اکھل راج اندوری کی شاعری

اکھل راج اندوری کی شاعری

ڈاکٹر احسان تابش

معروف شاعر اکھل راج اندوری صوبہ مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں پیدا ہوئے۔ اکھل راج اندوری نے انجینئرنگ کی پڑھائی کی مگر شاعری کو ترجیح دیا۔ نیا پن ان کی شاعری کی پہچان ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔
مدھیہ پردیش کا شہر اندور شعر و شاعری کا مرکز رہا ہے۔ آج بھی وہاں کے شعراے کرام شاعری کو پروان چڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم جیسے غیر معمولی مقبولیت والے شاعر کا تعلق بھی اسی شہر اندور سے تھا۔
نمائش اور ہنگامہ کے دور میں ممتاز شاعر اکھل راج اندوری عوام و خواص میں مقبول اور اردو زبان کی نزاکت سے مالا مال نظر آتے ہیں۔ شاعروں کی بھیڑ میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ اردو کا جادو جگانے والے معروف شاعر اکھل راج اندوری خوب داد و تحسین حاصل کرتے ہیں۔ دل میں اتر جانے والے اشعار لکھنے والے کا نام اکھل راج اندوری ہے۔
معروف شاعر اکھل راج اندوری بارہ سالوں سے رابطے میں ہیں۔ نظر سے دور مگر دل کے قریب ہیں۔ شعری شعور رکھنے والے شہر اندور کے اکھل راج اندوری ایک بے باک نڈر، نامور صحافی اور نیک دل انسان ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ” لاوا" منظر عام پر آچکا ہے۔ ادبی دنیا میں ان کے شعری مجموعہ کی بھرپور حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ شاعر و صحافی اکھل راج اندوری لفظوں کا تاج محل تعمیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے اشعار جب بھی پڑھتا ہوں نشہ بڑھتا جاتا ہے۔
اکھل راج اندوری کی غزل میں دانش مندی کے ساتھ تروتازگی اور فکر و ادراک کی گہرائی موجود ہے۔ اکھل راج اندوری سادہ اسلوب میں اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی شاعری ہم عصر شعراے کرام سے منفرد ہے۔ وہ طرز احساس کو برتنا خوب جانتے ہیں۔ میرے خیال میں اکھل راج اندوری ٹوٹا ہے مگر بکھرا نہیں ہے۔ ہمارے دل کا حصہ اور امید کی کرن ہیں اکھل راج اندوری۔ اکھل راج اندوری سے آمنا سامنا ابھی تک نہیں ہوا ہے۔
اکھل راج اندوری کی جوش بیانی بے مثال اور با کمال ہے۔ اکھل راج اندوری صبر کا دامن تھامے نا ہموار پگڈنڈی پر چلتا ہوا ایسا شاعر ہے جس کی مسکراہٹ کے پس پردہ صعوبتوں کی کہانیاں ہیں جو اسے سونے نہیں دیتیں۔ اس کے آس پاس تلخ تجربات کا انبار ہے۔ آزمائش سے بھرا لمحہ بس ان کے ساتھ ہے۔ سر زمین اندور کا یہ ادیب و شاعر جس طرح اردو اور ہندی ادب کی خدمت کر رہا ہے وہ قابل قدر ہے۔ ان کی غزلوں کے چند اشعار پیش خدمت ہیں، ملاحظہ کیجئے:
تو انتظام فقط کر مری ضمانت کا
ابھی غریبی کو میں قتل کر کے آتا ہوں
تب سے تو مجھ کو دیکھ کے جلنے لگی خوشی
جب سے میں خوش مزاج اُداسی کے ساتھ ہوں
وہ ہے بیمار، بات کم کرنا
میری تنہائی ہانپ جاتی ہے
عمر بھر چیتھڑے دیے تھے جسے
قبر تک لائے ہیں سجا کے اسے
تو احتیاط سے رہنا، یہ شہرِ جاناں ہے
بہت مذاق یہاں حادثات کرتے ہیں
میرے حجرے میں آ رہی تھی وہ
پاؤں رکھتے ہی جل گئی دنیا
وہ محبت ہے، ماں ہے یا ہے بیوی
میرے اندر جو عورت رو رہی ہے
اس بار انتظار کا قصہ تمام کر
آنکھ کی اب دوا نہیں تیزاب بھیج دے
حملے سے تو بچا لیا ہے تیری یاد کو
پر ہم اُسے بچانے میں بغداد ہو گئے
میں چاہتا ہوں ادب پر ہو گفتگو ان سے
مگر وہ باتیں گھریلو نکال لیتے ہیں
اکھل راج اندوری کی شاعری میں مزاح کا عنصر اور یادوں کی انگڑائی بھی ہے۔ ان کی غزل اپنی پوری خصوصیات سے لبریز نظر آتی ہے۔ ان کے جذبات و احساسات جھولتے ہوئے اور کہیں سر پٹختے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انسانیت کا درد رکھنے والے اور روحانیت کا درس دینے والے اکھل راج اندوری کی شاعری دھڑکنوں کی صدا ہے۔ روز مرہ زندگی کی تلخیوں کا مشاہدہ ہے۔
اکھل راج اندوری حالات کا پوسٹ مارٹم انوکھے انداز سے کرتے ہیں۔ فکری امتیازات ان کے اشعار میں موجود ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان کا یر اک شعر عوام و خواص کا حصہ ہے۔ ان کی شاعری شکستہ دل کی فریاد اور عشق و یقین کی خوشبو سے معطر ہے۔
روز آ آ کے تنگ کرتی ہیں
تیری یادوں پہ کیس کر دوں گا
ماما کے گھر پہ جانے کی ضد کر رہے ہیں وہ
آتا ہوں چاند پر ابھی بچوں کو چھوڑ کر
جو سازشوں کے ہیں سارے سراغ پڑھ لے گا
نظر ملائے گا تیرا دماغ پڑھ لے گا
اکھل راج اندوری کی صلاحیتوں کا ادراک ان کے اشعار کو پڑھ کر ہوتا ہے۔ اکھل راج اندوری مشاہدہ کو پیش کرنا خوب جانتے ہیں۔ ان کا ہر شعر زندگی کا آئینہ ہے اور اپنی جانب متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی شاعری پڑھ کر لوگ باگ محظوظ ہو رہے ہیں۔ بحر کی موجوں میں اضطراب کا ر نگ دیکھ رہے ہیں۔ اکھل راج اندوری نقطہ سے دائرہ بن چکے ہیں۔
اکھل راج اندوری جوش بیان کے دام میں الجھنے اور جذبات کی رو میں بہتے نظر نہیں آتے۔ ان کی غزلوں میں معنویت، گہرائی، سوچ کا عنصر اور وہ تمام اجزا موجود ہیں جو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
اکھل راج اندوری ادب میں اپنی جگہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا انداز فکر عروج پر ہے۔ ان کی سوچ کورے کاغذ کی طرح نہیں ہے۔ آخر میں سو بات کی ایک بات اور یہ بات سچ ہے کہ دلوں پر راج کرنے والے شاعر کا نام اکھل راج ہے۔ فن اور زندگی کے میدان میں ان کا سفر جاری ہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
***
ڈاکٹر احسان تابش کی گذشتہ نگارش:حضرت نازش سہسرامی: فن اور شخصیت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے