تفریح کی ایک دوپہر: تاثرات

تفریح کی ایک دوپہر: تاثرات

(خالد جاوید کے افسانے پر ایک مضمون)

ارم رحمٰن
لاہور، پاکستان

افسانے کا ایک منفرد اسلوب اختیار کرنا پھر اس انداز کو اوج کمال تک پہنچانا ایک ایسا وصف ہے جو ہر کسی کے قلم میں موجود نہیں.
خالد جاوید کاطرز تحریر اچھوتا ہی نہیں بلکہ اس کی پیروی اور نقل کرنا بھی کسی اور مصنف کے اختیار میں شاید ہی ہو.
نرالا تخیل رکھنے والا انوکھا ادیب، اپنی تحریرمیں ان کہے ان سنے استعارات اور اشارے پیش کرنا جنھیں پڑھ کر قاری کے شعور سے بڑھ کر لاشعور پر دستک ہو.
ایسی گدگدی اور ایسی ہلچل کہ اس کے سارے وجود میں تحریر کی تاثیر سرایت کر جائے. تحریر بھی ایسی متنجن کی مانند کہ کبھی عامیانہ پن جھلکے کبھی مضحکہ خیزی کا ادراک ہو، کبھی کراہت کی طغیانی، کبھی حیرتوں کی فراوانی محسوس ہو.
مصنف کی تحریر میں چٹپٹاہٹ بھی ہے اور نمکینی بھی، دل گداز جملے، میٹھے الفاظ اپنے اندر بارہ مصالحے سموئے ایک ایسا کٹھا مٹھا لذیذ پکوان پیش کیا گیا ہے جس کے پہلے سے لے کر آخری نوالے تک مختلف ذائقوں سے دہن کو آشنا کرنا مقصود ہو. پہلے تو قاری کے سامنے عنوان رکھ کر پڑھنے کی اشتہا بڑھانا پھر اسے مائل کرنا کہ اس افسانے کے دستر خوان سے اٹھنے سے پہلے ایک ایک سطر سے حظ اٹھائے. شکم سیری کے باوجود اس پکوان کے سحر میں گرفتار ہوکر قاری ہر لفظ خود میں انڈیلنے کے لے لیے درپے ہو.
"تفریح کی ایک دوپہر"
بالکل اسی طرح کے احساسات سے بھرپور دماغی صحت کے لیے پراثر تحریر ہے، جس کو آغاز سے انجام تک لے جانے میں صرف سانسیں ہی چل سکتی ہیں کیونکہ ان کے لیے سوچنا نہیں پڑتا، اس تحریر کو پڑھتے ہوئے کچھ اور سوچا جا بھی نہیں سکتا.
ساری حسیات کو محو کر دینے والی تحریر جو بدن کے علاوہ ہر حس کو متحرک کردے.
اس تحریر میں جملوں کی بنت قاری کو مکمل گرفت میں جکڑنے سے مالا مال واقعی ایک تفریح ہے جو کہیں بھی بیٹھے ہوئے ممکن ہے.
قاری کے چاروں اطراف عجیب و غریب ماحول پیدا کردینے والی فلمی تحریر جیسے سینما میں تھری ڈی فلم چل رہی ہو، ہولے ہولے دل کی دھڑکن تحریر کے بیان سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہونے لگتی ہے.
تحریر کی رفتار اس قدر تیزی سے آگے بڑھتی ہے جیسے سڑکوں پر مقررہ حد سے تجاوز کرتی تیز رفتار گاڑیاں ۔۔کہ ذرا سی توجہ بٹی اور اسکرین سے نظر ہٹی تو منظر ہی بدل جائے. ایک طلسمی تحریر کہ قاری اپنے دماغ پر زور ڈالے بھی تو کس بات پر، آگے بڑھے یا پچھلے حوالے یاد رکھے.
توجہ مرکوز رکھنی لازمی ہے وگرنہ بہت ممکن ہے کہ قاری بیچ بھنور میں غوطے کھانے لگے، ہر سطر ایک نئی داستان رقم کر رہی ہے. ایک پیراگراف دوسرے سے مختلف کہانی سناتا ہوا.
پہلے لفظ سے آخری لفظ کا تانا بانا قائم رکھنا پڑتا ہے،
جملوں کا تال میل درست رکھنا ضروری ہے. کیونکہ ریاضی کے کلیے اور قاعدے کی طرح اگلا قدم درست نہ ہو تو سوال غلط ہوجاتا ہے، صرف سوال کا جواب درست ہونا معنی نہیں رکھتا بلکہ ہر قدم سے اگلا قدم جواب کے قریب تر لاتا ہے. اس لیے جہاں قاری چوکا وہیں وہ بھول بھلیوں میں پھنس گیا.
اس تحریر کو پڑھ کر الجبرا کا لوگرتھم، جیومیٹری کے رداس و قطر اور زاویے سب ذہن میں دوڑنے لگتے ہیں. کیمسڑی کا فارمولا جس میں جب دو چیزیں مل جائیں تو مرکب بن جاتا ہے، بالکل اسی طرح اس تحریر میں تحیر اور تحریک ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک شاہکار افسانہ بنا ڈالتے ہیں. یہ تحریر فزکس کے کسی پریکٹیکل میں استعمال ہونے والے پرزم کی طرح محسوس ہوگی، جس میں سے پھوٹنے والی الفاظ کی قوس و قزح ایسے رنگ بکھیرے گی کہ زاویہ انعطاف اور زاویہ انحراف ماپنا مشکل ہو جائے گا.
دل چسپ اور خوش گوار کن تحریر تو پڑھنے کو مل جاتی ہے مگر خالد جاوید کا یہ افسانہ "تفریح کی ایک دوپہر" سارے حواس خمسہ کے برعکس چھٹی ساتویں حس ہونے کا متقاضی ہے.
ایک بھوت کا تصور شاید بھوت سے زیادہ بہتر طور پر بیان کرنے والے خالد جاوید جیسا انسان ہی ہو سکتا ہے. بھوت کے سانچے میں ڈھل کر سوچنا مشاہدہ نہیں بلکہ ایک مضبوط تخیل پرواز کاکمال ہے.
یہ طرز تحریر ذہن کے وہ دریچے وا کرتی ہے جس کا ایک قاری تو کیا عام مصنف بھی اعادہ نہیں کرسکتا.
بہ ظاہر اسے ایک "بھوت نامہ" کہیے لیکن درپردہ یہ ایسا فن پارہ ہے جس کو سمجھنا ایک عام قاری کی عقل سے ماورا ہے. یہ بھوت ایک تمثیلی اور تلمیحی استعارہ ہے.
افسانے کی فضا ایسی بنائی گئی ہے کہ پرت در پرت، تہہ در تہہ گھستے جائیں تو شاید ہر قاری کو اپنی سوچ کے مطابق جواب ملے گا. بھید بھرا ماحول اور کرداروں کی تشکیل اس تحریر کو معاصر افسانہ نگاروں سے منفرد بناتی ہے.
اس افسانے کا ہر جملہ اپنے معنی کے لحاظ سے بلکل مکمل پیغام دیتا محسوس ہوتا ہے. اس جملے کے پہلے اور آخری پیرے کو نا بھی پڑھا جائے تب بھی وہ کمال طریقے سے روح میں اتر جائے گا. جیسے مصنف کے دماغ میں جو بھوت کا مطلب ہے وہ قاری کو سمجھانے کے لیے، بھوت کی تعریف ملاحظہ ہو:
"بھوت دراصل وہ ذہن ہے جو دوران موت پاگل ہو گیا ہو، موت کی تکلیف تو ہر ذہن برداشت نہیں کرسکتے"
پھر ایک مقام پر وہ خود تحریر کو اس مقام پر لاکر قاری کے سامنے رکھتے ہیں جہاں قاری کے دل میں کھد بد ہو کہ منطقی شعور اور دماغ کا سنکی ہونے میں آخر کتنا فرق ہوتا ہے.
"سنک اور منطقی شعور میں بس بال برابر کا فرق ہوتا ہے مگر آپ کو یہ سمجھتے ہوئے زمانہ گزر گیا."
ایک ایسا جملہ جو جامعیت سے بھرپور ہے بھوت کے اسٹیٹس کو متعین کرنے کے لیے
"وہ خدا اور شیطان کی سرپرستی سے یکسر محروم ہے."
ایک جگہ تحریر کرتے ہیں:
"شیطان کی اخلاقیات بھوتوں کی اخلاقیات سے اعلیٰ ہے."
کہنے کو تو کوئی بھی افسانہ مذہبی تبلیغ کا داعی نہیں ہوتا اور کسی بھی مذہب کا پرچار نہیں کیا جاتا لیکن کچھ جملوں کی بنت ان میں عقیدے اور عقیدت کی جھلک پیش کردیتی ہیں.
"جب کوئی بھوت مار دیا جاتا ہے تو وہ بھٹکنا بند کرکے اپنے حافظے کے صدر دروازے پر تالا لگا کر دوبارہ ایک انسان بن جاتا ہے، جب وہ عزت کی موت مرتا ہے، اس کی تجہیز وتکفین مذہبی اصولوں کی بنیاد پر ہوتی ہے، وہ موت کی تکلیف سے پاگل نہیں ہوتا."
کچھ جملے مصنف کی تخلیقی صلاحیت اور زرخیز ذہن کا مظہر ہیں.
"کرسیاں جن کے گدوں میں سوراخ تھے۔۔۔۔۔ ان میں دبکے ہوئے کھٹمل خاموشی سے ہنس رہے تھے."
کچھ جگہوں پر منظر کشی اتنی لاجواب ہے کہ اس جملے کو جتنی بار بھی پڑھا جائے اس کا گہرا تاثر کم نہیں پڑتا، ایک ایک حرف دل میں اترتا چلا جاتا ہے، جیسے سب کچھ قاری اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور محسوس کر رہا ہے.
” اس کی کھانسی بہت دور تک میرے جوتوں کے تلے میں چپک کر ساتھ چلتی رہی، تب میں نے جوتوں کو کولتار کی جلتی ہوئی سڑک پر زور سے رگڑ دیا."
مصنف نے بڑے غیر مرئی طریقے سے کچھ ایسے نقشے کھینچے ہیں جن کی کاٹ کسی کا بھی دل چیر سکتی ہے.اس دکھ کو تیز دھار خنجر کی نوک کی طرح اپنی روح میں چبھتا محسوس کرا سکتی ہے،
تربیت یافتہ قاری کو سسکنے پر مجبور کرسکتی ہے.
” بازار ایک عجیب شے ہے، وہاں تفریح نہیں تفریح کا التباس ہے، وہ ان بے تکی فلموں سے زیادہ گھٹیا ہے، وہ سینما ہال کے گاڑھے اندھیرے سے زیادہ غیر انسانی ہے، اس گاڑھے اندھیرے میں تو سسکیاں ابھرتی تھیں، قہقہے گونجتے تھے، مگر بازار میں کسی دکان پر کوئی شخص رومال سے آنسو پونچھتا نظر نہیں آتا۔۔۔۔ یہ اصلی مصنوعی پن ہے اور ہڈیوں تک اتر جانے والی بے رحمی۔۔۔"
کیا بازار کے بارے میں یہ جملے اس بات کی غمازی نہیں کرتے کہ بازار ایک ظالم دنیا کا استعارہ ہے جب کہ فلم ایک من گھڑت اور دل کو دکھ سکھ کا احساس دلانے کا ذریعہ.
فلم بے شک دو تین گھنٹے انسان کو محو رکھتی ہے، فلم کو دیکھ کر ناظرین کے جذبات ابھرتے ہیں، ان جذبات سے مغلوب ہوکر وہ کبھی ہنستے ہیں اور کبھی دھاڑیں مار کر روتے ہیں.
سینما کے اندھیرے ہال کو اگر اس پہلو سے سمجھا جائے کہ سینما ہال کا اندھیرا ایک حاضر ناضر کو دوسرے لوگوں کے وجود سے بے خبر کرکے محض اس کی ذات کے دکھ سکھ یاد دلاتا ہے، ہنساتا اور رلاتا ہے. جب کہ بازار ایک روشن دن کی طرح سفاک ہے، جہاں انسان اپنے اندر کے احساسات سب کے سامنے لانے سے گریزاں ہوتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سفاک دنیا کبھی اس کے آنسو نہیں پونچھے گی بلکہ اس کے دکھ کا مذاق اڑائے گی، مدد کی بجائے سنگ دلی اور بے زاری کا مظاہرہ کرے گی،
تحریر میں ایک پیغام ایسا بھی ہے جس کو پڑھ کر موت کی توقیر کا احساس ہوتا ہے، لیکن یہ درپردہ خود کشی کرنے والوں کی المناک موت پر دکھ کا اظہار اور ان کی کم ہمتی پر ماتم ہے کہ ان کو دنیا کے مصائب والم سے تنگ آکر موت کو گلے لگا لینا زندگی کی توہین نہیں بلکہ موت کو بے توقیر کرنا ہے، یعنی اگر انسان پورے عزم اور تدبیر کو بروئے کار لاتے ہوئے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھرپور زندگی گزارے، ہر تکلیف اور پریشانی کا ہمت سے سامنا کرے تو موت بھی اس کا استقبال کھلے ہاتھوں کرتی ہے اور ایک اچھے مضبوط انسان کی موت اسے گلے لگاتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہے.
تفریح کی دوپہر کا آخری پیرا گراف اپنے اندر ایسی منطق بیان کرتا ہے جسے سمجھنے والا شاید کبھی اپنی موت کی خواہش کرنے کا کبھی نہ سوچے.
” اتناضرور سوچ کر دیکھیں کہ جو لوگ تنگ آکر موت کی دعا مانگتے ہیں یا موت کو جو عظیم اور ابدی چھٹکارا کہا گیا ہے یہ ایک غلط فہمی بھی ہوسکتی ہے.
ممکن ہے کہ اصل پریشانی مرنے کے بعد ہی شروع ہوتی ہو ۔"
خالد جاوید عدم ابلاغ کے طعنوں سے خوفزدہ نظر نہیں آتے بلکہ قطعیت اور واقعیت کو پس پشت ڈال کر الف لیلہ کی طرح ایک دل چسپ بیانیہ پیش کرتے ہیں، جس کی تہہ میں ادراک اور آگہی کے گوہر نایاب چھپے ہوتے ہیں.
اگر افسانہ نگار چاہے تو اپنے غیبی تصورات سے روشناس کروا دے، اگر چاہے تو اپنی تحریر سے متحیر کردے. اور ذہین قاری کو مسخر کرلے.
بہت سے قارئین اور مصنفین اعتراض بھی کرنے والے ملیں گے لیکن محدود اور انحطاط پسند ادیبوں سے ہٹ کر تخیل کی پرواز تخلیق کو جلا بخشتی ہے،
قلم کو مختلف زاویوں سے استعمال کرنا فنی نکھار اور اہل ادب کو چاہنے سمجھنے والوں کی سوچ کو بلاغت عطا کرتی ہے.
خالد جاوید کی تحریر میں رومانویت کی عدم موجودگی اور غیر مانوس کرداروں نے، جن کو بے نام رکھا گیا، اس تحریر کو اس چاشنی سے نوازا ہے جس کا اثر انسانی ذہن سے جلد زائل ہونے والا نہیں، کیونکہ تحریر بصارت والوں کی بجائے بصیرت والوں کے لیے لکھی گئی ہے.
***
ارم رحمٰن کی گذشتہ نگارش:حنوط

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے