تم

تم

احسان قاسمی
پورنیہ، بہار، ہند

"تم ملی تو تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !"
"ایڑی، دوڑی، تِلّی، چوڑی، چمپا، ڈھیک، سِتلا۔۔۔۔۔۔۔۔
"کھٹاک۔۔۔۔۔۔۔ !
"اوئی ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!"
زناٹے کے ساتھ اُڑتی گِلّی تمھاری کمر پر جا لگی تھی۔ میں نے تمھیں کچّی سڑک کے بیچ ایک کراہ کے ساتھ بیٹھتے ہوئے دیکھا تھا۔ گھبراہٹ کے عالم میں تمھاری جانب دوڑ پڑا تھا۔ تمھارے داہنے ہاتھ میں تھما جھولا سڑک پر گر پڑا تھا۔ مجھے آتا دیکھ تم اٹھ کھڑی ہوئیں۔ تمھارے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی میں سرسوں تیل کی شیشی جوٹ کی بنی رسی سے بندھی یوں جھول رہی تھی گویا کسی مجرم کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا ہو۔ میں نے سڑک پر گرا جھولا اٹھا کر تمھیں تھمایا تو اس کے بوجھ سے تمھاری پتلی گردن تن کر کچھ اور لمبی ہو گئی تھی جیسے للّو پنڈت کی بنائی صراحی کی پتلی اور لمبی گردن ۔۔۔۔۔۔ گرمیوں کے دن میں جس سے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے قل قل کی صدا آیا کرتی تھی۔ لیکن تمھارے منھ سے کوئی آواز نہ نکلی، بس تم ٹکر ٹکر میرا منھ تکے جا رہی تھیں۔ تمھاری نگاہوں میں دیے سے جھلملا رہے تھے۔ میں ان روشن دیوں کی تاب نہ لا سکا اور میرا سر خم ہو گیا تھا۔ پھر تم آہستہ روی سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئی تھیں۔ میرے تمام دوست دور کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے اور اس بات سے خوف زدہ تھے کہ تم گھر جاکر اس واقعے کا ذکر اپنے باپ سے ضرور کروگی اور للّو پنڈت اپنا سونٹا جس سے وہ خشک مٹی کے ڈھیلوں کو پیٹ پیٹ کر برادے کی شکل عطا کیا کرتا تھا، ہاتھ میں تھامے ہماری خیریت دریافت کرنے ضرور پہنچ جائے گا، لیکن ایسا کچھ ہوا نہیں۔
للّو پنڈت واقعی بڑا فنکار تھا۔ اس کے ہاتھوں بنائے گئے دیے دیوالی کی شب گاؤں کے ہر گھر کی دہلیز، آنگن اور کھلیان میں روشن ہوا کرتے تھے لیکن تمھاری آنکھوں کے روشن دیوں نے مجھے محصور کر لیا تھا۔ ایک عجیب سی مقناطیسی کشش جس نے میرے وجود کے چاروں طرف اپنا گھیرا ڈال دیا تھا۔
وقت کا چاک تمھارے سراپا کو ہر دن نئی نئی رعنائیاں عطا کر رہا تھا جیسے للّو پنڈت کچی مٹی کی لوئی کو اپنی فن کارانہ چابک دستی سے دیدہ زیبی عطا کیا کرتا تھا۔
لڑکیاں ذرا عجلت میں رہا کرتی ہیں۔ ایک دن ہم تمام دوست اسی کچی سڑک کے کنارے اشوک کے پیڑ پر چڑھ کر ڈول پتہ کھیل رہے تھے کہ یکایک چمڑیا ڈھول کی ڈم ڈم اور شہنائیوں کی گونج کانوں میں آئی۔ دیکھا تو آگے آگے ڈولی لیے کہار، درمیان میں بیس بائیس لوگ زرد رنگ سے رنگی دھوتیاں اور گلابی چھینٹوں سے پُر سفید کرتے پہنے اور گردنوں پر نئے مدراسی گمچھے ڈالے چلے آ رہے ہیں اور ان سب کے پیچھے پانچ سات افراد ڈھول، تاشے اور شہنائیاں بجاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں تو حیرت زدہ سا صرف ڈولی کی جانب تک رہا تھا جہاں نائلان کے گلابی پردوں کی اوٹ سے دو مضطرب آنکھیں باہر جھانک رہی تھیں۔ لیکن ان آنکھوں کے دیوں کا تیل شاید خشک ہو چکا تھا اور سلگتی باتیوں سے کثیف دھواں اُٹھ رہا تھا۔ سارا منظر دھندلا چکا تھا۔
"تم ملی تو تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !"
ضلع ہائی اسکول گراؤنڈ میں ایک دن فٹ بال کھیلتے ہوئے مجھے منڈل سر نے دیکھا تھا۔ وہ میرے کھیلنے کے انداز سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے میری کوچنگ شروع کی تھی۔ ان کی کاوشوں سے ٹاؤن کلب کی فٹبال ٹیم میں میری شمولیت ہو پائی تھی جو مجھ جیسے کم عمر کھلاڑی کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ ڈسٹرکٹ اسپورٹس ایسوسی ایشن کے سکریٹری اور مایہ ناز فٹبال کھلاڑی شری امل مجُمدار عرف نیپُو دا نے میری آبیاری کی۔ رفتہ رفتہ میرے کھیل کا چرچا ہر خاص و عام کی زبان پر جاری ہو گیا۔ میں نے بچپن سے ہی عبدالصمد صاحب کا نام سن رکھا تھا۔ وہ ہمارے ہی شہر کے رہنے والے تھے اور ضلع ہائی اسکول کے طالب علم بھی رہ چکے تھے۔ منڈل سر اور نیپو دا نے ان کے بارے میں جو تفصیلات بیان کیں انھوں نے مجھے ان کا دیوانہ بنا دیا۔ وہ دنیائے فٹبال کے عظیم ترین کھلاڑی تھے۔ دنیا آج بھی انھیں فٹبال کا جادوگر  کے نام سے یاد کرتی ہے. موہن بگان رتن ایوارڈ یافتہ مشہور فٹبالر شری اوماپتی کمار نے، جب ۷۷ ء میں مہان فٹبالر پیلے ایک دوستانہ میچ کھیلنے کے سلسلے میں کلکتہ تشریف لائے تھے، صمد صاحب کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ "آج پوری دنیا پیلے کے کھیل کی دیوانی ہو رہی ہے مگر یہ بدقسمتی ہے کہ لوگوں نے صمد کا کھیل نہیں دیکھا۔ وہ ایک پیدائشی کھلاڑی تھے اور گیند کے ساتھ کوئی بھی کارنامہ انجام دے سکتے تھے۔"
منڈل سر نے بتایا کہ طالب علمی کے زمانے میں صمد صاحب اپنے گھر سے اسکول آتے اور جاتے وقت گیند لے کر ہی چلا کرتے تھے۔ لگاتار پریکٹس سے ان کے اندر ایسی استعداد پیدا ہو گئی تھی کہ گیند ان کی دونوں ٹانگوں کے درمیان سے باہر نکل ہی نہیں پاتی تھی، گویا کہ ٹانگوں کے ساتھ چپکی ہوئی ہو۔ آسٹریلیا میں ایک میچ کے اختتام پر کئی خواتین نے ان کی پنڈلیوں کو ٹٹول کر اس بات کا اطمینان حاصل کرنے کی کوشش بھی کی تھی کہ ان کی پنڈلیوں میں مبادا کوئی گوند جیسی شے تو نہیں لگی ہے؟
صمد صاحب کے بہت سارے قصے آج بھی مشہور ہیں. ۱۹۲۵ء میں چین کے شہر پیکنگ میں انھوں نے ہاری ہوئی بازی آخری پندرہ منٹوں میں متواتر چار گول داغ کر پلٹ دی تھی جب کہ وہ زخمی حالت میں تھے اور اسی لیے کوچ نے انھیں شروع میں کھیلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
صمد صاحب نے انگلستان میں وہاں کی روائل ٹیم کے خلاف پانچ عدد گول داغ کر اسے شکست فاش دی تھی۔ ایک غلام کی اتنی جرأت؟ انگریز تلملا اٹھے تھے، لیکن ان کے بہی خواہ چند انگریز کھلاڑی انھیں لے کر میدان سے فرار ہو گئےتھے۔
آزادی کے بعد صمد صاحب مشرقی پاکستان کے شہر پاربتی پور جا بسے اور ہمارے شہر کے لوگ انھیں بھول گئے۔ حکومت نے بھی ان کی خدمات کو فراموش کر ڈالا۔
صمد صاحب کے یہ قصے سُن سُن کر مجھ پر صمد ثانی بننے کا پاگل پن سوار ہو چکا تھا۔ جب میں مخالف ٹیم کے خلاف گول داغتا اور ناظرین کی تالیوں کی گڑگڑاہٹ میرے کانوں تک پہنچتی میری چھاتی چوڑی ہو جاتی اور مجھے یوں محسوس ہوتا گویا تالیوں کی اس گڑگڑاہٹ کے درمیان صمد صاحب کی تالیاں بھی موجود ہوں۔
اِنٹر اِسٹیٹ ٹورنامنٹ کھیلنے کے لیے ہماری ٹیم ایک دوسرے شہر کو گئی تھی۔ میری کاوشوں اور بہتر کھیل کے مظاہرے کی وجہ سے ہماری ٹیم نے ٹورنامنٹ کی چمپئن ٹیم کا خطاب اپنے نام کیا۔ مجھے مین آف دی ٹورنامنٹ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ٹورنامنٹ کے خاتمے کے بعد میں اسی شہر میں قیام پذیر اپنے ماموں جان کے گھر دو تین دنوں کے لیے چلا گیا کیونکہ ان کا کافی اصرار تھا۔ واپسی کے سفر کے دوران بس حادثے کا شکار ہو گئی۔ کئی افراد جاں بحق ہو گئے۔ میری جان بچ تو گئی مگر جانگھ کی ہڈی کئی حصوں میں منقسم ہو گئی۔ کافی علاج کے باوجود حسب سابق نہ ہو سکی۔ صمد ثانی بننے کا میرا سپنا چور چور ہو گیا۔ مجھے لگا تم مجھ سے روٹھ گئی ہو اور اب میرے چاروں طرف فقط اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔
"تم ملی تو تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !"
ہمارے شہر کو نیشنل اسکول گیمس (فٹبال اور والی بال) کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ میں اُن دنوں بہ مشکل چل پھر پاتا تھا لیکن دوستوں کی حوصلہ افزائی کی خاطر کسی نہ کسی طرح میدان میں ضرور حاضر ہوا کرتا تھا۔ لڑکیوں کے فٹبال سیمی فائنل میچ کے دوران میں نے پہلی دفعہ تمھیں دیکھا تھا. واقف کار دوستوں نے بتایا کہ تمھارا نام آشا منی ہیم برم ہے اور تم مقامی گرلس ہائی اسکول کی طالبہ ہو۔
میرے خدا ! کیا کمال کی فِٹنس پائی تھی تم نے. جس وقت تم رائٹ وِنگ اسٹرائکر کے روپ میں فٹبال لیے مخالف ٹیم کے گول پوسٹ کی جانب تیزی سے دوڑ لگاتیں میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا گویا سنتھال پرگنہ کی سیہ فام پہاڑیوں اور گھنے جنگلات سے پُر کسی گمنام وادی میں کوئی مادہ چیتا برق رفتاری کے ساتھ اپنے شکار کا تعاقب کر رہی ہو۔ کسی کھلاڑی میں یہ دم نہ تھا کہ وہ تمھاری راہ مسدود کر پائے. تم نے تنہا مخالف ٹیم کے ڈیفینس کو تہہ و بالا کر دیا تھا۔
حالانکہ فائنل میچ منی پور کی ٹیم نے کانٹے کی ٹکر کے بعد چار کے مقابلے پانچ گولس سے جیت لیا تھا لیکن ہر شخص کی زبان پر تمھارا چرچا تھا اور تمھارے کھیل کی ہی تعریف تھی۔
کالج کے پہلے دن ہی انگلش زبان کے کلاس میں تم نظر آ گئی تھیں اور میں حیرت انگیز مسرت سے دوچار ہوا تھا۔ رفتہ رفتہ ہمارے درمیان بات چیت کا سلسلہ دراز ہوا۔ میرا فٹبال کھیلنا منقطع ہو چکا تھا لیکن دل چسپی بہرحال برقرار تھی۔ میں نے تمھیں چند کارآمد ٹِپس بھی دیے تھے۔ گفتگو کے دوران ایک دن تم نے خود کے بارے میں بتایا کہ تمھارا آبائی وطن سنتھال پرگنہ کا جرمُنڈی قصبہ ہے. برسوں قبل تمھارا باپ اپنے چند رشتہ داروں کے ساتھ یہاں آکر سنتھال ٹولہ میں بس گیا تھا۔ یہاں اس نے مہوا کی شراب اور پچئ (چاول کی شراب) بنانے کا دھندا شروع کیا جس سے اچھی خاصی آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ تقریباً چار سال قبل اس نے چند لوگوں کے بہکاوے میں آکر شراب کو مزید نشہ آور بنانے کی غرض سے اس میں دھتورے کی آمیزش کر دی تھی۔ اس زہریلی شراب کے استعمال سے چودہ افراد کی موت واقع ہو گئی جن میں اس کا باپ بھی شامل تھا۔ اس حادثے کے بعد اس کی ماں شہر کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں صفائی کرمچاری کی حیثیت سے کام کرنے لگی۔ اسی محدود آمدنی میں دونوں ماں بیٹیوں اور دو چھوٹے بھائیوں کا گزارہ ہو رہا تھا۔
سیکنڈ ایئر تک آتے آتے تمھاری شہرت آسمان کی بلندیاں چھونے لگی تھی۔ یونی ورسٹی کی ٹیم کے علاوہ خواتین کی صوبائی فٹبال ٹیم میں بھی تمھاری شمولیت ہو چکی تھی. میری مسرت کی انتہا نہ تھی۔ میں اپنی محرومیاں بھولتا جا رہا تھا اور تمھارے اندر مجھے اپنا عکس نظر آنے لگا تھا۔ پھر یکایک تمھارا کالج آنے کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ میں نے سوچا شاید علالت یا کسی اور وجہ سے چند دنوں کے لیے یہ غیر حاضری ہے لیکن میری یہ سوچ غلط تھی کیونکہ تم پھر کبھی کالج میں نظر نہ آئیں۔
تقریباً ایک سال بعد ایک مشہور اخبار میں ایک خبر پر میری نظر پڑی۔ خبر کے ساتھ تمھاری تصویر بھی شائع ہوئی تھی۔ نامہ نگار نے لکھا تھا "فٹبال کی ایک اُبھرتی ہوئی کھلاڑی جو حالات کے ہاتھوں ہار گئی اور اسے سہارا دینے والا کوئی آگے نہ آیا۔"
اس آرٹیکل میں تمھارے حالات بیان کیے گئے تھے جس سے معلوم ہوا کہ کسی موذی مرض میں مبتلا ہو کر تمھاری ماں بھی چل بسی تھی اور مجبور ہوکر تمھیں اسی پرائیویٹ اسپتال میں ماں کی جگہ پر ملازمت کرنی پڑ رہی تھی. 
تصویر میں تم اسپتال کی نیلی وردی میں ملبوس مسکرا رہی تھیں اور تمھارے ہاتھ میں ٹرافی کی جگہ وائپر تھا۔ تمھاری مسکراہٹ نے میرے دل پر ایک گھونسا سا جڑ دیا تھا. اس دن میں پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا. ہم آخر کس طرح کے سسٹم میں جی رہے ہیں؟ ایک ہونہار کھلاڑی کی کھوج خبر لینے والا کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ میں، نہ کالج، نہ یونی ورسٹی اور نہ حکومت۔
"تم ملی تو تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !"
میرے ذہن میں گونجتے سوالات کا جواب کسی کے پاس نہ تھا. ہمارے پاس ایسا سسٹم کیوں نہیں ہے کہ حق دار کو اُس کا حق ملے اور صلاحیت کو سمّان حاصل ہو؟
پھر ایک دن داس کیپیٹل  نامی کتاب میرے ہاتھ لگی۔ میں معاشیات کا طالب علم تھا لیکن اب تک میں نے جو کچھ پڑھا تھا یا مجھے پڑھایا گیا تھا یہ کتاب اس کے بالکل برعکس تھی۔ میں جوں جوں اس کتاب کا مطالعہ کرتا گیا حقائق پرت در پرت میرے سامنے کھلتے گئے اور میں نے محسوس کیا کہ کارل مارکس نے اپنی اس کتاب کا نام گرچہ جرمن زبان میں داس کیپیٹل  رکھا ہے لیکن ہماری اپنی زبان میں بھی اگر ہم غور کریں تو حقیقتاً آج کے دور میں ہم انسان کیپیٹل یعنی سرمایہ یا سرمایہ داروں کے داس بن چکے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک غیر ذی روح یعنی پونجی کے گرد طواف کرتی ہے. یہاں انسان کی کوئی وقعت نہیں بلکہ قیمت ہے بازار کی۔ لہذا یہاں کسی طرح کے انسانی یا اخلاقی قدروں کا تصور بھی موجود نہیں۔ اس نظام کے آگے آشا منی ہیم برم کی کیا اوقات؟؟
داس کیپیٹل میرا اوڑھنا بچھونا بن چکی تھی۔ میرے دل و دماغ، خیالات و نظریات پر اس نے قبضہ جما لیا تھا۔ مزید تعلیم کے لیے میں نے ایسی یونی ورسٹی کا انتخاب کیا جو اشتراکی نظریہ کا گڑھ مانا جاتا تھا۔ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل ہونے کے بعد مجھے اسی یونی ورسٹی میں لیکچرر شپ بھی حاصل ہو گئی۔ میرے مضامین لگاتار دیش بدیش کے اخبارات و جرنلز میں شائع ہونے لگے جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر میرے کام کے چرچے ہونے لگے۔ میرے سروے رپورٹس حقیقت کے قریب تر ہوا کرتے تھے اور بینک ریٹ، ایس ایل آر، سی آر آر، ریپوریٹ، ریورس ریپوریٹ، انفلیشن، اوپن مارکیٹ آپریشنز، جی ڈی پی یا بےروزگاری کی در وغیرہ سے متعلق میرے اندازے بھی۔ جو کام سرکار کی پوری ٹیم کیا کرتی، میں تنہا کیا کرتا تھا۔
"تم ملی تو تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !"
جب میں نے تمھارا گھونگھٹ اٹھایا تو ماں کے حسنِ انتخاب کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ میری راہوں میں ہر طرف پھول ہی پھول بکھرے تھے. تمھاری محبت میں سرشار دن و رات، ماہ و سال کیسے گزرے کچھ پتہ ہی نہیں چلا. 
” تم ملی تو تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !"
نرسنگ ہوم میں جب تم نے پہلی بار چمکتی نگاہوں سے مجھے دیکھا ۔۔۔۔۔ گلاب کی تازہ پتیوں جیسے تمھارے نرم و نازک ہونٹوں پر ایک سبک سی مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ ماں نے جب تمھارے نرم و نازک وجود کو اٹھا کر میری گود میں ڈالا یقین جانو میں بہت ڈر رہا تھا۔ لیکن پھر تو میں نہال ہو اٹھا تھا۔ چاروں طرف خوشیاں ہی خوشیاں، نور ہی نور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وقت پنکھ لگائے اڑتا رہا۔ تمھاری شادی دھوم دھام سے کروائی اور میں نانا بھی بنا. 
"تم ملی تو تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !"
مجھے کئی نیشنل اور انٹر نیشنل ایوارڈز حاصل ہو چکے تھے لیکن اربابِ اقتدار میرے افکار و نظریات سے مطمئن نہ تھے۔ مجھ پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ میں شہری نکسلی ( Urban Naxals ) پیدا کر رہا ہوں اور میرا وجود اس پونجی وادی سماج کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔
کئی سال بعد ضمانت پر لوٹ کر آیا ہوں اور ساتھ میں کورونا بھی لے آیا ہوں۔ یوں تو میں ساری زندگی سرمایہ دارانہ نظام، سیاسی، مذہبی اور فرقہ وارانہ جنون کے وائرس سے نبرد آزما رہا ہوں لیکن غالباً کورونا وائرس میرے دفاعی نظام پر بھاری پڑ رہا ہے. شاید یہی خالقِ حقیقی کی مرضی ہے. آخر نئی نسل کو بھی تو اسی دھرتی پر پھولنا پھلنا ہے۔ جب نئی کلیاں نکلتی ہیں تو پرانے پھولوں کو بکھرنا ہی پڑتا ہے. 
میں جانتا ہوں تم جا رہی ہو. ڈاکٹر بتا رہے تھے ساٹھ فیصد پھیپھڑے جواب دے چکے ہیں، آکسیجن سلنڈر جلد جلد خالی ہو رہے ہیں. ان کی فراہمی میرے افراد خاندان کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ ہے۔ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔۔ ضرور جاؤ لیکن میری ایک بات سنتی جاؤ۔ تمھیں وہ کچی سڑک یاد ہے نا؟ ارے وہی۔۔۔۔۔۔۔ جس پر بچے سائیکل کی پرانی ٹائر لیے تیزی سے دوڑا کرتے تھے اور وہ بچے بھی جو بیلچہ چھاپ دھاگے پر مانجھا چڑھایا کرتے تھے، پتنگ بازی ان کا شوق تھا. مانجھے والے دھاگے سے ان کی نرم و نازک انگلیاں جب زخمی ہو جایا کرتیں تو ان کی مائیں اپنے ہاتھوں سے انھیں کھانا کھلایا کرتی تھیں. ہاں ہاں۔۔۔۔۔۔ وہی لڑکے جو پتھر پر لٹو کی گونج تیز کیا کرتے تھے اور ریٹھا کے بیج پکّے فرش پر رگڑ کر اپنے ساتھیوں کی کلائیاں داغا کرتے تھے. کبھی آپس میں کشتیاں لڑا کرتے، کبھی ندی میں تیراکی کا مقابلہ ہوتا اور کبھی کچی سڑک پر کنچے کھیلتے نظر آیا کرتے تھے اور۔۔۔۔۔۔۔ اور جو امرود کی وائی ( Y ) شیپڈ ٹہنی کاٹ کر غلیل بنایا کرتے تھے اور۔۔۔۔۔ اور جو آندھی آتے ہی کپڑے سے بنے تھیلے لیے کیریاں چُننے آم کے باغ کی جانب دوڑ جایا کرتے تھے!۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔ ضرور جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب وہ بچے تمھیں وہاں نہیں ملیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمھیں۔۔۔۔۔۔ تمہیں تو موٹے، بد وضع اور سُست بچے ہی ملیں گے جو شام کے وقت کسی پارک کی آہنی بینچ پر ایک دوسرے سے لاتعلق، خاموش اور سر جھکائے بیٹھے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط ان کی انگلیاں حرکت میں ہوں گی اور وہ ایک ورچوئل ورلڈ میں کھوئے ہوں گے۔
***
احسان قاسمی کی گذشتہ نگارش: احسان قاسمی کے پانچ افسانچے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے