ابوذر عثمانی: اردو زبان و ادب کا معتبر استاد اور مجاہد

ابوذر عثمانی: اردو زبان و ادب کا معتبر استاد اور مجاہد

پروفیسر حسن رضا
چیر مین، اسلامی اکیڈمی، دہلی

پروفیسر ابوذرعثمانی (۲ جنوری ۱۹۳۷ء) کی شخصیت سب کے لیے بڑی مانوس اور سہل ہے. ان کا فیض خاص طور سے طلبہ کے لیے آب رواں کی طرح عام، صاف اور پاک ہے۔ ان میں فطری شرافت اور مروت کا جوہر بدرجہ اتم پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اور پرائے سب کے کام آتے رہے ہیں، ان کا غصہ بھی بے ضرر اور عارضی قسم کا ہوتا ہے. دنیا میں کون ہے؟ جس کی ذات میں اندھیرے اجالے نہیں ہوتے، عثمانی صاحب کے رویے میں بھی کبھی شاعرانہ ابہام اور تحت الشعور میں کبھی الجھاؤ کا گمان ہوتا ہے جس سے ان کی سادگی پر شک ہو جاتا ہے لیکن قریب ہونے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت بہت زیادہ تہ دار نہیں ہے، ہاں کبھی کبھی حد سے بڑھا ہوا احتیاط اور شک ان کے یہاں پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات وہ معاملہ کرنے میں تذبذب اور تردد کے شکار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً آپ کوئی تحریر دستخط کے لیے ان کے پاس لے جائیں، وہ اس پر دستخط کرنے سے قبل بار بار پڑھیں گے۔ عجب نہیں کہ وہ کہہ دیں اس کو میرے پاس چھوڑ دیجیے کل لے جائیے گا۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ کل ایک ہفتہ کے بعد آئے لیکن جب تحریر واپس ملے گی تو مضمون اور اسلوب دونوں اعتبار سے مزید جامع اور مکمل ہو جائے گی۔ جس سے آپ کو تاخیر کا گلہ جاتا رہے گا لیکن اس کے بعد بھی دستخط کے لیے آپ کو دو بارہ حاضر ہونا ہوگا۔ وہ آپ کو پوری قوت اور اخلاص سے یقین دلائیں
گے تا کہ آپ مایوس نہ ہوں۔
کتنے لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ یونی ورسٹی کے معاملات، مسائل میں ٹیکنیکل مشورہ اور انگریزی میں ڈرافٹ تیار کرانے کے لیے ان کے پاس آتے رہے۔ رانچی میں ایم۔ اے۔ اردو کے طلبہ و بیشتر اساتذہ کی انگریزی عام طور سے کمزور رہتی ہے، اگر کوئی اپنے اندر انگریزی لکھنے کی اچھی استعداد پیدا کر لیتا ہے تو لوگ اس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ عثمانی صاحب نے اردو اور فارسی میں ایم۔ اے۔ کیا اور اسی کے ساتھ اپنی ذاتی محنت و لگن سے انگریزی زبان و ادب میں بھی بہت اچھی استعداد پیدا کر لی، چناں چہ رانچی کے بہت سارے اساتذہ اس سلسلے میں ان سے فائدہ اٹھاتے رہے اور وہ بھی بڑی خوش دلی سے سب کے کام آتے رہے بلکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی قضیہ میں دونوں فریق نے انھی سے تحریر تیار کرائی اور عثمانی صاحب نے بھی بڑی امانت داری کے ساتھ دونوں فریق کا کام کیا. یہ معمولی بات نہیں ہے، وہ تاخیر کر سکتے ہیں ، ٹال مٹول سے بھی کام لیتے ہیں لیکن انکار نہیں کر سکتے۔ دوست و دشمن اور صحیح و غلط دونوں کے کام آتے رہے ہیں، یہ ان کا پیشہ نہیں وظیفہ رہا ہے. ایسے ہی موقعے پر ان کی شخصیت میں دھوپ چھاؤں کی متضاد کیفیت کا عکس بھی نمایاں ہو جاتا ہے، جس سے ان کے ارضی اور ملکوتی دونوں صفات جھلک جاتے ہیں۔ ابوذر عثمانی صاحب صرف پیشہ ور استاذ نہیں ان کی مصروفیات متنوع رہیں۔ انھوں نے ۱٩٦۳ء میں رانچی کالج میں بہ حیثیت عارضی لکچرر کے جوائن کیا پھر جب رانچی یونی ورسٹی نے اردو زبان و ادب پوسٹ گریجویٹ شعبے کا آغاز کیا تو وہ اس سے وابستہ ہو گئے، تقریبا ١٨ برسوں تک وہ رانچی یونی ورسٹی میں اردو کے ہر نظریے اور ہر مشرب و مسلک کے طلبہ وطالبات کے لیے معتبر مرجع بنے رہے۔ اس کے بعد ۱۹۹۵ء میں جب ونوبا بھاوے یونی ورسٹی نے اردو زبان و ادب میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم شروع کی تو وہاں صدر شعبہ کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کیں اور وہیں سے ۱۹۹۷ء میں سبک دوش ہوئے۔ انھوں نے اپنی زندگی ڈرائنگ روم، کالج، یونی ورسٹی آفس اور ملازمت میں پرموشن کی دوڑ بھاگ تک محدود نہیں رکھی۔ کئی محاذ پر بیک وقت کام کیا. ملکی ایشوز و ملی مسائل، علمی و ادبی سرگرمیاں، سیمینار و سمپوزیم کی تنظیمی تگ و دو، ریلیف ورک، خدمت خلق کے عام کام اور سماجی ذمہ داریاں۔ شعبہ کے معاملات اور یونی ورسٹی کے انتخابات سب میں ان کی بھر پور دل چسپیاں رہیں اور ان میں موقع محل کے اعتبار سے فعال شرکت کی اور نفع و نقصان میں حصہ داری بھی لی۔ ایام جوانی میں وہ ان میدانوں میں متحرک اور فعال رہے، اس کبر سنی میں بھی ان کے اندر ان کاموں کے لیے ایک حوصلہ اور ولولہ پایا جاتا ہے۔ رانچی کے اکثر ملی، اجتماعی، علمی و ثقافتی تقریبات میں ان کو اپنے وقت پر شریک ہوتے دیکھا۔ وقت کے معاملہ میں ان کا رویہ منفرد تھا، کوئی فنکشن نو بجے سے ہو لیکن وہ اپنے وقت سے یعنی ساڑھے نو بجے تشریف لاتے تھے، ان کے احباب ساتھی اور عزیزان سب ان کی اس ادائے خاص سے واقف تھے۔ اس لیے اس پر کسی کو گلہ نہیں ہوتا تھا، تاخیر ہوئی تو کچھ باعث تاخیر بھی ہے. اس پر وہ پوری وفاداری بشرط استواری کے شرکت بھی مریضانہ اور نیم دلا نہ نہیں ہوتی کہ وہ آئے بھی چلے بھی گئے اور ختم فسانہ ہو گیا بلکہ وہ عام بزم میں بھی اپنی گرمی گفتار، برمحل اشعار اور قہقہوں کی گونج سے گلزار رکھتے ہیں۔ عثمانی صاحب کسی کام کو لے کر ادھورا چھوڑنے والے نہیں ہیں، خصوصاً اگر اس میں قلم و کاغذ کا بنیادی رول ہو۔ ایسے مسائل اور تنازع میں ان کے اندر ایک نئی توانائی آجاتی ہے۔ وہ ایسے مسئلوں کا آخری دم تک تعاقب کرتے ہیں اور ہر منزل میں یہ مصرع پڑھ کر تازہ دم ہوتے ہیں کہ اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے کامیابی ہو یا نا کا می ایسے موقعوں پر وہ تحریروں کا انبار لگا دیتے ہیں۔ ہر شخص ان کو دیکھ کر کہے گا کہ عثمانی صاحب بعد مرنے کہ تیرے گھر سے یہ سامان نکلے، بعض لوگ اپنی شخصیت کی تعمیر میں نک سک سے درست منظم اور متوازن نظر آتے ہیں بلکہ ذاتی مفاد اور اخلاص، بے نفسی اور خود غرضی میں بھی توازن رکھتے ہیں، ایسے لوگ سج دھج اور دنیاوی سلیقے سے رو کر اپنے اندر ایک مصنوعی چمنستانی حسن پیدا کر لیتے ہیں، لیکن عثمانی صاحب اس معاملے میں بڑے عدم توازن کے شکار بلکہ انتشار سے قریب رہے، جیسے قیمتی لکڑیوں کا خورد و جنگل ہو۔ ان کی شخصیت میں مصنوعی چمنستانی حسن کے بجائے بیابانی حسن پایا جاتا ہے۔ رہنے سہنے اور پہننے اوڑھنے میں بھی بے تکلف رہے، ان کو میں نے زیادہ تر شرٹ اور فل پینٹ میں دیکھا ہے۔ ٹائی سوٹ بھی استعمال کرتے، شیروانی ٹوپی میں بھی دیکھا ہے، اب تو کرتا پاجامہ ہی زیادہ استعمال کرتے ہیں، لیکن کوئی مصنوعی سج دھج نہیں، اپنے آپ سے بے اعتنائی اور لا پرواہی ان کی سب اداوں سے ٹپکتی رہتی۔ وہ ایک صابر و شاکر سدا بہار آدمی ہیں، ہر طرح کی آزمائشوں کو بڑے صبر سے جھیلا۔ جواں سال بچی کے گزرنے کا غم ہو، چھوٹے بچے کی دماغی علالت یا کو لہے کی ہڈی کا فریکچر کسی حال میں پکھلتے ہوئے نہیں دیکھا، کنبہ پروری اور چھوٹے بھائی کے مسائل کو اپنے مسئلے کی طرح حل کیا، واقعی اب ایسے پرا گندہ طبع لوگ کہاں ملتے ہیں۔ اوڑھی ہوئی مصروفیت اور مصنوعی پن ان میں کبھی نہیں دیکھا۔ مکر شاعرانہ سے وہ کام لے سکتے ہیں لیکن ریا کاری نہیں کر سکتے ہیں۔
ابوذر عثمانی پیدل خوب چلتے ہیں لیکن ان کا انداز اس میں بھی مختلف ہے، گفتار کی طرح ان کی ایک خاص رفتار ہے، جس میں خود کلامی اور باڈی لنگویج دونوں کا عمل جاری رہتا ہے، اگر وہ شاعری کرتے تو ان کی بیشتر خوب صورت نظمیں پیدل چلتے ہوئے تخلیق ہوتیں۔ ابو ذر عثمانی صاحب شاعر کی بہت ساری داخلی خصوصیات رکھنے کے باوجود شاعری نہیں کر سکے۔ ادب میں ان کا اصل میدان تنقید ہے۔ طلبہ میں تنقید کے استاد ہی کی حیثیت سے وہ معروف تھے۔ لسانیات میں بھی ان کی کلاس معلومات افزا ہوتی تھیں۔ وہ خود بھی تنقید اور لسانیات کے کلاس خاص دل چسپی سے لیتے تھے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک نادر المیہ ہے کہ وہ اپنا تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی یونی ورسٹی میں داخل نہ کر سکے. کاش جو کچھ اس موضوع پر انھوں نے اب تک لکھا ہے، اس کو منظر عام پر لے آئیں تو ادب کے طالب علموں کے لیے بڑے کام کی چیز ہو جائے گی. ڈیڑھ درجن ری سرچ اسکالر کو اپنی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دلائی، جو ان کا خصوصی کارنامہ کہا جا سکتا ہے اور کسی ریسرچر کے لیے پی ایچ ڈی کے لیے تحقیق کا موضوع بن سکتا ہے۔ سپر وائزر کی حیثیت سے بھی ان کا معاملہ عام اساتذہ سے مختلف رہا۔ وہ یہ کام بڑی محنت سے مقدس فریضہ کی طور پر انجام دیتے۔ اس وقت دانش گاہوں میں تحقیق کا جو معیار ہے اور بعض استاد کے لیے منافع کا سودہ بھی، اس کو وہ ایک خاص معیار پر رکھتے ہوئے خسارے کے ساتھ چلاتے رہے۔ وہ ریسرچ اسکالر کی مخلصانہ مدد اس طرح انجام دیتے رہے کہ روایتی اور جمالیاتی فاصلہ بھی ختم ہو جاتا، جو نگراں اور مقالہ نگار میں قائم رہنا چائیے۔ انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں، مثلا فن کار سے فن تک منتخب مضامین، ادبی و تنقیدی نظریات اور اسالیب نثر وغیرہ۔ یہ کتابیں نصابی ضرورتوں کی تکمیل کرتی ہیں اور جن سے ہم جیسے لوگوں نے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس حیثیت سے ان کی کتابیں بہت مقبول ہوئیں اور ان کے کئی ایڈیشن شائع ہوتے رہے۔ ادب کا کون سنجیدہ طالب علم ہے جس نے ان کی کتاب سے عملی تنقید، جدید تنقید، نئی تنقید، کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری اور انشائیے کی شناخت جیسے موضوعات سے استفادہ نہیں کیا ہوگا۔
ان کتابوں میں جو تنقیدی مضامین ہیں ان کے مطالعے سے ان کے تنقیدی نقطہ نظر کی وضاحت ہوتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ نہ وہ مارکسی تنقید کے قائل ہیں اور نہ جدیدیت کے، ان کا نقطۂ نظر ادب میں حالی شبلی اور اقبال سے ہم آہنگ ہے۔ اکبرالہ آبادی بھی ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ وہ اکثر محفلوں میں اکبرالہ آبادی کے اشعار سے بزم کو تازہ دم کرتے رہتے ہیں۔ ابوذر عثمانی مغربی ناقدین میں آرنلڈ کی طرح ادب کو تنقید حیات سمجھتے ہیں.اُنھوں نے آئی اے کی ریچرڈ کی کتاب ‏practical principle of literary criticism سے بھی استفادہ کیا ہے لیکن ریچرڈ کے برخلاف دوفن کے تجزیاتی عمل میں مصنف اور اس کے سوانحی حوالوں کو معاون سمجھتے ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ کے تنقیدی نظریے کی ستائش کرتے ہیں۔ کلیم الدین احمد سے متاثر ہونے کے باوجود وہ ان کے طرف دار نہیں ہیں، خصوصاً اقبال پر حکیم الدین احمد کی تنقید کو انھوں نے بھی پسند نہیں کیا البتہ آل احمد سرور ان کے پسندیدہ ناقد ہیں۔ ان کی تخلیقی نثر اور شگفتہ اسلوب کے ساتھ ان کے نقطہ نظر میں جو توازن ہے اس کے وہ قائل رہے. ہم عصروں میں ڈاکٹر عبد المغنی (مرحوم) کے تصور تعمیری ادب سے ان کا پورا اتفاق رہا۔ ان کی تنقیدی بصیرت کے وہ مداح ہیں، تحریک ادب اسلامی سے فکری طور پر وابستہ رہے، ڈاکٹر عبدالوہاب اشرفی مرحوم کی تنقیدی بصیرت کے وہ زیادہ قائل نہیں ہیں۔ رانچی میں انھوں نے تعلیمی بیداری اور تعلیمی ترقی کے لیے ملت اکیڈمی مشن کے ساتھ بہت وقت دیا۔ اس کے چیئرمین کی حیثیت سے جو کچھ انھوں نے کیا وہ نا قابل فراموش ہے۔ اس دوران ان کے اندر جیسے سرسید کی روح حلول کر گئی تھی۔ رانچی میں ملت اکیڈمی کے قیام کے سلسلے میں تعلیمی ملی مشن کی ابتدا کرنے کا سہرا اصلا ڈاکٹر احمد سجاد صاحب اور سید بخش حسین صاحب مرحوم کو جاتا ہے جو افراد ڈاکٹر غفران صاحب مرحوم پرنسپل رانچی پالی ٹیکنیک کے کوارٹر پر اس کی پہلی نشست میں شریک تھے، انھیں یاد ہوگا کہ اس موقع پر انھی دو شخصیات نے اپنا مقالہ کنسپٹ (concept paper) کے طور پر پڑھا تھا۔ جس کے نتیجہ میں ملت اکیڈمی کا قیام ہوا، میں خود اس مجلس میں حاضر تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر احمد سجاد صاحب اس کی ابتدا اور ابوذر عثمانی صاحب اس کی انتہا ہیں، پھر اس کے بعد اندھیرا ہے۔
عثمانی صاحب کا دوسرا بڑا کار نامہ انجمن ترقی اردو کے تحت اردو زبان کی ترویج و اشاعت اور اس کے لیے سرکاری سطح پر اس کے حقوق کی قانونی لڑائی ہے۔ جھارکھنڈ کی تشکیل کے بعد ایک کام انھوں نے بڑی ہمت و جرات سے کیا، یعنی نوزائید ریاست میں سرکار سے اردو کے حقوق کی جنگ۔ دوسرا کام یعنی انجمن ترقی اردو کے پلیٹ فارم سے اردو آبادی کو منظم اور جمہوری انداز سے متحرک رکھنا، یہ نہ ہو سکا۔ ان کی حیثیت اس وقت بابائے اردو جھارکھنڈ کی ہے لیکن ان سے یہ شکایت اردو آبادی کو رہے گی کیوں کہ جمہوریت میں نئی نسل کو اردو کی ترقی اور حقوق کی لڑائی کو
مستقبل میں جاری رکھنے کے لیے جمہوری پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ ہم جیسے لوگ تو یہی چاہتے ہیں کہ اللہ جھارکھنڈ میں عثمانی صاحب کا سایہ تادیر قائم رکھے اور ان کو ایک مضبوط پلیٹ فارم بھی قائم کرنے کی توفیق دے۔
ابوذرعثمانی صاحب اس وقت بہار جھارکھنڈ میں اردو کے ایک معتبر استاد، شریف النفس انسان اور جھارکھنڈ میں انجمن ترقی اردو کے سپی سالار کی حیثیت سے تمام حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ میں نے خود بھی گزشتہ پینتالیس برسوں کے نرم گرم حالات میں ان کو دور اور قریب سے دیکھا، ان سے قربت و رفاقت بڑھتی ہی چلی گئی، کبھی کمی یا آپسی رنجش نہیں ہوئی۔ اسلامی تہذیبی روایت کی پابندی اور مروت پسندی ان کا شعار رہا۔ انھوں نے مہ رخوں کے لیے کبھی مصوری نہیں سیکھی ہاں ایک حسرت ان کے یہاں ہے اور تلافی مافات کی سبیل کی تلاش بھی لیکن کبھی ان کو ہنگامہ بے خودی کے عالم میں نہیں دیکھا، یہ ضبط نفس بڑی بات ہے۔ اس بے چہرگی اور بازاری پن کے دور میں بالخصوص یونی ورسٹی کی ملازمت، اردو تحریک، رانچی کی سماجی بناوٹ اور ملک و ملت سے پیوستہ رہ کر اپنے دامن کی حفاظت کر لینا بڑا کام ہے، یہ وہی کر سکتا ہے جس کی سرشت میں فطری معصومیت اور تربیت میں کسی نظر کی کرامت ہو۔ ابوذر عثمانی صاحب کو خوش قسمتی سے دونوں چیزیں حاصل ہوئیں۔ ان کے والد ایک عالم باعمل تھے، ان کی تربیت کی کرامت بھی شامل حال ہے۔ ان دنوں وہ اپنے والد مرحوم کی تحریریں مرتب کر رہے ہیں، خدا کرے یہ کام وہ پایۂ تکمیل تک پہونچا دیں۔ یہ کام بھی ان کی شرافت اور سعادت مندی کی علامت ہے، ورنہ اہل قلم اور پروفیسر حضرات تو سیاسی لیڈران اور گورنر صاحبان اور کرسی نشیں شخصیات پر قلم کو رسوا کر کے ترقی کے امکانات تلاش کرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اپنے بڑوں کی قدرشناسی سے جو نسل خالی ہو جاتی ہے افلاس اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ رانچی میں اب مشکل سے دو چار ہی بے غرض اہل علم و با عمل لوگ رو گئے ہیں۔ ان کی زندگیاں ملت کا اجتماعی سرمایہ ہیں وہ اگر محفوظ ہو جائیں تو جھار کھنڈ میں ملت کی ثروت مندی کا سامان ہوگا۔ ناز آفرین مبارک باد کی مستحق ہیں کہ انھوں نے ملت کے سرمایہ میں سے ایک کی زندگی کو محفوظ کرنے کا ایک اچھا بہانہ تلاش کیا ہے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :ایسے تھے ہمارے حق صاحب!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے