مستحسن عزم کی شاعری پر ایک نظر

مستحسن عزم کی شاعری پر ایک نظر

سلیم انصاری
جبل پور، مدھیہ پردیش، ہند

"ہموار نہیں کچھ بھی" مستحسن عزم کا دوسرا شعری مجموعہ ہے، جو مجھے بذریعہ ڈال موصول ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں کچھ کہتابیں ایسی ہوتی ہیں جو قاری سے اپنے آپ کو پڑھوانے کا مادہ رکھتی ہیں۔ میں مستحسن عزم کی زیر نظر شعری کاوش کو بھی ایک ایسی ہی کتاب پاتا ہوں جو نہ صرف قابل مطالعہ ہے بلکہ لائق اظہار رائے بھی ہے۔ ان کی شاعری سے گزرتے ہوئے مجھے کئی بار یہ خیال آیا کہ ان کے یہاں ایک طرح کی سنجیدگی اور سادگی ہے. غالباً اس لیے ندا فاضلی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راستہ نکالا ہے۔ 136 صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کلام میں تقریباً 39 صفحات شاعر کے تعارف اور مستحسن عزم کی تحریر وغیرہ پر صرف کیے گئے ہیں، جس کی میرے خیال میں کوئی ایسی ضرورت نہیں تھی کیونکہ شاعر ایوان ادب میں اپنی اچھی خاصی تخلیقی شناخت رکھتا ہے۔ ان کی شاعری سے گزرتے ہوئے مجھے ان کے یہاں فکری سطح پر ایک طرح کا تنوع محسوس ہوتا ہے. حالانکہ انداز بیان سادہ اور براہِ راست ہے۔ جس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مستحسن عزم نے اپنے شعری اظہار کے لیے جو زبان اور لہجہ اختیار کیا ہے وہ سلاست اور سلامت روی سے عبارت ہے۔
پروفیسر شہپر رسول نے مستحسن عزم کی شاعری پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ دنیا کو دنیا کی نظر سے نہیں بلکہ اپنے زاویہ نظر سے دیکھنے اور اپنے انداز میں زندگی کرنے کے قائل ہیں۔ جب کہ احسان قاسمی نے بیان کیا ہے کہ ان کے یہاں گہری اداسی کے ساتھ ہی ہمت اور حوصلے کی اڑان بھی ہے۔ ان حوالوں سے دیکھیں تو مستحسن عزم کی شاعری میں زندگی کے کئی شیڈس نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں جہاں ایک طرف انسانی زندگی کی سفاک اور کرب ناک سچائیوں کو شعری پیکر عطا کرنے کا حوصلہ ہے وہیں انسانی زندگی کے مثبت پہلوؤں کو بھی اپنی شاعری میں بیان کرنے کی ہنرمندی نظر آتی ہے۔ ان کا یہ شعر پڑھ کر میرے ذہن و دل پر ایک طرح کی خوشگواری کا احساس ہوا.
سورج کو کوسنے سے اندھیرا نہ جائے گا
جگنو ہو اپنے حصے کی تم روشنی کرو
در اصل ان کی شاعری کا سنجیدہ مطالعہ قاری پر یہ منکشف کرتا ہے کہ وہ فرد اور معاشرے کے درمیان ایک مظبوط رشتے کے قائل ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کی مثبت قدروں کے احترام کا جذبہ موجود ہے۔ جس کا ثبوت ان کے مندرجہ ذیل شعر میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ جسے ہموار نہیں کچھ بھی سے سرسری طور منتخب کیا گیا ہے۔
صبح گونجیں گی تلاوت کی صدائیں اس پر
اپنے آنگن میں کوئی پیڑ لگاؤ جاؤ
تم سمجھتے ہو زیاں جس کو وہی سود ہے عزم
کار ایثار میں نقصان کہاں ہوتا ہے
اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں مسائل و مصائب اور کرب کے ساتھ زندگی کے مختلف رنگ و آہنگ اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔ لہذا یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مستحسن عزم کی شاعری کا کینوس وسیع ہے، جس میں مختلف رنگوں سے تخلیقی پیکر مصور کیے گئے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں پروفیسر خالد مبشر کا ایک تفصیلی مضمون بھی شامل ہے جس میں انھوں نے مستحسن عزم کو آنگن کے کنویں اور چھپر کے پرندوں کا شاعر کہا ہے۔ مضمون کے اس عنوان سے ایک مطلب تو یہ نکالا جا سکتا ہے کہ شاعر کے یہاں آنگن کا کنواں اور پرندہ جیسے الفاظ کلیدی اور غالب استعارات کے طور پر استعمال ہوئے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ مطالعے کے دوران مجھے ایسے دو تین شعر سے زیادہ نہیں ملے جن میں مذکورہ استعارات کا استعمال کیا گیا ہو۔ پروفیسر خالد مبشر نے بھی اس حوالے سے زیادہ اشعار درج نہیں کیے ہیں۔ حالانکہ انھوں نے بڑی عمدہ بات یہ کہی ہے کہ مستحسن عزم زندگی کو محبوب اور محبوب کو زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ خیر مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ مستحسن عزم کنویں اور پرندے کے شاعر نہیں بلکہ ان کا تخلیقی وژن کئی جہتوں میں منعکس ہوتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ زیر نظر کتاب میں خواب، زندگی، سفر، زمین، سمندر، انا وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جو بار بار شاعر کے ذہن کے افق پر طلوع ہوتے ہیں اور ان کی تخلیقی سوچ کا وقار بڑھاتے ہیں۔ میں کچھ اشعار نقل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں جن میں ایک لفظ خواب بار بار استعمال ہوا ہے اور ہر بار شعر کے معنوی افق کو نئی دشا میں روشن کرتا ہے۔ ہموار نہیں کچھ بھی سے چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
وہ ایک خواب کہ جس نے مجھے قرار دیا
بھٹک رہا ہوں اسی کا طواف کرتے ہوئے
خواب تو خواب ہے تعبیر میں ہے گمراہی
جاگتی آنکھوں کو بھی خواب دکھاؤ جاؤ
دکھا کے خواب سراپا گلاب کر دے گا
کسے خبر تھی وہ خوابوں کو خواب کر دے گا
جس خواب نے نیندوں کو پریشان کیا تھا
اس خواب پر حیران ہے تعبیر ابھی تک
آنکھوں کے ایک خواب کو پانے کے واسطے
دکھ سے، مصیبتوں سے سزاؤں سے پیار تھا
ہر ایک خواب کا نیندوں سے رابطہ نکلا
جو نیند ٹوٹے تو تعبیر خواب مل جائے
اس کے علاوہ بھی بہت سارے اشعار بہ طور حوالہ پیش کیےے جاسکتے ہیں، جن سے مستحسن عزم کے شعری رویوں کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے، مگر مجھے یہ کہنا ہے کہ ہموار نہیں کچھ بھی کے مطالعے کے بعد کوئی بھی سنجیدہ قاری اس نتیجے پر بڑی آسانی سے پہنچ سکتا ہے کہ صاحب کتاب ایک فطری شاعر ہے اور وہ اپنے جذبات و احساسات نیز مشاہدات کو شعری زبان عطا کرنے پر قادر ہے۔ مستحسن عزم ایک ایسا شاعر ہے جس کے پاس ایک بے چین روح اور ایک مضطرب دل ہے، جو اسے اپنے ارد گرد کے ماحول کا مشاہدہ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور یہی نہیں اسے زندگی کے مسائل و مصائب سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بھی دیتے ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ وہ اپنی انا کو بروئے کار لاتے ہوئے خود شناسی کے عمل سے گزرتے ہیں اور اپنی خودی کو بچا کر رکھنے میں کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے ان کا یہ شعر اچھا لگتا ہے۔
انا کو اپنی کچلنا نہیں ہے عزم مجھے
جو دل پہ گرد ہے اس کو غبار کرنا ہے
مستحسن عزم کی شعری زبان عام طور پر صاف ستھری ہے اور ان کے فکری موضوعات کے اظہار پر قادر بھی۔ چند ایک الفاظ مثال کے طور پر ہاف، جھانسے وغیرہ غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہیں کیونکہ ان کی غزل کا لہجہ سادہ اور براہ راست ہے اور انھوں نے اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے کے لیے کسی بھی طرح کی علامتوں سے کام نہیں لیا ہے جو موجودہ عہد میں ایک اچھی بات ہے۔ میں ان کے مجموعہ کلام کی اشاعت پر انھیں مبارک باد دیتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ وہ اپنے شعری سفر میں آئندہ ہموار نہیں کچھ بھی سے آگے کا سفر کریں گے۔
***
سلیم انصاری کی گذشتہ نگارش:غضنفر کی شاعری سے ایک مکالمہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے