامی مسائل کی گونج بھی ہے۔ زبان سلیس اور سادہ ہے.
تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ناول حقیقت نگاری کے بالکل قریب ہے۔ فن کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ ہجرت کے مضر اثرات کی عکاس ہے. اس ناول میں صدی کی داستان ہے۔ ناول نگار کا لب و لہجہ نرم اور دل پزیر ہے۔ سو بات کی ایک بات میری نظر میں یہ ناول گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے۔
***
ڈاکٹر احسان تابش کی گذشتہ:اکھل راج اندوری کی شاعری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے