میر و غضنفر کے عشقیہ کردار

میر و غضنفر کے عشقیہ کردار

(مثنوی شعلہ عشق اور کرب جاں کے حوالے سے)

طیب فرقانی

غضنفر نے مثنوی کرب جاں اس وقت لکھی جب مثنوی کا فن دم توڑ چکا تھا. اور ایسا معلوم پڑتا تھا کہ صنف قصیدہ کی طرح صنف مثنوی بھی گئے دنوں کی بات ہوئی. لیکن جب غضنفر کی مثنوی 2016 میں شایع ہوکر منظر عام پر آئی تو لکھنے والوں نے یہ لکھا:
"انتظار حسین نے کبھی لکھا تھا اور درست لکھا تھا: آج گم شدہ لہجوں اور عاق کیے ہوئے اسالیب بیان کو نئی صورت حال سے مربوط کر کے استعمال کرنے اور نئے رشتے میں پرونے کے معنی یہ ہیں کہ احساس کے کھوئے ہوئے سانچوں، ذات کے گم شدہ حصوں کو دریافت کیا جارہا ہے اور انھیں حاضر میں سمویا جارہا ہے۔
غضنفر نے ایک طرف مثنوی کے فارم کو نئی زندگی دی ہے تو دوسری طرف قدیم لفظیات، قدیم لسانی خوشوں Linguistic Clusters اور قدیم طرز ادائیگی کو ممنوعه قرار دینے سے گریز کیا ہے۔ اس لیے کہیں صرف شاعری ہے جس کی اپنی لطافت ہے اور کہیں صرف حقیقت بیانی ہے جس کی اپنی تلخی اور کڑواہٹ ہے۔ "مدعا کرب جاں، بیان کرنے کا" عنوان کے تحت قدرت کلامی کا مظاہرہ بھی ہے جس میں قدیم اسلوب کو نیا تخلیقی آب و رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے. "(1)
(1 پروفیسر عتیق اللہ، ص: 135)
"غضنفر کی مثنوی کا فکری کینوس نسبتاً بہت بڑا ہے اور انھوں نے اردو مثنوی کی کلاسیکی روایت کے تقریباً تمام عناصر کو اپنے ذہن میں رکھا ہے. " (2)
(2پروفیسر شمیم حنفی، ص: 129)
"…. یہ کہنا مناسب نہ ہوگا کہ قصہ گوئی اور اس کے طرز طولانی کا نہ تو اب موقع رہا اور نہ اس کی کوئی توجیہہ ہی ممکن ہے، ایسے میں اگر کوئی تخلیق سامنے آ جائے جو ایک قدیم صنف سخن میں اور ایک قدیم پیرایۂ اظہار میں جدید تجربات کو اپنا موضوع بنائے تو جی یہ چاہتا ہے کہ یہ قصہ سنیں اور دیکھیں کہ کیا اس صنف سخن میں آج بھی ہمارے تجربات کا اظہار ممکن ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے جو کرب جاں کے حوالے سے قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائے گا۔… کرب جاں نے روایت کا پاس رکھا۔" (3)
(3پروفیسر انیس الرحمن، ص: 138)
مذکورہ بالا تینوں بیانات میں ایک بیان مشترک ہے کہ غضنفر نے اپنی مثنوی میں، مثنوی کی کلاسیکی روایت کو برتتے ہوئے ہی اسے جدید فکر سے آہنگ کیا. جب کہ عتیق اللہ کے بیان میں یہ اضافہ بھی ہے کہ مثنوی کرب جاں میں لطافت اور کڑواہٹ دونوں موجود ہیں. میں نے ان بیانات کو عارف حسن خان کے درج ذیل بیان کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے:
"…. غضنفر کے اسلوب کی بعض نمایاں خصوصیات کی طرف اشارہ کرنے سے پہلے اس مثنوی کی ایک اور خوبی کی طرف اشارہ کرنا شاید بے محل نہ ہوگا، جس کی طرف بار بار ذہن جاتا ہے۔ مثنوی کا موضوع اگر چہ ہماری قوم اور معاشرے کے وہ حالات و مسائل ہیں، جو شاعر کے لیے باعث کربِ جاں ہیں، لیکن انھوں نے صرف اس کرب کے بیان پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ آپسی میل محبت کے ذریعہ اس کے تدارک کا نسخہ بھی بیان کر دیا ہے۔ اس حصے میں محبت کے تعلق سے غضنفر نے جو اشعار کہے ہیں، انھیں پڑھتے ہوئے میر کی مثنوی شعلہ عشق کے یہ ابتدائی اشعار ذہن میں کوند جاتے ہیں."
اس کے بعد عارف حسن خان نے مثنوی شعلہ عشق سے چند اشعار نقل کیے ہیں. ہم یہاں مکمل اشعار پیش کریں گے اور غضنفر کی مثنوی کرب جاں کے اس حصے کا جایزہ بھی لیں گے جہاں محبت والے اشعار پیش ہوئے ہیں.
عارف حسن خان مزید لکھتے ہیں :
غضنفر نے ” مناجات باری تعالی" میں اپنی مثنوی کی کامیابی کے لیے جو دعا کی ہے اس میں اگرچہ اردو کے بعض اہم مثنوی نگاروں (مثلا نشاطی، مقیمی، میر حسن اور نسیم وغیرہ) کا ذکر کرتے ہوئے میر کا نام نہیں لیا ہے، لیکن ایسا نہیں کہ میر ان کے ذہن میں نہ ہوں۔ چناں چہ "آغاز کرب جاں کے قصے کا" کے تحت جہاں وہ اپنی مثنوی کی انفرادیت کو واضح کرتے ہوئے اسے اردو کی بیش تر مثنویوں سے کسی نہ کسی انداز میں مختلف قرار دیتے ہیں، وہاں ایک شعر یہ بھی لکھتے ہیں:
نہیں گلشن عشق مہکا ہوا
نہیں شعلہ عشق دہکا ہوا
یعنی اپنی مثنوی کی تخلیق کے دوران ان کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں میر کی یہ مثنویاں موجود تھیں تبھی تو اُن کے قلم سے اس قسم کے اشعار نکلے:
(یہاں انھوں نے غضنفر کی مثنوی سے وہ اشعار نقل کیے جو ہماری گفتگو کا موضوع اور جن کی تفصیل ذیل میں آرہی ہے. آگے وہ لکھتے ہیں.)
"دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان اشعار میں سے بیشتر اشعار کے دونوں مصرعوں کا آغاز بھی میر اور غضنفر دونوں کے یہاں لفظ محبت ہی سے ہوا ہے۔ دونوں شاعروں کے یہاں یہ یکسانیت محض اتفاق بھی ہو سکتی ہے لیکن یہ غضنفر کے اسلوب کی ایک اہم خصوصیت ہی ہے کہ وہ اپنے اشعار کے دونوں مصرعے ایک ہی لفظ سے شروع کرتے ہیں۔ میر نے بھی اکثر ایسا کیا ہے۔"
اس پورے بیان میں "دونوں شاعروں کے یہاں یہ یکسانیت محض اتفاق بھی ہوسکتی ہے" توجہ کا مرکز ہے. کیوں کہ یہ محض اتفاق ہی ہے کہ میر اور غضنفر دونوں کے یہاں محبت والے اشعار یکساں دکھتے تو ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ یکساں ہیں نہیں. اور یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ غضنفر نے میر کی مثنوی اپنے پیش نظر نہیں رکھی. انھوں نے مجھے بتایا کہ میر کی مثنوی انھوں نے "کرب جاں" کی تخلیق سے قبل نہیں دیکھی، حتی کہ آج تک نہیں دیکھی.
عارف حسن خان کو یکسانیت دو وجہوں سے معلوم ہوئی. ایک تو وہ مذکورہ شعر جس میں میر کی مثنوی کا ذکر ہے اور دوسرے لفظ "محبت" جس سے دونوں کے اشعار کا آغاز ہوتا ہے. ذیل میں ہم ان پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے اور دونوں مثنوی کے متعلقہ اشعار کا تجزیہ بھی کریں گے.
دوسرے یہ کہ عارف حسن خاں یہ بھی کہتے ہیں : "لیکن یہ غضنفر کے اسلوب کی ایک اہم خصوصیت ہی ہے کہ وہ اپنے اشعار کے دونوں مصرعے ایک ہی لفظ سے شروع کرتے ہیں."
یہ غضنفر کی ہی خصوصیت ہے، میر کے یہاں ایسا صرف چند اشعار میں ہوا ہے جب کہ غضنفر کے یہاں اس کی بڑی تعداد ہے. حتی کہ غضنفر کی اس خصوصیت کا اظہار ان کی دوسری مثنویوں میں بھی ہوا ہے مثلا مثنوی حرز جاں کے یہ اشعار دیکھیے ؂
نہیں چاہتا جو کسی کا زیاں
نہیں چاہتا کوئی سنگِ گراں
نہیں چاہتا تیر، تیغ و سناں
نہیں چاہتا شور، آہ و فغاں
نہیں چاہتا ذہن دل میں دھواں
نہیں چاہتا کوئی آتش فشاں
نہیں چاہتا ہے گھٹن ہو کہیں
نہیں چاہتا ہے چبھن ہو کہیں
نہیں چاہتا ہے جلے کوئی آنکھ
نہیں چاہتا ہے ملے کوئی آنکھ
اسی طرح مثنوی قمر نامہ کے یہ اشعار بھی ملاحظہ کیجیے ؂
وہی کیڑا جو من میں درد بوتا ہے
وہی جو اشک سے آنکھیں بھگوتا ہے
وہی جو چھینتا ہے چین آدم سے
وہی جو مانگتا ہے مہر عالم سے
وہی جو آنکھ سے نیندیں اڑاتا ہے
پلک کی گود سے پریاں بھاتا ہے
وہی جو کرب کا قصّہ سناٹا ہے
وہی جو زخم کی صورت دکھاتا ہے
یہاں تک کہ وہ اپنی ایک نعت میں بھی اس اسلوب کو استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ؂
عِجب اک چاندنی کے عکس سے بھرتی رہیں آنکھیں
عجب اک چاند میں ڈھلتا رہا سایہ محمد کا
عجب ٹھنڈک سی جسم و جان میں پڑتی رہی میرے
عجب اک دشت میں بہتا رہا دریا محمد کا
عجب اک عشق کی گرمی رگ و پے میں رہی جاری
عجب شدت سے گرماتا رہا شعلہ محمد کا
اب آئیے پہلے میر کی مثنوی شعلہ عشق کے متعلقہ اشعار ملاحظہ فرمائیں. واضح ہو کہ میر نے اپنی مثنوی کا آغاز اور انجام ان اشعار سے کیا ہے :
آغاز مثنوی
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

محبت مسبب محبت سبب
محبت سے آتے ہیں کار عجب

محبت بن اس جا نہ آیا کوئی
محبت سے خالی نہ پایا کوئی

محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے

محبت سے کس کو ہوا ہے فراغ
محبت نے کیا کیا دکھائے ہیں داغ

محبت اگر کار پرداز ہو
دلوں کے تئیں سوز سے ساز ہو

محبت ہے آب رخ کار دل
محبت ہے گرمی آزار دل

محبت عجب خواب خوں ریز ہے
محبت بلاے دل آویز ہے

محبت کی ہیں کارپردازیاں
کہ عاشق سے ہوتی ہیں جانبازیاں

محبت کی آتش سے اخگر ہے دل
محبت نہ ہووے تو پتھر ہے دل

محبت کو ہے اس گلستاں میں راہ
کلی کے دل تنگ میں بھی ہے چاہ

محبت ہی سے دل کو رو بیٹھیے
محبت میں جی مفت کھو بیٹھیے

محبت لگاتی ہے پانی میں آگ
محبت سے ہے تیغ و گردن میں لاگ

محبت سے ہے انتظام جہاں
محبت سے گردش میں ہے آسماں

محبت سے روتے گئے یار خوں
محبت سے ہو ہو گیا ہے جنوں

محبت سے آتا ہے جو کچھ کہو
محبت سے ہو جو وہ ہرگز نہ ہو

محبت سے پروانہ آتش بجاں
محبت سے بلبل ہے گرم فغاں

اسی آگ سے شمع کو ہے گداز
اسی کے لیے گل ہے سرگرم ناز

محبت ہی ہے تحت سے تا بہ فوق
زمیں آسماں سب ہیں لبریز شوق

محبت سے یاروں کے ہیں رنگ زرد
دلوں میں محبت سے اٹھتے ہیں درد

گیا قیس ناشاد اس عشق میں
کھپی جان فرہاد اس عشق میں

ہوئی اس سے شیریں کی حالت تباہ
کیا اس سے لیلیٰ نے خیمہ سیاہ

سنا ہوگا وامق پہ جو کچھ ہوا
نل اس عشق میں کس طرح سے موا

جو عذرا پہ گذرا سو مشہور ہے
دمن کا بھی احوال مذکور ہے

ستم اس بلا کے ہی سہتے گئے
سب اس عشق کو عشق کہتے گئے

اس آتش سے گرمی ہے خورشید میں
یہی ذرے کی جان نومید میں

اسی سے دل ماہ ہے داغ دار
کتاں کا جگر ہے سراسر فگار

نئے اس کے چرچے حکایت سنی
گہے شکر گاہے شکایت سنی

اسی سے قیامت ہے ہر چار اور
اسی فتنہ گر کا ہے عالم میں شور

کوئی شہر ایسا نہ دیکھا کہ واں
نہ ہو اس سے آشوب محشر عیاں

کب اس عشق نے تازہ کاری نہ کی
کہاں خون سے غازہ کاری نہ کی

زمانے میں ایسا نہیں تازہ کار
غرض ہے یہ اعجوبۂ روزگار
32 اشعار پر مشتمل اس ابتدائیہ میں ایک مصرع یوں ہے :
گہے شکر گاہے شکایت سنی
یعنی میر کا عشقیہ کردار انجام کار کے طور پر طرب و الم کا آمیزہ ہے. کبھی تو عاشق اپنے عشق کے انجام میں شکر گزار ہوتا ہے اور کبھی شکایت کناں. مگر جب ان اشعار کو گہری نظر سے دیکھتے ہیں تو اس میں المیہ کیفیت زیادہ نمایاں ہے. میر نے عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں کا احاطہ کیا ہے. ظلمت سے نور کا نکلنا ایک غیر مرئی، ماورائی اور مابعد الطبیعاتی کیفیت کا اظہار ہے جس میں محبت یا عشق، عشق حقیقی کا نمائندہ ہے.
پانچویں اشعار کے دوسرے مصرعے سے میر محبت کے انجام پر روشنی ڈالنا شروع کرتے ہیں. اس سے قبل وہ محبت کا فلسفہ پیش کرتے ہیں. محبت نے بے شمار داغ دیے ہیں. آگے چل کر میر جن جن عاشقوں (قیس، فرہاد، شیریں، لیلی، وامق، عذرا) کا ذکر کرتے ہیں ان سبھی کو انجام کار محبت میں موت کو گلے لگانا پڑا ہے. اور یہ سبھی عشق مجازی کے معروف کردار ہیں. ان کا عشق المیہ انجام کو پہنچتا ہے. گویا ان کا عشق ظالم ہے جو جان کی قربانی طلب کرتا ہے. خود کو مٹادینے پر اکساتا ہے. عشق میں فنا ہوجانا ہی عشق کی معراج ہے. یہی وجہ ہے کہ مثنوی شعلہ عشق کے عاشق و معشوق دونوں محبت میں اپنی جان قربان کرتے ہیں. ہمارے عہد میں اس عمل کی حوصلہ افزائی جرم ہے. اور اس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے. اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی از خود جان لینا اور جان گنوانے پر اکسانا ایک ناقابل معافی جرم ہے. لیکن میر کے عشق کی تہذیب ایسی ہی تھی.
اب اس مثنوی کے اختتامی اشعار ملاحظہ فرمائیں. جب مثنوی کے دونوں کردار عشق میں غرق دریا ہوجاتے ہیں تو میر مقولہ شاعر کے ذیلی عنوان سے چند اشعار پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
مقولۂ شاعر

اگر ہے یہ قصہ بھی حیرت فزا
ولے میرؔ یہ عشق ہے بدبلا

بہت جی جلائے ہیں اس عشق نے
بہت گھر لٹائے ہیں اس عشق نے

فسانوں سے اس کے لبالب ہے دہر
جلائے ہیں اس تند آتش نے شہر

محبت نہ ہو کاش مخلوق کو
نہ چھوڑے یہ عاشق نہ معشوق کو
ان اشعار میں میر قصے کی حیرت افزائی کا اعتراف کرتے ہوئے عشق کو بد بلا، جی جلانے والا، گھر لوٹنے والا، شہر جلانے والا، عاشق و معشوق کو ہلاک کرنے والا بتلاتے ہیں اور محبت میں نہ پڑنے کی آرزو کرتے ہیں. مجموعی طور سے میر کا عشقیہ کردار زبردست تباہ کن اور ہلاکت خیز ہے جس سے احتراز لازم ہے. ڈاکٹر سید عبداللہ میر کی مثنوی نگاری کا جایزہ لیتے ہوئے اسی نتیجے پر پہنچے ہیں، چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
میر کے ذہن کو المیہ تصورات سے بڑی دل بستگی ہے. ان کے نزدیک عشق اور ٹریجڈی لازم و ملزوم ہیں۔ ان کی غزلیات میں بھی "مارے جانے" کا مضمون بڑی کثرت سے آیا ہے۔ ان کی غزل کے عاشق کا انجام بھی سوائے قتل یا مرگ ناگہاں کے کچھ ہے ہی نہیں۔ ان کی غزل کی ساری فضا خون سے تو رنگین ہے ہی۔ اس میں عاشق کی الم انگیز موت یا قتل کا موضوع بھی عشق کی منزل کو خوفناک اور پر دہشت بنا دیتا ہے." (نقد میر، ص: 295)
احمد محفوظ نے اپنے مضمون "کلام میر میں عشق کا تہذیبی تصور" میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ غزل میں عشق و عاشقی سے متعلق جو باتیں بیان ہوتی ہیں ان کا بڑا حصہ تصوراتی اور رسومیاتی ہے. وہ کہتے ہیں کہ میر کی غزلوں اور مثنویوں میں عشق کی ایک خاص صورت حال نظر آتی ہے جس کو میر کی امتیازی صفت کہنا چاہیے. پھر وہ لکھتے ہیں:
"شعلہ عشق اور مور نامہ۔ ان دونوں مثنویوں میں عشق کی جو صورت نظر آتی ہے، اسے ایسی غیر معمولی قوت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو ساری کائنات میں ہر چیز پر متصرف ہے۔ وہ ایسی طاقت ہے جو خود کو اس لیے ظاہر کرتی ہے کہ دنیا پر اپنے جبر واقتدار کا عالم دکھا سکے۔ یہ عشق خود ہی عاشق اور معشوق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے یعنی انھیں پیدا کرتا ہے، پھر خود ہی انھیں جلا کر خاک کر دیتا ہے۔" (بیان میر، ص: 162)
سید عبداللہ اور احمد محفوظ دونوں نے میر کے عشقیہ کردار کو ایک ایسی قوت قرار دیا ہے جس میں خوفناکی، دہشت، موت اور جلا کر فنا کرنا ہے.
عارف حسن خان نے غضنفر کی مثنوی کرب جاں میں "محبت" کے تعلق سے جن اشعار کو میر کے اشعار سے ملتا جلتا اور” پیش نظر" کے حوالے سے درج کیا ہے ان سبھی کو یہاں پیش کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے سے قبل اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ غضنفر نے اپنی مثنوی میں ماقبل کی تمام روایتی اور کلاسیکی مثنویوں کے موضوع، قصے اور کردار کی نکیر کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ نئے رنگ و ڈھنگ کی مثنوی ہے اور یہ ہماری سر زمین سے تعلق رکھتی ہے. ظاہر ہے جب کلاسیکی کردار کی نفی کی گئی ہے تو اس سے استفادے یا یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے کوئی دوسری راہ بنانے کی کوشش کی گئی ہوگی ورنہ یہ دعویٰ بھی غلط ہوگا اور مثنوی بھی ناکام ہوگی.
حقیقت یہ ہے کہ غضنفر کا تصور عشق یا عشقیہ کردار میر کے تصور عشق سے بالکل جدا ہے. آئیے دیکھتے ہیں کیسے:

کہ الفت کدورت کو کرتی ہے صاف
اخوت بھی نفرت کو کرتی ہے صاف

محبت ہٹاتی ہے رستے سے خار
محبت سے بنجر زمیں سبزہ زار

محبت کھلاتی ہے صحرا میں پھول
محبت سے بنتا ہے بیلا، ببول

محبت سے نفرت کے جھڑتے ہیں خار
عداوت کے چھٹتے ہیں گرد و غبار

محبت سے پتھر کا سینہ کٹے
محبت سے کوہ گراں بھی جھکے

محبت کا تیشہ کرشمہ کرے
ندی دودھ کی پتھروں سے بہے

محبت سے بنتا ہے دشمن بھی میت
محبت سے ملتی ہے دنیا میں جیت

مگر کس طرح دل میں بیٹھے یہ بات
کہ ہوتی ہے الفت سے نفرت کو مات
ہم نے یہاں ان اشعار کے ساتھ سیاق و سباق کے طور پر قبل و بعد کے ایک ایک شعر بھی درج کیے ہیں تاکہ اس کے تجزیے میں آسانی ہو. ان اشعار کی اگر نثر کریں تو یوں ہوگی کہ محبت و الفت عداوت و کدورت کو دور کرنے والا کردار ہے. محبت تکلیف دہ خار کو ہٹاتی ہے، بنجر کو سبزہ زار بناتی ہے، چنانچہ صحرا میں پھول کھلتے ہیں، محبت اپنے تیشے سے کرشمہ کرتی ہے اور انجام کار دودھ کی نہر نکال لاتی ہے، یہ وہ محبت نہیں جو فرہاد کو اپنے ہی تیشے سے مر جانے پر مجبور کرے، بلکہ یہ وہ کردار ہے جو دشمن کو دوست بنادے اور دنیا پر نہیں بلکہ دنیا میں جیت دلادے. یہ جبر و اقتدار کا نہیں بلکہ دلوں کو جیت لینے والا کردار ہے. آخری شعر زیادہ قابل توجہ ہے. اس میں لفظ "الفت" نفرت کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے. یہی وہ بنیادی خیال ہے جسے مثنوی کی تخلیق کے لیے پیش نظر رکھا گیا ہے.
ذیل میں محبت سے متعلق مثنوی کرب جاں کے اختتامی اشعار ملاحظہ فرمائیں. یہاں بھی ہم نے سیاق کو ملحوظ رکھا ہے.
نمازی پجاری کو تعظیم دے
پجاری نمازی سے شفقت کرے

کہیں سے ہوا کاش ایسی بھی آئے
جو ہمراہ الفت کی سوغات لائے

محبت سے ہر ایک من مسکرائے
محبت سے اک ایک تن کھل کھلائے

محبت مسرت کا نشہ پلائے
محبت سے آنکھوں میں مستی سی چھائے

محبت سے ہر سانس سرگم بجائے
سراپا ہر اک پھول سا لہلہائے

محبت سرابوں کو دریا بنائے
محبت خرابوں میں غنچے کھلائے

محبت فضاؤں کو گل سے سجائے
محبت ہواؤں میں خوشبو بسائے

ہر اک پھول پتی پہ شبنم بٹھائے
ہر اک گل کے دامن میں موتی سجائے

نمی سے نمو کا کرشمہ دکھائے
نگاہوں کے صحرا میں سبزہ اُگائے

محبت امنگوں کو جھولا جھلائے
رگوں میں خوشی کی ترنگیں اُٹھائے

ہر اک دل کو ہولے سے یوں گد گدائے
کہ نس نس میں کیف و طرب دوڑ جائے

محبت ہر اک موڑ پر گھر بنائے
محبت ہر اک سمت جلوہ دکھائے

محبت سے اک اک نگر جگمگائے
محبت سے اک اک بشر کھلکھلائے

محبت سے ساری فضا گنگنائے
محبت ہر اک آن مستی لٹائے

زمیں سے فلک کی طرف لے کے جائے
حسیں خواب کی وادیوں میں گھمائے

دل و جاں کے زخموں پہ مرہم لگائے
بدن کی طنابوں کی ایٹھن مٹائے

پپوٹوں کے اوپر سے پتھر ہٹائے
نظر کو شکنجوں سے مکتی دلائے

فسرده شجر کو شگفتہ بنائے
سیاہی کے اندر زمرد ملائے

خزاں کے درختوں پہ کونپل اُگائے
مری ٹہنیوں کو جلائے، ہلائے

پروں میں پرندوں کے گھرنی لگائے
چرندوں کو بھی چہچہانا سکھائے

فضاؤں میں ہر سمت خوشبو بسائے
زمینوں پہ رنگوں کی جنت سجائے

ہر اک تن کو چھیڑے، ذرا گد گدائے
دلوں سے اُداسی کے بادل ہٹائے

محبت بنے ایسی باد بہار
نکھر جائے گلشن کا ہر برگ و بار

نہ شاخ شجر پر رہے کوئی خار
نہ گل پر کسی طرح کا کوئی بار

فضا چپے چپے کی ہو مشک بار
جدھر دیکھیے ہو نظر لالہ زار

محبت سے فولاد بن جائے موم
نکل جائے اعلیٰ دماغی کا زعم

محبت، محبت کے جھونکے چلائے
محبت ہوا کی طرح پھیل جائے
یہاں مثنوی اپنے اختتام پر پہنچتی ہے. غضنفر نے ان اشعار میں تشبیہات و استعارات کے جس نظام سے کام لیا ہے وہ ایک الگ خوبی ہے. یہاں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ غضنفر کا عشقیہ کردار بھی آفاقی ہے لیکن وہ تمام طرح کی نفی میں اثبات پیدا کرنے والا کردار ہے. سرابوں کو دریا بنانا، خرابوں میں غنچے کھلانا، صحرا میں سبزہ اگانا، زمیں سے فلک کی طرف لے جانا، زخموں پہ مرحم لگانا، اینٹھن مٹانا، شکنجوں سے مکتی دلانا، مردہ ٹہنیوں کو جِلانا ایسے اعمال و افعال ہیں جن میں دو متضاد صورتیں متشکل ہوئی ہیں. مثلاً سراب اور دریا، خرابہ اور گلشن، صحرا اور سبزہ زار، زمیں اور آسمان، زخم اور مرحم، شکنجہ اور مکتی، مرگ اور زندگی. ان سب میں پہلی صورت ناگوار ہے، ناپسندیدہ ہے، پستی، تباہی، بربادی، خوفناکی اور دہشت وغیرہ کی علامت ہے، موت ہے اور دوسری صورت سراپا خیر ہے، حسن ہے، جلوہ ہے، زندگی ہے. یعنی غضنفر کا عشقیہ کردار ایک بری صورت حال کو بدل کر خیر میں تبدیل کرنے والا ہے. جو شر سے خیر کی طرف لاتا ہے، اندھیرے سے روشنی کی طرف لاتا ہے، ناامیدی میں امید کا چراغ روشن کردیتا ہے. گویا غضنفر کا عشقیہ کردار خضر و جبریل کا کردار ادا کرتا ہے. خضر و جبریل رنگ و نور کے نمایندے ہیں. اب ان اشعار کے سیاق پر غور کریں. یہاں ملک میں آباد دو بڑی قوموں کا تذکرہ ہے جن کے درمیان کھینچی ہوئی دیوار کو ڈھانے اور انھیں آپس میں اس طرح گھل مل جانے کی آرزو کی گئی ہے کہ سب ایک دوسرے کی عزت و توقیر کریں. یہ تبھی ممکن ہے جب ان کے درمیان محبت کی گوند پنپ سکے. یعنی غضنفر نے محبت کو درد دل کے درماں کے طور پر استعمال کیا ہے. محبت ان کے یہاں دوا، ٹول اور آلہ کے طور پر استعمال ہوئی ہے، جو کدورت کے مرض کو ٹھیک کرے، رواداری کے پہیے کو فکس (Fix) کردے. عارف حسن خان نے اسی بات کو اوپر درج پہلے اقتباس میں یوں کہا ہے : "…. بلکہ آپسی میل محبت کے ذریعہ اس کے تدارک کا نسخہ بھی بیان کر دیا ہے۔ "
میر و غضنفر کے عشقیہ کردار کے فرق کو مزید واضح کرنے کے لیے یہاں خاص طور سے دو اشعار نقل کیے جاتے ہیں :
فسانوں سے اس کے لبالب ہے دہر
جلائے ہیں اس تند آتش نے شہر (شعلہ عشق از میر)
محبت سے اک اک نگر جگمگائے
محبت سے اک اک بشر کھلکھلائے (کر جاں از غضنفر)
یہاں میر کا عشقیہ کردار آتش بن کر اترتا ہے اور بھرے پرے شہر کو جلا کر خاک کردیتا ہے جب کہ غضنفر کا عشقیہ کردار تاریک شہر پر روشنی بن کر اترتا ہے اور مرجھائے چہروں پر ہنسی کی رونق بکھرجاتی ہے. واضح ہوا کہ غضنفر کا عشقیہ کردار میر کے عشقیہ کردار کا معکوس ہے.
عارف حسن خان نے ذکر کیا ہے کہ چوں کہ غضنفر کی مثنوی کرب جاں کے ایک حصے میں ذیل کا شعر درج ہے اس لیے بھی کہنا مناسب ہوگا کہ غضنفر کے پیش نظر میر کی مثنوی رہی ہوگی.
نہیں گلشن عشق مہکا ہوا
نہیں شعلہ عشق دہکا ہوا
در اصل یہ بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ اس شعر میں مذکور "شعلہ عشق" میر کی مثنوی کا نام نکلا. کیوں کہ سیاق و سباق دیکھیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہاں شعلہ عشق بہ طور تلمیح نہیں بلکہ بہ طور ترکیب استعمال ہوا ہے، جو کلاسیکی مثنویوں کے موضوع کی نکیر کے لیے ہے نہ کہ میر کی مثنوی کے لیے. اس شعر کو اس کے قبل و بعد والے شعر کے ساتھ ملا کر پڑھیں :
نہیں بزم عشرت کے راز و نیاز
نہیں عشق کے شور کا سوز و ساز
نہیں گلشن عشق مہکا ہوا
نہیں شعلہ عشق دہکا ہوا
نہیں عشق کا کوئی دریا رواں
نہیں لذت عشق کی کشتیاں
ان تینوں اشعار میں اور بعد والے اشعار میں بھی لفظ عشق اپنے عمومی معنی میں استعمال ہوا ہے. اور مثنویوں کے عام موضوع عشق سے احتراز کی طرف اشارہ ہے. اور اتفاق سے ایک مصرعے میں عشق سے پہلے لفظ شعلہ در آیا، جس سے میر کی مثنوی کی طرف ان کا ذہن گیا.
اب سوال یہ ہے کہ غضنفر نے میر کی مثنوی اپنے پیش نظر کیوں نہیں رکھی؟ اس کی ایک وجہ تو یہی سمجھ میں آتی ہے کہ میر بہ طور غزل گو مشہور ہوئے، ان کی مثنوی نگاری فنی اعتبار سے سند کا درجہ حاصل نہ کرسکی. میرا قیاس ہے کہ اردو میں کم ہی ایسے لوگ ہوں گے جنھوں نے میر کو بہ طور مثنوی نگار پڑھا. اور جنھوں نے پڑھا انھوں نے میر کی مثنوی نگاری میں کئی طرح کے سقم کی نشان دہی کی. یہی وجہ ہے کہ میر کی مثنوی نگاری کو وہ شہرت نہ مل سکی. چنانچہ ڈاکٹر سید عبداللہ میر کی مثنوی نگاری کا جایزہ لینے کے بعد لکھتے ہیں :
"ما حصل یہ ہے کہ میر کی عام مثنویاں اچھی مثنویاں نہیں، ان کی زبان بھی میرحسن کی زبان کے مقابلے میں ناصاف اور غیر ہموار ہے ان کا طرز بیان اور نظم و انتظام بھی مثنویت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا بایں ہمہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے مثنوی نگاری کی تحریک کو بڑی ترقی دی۔(نقد میر، ص: 302)
اسی طرح کا خیال امداد امام اثر نے میر تقی میر کی مثنوی نگاری کی تنقید کرتے ہوئے ظاہر کیا ہے. وہ لکھتے ہیں:
"میر لاریب سلطان المتغزلین تھے۔ مگر حضرت کی مثنوی نگاری سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جو درجہ غزل سرائی میں حاصل ہے، مثنوی نگاری میں نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو صرف مضامین داخلی کی بندش کی بڑی قابلیت حاصل تھی لیکن مثنوی نگاری کی وہی شاعر داد دے سکتا ہے جو مضامین خارجی کی بندش پر بھی پوری قدرت رکھتا ہے، یہ قدرت آپ کو بہت حاصل نہ تھی، اس لیے آپ کی مثنویاں تمام تر داخلی پہلو کی شاعری سے خبر دیتی ہیں. در حقیقت آپ کی مثنوی نگاری بھی مضامین کے اعتبار سے ایک قسم کی غزل سرائی نظر آتی ہے." ( کاشف الحقایق، امداد امام اثر، ص: 328، جلد دوم، مکتبہ معین الادب لاہور، 1956)
میں نے اس سلسلے میں کئی دوسرے تنقید نگاروں کی رائیں بھی دیکھی ہیں. سب کا خلاصہ یہی ہے جو وہاب اشرفی نے میر اور مثنویات میر لکھا ہے کہ میر کی مثنوی نگاری کو اسی قدر اہمیت حاصل ہے کہ میر صاحب کو استادی اور تقدم حاصل ہے.
ظاہر ہے غضنفر کے سامنے مذکورہ رائیں رہی ہوں گی اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے میر کی مثنوی نہیں دیکھی. غضنفر کو داخلیت کے ساتھ ساتھ خارجیت پر بھی نگاہ رکھنی تھی. شارب رودولوی نے لکھا ہے کہ غضنفر سے قبل شاید ہی کسی نے اپنی مثنوی کے تعلق سے یہ شعر کہا ہو :
سنو زندگی کی کہانی ہے یہ
قلم کی حقیقت بیانی ہے یہ
ماحصل یہ ہے کہ میر کی مثنوی غضنفر کے پیش نظر نہیں تھی، اس کی وجہ یہ کہ میر کی مثنوی کی حیثیت تاریخی اور داخلیت کی بنا پر ہے. غضنفر کا عشقیہ کردار میر کے عشقیہ کردار سے الگ اور ممتاز کھڑا نظر آتا ہے. میر کا عشقیہ کردار جان لیوا ہے جب کہ غضنفر کا عشقیہ کردار جاں افزا ہے. اور عشقیہ اشعار کے تعلق سے جو یکسانیت جیسی صورت نظر…..
***
طیب فرقانی کی گذشتہ نگارش:کتاب: کوتاہیاں (انشائیوں کا مجموعہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے