بائیکاٹ کی اپیل: ایک کم زور حکمت عملی

بائیکاٹ کی اپیل: ایک کم زور حکمت عملی

عبدالرحمٰن
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
دہلی- این سی آر
Email: rahman20645@gmail.com

اللہ تعالیٰ نے انسان کو "احسن تقویم" پر پیدا کیا ہے (سورۃ التین-95: 4) اور پھر اسی مناسبت سے اسے بے شمار خصائص اور کمالات سے آراستہ کردیا ہے۔ اللہ رب العالمین کی عطا کردہ انھی صلاحیتوں کی وجہ سے، آج انسان بہت سے معاملات میں سمندر کی گہرائیوں سے لے کر آسمان کی وسعتوں تک اپنی دسترس حاصل کر چکا ہے یا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے، اور اسی پس منظر میں، وہ خود کو اشرف المخلوقات بھی تصور کرتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ، اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ابتلا (آزمائش) کے اصول پر چلانے کا طریقہ وضع کیا ہے تاکہ بہترین ساخت پر تخلیق کیا گیا اس کا شاہ کار خود اپنے ارادے اور اختیار کی آزادی کے ساتھ ہمیشہ باقی رہنے والی اخروی جنت کے لیے اپنے انتخاب کو یقینی بنا سکے۔ اسی مقصد کے لیے، غیر معمولی کمالات کے ساتھ ساتھ، انسان کی شخصیت میں متعدد قسم کی کم زوریاں بھی ڈال دی گئی ہیں۔
انھی کمزوریوں کے حوالے سے، انسان کے اندر ایک نہایت ہی مہلک قسم کی کم زوری پائی جاتی ہے۔ وہ جب بھی کسی وجہ سے، کسی شخص سے ناراض ہوجاتا ہے اور اس کی ناراضگی بڑھ کر نفرت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، اور نفرت مزید آگے بڑھ کر اس کے دل کو دشمنی پر بھی مائل کر دیتی ہے، تب وہی باکمال انسان ایک قابل رحم صورت حال سے دوچار ہوتا ہے، یعنی ماضی میں اسی شخص کے تعلق سے حاصل تمام خوش گواریوں کو یکسر بھلا دیتا ہے۔ پیدا شدہ غلط فہمیوں کا ادراک حاصل کرنے کے بعد ان کو دور کرنے کی کوشش یا مفاہمت کا کوئی دوسرا طریقہ دریافت کرنے کے بجائے، وہ کھلم کُھلا دشمنی پر اتر آتا ہے۔ حالاں کہ پھر یہ دشمنی کے جذبات خود اس کے اپنے دشمن بن جاتے ہیں، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کے ادراک سے بھی محروم رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ جب منافرت اور دشمنی کے جذبات بہت قوی ہوجاتے ہیں، تب سب سے پہلے وہ اپنے رشتے، تعلقات اور کاروباری معاملات کو جاری رکھنے سے خود اجتناب شروع کر دیتا ہے، نیز اپنے متعلقین سے بھی بائیکاٹ (boycott) کرنے کی درخواست کرنے لگتا ہے۔
عام طور پر، ایسا کرنے کے پس منظر میں، اپنے لیے کوئی بڑا فائدہ حاصل کرنا زیر بحث نہیں ہوتا ہے۔ عام طور پر، جو چیز پیش نظر ہوتی ہے، وہ ہوتی ہے مد مقابل کو کچھ بھی نقصان پہنچا کر منافرت اور دشمنی کے جذبات کے بطن سے پیدا ہونے والی اپنی انا (ego) کی تسکین۔ تاریخ گواہ ہے کہ "انانیت کی تسکین" زندگی کا وہ ہدف ہے جو دنیا میں، کبھی کسی بڑے سے بڑے مستکبر (arrogant) کو بھی حاصل نہیں ہوا۔ چوں کہ ایک مسلمان کا معاملہ ایمان و اخلاق کی سنجیدہ ذمے داریوں کی وجہ سے دوسرے افراد کی نسبت مختلف ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف منافرت اور دشمنی، یہاں تک کہ تعلقات کے بائیکاٹ کرنے یا کروانے جیسے منفی عوامل کا تحمل نہیں کر سکتا۔
یقیناً، مسلمان اپنے معاملات کو درست کرنے کے لیے، صرف ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوکر منفی نوعیت کی حکمت عملی اختیار نہیں کر سکتا۔ وہ عقل کی روشنی کے استعمال کے ساتھ ساتھ، اپنے پروردگار، اللہ رب العالمین کے ہدایت کردہ اور اس کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ احکامات پر بھی لازمی طور پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ یہ پابندی کسی مجبوری کا نتیجہ نہیں، بلکہ جب ایک انسان ایمان کی صورت میں اپنے خالق و مالک کی معرفت حاصل کرتا ہے، تب اس کے ساتھ وہ معاملہ پیش آتا ہے جسے اللہ کے نور سے دیکھنے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اللہ کے نور سے دیکھنے کی حیثیت تب ہی حاصل ہوسکتی ہے جب ہم سب مسلمان اپنی زندگی کو خدا رخی (God oriented) بنانے کی کوشش کریں۔ صحیح معنی میں خدا رخی زندگی مسلمانوں کو انسانی معاشرے کے منفی رجحانات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ احتساب خویش کے ذریعے ہمیں بار بار اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔
مندرجہ بالا سطور میں کی گئی مختصر بحث سے، کافی حد تک یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ لعنت ملامت، بد دعائیں اور بائیکاٹ کی حکمت عملی مسلمانوں کے شایان شان نہیں ہے۔ موجودہ دنیا میں ایک مسلمان کی زندگی کا نصب العین اس امر سے بہت زیادہ بلند ہے کہ وہ لوگوں سے نفرت کرنے لگے یا اپنے مفروضہ دشمنوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے۔ ایک مسلمان کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ وہ خود تو تکلیف اٹھا سکتا ہے، مگر کسی کو تکلیف میں مبتلا نہیں کر سکتا۔ اس کا تو مشن ہی اللہ کا ڈر یا بہ الفاظ دیگر اللہ کی محبت اور بلا اختلافِ مذہب و ملت، تمام انسانوں کی خیر خواہی ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسی حقیقت کو مختلف زاویوں سے مزید مدلل اور واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مسلم معاشرے کے اندر صالح اقدار کو فروغ دینے کے ضمن میں، اللہ تعالیٰ راقم الحروف کی مدد فرمائے۔
سنہ 2023 عیسوی کے اکتوبر مہینے کے اوائل سے مسلم دنیا کے کچھ حصوں میں سنگین قسم کے ناخوشگوار حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ انتہائی ظلم و زیادتی کی روداد سن کر کلیجا منھ کو آتا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ متاثرین کے علاوہ، عام مسلمان بھی تکلیف محسوس کر رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاست اور مذہب کے میدان میں سیاسی عزائم رکھنے والے افراد کا خام مال (raw material) بھی عوام ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے، ایسے نازک مواقع پر مذکورہ قسم کے خود غرض لوگ عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کرتے ہیں۔ سیاست کے پرانے نامبارک تجربات کو بھول کر عام لوگ ایک بار پھر ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں، اور وہی کچھ کرنے لگتے ہیں جو ان کے قائدین چاہتے ہیں۔
اپنی تحریر و تقریر کے توسط سے گروہی عصبیت کے حامل یہ چالاک اشخاص موجودہ صورت حال کو سادہ لوح عوام کے سامنے اس طرح پیش کرتے ہیں گویا دین و ملت کی بقا اور فلاح و بہبود کی ساری ذمے داری صرف عام مسلمانوں کے کندھوں پر ہے۔ مسلم معاشرے میں ہونے والے اس نوعیت کے اعلان و نشریات عام طور پر مسلم عوام کو ہی مخاطب کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ مفروضہ دشمن ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کو بھی اسی زاویہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مفروضہ دشمن (supposed enemy) اور اس کی مصنوعات (goods/products) کو بائیکاٹ کرنے کی اپیل کے فلسفے کی اسلامی تعلیمات سے کوئی مطابقت نہیں۔
دعوتی اور آفاقی مذہب ہونے کی وجہ سے اسلامی تعلیمات سے منفی ردعمل اور بغض و عناد، منافرت اور دشمنی کی باتیں اخذ کرنا بے اصل ہے۔ اسلام خدمت خلق اور انسانی خیر خواہی کا مذہب ہے، نفرت اور دشمنی کا نہیں۔ یہ حقیقت مسلمانوں کو ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے۔
معروف مفکر اور عالم دین مولانا وحید الدین خاں مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ اسلام کی نظر میں کوئی شخص یا تو دوست (Friend) ہوتا ہے یا پھر بالقوہ دوست (Potential Friend) دشمن کوئی بھی نہیں۔
جہاں تک کسی کے دشمن ہونے کا سوال ہے تو وہ وہی شخص ہوسکتا ہے جو ہماری دفاعی جنگ کے میدان میں ہمارے مد مقابل ہو۔ میدان جنگ کے باہر کوئی دشمن نہیں، یہاں تک کہ جنگ کے میدان میں بھی مسلمان بہت سے اصول و ضوابط کا پابند ہوتا ہے۔ دراصل، سچا مسلمان ہونا کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ یہ تو ایک بڑی خوش نصیبی کی بات ہے۔ مسلمان ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے کی وجہ سے وہ صرف اپنی خواہشات کی پیروی اور ردعمل کی نفسیات کے تحت کوئی منفی اقدام نہیں کر سکتا۔ اس کو ہر معاملے میں ربانی ہدایات کی طرف ہی دیکھنا ہوگا، چاہے ہمارے جذبات پر وہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ زوال یافتہ قوم ہونے کے سبب، مسلمانوں کے علم و عمل اور اخلاقیات میں بھی ضعف پیدا ہوگیا ہے۔ اسی پس منظر میں، اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دوری اور حقائق کی سنجیدہ واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے، موجودہ دور کا مسلم معاشرہ جن افراد یا اقوام کو اپنا دشمن تصور کرنے لگا ہے، وہ دراصل، مسلمانوں کے دعوتی بھائی یا عزیز ترین دوست ہیں، جن کی خیر خواہی سے ہماری عاقبت کی کامرانی وابستہ ہے۔ دین کی اصطلاح میں انھیں مدعو کا نام دیا گیا ہے۔
مدعو دراصل، قرآن مجید کے پیغام کی شکل میں، خالقِ کائنات کے تخلیقی منصوبہ کے دعوتی سکہ کے دو پہلوؤں میں سے ایک ہے، اس کے دوسرے پہلو کا نام داعی، یعنی مسلمان ہے۔ اس طرح، قرآنی پیغام کی دعوت کی نسبت سے جہاں ایک طرف ختم نبوت کے بعد مسلمانوں کو کارِ نبوت، بہ الفاظ دیگر داعی کی ذمے داری کا منصب دیا گیا ہے، تو وہیں دوسری جانب دوسرے تمام انسان خود بہ خود مدعو کی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں، یعنی مسلمانوں کی قرآنی دعوت کے مخاطب۔ دریں اثنا، مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ مدعو حضرات کے ساتھ یک طرفہ خیرخواہی اور حسن سلوک کا رویہ اپنائے بغیر وہ نہ تو موجودہ دنیا میں نصرتِ خداوندی سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اخروی دنیا کی جنت سے لطف اندوز۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے پیغمبر، جو کچھ تمھارے اوپر تمھارے رب کی طرف سے اترا ہے، اس کو پہنچادو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اللہ کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تم کو لوگوں سے بچا ئے گا۔ اللہ یقیناً منکر لوگوں کو راہ نہیں دیتا(المائدہ-5: 67)۔
کسی چیز کے بائیکاٹ کی اس لیے دعوت دینا کہ وہ کسی مفروضہ دشمن ملک سے تعلق رکھتی ہے، یقیناً ایک معیوب فعل ہے۔ اس طرح کے افعال کفران نعمت میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ وجہ سمجھنا بھی بہت مشکل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو منفرد اوصاف و خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا دنیا کو چلانے کا طریقہ ہے کہ اس نے لوگوں میں بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے (وَ لَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ – سورۃ النساء-4: 32)۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک یہاں تک کہ مختلف شہر و قصبات بھی بہت سے معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف اور استثنیات کے حامل ہوتے ہیں، تاکہ سبھی ممالک کا تعاون ایک دوسرے کو حاصل ہوتا رہے اور دنیا بھر میں موجود اور پیدا ہونے والی تمام اشیا ہر ملک میں دستیاب ہوں۔ اسی پس منظر میں، دنیا بھر میں ایکسپورٹ اور امپورٹ کا کاروبار ہوتا ہے۔ دراصل، الگ الگ انسانوں یا ملکو کی بنائی ہوئی مختلف اشیا اللہ تعالیٰ کی نشانی کے طور پر انسانیت عامہ کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ سمندر میں چلنے والے اونچے اونچے جہازوں کو انسانی تخلیق ہونے کے باوجود، اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانی کے طور پر پیش کیا ہے (سورۃ الرحمٰن-55: 24).
اس لیے، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی کی پلاننگ کریں، نہ کہ بھیڑ چال (herd mentality) میں الجھ کر لوگوں کی معاشرتی سرگرمیوں کا اثر قبول کرتے ہوئے غیر واضح زندگی جینا شروع کردیں۔ بائیکاٹ کی اپیل کرنے کے بجائے مسلمانوں کو یہ غیرت دلائے جانے کی ضرورت ہے کہ وہی ممالک جنھیں مسلمان اپنا دشمن تصور کررہے ہیں، مسلمانوں کے لیے بے شمار مصنوعات تیار کر کے ان کے دروازے تک پہنچاتے ہیں اور مسلمان ہیں کہ شکر کے دو الفاظ بھی نہیں بول سکتے۔ واضح رہے کہ انسانوں کا شکریہ ادا نہ کرنے والے افراد اپنے پروردگار کے بھی شکر گزار نہیں ہو سکتے۔ دنیا میں خدا کا شکر ادا کرنے کا راستہ اس کے بندوں کا شکریہ ادا کرنے کے میدان سے ہی گزرتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ اللہ رب العالمین کی اسکیم میں، شکران نعمت اور کفران نعمت کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں، قرآن مجید کا مطالعہ کرنا اشد ضروری ہے۔
اور جب تمھارے رب نے تم کو آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا، اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میراعذاب بڑا سخت ہے(سورہ ابراہیم-14: 7)۔
منفی ردعمل اور منافرت کے جذبات سے مغلوب ہو کر، وقتی طور پر بائیکاٹ جیسے منفی رجحانات میں گرفتار ہونے کے بجائے، مسلمانوں کا یہ شعور کیوں نہیں بیدار ہورہا ہے کہ وہ موجودہ مال کلچر (Mall Culture) کے دباؤ میں دنیا بھر سے درآمد (imported) غیر ضروری مصنوعات کی غلامی سے خود کو آزاد کریں اور سادگی پسند زندگی، یعنی گھر کا کھانا اور سادہ لباس کی اہمیت سے خود کو متعارف کروائیں۔ "سِمپل لِونگ، ہائی تھنکنگ" ہمیشہ سے کام یاب ترین لوگوں کا اصول رہا ہے۔ بھیڑ چال کی نفسیات کا شکار ہو کر غریب عوام نے بھی اپنے گھروں میں غیر ضروری سامان کا ڈھیر لگا کر اور گھر کے بجٹ کو بگاڑ کر اپنی زندگی کو جہنم بنا لیا ہے۔ اس لیے، ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو اس طرح کے رجحانات سے محفوظ رہنے کی رغبت دلائی جائے۔ جب آپ خود ہی مصنوعی اور صحت کے لیے مضر لوازمات کھانے بند کردیں گے، تب آہستہ آہستہ متعلقہ کمپنیاں بھی ان کی فراہمی (production) سے اپنے ہاتھ پیچھے کھینچ لیں گی۔ اس طرح، آپ کے ساتھ ساتھ، انسانیت عامہ کا بھی بھلا ہوگا۔ آپ کی کمائی میں بچت کے ساتھ گھر میں خیر و برکت بڑھ جائے گی اور گھر کے تمام افراد کی صحت بھی اچھی ہونے لگے گی۔
اس معاملے کو ایک دوسرے پہلو سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ کسی کو دشمن فرض کر کے اس کی بنائی ہوئی چیزوں کو بائیکاٹ کرنے کے بجائے، اپنی پسند کی چیزوں کو خود بنا کر خود کفیل ہونے کے تصور اور اس کے مطابق جدوجہد کرنے سے مسلمانوں کو کس نے روکا ہے؟
زوال یافتہ قومیں اکثر علم و اخلاق میں کم زور ہونے کے ساتھ ساتھ، آرام طلب اور کاہل بھی ہوجاتی ہیں۔ ہم کو یہ سوچ کر شرمندگی محسوس کرنی چاہیے کہ وہ ساری اشیا جن کے بائیکاٹ کی ہم مہم چلا رہے ہیں، ہم خود نہیں بنا سکتے۔ کم از کم اسی نازک موقع پر ہم یہ چیلینج قبول کرلیں کہ بازار میں دستیاب مصنوعات کا نعم البدل (better alternative) ہم بھی دنیا کو جلد فراہم کریں گے۔ وہ غصہ بھی صد آفرین ہے جو کوئی مثبت نتیجہ برآمد کرنے کا سبب بن جائے، ورنہ یہ سر تا سر تباہی ہے۔
قاعدے میں، مسلمانوں کے قائدین کو فی الحال سیاست کے بجائے عام مسلمانوں کو لائق و فائق بنانے کی سمت میں سنجیدہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ یقیناً، یہ کوشش ملت کے سربراہوں کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی اور صدقہ جاریہ کا کام کرے گی۔ واضح رہے کہ جملہ قسم کی برائیاں اور کم زوریاں جہل کے اندھیروں میں ہی پرورش پاتی ہیں۔ دنیا میں کسی قوم کے عزت حاصل کرنے کا راز نفع بخشی میں پوشیدہ رہتا ہے۔ ماضی میں جب مسلمان علوم و فنون کے معاملے میں اقوام عالم کے لیے نفع بخش تھے تب عنانِ حکومت سنبھالنے کا منصب بھی انھی کے پاس تھا۔ مستقبل میں جب مسلمان دنیا کے لیے، اپنی نفع بخشی کے مقام کو دوبارہ حاصل کر لیں گے، عزت و احترام کے مناصب پھر انھی کے لیے مخصوص ہوجائیں گے، ان شاء اللہ۔
بائیکاٹ کی سرگوشیوں کے درمیان ہونے والے بیشتر تبصرے اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ سب ردعمل کی نفسیات سے پیدا ہونے والے عوامل ہیں، جب کہ ردعمل پر منحصر حکمت عملی خالص دنیاوی معاملات میں بھی کارگر نہیں ہوتی، پھر دینی معاملات میں کس طرح ہوسکتی ہے۔ اس طرح کی باتیں انسانوں کے درمیان منافرت اور دشمنی کو فروغ دینے کا ہی باعث ہوتی ہیں؛ خیر خواہی، خدمت خلق، دعوت و نصیحت اور رہ نمائی جیسی اسلامی اقدار کا نہیں۔ مسلمانوں کی کوئی بھی حکمت عملی(strategy) سنجیدہ غور و فکر اور اقدام کی نتیجہ خیزی کے اصول پر وضع کی جانی چاہیے، جذبات و تعصبات کے وقتی دباؤ میں نہیں۔ دشمنی دراصل، ردعمل کی نفسیات میں پنہاں ہوتی ہے، خیر خواہی کی نفسیات میں نہیں __ اور مسلمانوں کو دوسری نفسیات کا حامل ہونا چاہیے۔
اسی کے ساتھ، اسلام مسلمانوں سے چاہتا ہے کہ وہ دنیا کے تمام انسانوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت سے اپنا بھائی تصور کریں اور انھیں بھی دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھنے کی سعی کریں، یعنی ان کے درمیان قرآن مجید کے پیغام کو متعلقہ زبانوں میں کیے گئے تراجم کی صورت میں پیش کرتے ہوئے ہر خاص و عام پر یہ واضح ہو جانے کا راستہ ہموار کریں کہ دنیا میں موجود انسان کی منزل کیا ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے؟ اس پس منظر میں، مسلمانوں کو اجازت نہیں ہے کہ وہ ردعمل کے طور پر کسی بھی قسم کے منفی اقوال یا افعال میں ملوث ہوں۔
پیدا شدہ صورت حال میں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا موجودہ دور کے مسلمانوں کا یہی امتحان ہے کہ وہ اپنے مفروضہ دشمنوں سے نفرت اور دشمنی کے جذبات کو کنٹرول کر پانے اور دعوت و خیر خواہی کے ضروری کام کو انجام دینے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ بلا شبہ، یہ ایسے مہلک جذبات ہیں جو صرف اللہ کی رضا کی خاطر تو قابو میں آ سکتے ہیں، اپنی انانیت (egotism) کو تسکین دینے کی کوشش میں کبھی نہیں۔
حقیقتِ حال کا درست علم نہ ہونے کے باوجود، مفروضہ دشمن کے تئیں دشمنی اور نفرتی ماحول کے درمیان پیدا شدہ صورت حال میں، مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے حوالے سے معاشرے میں چہ می گوئیاں بڑھ جاتی ہیں، شاعری اور مضمون نگاری شروع ہوجاتی ہے۔ اس طرح کے عوامل صورت حال کو کوئی وضوح فراہم کرنے کے بجائے اس کو مزید مبہم بنا دیتے ہیں۔ نوعیت کے اعتبار سے اس طرح کے زیادہ تر مضامین صرف مظلوم بہ نام ظالم کی داستان ہوتے ہیں، اور اسی لیے، اس طرح کے مضامین نہ تو پیدا شدہ حالات سے کوئی عبرت یا نصیحت اخذ کرتے ہیں اور نہ ہی ربانی ہدایت کی روشنی میں عام مسلمانوں کو کوئی جامع رہ نمائی فراہم کر پاتے ہیں۔ اس وجہ سے، مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی غیر مصدقہ باتوں سے وقوع پذیر صورت حال، عام مسلمانوں میں مزید خوف و ہراس اور مایوسی پیدا کرنے کا سبب ہوسکتی ہے۔
معاشرے میں علم و آگہی کی کم زوری کے پس منظر میں، موجودہ دور کے بیشتر مسلمان پریشانی کے عالم میں، اکثر اپنے دین کی تعلیمات کو بھول کر ارد گرد رائج منافرت اور دشمنی جیسے ردعمل کے تحت بننے والے منفی اور شیطانی عوامل پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ اچھا نہ نکلنے کے تجربات کے باوجود وہ اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کے لیے خود کو آمادہ بھی نہیں کر پاتے، اور مسلسل مشکلات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح کی تشویش ناک صورت حال کو دفع کرنے کے لیے، مسلم اشرافیہ، یعنی علماے کرام، دانشور حضرات اور با اثر و رسوخ شخصیات کو آگے بڑھ کر عام مسلمانوں کے لیے صالح رہ نمائی فراہم کرنے کے ضمن میں مخلصانہ اور موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
مذکورہ رہ نمائی میں اس حقیقت کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، جس سے سبھی ذی شعور مسلمان واقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کی استعداد اور استطاعت کے مطابق ہی عمل کرنے کا مکلف کیا ہے۔ پھر یہ کیوں کر درست ہوسکتا ہے کہ سبھی عام و خاص مسلمانوں کو ایک ہی نہج پر کام کرنے کے لیے سرگرم کیا جائے۔
اس پس منظر میں، وہ مسلمان جو براہ راست کسی عملی اقدام میں شریک ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے، انھیں صرف وہی کام کرنا چاہیے جو خاص و عام کی شرط کے بغیر سبھی لوگ کرسکتے ہیں۔ اس لیے، عام مسلمانوں کو معاشرتی اچھل کود کے بجائے اپنی ساری توجہ اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کرنے میں لگانی چاہیے۔ دعا صرف مظلوموں کے لیے ہی نہیں کی جاتی، ان لوگوں کے لیے بھی کی جاتی ہے جنھیں ہم ظالم سمجھتے ہیں، حالاں کہ کسی کو ظالم تصور کر لینا خود ایک سنگین معاملہ ہے۔
جہاں ایک طرف مظلوم افراد کے لیے صبر، استقامت اور جان و مال کی حفاظت کی دعا کرنا ضروری ہے، وہیں دوسری طرف، ظالموں کو ہدایت، ان کے شعور و ضمیر کو بیداری اور اپنے ظلم سے باز رہنے کی توفیق حاصل ہونے کی سنجیدہ اور مخلصانہ دعا کرنی چاہیے۔ واضح رہے کہ ظالم کو نیست و نابود کرنے کی جو دعائیں موجودہ مسلم معاشرے میں رائج ہیں اگر ان کو نہ روکا گیا تو وہ خود مسلمانوں کے حق میں مسلسل الٹا نتیجہ پیدا کرنے والی (counterproductive) ثابت ہوتی رہیں گی۔ ظالم کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے یہ صرف اللہ رب العالمین کا ہی دائرہ اختیار ہے، اس میں دراندازی کی کوشش نہ کی جائے۔ ظالم اور بے راہ لوگوں کے لیے بہترین دعا ہدایت کی دعا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو اپنا بھولا ہوا سبق پھر سے یاد کرنا چاہیے کہ انسانیت عامہ کے اندر قرآن مجید کی دعوت کو عام کرنا اپنی اپنی حیثیت میں اسی طرح لازم ہے جس طرح نماز اور روزہ وغیرہ ادا کرنا۔
کسی باشعور انسان نے خوب لکھا ہے کہ "لوگوں کے گناہوں اور غلطیوں پر انگلی اٹھانا آسان ہے، ان کے لیے دعا مانگنا اور انُ کی رہ نمائی کرنا مشکل۔ دنیا میں پہلا کام کرنے والے بہت ہیں، آپ دوسرا کیجیے۔" دراصل، جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر خود کو مسلمان بناتا ہے، تب گویا وہ یہ خاموش عہد کرتا ہے کہ اوپر مذکور دوسرا کام وہ کرے گا۔ اس لیے، قابل غور و فکر بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا کسی کے تئیں عملی طور پر منفی ردعمل کا شکار ہو کر منافرت، دشمنی اور انتقام کے جذبات و احساسات میں جینا اسلام کی نظر میں کیوں کر قابل ستائش ہوسکتا ہے۔
عربی مقولہ – زید تم کو نہ مارے کے مصداق عمل کرتے ہوئے کسی بھی قوم یا اشخاص کو ہمیشہ دوسرے افراد کے ظلم سے محفوظ رہنے کی سنجیدہ کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ یوں ہی کسی کے ظلم کا شکار ہونا اچھی بات نہیں ہے۔ لیکن کوشش کے باوجود، کسی طاقتور قوم یا افراد کی ظالمانہ زیادتیوں کا شکار ہوکر مظلوم ہوجانا بھی کوئی معیوب چیز نہیں ہے۔ دنیا کی امتحانی نوعیت کے پیش نظر، یہاں ظالم و مظلوم کا موجود ہونا قیامت تک جاری رہے گا۔ جو چیز قابلِ التفات اور مستقبل میں فیصلہ کن ہونے والی ہے، وہ ہے ظلم کا شکار ہونے کے بعد مظلوم شخص کے ردعمل کی نوعیت۔
دراصل، مظلوم ہوجانے کا مطلب ہے انسانوں کے دائرے سے نکل کر اللہ رب العزت کے خاص بندوں کی صف میں شامل ہو جانا۔ لیکن، آج کل کے مظلوم، خاص طور پر مسلمان اپنی اس خاص حیثیت کا فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں۔ وجہ دریافت کرنا بھی کوئی مشکل نہیں ہے۔ عام طور پر، خود کو مظلوم تصور کرنے والے افراد بھی تباہ کن غلطیوں، بلکہ گستاخیوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ اپنی دفاعی صلاحیتوں کو عمل میں لانے کے باوجود خود کو ظالم کے ظلم سے نہ بچا پانے کی صورت میں جب وہ صبر کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف دیکھنے کے بجائے مدد کے لیے کسی دوسرے انسان یا انسانی گروہ کی طرف دیکھنے لگتے ہیں، تب اکثر اوقات ان کی مزید بربادی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ کس طرح ہوتا ہے، اس کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
ختم نبوت کے بعد، اب براہ راست رہ نمائی کے لیے، انسانوں کے اندر پیغمبر تو موجود ہیں نہیں، مزید شیطان بھی ان کے فکر و عمل میں گم راہی داخل کرنے کی مسلسل جدوجہد کرتا رہتا ہے، جس کے توسط سے، تقریباً سارے انسانی گروہ اپنی اپنی حیثیت میں کم و بیش ظالم ہی ہوتے ہیں۔ جب آپ کسی مفروضہ ظالم کے چنگل سے نکل کر کسی بہ ظاہر مخلص افراد کی محفل میں داخل ہوتے ہیں، تب یہاں بھی بہت جلد نئی نئی صورتوں میں آپ کے استحصال کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جو رفتہ رفتہ پہلے سے بھی بڑا ظلم ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وقت حاضرہ کے انسانوں میں مفاد پرستی کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ اخوت و مروت، انسان نوازی اور بے غرض مدد کرنے والے اشخاص کی تعداد دن بہ دن کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنے مفاد کے غلام ہوتے ہیں، اگر آپ ان کے کام آئیں، تو وہ بھی آپ کے کام آسکتے ہیں۔
اس لیے، دوسرے لوگوں سے مدد حاصل کرنے کے لیے خود آپ کا مضبوط، باشعور اور انسان نواز ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں یہ عیاں ہو جانا چاہیے کہ کسی کے ظلم کا شکار ہوجانے کے بعد دوسرے لوگوں کے تعاون سے مذکورہ ظلم کا انتقام لینے کی کوشش کرنا کوئی قابل ستائش فعل نہیں ہے، کیوں کہ یہ طریقہ مزید ظلم و زیادتی کے تسلسل کا سبب بن سکتا ہے۔ اپنی ساری دفاعی کوششوں کو بروئے کار لانے کے باوجود، کسی کے ظلم کا شکار ہوجانے کی صورت میں، ہمارے لیے جو بہترین حکمت عملی ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اب کوئی محاذ بنانے کے بجائے صرف صبر، یعنی صحیح معنی میں صبر کرتے ہوئے اپنے کیس کی فائل (روداد غم) اللہ رب العالمین کے سپرد کر دینی چاہیے اور پورے یقین واعتماد کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کے اس قرآنی اعلان کا فائدہ اٹھانا چاہیے کہ "بےشک، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے" (سورۃ البقرہ-2: 153)۔
مظلوم کو حتی الامکان، نمائشی اور بے معنی ہمدردیوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ اس طرح اس کی شخصیت مزید کم زور ہو جاتی ہے، البتہ مظلوم کے اپنے ظالم حریف سے گفت وشنید کے ذریعے غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ یہ ایک مثبت "حرکت" کا عمل ہوسکتا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ سے "برکت" ڈالنے کی امید بھی کی جاسکتی ہے، یعنی حرکت میں برکت۔ معاشرتی طاقتوں کے تعاون سے مفاہمت اور انصاف کی کوشش اور امید رکھنا بھی اسی حرکت میں شامل ہے۔
دراصل مظلوم ہونا بھی ایک خوش خبری سے کم نہیں۔ مظلوم ہونا کسی کو صبر کی نعمت اور عبادت سے مشرف کرتا ہے، احتساب خویش کا موقع فراہم کرتا ہے اور سب سے اوپر مظلوم ہونا ظالم ہونے سے حد درجہ بہتر چیز ہے؛ ظلم کرنے والے افراد کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اسی اثنا میں، یہ حقیقت بھی واضح رہنی ضروری ہے کہ مظلوم اور ظالم کی حیثیت کے درمیان نہایت ہلکا اور باریک پردہ ہوتا ہے جو دونوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھتا ہے، مگر اس اندیشے کے ساتھ کہ تھوڑی سی بھی لاپرواہی یا غیر ذمے داری مظلوم کو بھی ظالم بنا سکتی ہے۔
یقیناً، پٹتے وقت مدمقابل کو پیٹ لینا دفاع کا ہی ایک عمل ہے، مگر پٹ جانے کے بعد مسلح ہو کر حریف کو پیٹنے کا منصوبہ بنانا یا اس کے مطابق عمل کرنا گویا خود کو مظلوم کے خانے سے نکال کر ظالم کے خانے میں داخل کردینے کے مترادف ہوگا۔ یہاں پر یہ سچائی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جہاں مظلوم افراد کے ساتھ عزیز و حکیم اور رحمٰن و رحیم پروردگار کی بے پایاں رحمت ہوتی ہے، وہیں ظالم اشخاص کے لیے کوئی خیر نہیں، وہ ہر طرح سے سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔
یہی خاص وجہ ہے کہ دور حاضر کے مسلمان وقتاً فوقتاً، اپنے ایمان کی غیر پختگی، علم و شعور کی کم زوری، طرز فکر کا مثبت نہ ہونا، صالح اعمال کا فقدان، بھیڑ چال رہ نمائی اور منفی ردعمل کے طور پر یکایک اٹھنے والے جذباتی طوفانوں کے سبب، بہت سے معاملات میں مظلوم ہونے کے باوجود خود کو ظالم افراد کی صف میں ہی کھڑا کرتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً، مظلوم ہونے کی حیثیت میں جو نصرتِ خداوندی انھیں حاصل ہوسکتی تھی، طویل انتظار اور بے چینی کے باوجود اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔ مزید تاخیر کیے بغیر؛ اس نامبارک صورت حال کو بدلا جانا چاہیے، ورنہ شاعر کی زبان میں _ "تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔"
[29.11.2023AD=14.05.1445 AH]
***
گذشتہ آئینہ خانہ : عید میلاد النبی ﷺ: خاتم الانبیاء کے مقامِ اقدس کا ادراک و اعتراف بھی ضروری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے