کاشف شکیل کی آٹھ تازہ غزلیں

کاشف شکیل کی آٹھ تازہ غزلیں

کاشف شکیل

غزل(1)
ایک تشنہ دہن، دریدہ بدن
دل میں پالے ہوئے ہے درد کُہن

شکر ہے آپ کو غزل ہے پسند
خونِ دل کو سمجھ رکھا ہے‌ سُخن

دیکھو سوزِ جگر، عذابِ دل
شاخِ گُل کی رہین ہے یہ چبھن

آپ کے دل‌ میں ہے ہجومِ بہار
ایک ہم ہیں خزاں رسیدہ چمن

اس نے بس کہہ دیا خدا حافظ
اب خدا ہی کرے ہمارا جتَن

کاشف اب تک اسی میں الجھا ہے
اس کی سانسیں ہیں یا کہ مشکِ ختَن

غزل (2)
زندگی کا بس یہی قصّہ رہا
خود سمندر آپ ہی پیاسا رہا

میرے حصے میں فقط آنسو رہے
اور خوشیوں میں ترا حصّہ رہا

ہوگئی سیراب آخر کو زمیں
آسماں کے ہاتھ بس کاسہ رہا

لاکھ دل ٹوٹا مگر کیا کیجیے
حالِ دل ویسے کا ہی ویسا رہا

آتشِ دل آنسوؤں سے تر رہی
ہاں مگر کاشف یوں ہی جھلسا رہا

غزل (3)
دل کی باتیں زباں پہ لانے میں
کتنی صدیاں لگیں بتانے میں

دل نے جملے طلب کیے ہیں مگر
دیکھیے آئیں کس زمانے میں

خود کو روشن بتانے کی خاطر
آگ ہی رکھ دی آشیانے میں

عشق کا ابر، دل کی دھرتی ہے
کیا برائی ہے بھیگ جانے میں

ہم جو عاشق نہیں تو دوست سہی
خود کو بدلیں گے اب فسانے میں

ساری دنیا اگر مجھے مل جائے
خرچ کر دوں اسے منانے میں

دل پہ چلتا نہیں ہے بس کاشف
کیا تکلف کریں بتانے میں

غزل (4)
مانگا جو اذنِ عشق تو مسکا کے یوں کہا
ہم کو نہیں قبول ہے ہرگز یہ فیصلہ

مر جاؤں گا جو آج نہ اظہار کر سکا
اس نے کہا کہ بند کرو اب یہ سلسلہ

میں نے کہا کہ آپ کے در پر دوں دستکیں
اس‌ نے کہا کہ سر ہی پٹختے رہیں سدا

میں نے کہا کہ رکھ دوں میں خنجر پہ اپنا سر
اس نے کہا کہ خون نہ آئے ادھر ذرا

میں نے کہا کہ آپ کا لہجہ ہے شہد سا
اس نے کہا کہ لیجیے انکار کا‌‌ مزا

میں نے کہا کہ کاشفِ عاشق ہے‌ آپ کا
اس نے کہا کہ جائیے آزاد کر دیا

غزل (5)
آرزو ہے خاک ہونے کی مری دیکھو ذرا
وہ بھی مٹی سے زیادہ اور سب سے ماورا

دل پہ اس کی ایک دستک نے سخن‌ جاری کیا
میرے پیکر کے در و دیوار ہیں نغمہ سرا

میں نے بے مانگے تمھیں ہر اپنا حصہ دے دیا
سلب تم نے کرلیا مجھ سے مرا ہر آسرا

بات کرنے کے‌ سلیقے پر ذرا ڈالو نظر
جیسے میں شیطان ہوں اور تم ہو کوئی اپسرا

جو سمجھ کر بھی نہ سمجھے تیرے ان جذبات کو
کاشف اب کہنا ہی کیوں ہے اس سے اپنا ماجرا

غزل (6)
ہجر کا غم غلط کیا جائے
آؤ چل کر کہیں پیا جائے

پھر سے اس کا غرور ہے پیاسا
اشک اور خونِ دل دیا جائے

رہنمائی کرو کوئی میری
اس کے بن‌ کیسے اب جیا‌ جائے

اس‌‌ کے انکار کے جواب میں آج
خود کو خود پر فدا کیا جائے

آؤ ہم‌ سوچتے ہیں اب کاشف
زخمِ دل کس طرح‌ سِیا جائے

غزل (7)
معذرت کی بات کیوں آئی ہمارے درمیاں
کیسے رشتہ توڑ سکتا ہے زمیں سے آسماں

گر وہ لاحاصل رہا افسوس اس کا کیوں‌ کریں
ہر کسی کو چاہتیں دنیا میں ملتی ہیں کہاں

اس‌ کے لب کی حرکتیں میں نے نہیں دیکھیں مگر
چھا رہا تھا میرے‌ دل پر اس کی باتوں کا سماں

زندگی سکرات میں ہے، دھڑکنیں ٹوٹی ہوئی
ماہی بے آب کی مانند ہے رقصِ جہاں

میں تری تحریر میں چھوٹا سا نقطہ بھی نہیں
تو مری غزلوں کا حاصل تو مری کُل داستاں

ہجر کی دوزخ ہی شاید ہے محبت کا صلہ
کاشفِ مخلص سے ورنہ کیوں ہوا‌ وہ بدگماں

غزل (8)
اپنی تصویر مرحمت کر دے
یا‌ محبت کی تعزیت کر دے

میرا ہر اک عمل ہے تیرے لیے
تو مجھے اپنی عاقبت کر دے

اس نے کر لی ہے معذرت مجھ سے
زندگی! تو بھی معذرت کر دے

عشق میں شرک سے رہا محفوظ
باقی جرموں کی مغفرت کر دے

اک نظر مسکرا کے دیکھ تو لے
دور مجھ سے یہ یاسیت کر دے

میں بھی تجھ سا غرور چاہتا ہوں
میری اپنی سی ماہیت کردے

کاشف اپنی خوشی ہو یا غم ہو
اس پہ ہے‌ جیسی کیفیت کردے
***
کاشف شکیل کی یہ نظم بھی ملاحظہ فرمائیں:آتما

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے