اشرف صبوحی کی خاکہ نگاری: ایک مختصر جائزہ

اشرف صبوحی کی خاکہ نگاری: ایک مختصر جائزہ

بدر الہدی
راجکیہ کرت پلس ٹو ہائی اسکول حیدر نگر، ضلع پلاموں، جھارکھنڈ، ہند

اردو خاکہ نگاری کی دنیا میں اشرف صبوحی کا مقام کسی بھی اہل علم سے مخفی نہیں۔ دہلی کی عوامی زبان پر انھیں قدرت حاصل ہے. وہ دہلی میں ہی پلے بڑھے ہیں، اسی لیے دہلی ان کے رگ رگ میں بسی ہوئی ہے۔ انھوں نے”دلی کی چند عجیب ہستیاں" کے نام سے 15 خاکوں کا مجموعہ پیش کیا جو لاجواب اور بے مثال ہے۔ اس مجموعے میں خواجہ انیس، میر باقر علی، مٹھو بھٹیارا، گھمی کبابی، ملن نائی، مرزا چپاتی، گنجے نہاری والے، پیر جی کوے، نیازی خانم اور پرنانی وغیرہ کے خاکے ہیں۔ مذکورہ شخصیتوں کو ہم دہلی کی پرانی یادگار کر سکتے ہیں۔
دہلی کے متعلق کئی لوگوں نے لکھا لیکن جو خصوصیت اشرف صبوحی کو حاصل ہے کسی اور کو نہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی اشرف صبوحی کے بارے میں رقم طراز ہیں:
"دلی کے بارے میں لکھنے والے ادیبوں کی کمی نہیں۔ناصر نذیر فراق، مرزا فرحت اللہ بیگ، خواجہ حسن نظامی، راشد الخیری، آغا حیدر حسن دہلوی، ملا واحدی، شاہد احمد دہلوی۔ مگر اشرف صبوحی کی انفرادیت اپنی جگہ۔ ان کی دلی کا مرکز لال قلعہ نہیں، شاہ جہاں آباد کے عوام ہیں۔ دیوانی عورتیں، پگلے آدمی، کبابی، بھٹیارے، رکاب دار، مفلوک الحال شہزادے، عمر رسیدہ پہلوان، بوڑھے تکیہ دار، رنگے پیر، ہنستے بستے عوام جو ایک مخصوص طرز زندگی، طرز احساس اور طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں." (دلی کی چند عجیب ہستیاں/مقدمہ)
آگے شاہد احمد دہلوی اشرف صبوحی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"دہلی کے بارے میں صبوحی صاحب سے بہتر لکھنے والا آج کوئی نہیں۔"(حوالہ مذکور)
اشرف صبوحی کی تحریروں کے مطالعہ سے ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ضرب الامثال، محاورہ اور روزمرہ کی بولیوں کا جا بجا استعمال کیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
"اجی وہ زمانے لد گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ آج کی کہو۔ جس کو دیکھو بے نوا کا سونٹا بنا پھرتا ہے۔ نہ بڑوں کا ادب نہ چھوٹوں کی لاج۔ وہی مثل ہو گئی کہ باولے گاؤں اونٹ آیا لوگوں نے جانا پرمیشور آئے." (دلی کی چند عجیب ہستیاں: 74)
اسی طرح ان کی تحریروں میں رانڈ کے سانڈ، آنکھ پھوٹی پیڑ گئی، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا، جیسا راجہ ویسی پر جا، رانی کو رانا کانی کو کانا، ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا، بوڑھی گھوڑی لال لگام اور ماں ٹینی باپ کلنگ بچے نکلے رنگ برنگ وغیرہ جیسے محاوروں اور ضرب المثال کی کثرت ہے۔
ان تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی کے عام لوگ جو نرے جاہل تھے وہ بھی ایسی زبان کا استعمال کرتے تھے کہ سننے والے دنگ رہ جاتے اور ان کی زبان دانی پر عش عش کر کے رہ جاتے اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے کہ اردو زبان دہلی والوں کی زبان ہے۔
اشرف صبوحی نے خاکوں کو لکھتے وقت ان گم نام شخصیتوں کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ پڑھ کر بے اختیار ہنسی آجاتی ہے اور پورا سراپا نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگتا ہے۔ مرزا چپاتی کا نقشہ انھوں نے یوں کھینچا ہے۔
"خدا بخشے مرزا چپاتی کو، نام لیتے ہی صورت آنکھوں کے سامنے آگئی۔ گورا رنگ، بڑی بڑی ابلی ہوئی آنکھیں، لمبا قد شانوں پر سے ذرا جھکا ہوا۔ چوڑا شفاف ماتھا، تیموری داڑھی، چنگیزی ناک ،مغلی ہاڑ." (دلی کی چند عجیب ہستیاں: 93)
اسی طرح انھوں نے گھمی کبابی کا تعارف ایسے نرالے انداز میں کرایا ہے کہ ان کی انفرادیت اور نثر نگاری کا لوہا ماننا پڑتا ہے. وہ گھمی کبابی کا تعارف اس انداز میں کراتے ہیں:
"گھمی کبابی کو کون نہیں جانتا۔ سارا شہر جانتا ہے۔ جب تک یہ زندہ رہا کبابوں کی دنیا میں اس سے زیادہ دل چسپ کوئی کبابی نہ تھا. جامع مسجد کی سیڑھیوں سے لے کر ادھر دلی دروازے تک اور ادھر حبش خاک کے پھاٹک تک اس کے کباب کے چٹخارے لے لے کر کھائے جاتے تھے۔ چھوٹے بڑے، امیر غریب سب ہی پر میاں گھمی کے کبابوں کا سکہ بٹھا رکھا تھا۔ دکان تو آج بھی ہے اور کباب ہی اس پر بکتے ہیں۔ لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی، نہ وہ گھمی کی سی مزیدار باتیں ہیں، نہ وہ گھمی کا سا کباب بیچنے کا ڈھنگ." (دلی کی چند عجیب ہستیاں: 73)
اگر دیکھا جائے تو اشرف صبوحی کے خاکوں میں اس عہد کی تہذیب و تمدن اور 1857ء سے پہلے کی خوش حال زندگی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کی تحریروں میں یہ بھی نظر آتاہے کہ ایک تہذیب دم توڑ رہی ہے تو دوسری تہذیب رفتہ رفتہ پنپ رہی ہے۔ لوگ ایک تہذیب کو بھولتے جا رہے ہیں اور دوسری تہذیب کو اپنا رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جو اپنی پرانی تہذیب کو چھوڑنا گوارا نہیں کرتے بلکہ اسی کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتے ہیں اور نئی تہذیب سے انھیں نفرت ہے۔
مختصر یہ کہ اشرف صبوحی کی خاکہ نگاری کا انداز نہایت ہی اچھوتا اور نرالا ہے اور انھوں نے جن جن گمنام شخصیتوں کا خاکہ لکھا ہے ان میں جان پیدا کر دی ہے۔کیونکہ وہ سادہ و سلیس اور عام فہم الفاظ کے ذریعے ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ پڑھنے والا ان کی تحریروں کا دیوانہ ہو جاتا ہے اور ان کی تحریروں کو پڑھ کر کہیں پہ ہنستا ہے تو کہیں پہ افسوس کرتا ہے اور کہیں پہ تھوڑی دیر کے لیے سوچنے لگتا ہے۔
***
بدرالہدی کی گذشتہ نگارش:رضا نقوی واہی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے